بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 1
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
سُوْرَةٌ : ایک سورة اَنْزَلْنٰهَا : جو ہم نے نازل کی وَفَرَضْنٰهَا : اور لازم کیا اس کو وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے نازل کیں فِيْهَآ : اس میں اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ : واضح آیتیں لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم یاد رکھو
یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری اور ذمہ پر لازم کی اور اتاریں اس میں باتیں صاف تاکہ تم یاد رکھو1
1 یہ سورت بعض نہایت ضروری احکام و حدود، امثال و مواعظ، حقائق توحید اور بہت ہی اہم تنبیہات و اصلاحات پر مشتمل ہے اس کا سب سے زیادہ ممتاز اور سبق آموز حصہ وہ ہے جس کا تعلق قصہ " افک " سے ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر منافقین نے جو جھوٹی تہمت لگائی تھی اس میں بعض سادہ دل اور مخلص مسلمانوں کے پائے استقامت کو بھی قدرے لغزش ہوگئی تھی۔ جس کا خطرناک اثر نہ صرف عائشہ صدیقہ کی پوزیشن پر پڑتا تھا، بلکہ ایک حیثیت سے خود پیغمبر (علیہ السلام) کی بارگاہ مجدد شرف تک پہنچتا تھا، اس لیے ضروری ہوا کہ قرآن کریم پورے اہتمام اور قوت سے ایسی خوفناک غلط کاری یا غلط فہمی کی اصلاح کرے اور ہمیشہ کے لیے ایمانداروں کے کان کھول دے کہ آئندہ کبھی دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ایسی ٹھوکر نہ کھائیں۔ پیغمبر ﷺ کا مرتبہ رفیع یا امہات المومنین کی پاک و محترم حیثیت ایسی نہیں جس کے سمجھنے اور یاد رکھنے میں کوئی مسلمان کسی وقت بھی ذرا سا تساہل روا رکھے۔ شاید اسی لیے سورت کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا۔ " سُورَۃٌ اَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضَنَاہَا الخ " تامخاطبین سمجھ لیں کہ اس کے مضامین ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں اور بہت زیادہ محفوظ رکھنے اور لازم پکڑنے کے مستحق ہیں۔ اور جو صاف صاف نصیحتیں اور کھری کھری باتیں اس سورت میں بیان فرمائی گئی ہیں، اس لائق ہیں کہ ہر مسلمان ان کو حرز جان بنائے اور یاد رکھے۔ ایک منٹ کے لیے اس سے غفلت نہ کرے ورنہ دین و دنیا کی تباہی ہے۔
Top