Tafseer-e-Usmani - Al-Qasas : 56
اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تَهْدِيْ : ہدایت نہیں دے سکتے مَنْ اَحْبَبْتَ : جس کو تم چاہو وَلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
تو راہ پر نہیں لاتا جس کو چاہے پر اللہ راہ پر لائے جس کو چاہے9 اور وہ ہی خوب جانتا ہے جو راہ پر آئیں گے10
9 حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا (ابو طالب) کے واسطے بہت سعی کی کہ مرتے وقت کلمہ پڑھ لے، اس نے قبول نہ کیا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ (موضح) یعنی جس سے تم کو طبعی محبت ہو، یا دل چاہتا ہو کہ فلاں کو ہدایت ہوجائے لازم نہیں کہ ایسا ضرور ہو کر رہے۔ آپ کا کام صرف راستہ بتانا ہے آگے یہ کہ کون راستہ پر چل کر منزل مقصود تک پہنچتا ہے کون نہیں پہنچتا، یہ آپ کے قبضہ اختیار سے خارج ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جسے چاہے قبول حق اور وصول الی المطلوب کی توفیق بخشے (تنبیہ) جو کچھ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ اس سے زائد اس مسئلہ میں کلام کرنا اور ابو طالب کے ایمان و کفر کو خاص موضوع بحث بنا لینا غیر ضروری ہے۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اس قسم کی غیر ضروری اور پرخطر مباحث میں کف لسان کیا جائے۔ 10 یعنی کسی کو کسی شخص کے راہ پر لانے کا اختیار کیا ہوتا علم بھی نہیں کہ کون راہ پر آنے والا ہے یا آنے کی استعداد و لیاقت رکھتا ہے بہرحال اس آیت میں نبی کریم کی تسلی فرما دی کہ آپ جاہلوں کی لغو گوئی اور معاندانہ شور و شغب یا اپنے خاص اعزہ و اقارب کے اسلام نہ لانے سے غمگین نہ ہوں۔ جس قدر آپ کا فرض ہے وہ ادا کیے جائیں، لوگوں کی استعدادیں مختلف ہیں، اللہ ہی کے علم و اختیار میں ہے کہ ان میں سے کسے راہ پر لایا جائے۔
Top