Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Baghwi - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقْرَبُوا
: نہ نزدیک جاؤ
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
سُكٰرٰى
: نشہ
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَعْلَمُوْا
: سمجھنے لگو
مَا
: جو
تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے ہو
وَلَا
: اور نہ
جُنُبًا
: غسل کی حالت میں
اِلَّا
: سوائے
عَابِرِيْ سَبِيْلٍ
: حالتِ سفر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَغْتَسِلُوْا
: تم غسل کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: مریض
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر۔ میں
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ جَآءَ
: یا آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں
مِّنَ
: سے
الْغَآئِطِ
: جائے حاجت
اَوْ
: یا
لٰمَسْتُمُ
: تم پاس گئے
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر تم نے نہ پایا
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: مسح کرلو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَفُوًّا
: معاف کرنیوالا
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
مومنو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ یہ آیت حرمت شراب کی آیت سے منسوخ ہے اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر راستے چلے جا رہے ہو (اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عوتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح (کر کے) تیمم کرلو بیشک خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے والا ہے
(تفسیر) 43۔: (آیت)” ایا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری “۔ (آیت)” ایا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری “۔ کی تفسیر) سکاری سے مراد سکر (نشہ) ہے، یہاں سکر سے مراد شراب کا ہے، اکثر حضرات کے نزدیک یہی قول ہے، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کھانا تیار کروایا اور ہم کو بلوایا اور شراب پلائی ، یہ واقعہ حرمت شراب سے پہلے کا ہے ، شراب کا نشہ جب ہم کو چڑھا اور نماز کا وقت آگیا تو لوگوں نے مجھ کو آگے بڑھایا میں نے پڑھا ” قل یایھا الکافرون ، اعبد ماتعبدون “۔ آخر تک اسی طرح بغیر لا کے پڑھا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، اس آیت کے نزول کے بعد نمازوں کے اوقات میں شراب نوشی سے بچتے تھے ، حتی کہ شراب کی حرمت کا نزول ہوا ، ضحاک بن مزاحم کا بیان ہے کہ یہاں سکر سے مراد نیند ہے جب نیند کا غلبہ ہو تو نماز سے منع فرمایا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو اونگھ آئے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ لیٹ جائے یہاں تک کہ اس سے نیند چلی جائے کیونکہ جب تم اونگھ کی حالت میں نماز پڑھو تو ہوسکتا ہے استغفار کی جگہ بددعا نکل جائے (آیت)” حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا “ منصوب ہے حال ہونے کی وجہ سے نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم حالت جنب میں ہو ، جیسا کہ کہا جاتا ہے فلاں آدمی جنبی ہے اور فلاں عورت جنبی ہے، ” ورجال جنب ونساء جنب “۔ لفظ جنب مرد و عورتوں دونوں کے لیے واحد استعمال ہوتا ہے، جنب اصل میں دوری کو کہا جاتا ہے جنبی کو جنبی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ نماز کی جگہ سے بچتا ہے یا وہ لوگوں کی مجلس سے دور رہتا ہے اور لوگ بھی اس سے دور رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ غسل نہ کرلے (آیت)” الا عابری سبیل حتی تغتسلوا “۔ اس کے معنی میں اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ اگر وہ مسافر ہوں اور پانی نہ ملے تو تیمم کرلو ، جنبی کو نماز سے ممانعت ہے جب تک کہ وہ غسل نہ کرلے مگر یہ کہ وہ سفر میں ہو اور پانی نہ ملے تو تیمم کرلے، یہی قول حضرت علی ؓ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، سعید بن جبیر ؓ ، مجاہد (رح) ، کا ہے ، دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہاں صلوۃ سے مراد نماز پڑھنے کی جگہ ہے ” وبیع وصلوات “ اس کا معنی یہ ہوگا کہ تم مسجد کے قریب نہ جاؤ جب تم حال جنب میں ہو مگر وہاں سے نکلنے کے لیے گزر سکتا ہے ، مثال کے طور پر کوئی مسجد میں سویا ہوا ہے اور اس کو جنابت پہنچی یا مسجد میں پانی موجود ہے یا مسجد سے گزر کر جانا پڑتا ہے تو اس صورت میں وہ گزر سکتا ہے اور اس میں وہ ٹھہرے نہیں ، یہ قول عبداللہ بن مسعود ؓ ، سعید بن المسیب ؓ ، ضحاک (رح) ، حسن (رح) ، عکرمہ (رح) ، نخعی (رح) ، اور زہری (رح)، کا ہے ۔ انصار کے کچھ لوگوں کے گھر مسجد کی جانب تھے اور جب ان کو جنابت لاحق ہوتی اور ان کے پاس پانی موجود نہ ہوتا اور مسجد سے لانا پڑتا تو ان کو مسجد سے عبور (گزرنے) کی اجازت دی جاتی ۔ (جنبی کیلئے مسجد عبور کرنے کا حکم) اہل العلم کا اس میں اختلاف واقع ہوا کہ اس میں گزرنا جائز ہے یا نہیں ؟ بعض حضرات میں حسن (رح) ، امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، کے نزدیک وہ مسجد سے گزر سکتا ہے اور بعض حضرات کے نزدیک مطلقا منع فرمایا ہے اور بعض حضرات کا قول ہے کہ وہ تیمم کرکے گزر سکتا ہے ، البتہ مسجد میں ٹھہرنا اکثر اہل علم کے نزدیک جائز نہیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسجد کی طرف سے دروازوں کا رخ پھیر دو کیونکہ کسی کے لیے مسجد میں (دخول) حلال نہیں کہ حائضہ یا جنبی اس سے گزر جائے۔ امام احمد (رح) نے اس میں ٹھہرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس کے راوی مجہول ہیں ، یہی امام مزنی کا قول ہے ، اس طرح جنبی آدمی کے لیے طواف کرنا جائز نہیں ، جیسا کہ نماز پڑھنا جائز نہیں اور اس کیلئے قراۃ قرآن کریم بھی جائز نہیں ، عبداللہ بن مسلمہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کے پاس گیا اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے قضاء حاجت پوری کی اور میرے ساتھ گوشت کھایا اور قرآن کریم کی تلاوت فرمائی اور ان کو قرآن کریم پڑھنے سے کوئی چیز مانع نہیں بن رہی تھی ، مگر جنابت اور جنابت کا غسل ان دونوں امور میں سے کسی ایک کے لیے مانع ہے یا تو نزول منی کی وجہ سے یا التقاء ختانین کی وجہ سے اور وہ ہے حشفہ کا غائب ہونا فرج میں اگرچہ انزال ہو یا نہ ہو اور ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ التفاء ختانین اگر ہوجائے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا تھا لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا ، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا التقاء ختانین کے حکم کے بارے میں تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب التقاء ختانین ہوجائے یا عورت کی شرم گاہ مرد کی شرم گاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ (مریض کیلئے تیمم کرنے کا حکم) (آیت)” وان کنتم مرضی “ مریض کی جمع ہے یہاں مرض سے مراد وہ ہے جس میں پانی مس کرنے سے نقصان پہنچتا ہو، جیسا کہ پاؤں میں پھٹن ہو، یا دھونے والے اعضاء میں کوئی زخم ہو جو تلف ہونے کا اندیشہ ہو یا تکلیف بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کرے تو وہ تیمم کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ پانی موجود ہو ، البتہ اگر بعض اعضاء کی طہارت حاصل کرنا ممکن ہو اور بعض اعضاء زخمی ہوں تو زخمی اعضاء پر مسح کریں گے اور تندرست اعضاء کو دھوئیں گے۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں ہم ایک سفر میں نکلے، ہم میں سے ایک شخص کو سر میں زخم پہنچا ، اس کو احتلام ہوگیا ، اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا میرے لیے تیمم کی رخصت موجود ہے، وہ کہنے