Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 126
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
اَوَ : کیا لَا يَرَوْنَ : وہ نہیں دیکھتے اَنَّھُمْ : کہ وہ يُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہیں فِيْ كُلِّ عَامٍ : ہر سال میں مَّرَّةً : ایک بار اَوْ : یا مَرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر لَا يَتُوْبُوْنَ : نہ وہ توبہ کرتے ہیں وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کیا یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی برس اس سے خالی نہیں جاتا کہ ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائش میں نہ ڈالے جاتے ہوں پھر بھی یہ ہیں کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں
منافقوں کے ذکر سے غفلت انسانی کی ایک عام تصویر پیش فرمادی : 162: بلاشبہ بلائیں اور مصیبتیں تکوینی طور پر تازیانہ غیبی ہوتی ہیں جن کا کام انسان کو اللہ کی طرف لانا ہی ہوتا ہے ۔ اس آیت 126 میں اگرچہ منافقوں کا ذکر ہے لیکن قرآن کریم کے تمام بینات کی طرح اس جگہ بھی مقصود یہ ہے کہ غفلت انسانی کی ایک عام تصویر سامنے آجائے۔ افراد کی زندگی ہو یا جماعتت کی لیکن ہر ہلاکت و بربادی کے بعد تم سراغ لگاؤ گگے تو پاؤ گے کہ ان کی ہلاکت اچانک ان پر نہیں آگری تھی وہ مدتوں تک ان پر منڈلاتی رہی لیکن اتری نہیں۔ وہ اپنی آمد کی علامتیں بھیجتی رہی ان کی زندگی کا کوئی برس ، کوئی مہینہ بلکہ کوئی دن ان سے خالی نہیں گیا لیکن جب یہ تنبی ہیں بیکار ہوگئیں اور وہ غفلت و گمراہی سے باز نہ آئے تو پھر ان پر اتر آئی کیونکہ یہ ان ” اجل “ تھی اور پھر جب اجل آجائے تو وہ ٹل نہیں سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے روحانی قونین بھی اس کے جسمانی قونین کی طرح ہیں تم بر پرہیزی کرتے ہو تو فوراً نہیں مر جاتے البتہ موت کا پیام آنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ پیام کیا ہے ؟ بیماریاں جو موت کی طرف سے آنے لگتی ہیں تاکہ تمہیں بر وقت ہوشیار کردیں۔ اگر تم ہوشیار ہوگئے تو وقتی طور پر وہ رک جائے گی ۔ نہ ہوئے تو پھر تمہارے سرہانے آکھڑی ہوگی ٹھیک ایسا ہی معاملہ جماعتوں اور قوموں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور ایسا ہی معاملہ افراد کی معنوی سعادت و شقاوت کا بھی سمجھو جو نصیحت پکڑے تے اور باز آجاتے ہیں وہ سنت الٰہی کے مطابق ہلاکت سے بچ جاتے ہیں اور جو مصر رہتے ہیں ہلاک ہوجاتے ہیں یہی وہ حقیقت ہے جسے قرآن کریم نے جا بجا امہال ، تربص اور استمتاع سے بھی تعبیر کیا ہے اور اس مضمون میں بہت وسعت رکھی گئی ہے۔ ہم نے اشارہ کردیا ہے سمجھنے والے انشاء اللہ سمجھیں گے اور اسی کو حرز جان بنائیں گے۔ باں ! ایک بات مزید وہ یہ کہ اس جگہ ” مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ “ سے کوئی عدد متعین مراد نہیں بلکہ ایک محاورہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ نزول قرآن کے وقت منافقین آپ ﷺ کی مجلس سے نکل جانا چاہتے ہیں : 163: ” اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تم پر کسی کی نگاہ تو نہیں۔ “ یہ منظر اس وقت کا ہے جب منافقین بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی مجلس میں شریک ہوتے اور آپ ﷺ پر وحی نازل ہونا شروع ہوتی تو منافق یہ منظر دیکھ کر وہاں سے کھسکنا شروع کردیتے ، کیوں ؟ اس لئے مثل ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا ، ان کو یہ کھٹکا رہنا کہ شاید اس وقت آپ ﷺ پر کوئی ایسا پیغام نازل ہوجائے جس سے ہمارے کاموں پر تبصرہ ہو یا ہماری دلی حالت سے رسول اللہ ﷺ کو آگاہ کردیا جا رہا ہو پھر جب وحی ہوجائے گی تو آپ ﷺ اس کو بیان فرمائیں گے تو اس میں کوئی ایسی بات ہوئی تو ہماری خوب گت بنے گی۔ انہی اوہام میں وہ وہاں سے اٹھ جانا چاہتے اور اٹھتے وقت ادھر ادھر دیکھتے کہ ہمارے اٹھنے سے کسی پر کیا اثر پڑتا ہے اور کون ہماری طرف اس وقت دیکھ رہا ہے اور خصوصاً یہ کہ کوئی مومن تو ہمیں اٹھتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ؟ اور اس طرح قرآن کریم نے ان کی اندرونی حالت کو واشگاف الفاظ میں بیان کردیا جس سے نبی کریم ﷺ کی مجلس سے ان کا تنفر ثابت ہوگیا کہ وہ اگر مجلس میں جاتے بھی تھے تو بہت بچ بچا کر اور قوم پھونک پھونک کر لیکن ان کی یہی حالت ان کی حقیقت کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیتی تھی کہ وہ اصل میں کیا ہیں ؟ ایسی ہی حالت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ : کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پاگئے ۔
Top