Ahkam-ul-Quran - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ : اور سورج تَجْرِيْ : چلتا رہتا ہے لِمُسْتَقَرٍّ : ٹھکانے (مقررہ راستہ لَّهَا ۭ : اپنے ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : نظام الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : جاننے والا (دانا)
اور سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے (یہ) خدائے غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے
سورج کی روانی دلیل ربانی ہے قول باری ہے (والشمس تجری لمستقرلھا۔ اور ایک نشانی سورج بھی ہے جو اپنے ٹھکانے کی طرف رواں دواں رہتا ہے) ۔ قیامت کی نشانیاں ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں معمر نے ابواسحق سے انہوں نے وہب بن جبار سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ سورج طلوع ہوتا ہے اور انسان اس کا مشاہدہ کرتا ہے پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ سورج غروب ہوجائے گا اور اللہ اسے جب تک چاہے گا روکے رکھے گا پھر اسے حکم ہوگا کہ جہاں وہ پہنچاسکے گا۔ یعنی قیامت کا دن اس موقعہ پر حضرت عمر ؓ نے اس مضمون کی پوری آیت کی تلاوت کی۔ معمر کہتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت پہنچی ہے کہ وہ رات آجائے گی جس کی صبح سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو تہجد گزار لوگ حسب معمول تہجد کے لئے اٹھیں گے، لیکن وہ تہجد پڑھتے پڑھتے اکتا جائیں گے اور رات ختم ہونے کو نہیں آئے گی پھر وہ سوجائیں گے پھر اٹھیں گے اور پھر تہجد پڑھتے پڑھتے اکتا جائیں گے ۔ وہ اس طرح تین مرتبہ کریں گے لیکن رات اپنی جگہ باقی رہے گی، ستارے ٹھہرے نظر آئیں گے حتیٰ کے لوگ نیند سے اکتا کر اپنے گھروں سے نکل آئیں گے اور ایک دوسرے کی طرف چل پڑیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت کی روشنی میں قول باری (لمستقرلھا) کے معنی یہ ہوں گے کہ سورج اس رات کھڑا ہوجائے گا اور اس کی یومیہ رفتار رک جائے گی اور اس طرح اگلے دن وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ معمر کہتے ہیں مجھے یہ روایت بھی پہنچی ہے کہ قیامت کی پہلی اور آخری نشانی کے درمیان چھ ماہ کی مدت ہوگی۔ معمر سے پوچھا گیا کہ قیامت کی نشانیاں کون کون سی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ قتادہ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلے جو نیکیاں کرسکتے ہو کرلو۔ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے، دجال، دخان اور دابۃ الارض کے نکلنے سے پہلے، فتن خاصہ سے پہلے اور فتن عامہ سے پہلے۔ “ ان سے پوچھا گیا آیا آپ کو معلوم ہے کہ ان میں سے کون سی نشانی سب سے پہلے آئے گی۔ انہوں نے کہا۔” سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ “ سب سے پہلے وقوع پذیر ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ دجال کا خروج سب سے پہلے ہوگا۔ جب تک دنیا میں ایک بھی موحد باقی ہے قیامت برپا نہ ہوگی ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ثابت البنانی سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لا تقوم الساعۃ علی احد یقول لا الہ الا اللہ قیامت کسی ایسے شخص پر نہیں آئے گی جو کلمہ توحید ” لا الہ الا اللہ “ کہتا ہوگا) یعنی جب تک دنیا میں ایک موحد بھی باقی رہے گا اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی۔ قتادہ نے (لمستقرلھا) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” ایک وقت تک کے لئے جس سے وہ یعنی سورج آگے نہیں جاسکتا۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ سورج ایک ہی رفتار اور اس کی ایک ہی مقدار پر رواں دواں ہے اس رفتار اور مقدار میں فرق نہیں پڑتا۔ ایک قول کے مطابق اس قول باری کا مفہوم یہ ہے کہ سورج اپنے بعید ترین منزل پر پہنچ کر غروب ہوتا ہے۔
Top