لگے ہم تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتے اور تم پانی پر قادر ہو ، اس صحابی نے غسل کیا اور زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گیا ، جب وہ آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم نے اس کو قتل کردیا اور اللہ بھی تمہیں قتل کرے گا، ، تم نے کیوں نہیں پوچھا جب تمہارے پاس کوئی علم نہیں تھا ، بلاشبہ شفاء تو پوچھنے والے کے لیے ہے اس کے لیے تیمم کرنا کافی تھا، پرھ فرمایا یعصر ، یعصب، یعنی اس کے پٹی کے کپڑے پر مسح کرنا کافی تھا اور دوسرے اعضاء پر پانی ڈال دیتا ، اصحاب الرای نے تیمم اور غسل کے جمع کرنے کا حکم کیونکر دیا اور اس کا قول ہے اگر اکثر اعضاء تندرست ہوں تو صحیح اعضاء کو دھوئیں گے اور ان پر تیمم نہیں کریں گے ، اگر اکثر اعضاء زخمی ہوں تو پھر تیمم کریں گے ، مذکورہ حدیث اس بات پر مستدل ہے کہ دونوں کو جمع کرنا جائز ہے ۔ (آیت)” او علی سفر “۔ سفر خواہ طویل ہو یا قصیر ہو جب پانی نہ ملے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے لیکن نماز کا اعادہ نہ کرے ، حضرت ابی ذر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے، اگرچہ دس سال تک پانی نہ ملے اور جب پانی مل جائے تو اس سے اپنے بالوں کو تر کرے اس میں تمہارے لیے بہتری ہے یا پھر وہ شخص مریض ہوگا لیکن مسافر نہیں ہوگا لیکن وہ پانی نہیں پائے ایسی جگہ پر جہاں پر پانی عام طور پر معدوم نہیں ہوتا، اس طور پر کہ وہ ایک ایسی بستی میں ہے کہ جس بستی میں عام طور پر پانی ختم نہیں ہوتا تو وہاں پانی نہ ملنے کی صورت میں وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور پھر وہ نماز کا اعادہ کرلے جب وہ پانی پر قدرت رکھے، یہ قول امام شافعی (رح) کا ہے اور امام مالک (رح) ، امام اوزاعی (رح) کے نزدیک اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کہ نماز کو مؤخر کرے گا یہاں تک کہ اس کو پانی نہ ملے ۔ (آیت)” اوجاء احد منکم من الغائط “۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس کو حدث لاحق ہوجائے، غائط کہا جاتا ہے زمین کی نشیبی جگہ کو ، عرب والے کہتے ہیں کہ بول وبراز کے لیے لوگ پست گڑھوں کی طرف ہی جاتے ہیں (آیت)” اولامستم النسائ “۔ حمزہ اور کسائی (رح) نے ” لمستم “ پڑھا ہے مائدہ میں اور باقی قراء نے (آیت)” لامستم النسائ “ پڑھا ہے ۔ (لمس اور ملامسۃ کی تفسیر میں آئمہ کے مختلف اقوال) لمس اور ملامستہ کے معنی میں اختلاف ہے، بعض لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد جماع ہے ، یہی قول حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، والحسن (رح) ، مجاہد (رح) ، اور قتادہ (رح) ، کا ہے ، لمس سے مراد کنایہ جماع لیا ہے ، کیونکہ جماع لمس کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتا اور بعض حضرات نے کہا کہ دونوں چمڑوں کا آپس میں مل جانا یہی قول ابن مسعود ، ؓ ابن عمر ؓ ، امام شعبی (رح) ، اور نخعی (رح) ، کا ہے ۔ اس آیت کے حکم میں آئمہ کا اختلاف ہے، ایک جماعت کا قول ہے کہ جب عورت کا جسم مرد کے جسم کے ساتھ لگ جائے اور درمیان میں کوئی چیز حائل ہو نہیں ہوئی تو اس صورت میں ان دونوں کا وضو ٹوٹ جائے گا ۔ (لمس کے حکم میں ائمہ فقہاء کا اختلاف) یہی قول ابن عمر ؓ ، ابن مسعود ؓ کا ہے ، اور یہی قول فقہاء میں سے امام زہری ، اوزاعی ، شافعی (رح) کا ہے ، امام مالک (رح) ، لیث بن سعد (رح) ، امام احمد واسحاق (رح) ، کے نزدیک اگر یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہو تو پھر طہارت ٹوٹ جائے گی اور اگر شہوت نہیں تھی تو پھر وضو نہیں ٹوٹے گا اور بعض حضرات کا قول ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا چھونے سے ، یہی قول حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ حسن بصری (رح) ، اور امام ثوری (رح) ، کا ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) ، کا قول ہے کہ اس وقت تک وضو نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ آلہ منتشتر نہ ہو اور اس حدیث سے استدلال کیا جس سے وضو واجب نہیں ہوتا ۔ سلمہ بنت عبدالرحمن ؓ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کرتی ہیں جو آپ ﷺ کی بیوی ہیں فرماتی ہیں کہ میں آپ ﷺ کے قریب سوئی ہوئی تھی اور میری ٹانگیں قبلے کی جانب تھیں جب آپ ﷺ سجدے میں جاتے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی اور جب آپ ﷺ کھڑے ہوتے تو میں لمبی کرلیتی ، فرماتی ہیں کہ اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ میں نے اپنے پاس موجود نہ پایا ، ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا تو میرا ہاتھ آپ کے قدم پر لگا اس وقت آپ ﷺ سجدے میں تھے اور آپ ﷺ یہ فرما رہے تھے اے اللہ ! میں تیرے غضب سے تیری رضا مندی کی اور تیرے عذاب سے تیری معافی کی اور تجھ سے تیری ہی پناہ لیتا ہوں ، میں تیری حمد پوری پوری نہیں کرسکتا تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف کی ہے امام شافعی (رح) نے اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی نے اپنے محرم رشتہ دار عورت کو لمس کیا جیسے ماں ہے بیٹی ، یا بہن یا چھوٹی لڑکی صغیرہ اصح قول میں اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا ، اس لیے کہ وہ محل شہوت نہیں ہے جیسا کہ کسی نے مرد کو لمس کیا ہو تو اس پر وضو واجب نہیں ہوتا اور جس کو چھوا گیا ہے اس کا وضو ٹوٹے گا یا نہیں اس بارے میں دو قول ہیں ، پہلا قول یہ ہے کہ دونوں کا وضو ٹوٹ جائے گا اور وضو ٹوٹ جانے میں وہ برابر کے شریک ہیں ، جیسا کہ لذت حاصل کرنے میں دونوں مشترک تھے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ملموسہ کا وضو نہیں ٹوٹے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی وجہ سے کہ آپ ﷺ کو ڈھونڈا تو میرا ہاتھ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک کو لگا اس حال میں کہ آپ سجدے میں تھے اگر ملموسہ کا وضو ٹوٹ جاتا ہوتا تو آپ ﷺ نماز توڑ دیتے آپ ﷺ کا نماز نہ توڑنا اس بات کی علامت ہے کہ ملموسہ کا وضو نہیں ٹوٹتا ۔ اسی طرح اگر کسی نے عورت کے بالوں کو چھو لیا یا اس کے ناخنوں کو یا کسی اور عضو کو چھو لیا تو وضو نہیں ٹوٹے گا ، جان لیجئے کہ بےوضو شخص کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ وضو کرکے نماز کو ادا نہ کرے یا تیمم کرکے اس کو ادا نہ کرے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی ایک کی نماز قبول نہیں ہوتی جب اس کو حدث لاحق ہوجائے اور وضو نہ کرلے حدث کہتے ہیں کہ دونوں فرجوں میں سے کسی ایک سے کوئی چیز کا نکلنا خواہ عین شی ہو یا اس کا کوئی اثر (ہوا وغیرہ) یا عقل مغلوب ہوجائے جنون کے ساتھ یا بیہوشی آجائے ۔ (نیند ناقض وضو ہے اس میں ائمہ کے مختلف اقوال) نیند ناقض وضو ہے کہ اس میں امام شافعی (رح) کا مذہب یہ ہے کہ اس پر وضو واجب ہے الا یہ کہ وہ کسی چیز کے ساتھ ٹیک لگا کا بیٹھے اگر اس طرح نہ بیٹھے تو اس پر وضو واجب نہیں ہوگا ۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین عشاء کے انتظار میں تو ان کو نیند آجاتی ، راوی فرماتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سوتے حتی کہ اونگھ کی وجہ سے ان کے سر جھک جاتے ، پھر وہ نماز پڑھتے لیکن دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے اور بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ نیند وضو کو اجب کرتی ہے ہر حال میں اور یہی قول حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ہے اور فقہاء میں سے حسن بصری (رح) ، اسحاق اور مزنی (رح) کے نزدیک یہی قول ہے۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ اگر کھڑے کھڑے سو جائے یا بیٹھ کر یا سجدے کی حالت میں تو اس پر وضو واجب نہیں یہاں تک کہ وہ چت لیٹ کر سو جائے اور یہی قول امام سفیان ثوری (رح) ، ابن المبارک (رح) کا بھی ہے ۔ (مس ذکر ناقض وضو ہے کہ نہیں ؟ ) شرمگاہ کو مس کرنے سے وضو کے واجب ہونے میں آئمہ کا اختلاف ہے ۔ بعض حضرات کے نزدیک اس پر وضو واجب ہوگا ، یہ قول عمر ؓ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ِ سعد بن ابی وقاص ؓ ، حضرت ابی ہریرہ ؓ ، اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا ہے ، اور یہی قول سعید بن المسیب ، سلیمان بن یسار ، عروہ بن زبیر ؓ کا ہے اور امام اوزاعی (رح) ، امام شافعی (رح) ، امام احمد (رح) ، امام اسحاق (رح) ، کا ہے اور اسی طرح عورت اپنے فرج کو چھولے ۔ امام شافعی (رح) کے علاوہ فقہاء کہتے ہیں کہ اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا مگر یہ کہ وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی یا انگلیوں کے بطوں سے چھوئے ، ان حضرات کی دلیل وہ حدیث ہے ، عمرو بن جزم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے عروہ بن زبیر ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں مروان بن الحکم کے پاس داخل ہوا، میں نے اس بات کا تذکرہ کیا جس سے وضو واجب ہوتا ہے مروان نے کہا کہ مس ذکر سے وضو واجب ہوتا ہے، عروہ نے کہا کہ آپ کو اس بات کا علم کیسے ہوا مروان نے کہا کہ مجھے بسرہ بنت صفوان نے خبر دی کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔ بعض حضرات کے نزدیک مس ذکر سے وضو واجب نہیں ہوتا ، یہی قول علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن مسعود ؓ ، حضرت ابو الدرداء ؓ حذیفہ ؓ کا ہے ، حسن بصری (رح) ، سفیان ثوری (رح) ، ابن المبارک اور صحاب الرای کا یہی مذہب ہے، ان کی دلیل حضرت طلق بن علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے مس ذکر کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا کہ کیا وہ جسم کا ایک ٹکڑا نہیں ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ ایک حصہ یا ایک لوتھڑا نہیں ہے اور جن حضرات کے نزدیک وضو واجب نہیں ہوتا ، ان کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے حدیث بسرہ کی وجہ سے کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے اسی طرح مروی ہے کہ وضو مس ذکر سے واجب ہوتا ہے اور یہ متاخر اسلام صحابی کا واقعہ ہے اور حضرت طلق بن علی ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہجرت کے اول زمانے میں آئے جب مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی ۔ (خروج من غیر سبیلین ناقض وضو ہے یا نہیں ؟ ) نجاست کے خروج غیر سبیلین کے حکم میں بھی اختلاف ہے، مثلا کسی کو پھنسی پھوڑا نکلا یا حجامہ لگوایا یا قئی وغیرہ آئی تو بعض حضرات کے نزدیک اس سے وضوء واجب نہیں ہوتا ، یہی روایت عبداللہ بن عمر ؓ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے ، عطاء (رح) ، طاؤس (رح) ، اور سعید بن المسیب (رح) ، اور امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، کا ہے اور بعض حضرات کے نزدیک قئی ، نکسیر ، حجامت سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، یہی قول سفیان ثوری (رح) ، ابن المبارک (رح) اور اصحاب الرای ، احمد واسحاق کا بھی ہے ۔ (آیت)” فلم تجدوا ماء فتیمموا “۔ جان لو کہ تیمم اس امت کی خصوصیت میں سے ہے، حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تین خصلتوں کے ساتھ فضیلت دی گئی کہ میری امت کی صفوں کو فرشتوں کی صفوں کی طرح بنایا اور روئے ارض کو میرے لیے مسجد بنائی اور اس کی مٹی کو میرے لیے پاس بنایا ، اگر پانی نہ ملے۔ (نزول تیمم کا واقعہ) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ بعض اسفار میں گئی ، جب مقام یا ذات الجیش کی جگہ پہنچے تو میرا ہار گم ہوگیا ، آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اس کی تلاش میں نکلے ہم میں سے کسی کے پاس پانی موجود نہیں تھا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا نہیں دیکھتے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کیا کیا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کس مشکل میں ہیں ؟ نہ ہمارے پاس پانی ہے اور نہ ہی ان کے پاس پانی موجود ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس آئے ، آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی گود میں سررکھ کر سو رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ کیا تم نے آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو روک رکھا ہے ، نہ ہمارے پاس پانی موجود ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے پاس ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مجھے عتاب کرنے لگے اور انہوں نے کہا جو کچھ اللہ نے چاہا اور میری کوکھ پر مارنے لگے ، میں نے کوئی حرکت نہیں کی کیونکہ آپ ﷺ کا سر مبارک میری گود میں تھا ۔ آپ ﷺ صبح کے قریب کھڑے ہوئے اس حال میں کہ پانی موجود نہیں تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی ہے ۔ ” فتیمموا “۔ اسید بن حضیر جو نقباء میں سے ایک ہیں کہنے لگے آگ ابی بکر آپ کی برکت ہے، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا ہم نے اس اونٹ لانے کو بھیجا جب ہو وہ اونٹ اٹھا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے اسماء سے ایک قلادۃ (ہار) ادھار لیا تھا وہ مجھ سے گم ہوگیا آپ ﷺ نے چند صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اس کی تلاش میں بھیجا ، تلاش کرتے ہوئے نماز کا وقت ہوگیا ، انہوں نے بغیر وضو نماز پڑھی ، جب وہ آپ ﷺ کے پاس آئے تو اس بات کی شکایت کی اس پر آیت تیمم نازل ہوئی اس پر اسید بن حضیر ؓ نے فرمایا کہ اللہ نے ہمیں بہتر بدلہ عطا فرمایا ۔ اللہ کی قسم اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا حکم نازل نہیں فرمایا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے آسانی اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت عطا فرمائی ہو ” فتیمموا “ کا مطلب ہے کہ تم پاک مٹی کا ارادہ کرو ، ” صعیدا طیبا “۔ یعنی وہ پاک مٹی ہو صاف ستھری ہو ۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے کہ صعید سے مراد مطلق مٹی ہے ۔ (تیمم کس مٹی سے کیا جائے گا) اہل علم کا اس بات میں اختلاف ہے کہ کون سی مٹی کے ساتھ تیمم کیا جائے گا ، امام شافعی (رح) کے نزدیک ہر وہ چیز جس پر مٹی کا اطلاق کیا جاسکے اور جس کا ہاتھ پر غبار آجائے ، اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مٹی کو پاک بنایا ۔ اور بعض اصحاب الرای کے نزدیک تیمم کو جائز قرار دیا ہے ، گچ ، چونے اور نورۃ کے ساتھ تیمم کرنا جائز ہے اور ہر وہ چیز جو زمین کی جنس سے ہو ، یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ اگر ایک پتھر پر ہاتھ مارا جس پر غبار نہیں تھا یا ایسی مٹی پر ہاتھ مارا جس پر غبار تھا اور ہاتھوں کو پھونک کر چہرے اور اعضاء پر مسح کیا تو جائز ہے، اور ان حضرات کا قول یہ ہے کہ پاک مٹی ہی صعید کو کہا جاتا اور جو زمین کے اوپر ہو وہ مراد ہے ، جیسا کہ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زمین کو مسجد اور طہور بنایا ہے ، یہ حدیث مجمل ہے اور حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث مٹی کی تخصیص میں مفسر ہے ، لہذا مجمل کو مفسر پر محمول کیا جائے گا اور بعض نے کہا کہ ہر وہ چیز جو زمین کے ساتھ متصل ہو خواہ وہ درخت ہوں یا نباتات اور اس کے ہم مثل اور فرمایا کہ صعید نام ہے جو زمین کے اوپر ہو ، مٹی کا قصد کرنا تیمم کی صحت کے لیے شرط ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ” فتیمموا “ تیمم قصد کو کہتے ہیں یہاں تک کہ اگر آندھی آگئی اور کسی کے چہرے پر مٹی کا غبار آگیا تو اس نے تیمم کی نیت کی تو یہ درست نہیں ۔ (تیمم کی کیفیت کے متعلق ائمہ کے مختلف اقوال) (آیت)” فامسحوا بوجوھکم وایدیکم ان اللہ کان عفوا غفورا “۔ جان لیجئے کہ چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کا مسح تیمم میں واجب ہے اس کی کیفیت میں آئمہ کا اختلاف ہے ، اکثر اہل علم اس طرح گئے ہیں کہ چہرے اور ہاتھوں کا مسح کہنیوں کے ساتھ کریں گے ، دو ضربتین کے ساتھ ، ایک ضرب کے ساتھ وہ اپنے چہرے کا مسح کریں گے اور بالوں کی جڑ تک مٹی کا پہنچانا ضروری نہیں ، پھر دوسری ضرب کے ساتھ ہاتھوں کا کہنیوں سمیت مسح کریں گے ۔ حضرت ابی حویرث ؓ سے روایت ہے وہ اعرج سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابی صمتہ سے روایت کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرے اور وہ پیشاب کر رہے تھے کہ میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس گئے اور اس کو اپنی لاٹھی کے ساتھ کھرچا ، پھر اس دیوار پر ہاتھ مار کر مسح کیا اور میرے سلام کا جواب دیا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ یدین کے ساتھ مرفقین پر مسح کرنا فرض ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ تیمم صحیح نہیں جب تک کہ مٹی کا غبار ہاتھوں کو نہ لگے ، کیونکہ آپ ﷺ نے دیوار کو کھرچا اپنی لاٹھی کے ساتھ ، اگر محض ضرب ہی کافی ہوتی غبار کا لگنا ضروری نہ ہوتا تو آپ ﷺ اس کو نہ کھرچتے ۔ امام زہری کا قول ہے کہ بازوں کا مسح کندھے تک کریں گے ، جیسا کہ عمار سے مروی ہے کہ ہم کندھوں تک مسح کرتے تھے یہ ان کا اپنا قول ہے ، آپ ﷺ سے یہ منقول نہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ جنبی ہوئے اور وہ زمین کے ساتھ لوٹ پوٹ ہوئے جب آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ہاتھوں اور چہرے کے مسح کا حکم دیا ۔ اور ایک جماعت کا قول ہے کہ تیمم ایک ہی ضرب کے ساتھ کریں گے جو چہرے اور کفین کے لیے ہوگی ، یہی قول علی ؓ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ، کا ہے اور یہی قول فقہاء میں سے شعبی (رح) ، عطاء بن ابی رباح (رح) ، مکحول (رح) ، کا ہے اور اسی طرح امام اوزاعی (رح) ، احمد (رح) ، اسحاق (رح) کا ہے ، انہوں نے اس حدیث سے دلیل ذکر کی ہے حضرت عمر بن خطاب ؓ روای ہیں ، فرماتے ہیں کہ ان ایک شخص آیا اس نے عرض کیا کہ میں جنبی ہو اور پانی نہیں پایا ، عمار بن یاسر ؓ نے عمر بن الخطاب ؓ سے کہا کہ ہم دونوں سفر میں تھے ، آپ نے نماز نہیں پڑھی تھی جبکہ میں نے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھی ، اس واقعہ کا تذکرہ آپ ﷺ نے کے سامنے کیا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کے لیے اتنا کافی تھا اور پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور اس کو پھونکا پھر اس کے ساتھ پانے چہرے اور ہاتھ پر مسح کیا ۔ شعبہ کی روایت میں ہے کہ عمار بن یاسر ؓ نے عمر بن الخطاب ؓ سے ذکر کیا کہ میں لوٹ پوٹ ہوا مٹی میں پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چہرے اور دونوں کفین کا مسح کرنا کافی تھا ، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب جنبی آدمی پانی نہ پائجے تو تیمم کرکے نماز پڑھے ، اس طرح حائضہ اور نفساء کے لیے یہی حکم ہے کہ جب انکو پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھے ، عمر وابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جنبی آدمی تیمم کرکے نماز نہ پڑھے بلکہ نماز کو مؤخر کرلے جب تک اسے پانی نہ ملے ، اس کو محمول کیا ہے ” اولمستم النساء “ لمس بالید مراد ہے نہ کہ جماع اور حدیث عمار اس پر حجت ہے اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ابن مسعود ؓ نے اپنے قول سے رجوع فرما لیا اور جنبی کے لیے کو جائز قرار دیا ۔ حضرت عمران بن حصین ؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا جب وہ حالت جنب میں تھا کہ وہ تیمم کرے پھر نماز پڑھے ، جب وہ پانی پائے تو غسل کرلے ، حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مال غنیمت جمع ہوگیا تھا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابو ذر ؓ ! اس کی تقسیم میں ابتداء کرو ، میں زندہ والوں سے اس کی ابتداء کی وہاں پر مجھے جنابت پہنچی تھی ، میں پانچ یا چھے دن رکا رہا ، اسی دوران کوئی نماز ادا نہیں پھر میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نے فرمایا ، اے ابو ذر ! میں خاموشی سے کھڑا رہا اور عرض کیا اے ابوذر تیری ماں تجھے گم کرے، پھر آپ ﷺ نے ایک کالی لونڈی کو بلوایا اور ایک ٹب لے آئی اور اس میں پانی تھا ، اس کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا ، پھر میں نے غسل کیا ، مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میراوپر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے، اگرچہ اس کو دس سال پانی نہ ملے ، جب پانی ملے تو اس سے غسل کرو کیونکہ اس میں تمہارے لیے بہتری ہے ، تیمم میں چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا اور کبھی کبھار یہ مسح بعض اعضاء کے غسل کا قائم مقام ہوجاتا ہے ، اس طور پر کہ بعض اعضاء زخمی ہوں اور بعض درست ہوں تو زخمی اعضاء پر مسح کیا جائے گا ، یہ مسح کرنا اس کے غسل کے لیے کافی ہوجائے گا غسل کا بدل بنا جائے گا ۔ (تیمم طہارت مطلقہ ہے) تیمم نماز کے وقت کے لیے صحیح نہیں مگر وقت کے داخل ہونے کے بعد اور ایک تیمم کے ساتھ دو فرضوں کو جمع کرنا جائز نہیں ۔ ” عند الشوافع “۔۔۔۔۔۔۔ فلم تجدوا ماء فتیمموا “۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب نماز کے وقت مین کوئی پانی نہ پائے تو اس کو چاہیے کہ وہ تیمم کرلے، مگر ایک وضوء کے ساتھ کئی نمازیں ادا کرسکتا ہے ، جیسا کہ آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن کئی نمازیں ایک وضوء سے ادا کیں ، تیمم اس صورت میں باقی رہا یہ قول علی ؓ ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ کا ہے اور فقہاء میں سے ، امام شعبی (رح) ، امام نخعی (رح) ، قتادہ (رح) ، امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، امام احمد (رح) ، اور اسحاق (رح) کا ہے اور ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ تیمم کی طہارت وضوء کی طہارت کی طرح ہے جس طرح وقت سے پہلے وضو کرنا جائز ہے اسی طرح وقت سے پہلے تیمم کرنا جائز ہے اور اس وضو سے جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتا ہے ، اسی طرح تیمم کا بھی حکم ہے جب تک کہ اس کو حدث لاحق نہیں ہوئی ، یہی قول سعید بن المسیب (رح) ، حسن (رح) ، زہری (رح) ، سفیان ثوری (رح) ، اور اصحاب الرای کا یہی مذہب ہے ۔ اس بات میں اتفاق ہے کہ ایک تیمم سے جتنا چاہیں فرائض میں سے ادا کریں اور ان فرائض کے ساتھ نوافل ادا کریں ، خواہ وہ نوافل فرائض سے پہلے ہوں یا بعد میں اور تیمم کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے اگرچہ جنبی ہو اور اگر تیمم کرکے نماز پڑھی سفر کی ھالت میں یا پانی نہ ملنے کی صورت میں تو پھر پانی کا طلب کرنا ضروری ہے ، اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی سواری میں یا اپنے ساتھیوں کے پاس پانی کو تلا ش کرے اور اگر وہ شخص صحراء میں ہے تو جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے وہاں تک اس کا پانی تلاش کرنا ضروری ہے اور اگر دیکھنے میں آگے کوئی دیوار حائل ہے تو اس کے پیچھے بھی تلاش کرے کیونکہ اللہ رب العزت کا فرمان (آیت)” فان لم تجدوا ماء فتیمموا “۔ اس آیت میں ” لم یجد “ ارشاد نہیں فرمایا ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک پانی کو تلاش کرنا شرط نہیں ، اگر اس کو پانی نظر تو آگیا لیکن اس پانی اور متیمم کے درمیان کوئی دیوار یا دشمن حائل ہے جو پانی تک پہنچنے میں حائل ہے یا پانی کنویں میں موجود تھا اس پانی کو نکالنے کے لیے کوئی ڈول وغیرہ نہیں ہے تو یہ ایسا ہی جیسا پانی نہ پانے والا ۔
Top