Baseerat-e-Quran - An-Noor : 47
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَبِالرَّسُوْلِ : اور رسول پر وَاَطَعْنَا : اور ہم نے حکم مانا ثُمَّ يَتَوَلّٰى : پھر پھر گیا فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ اُولٰٓئِكَ : اور وہ نہیں بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے اور ہم نے فرماں برداری قبول کرلی۔ پھر ان میں سے ایک فریق اس کے بعد پھرجاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں رکھتے ہیں
لغات القرآن : آیت نمبر 47 تا 54 : دعوا (بلایا گیا) ‘ مذعنین (گردن جھکانے والے) ارتابوا (شک میں پڑگئے) یحیف (ظلم کرے گا) یخش (وہ ڈرتا ہے) ‘ یتقہ (نافرمانی سے بچتا ہے) ‘ الفائزون (کامیاب ہونے والے) ‘ جھد ایمان ( مضبوط قسمیں) ‘ معروفۃ ( مشہور۔ معلوم) ‘ حمل (بوجھ ڈالا گیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 47 تا 54 : جب نبی کریم ﷺ نے اعلان فرمایا تو ایمان و عمل صالح کے پیکر ایسے لاتعداد صحابہ کرام ؓ تھے جنہوں نے دل کی گہرائیوں سے اللہ ‘ اس کے رسول ‘ آخرت اور دین اسلام کی تمام تعلیمات کو قبول کرکے اپنی دنیا و آخرت کی کامیابیوں کی سعادت حاصل کرلی تھی لیکن ان مخلص مسلمانوں کے بر خلاف ہمیشہ سے ایک طبقہ رہا ہے جس نے دنیا دکھا وے اور ذاتی مفادات کے لئے اسلام قبول کرلیا تھا مگر وہ اسلام کے بارے میں کبھی مخلص نہیں رہا تھا بلکہ ایسے لوگوں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے دین اسلام کے سچے اصولوں کو اپنے ذاتی مفادات ‘ لالچ اور خود غرضی پر قربان کردیا تھا۔ شریعت کی زبان میں ایسے لوگوں کو ” منافق “ کہا جاتا ہے جن کا کام یہ ہے کہ وہ زبانی طور پر تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ‘ اس کے رسول اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ ہر موقع پر لمبی چوڑی قسمیں کھا کر اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جو بھی حکم دیا جائے گا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔ اور گھر بار ‘ کھیتی باڑی تو کیا چیزیں ہیں۔ اگر جان و مال اور قیمتی سے قیمتی اشیاء کو چھوڑنے کے لئے بھی کہا جائے گا تو وہ کسی قربانی اور ایثار میں پیچھے نہ رہیں گے۔ یہ تو ان کی زبانی باتیں ہیں لیکن جب عمل کرنے کا وقت آتا تو وہ طرح طرح کے حیلے بہانے اور جھوٹی قسموں کے سہارے ادھر ادھر کھسک جاتے تھے۔ ایمان اور عمل صالح کے دعوے کرنے کے باوجود وہ سرکشی ‘ ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہ آتے تھے۔ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف سے لانے کا حکم دیا جاتا کہ آئو جس کلام اللہ پر تم ایمان رکھتے ہو اس کے مطابق زندگی کے ہر معاملے کا فیصلہ کرلیا جائے تو وہ لوگ چالاکی اور مکاری سے اپنا پہلو بچاجاتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگ مومن کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ایمان و یقین کے نور سے ان کے دل روشن ومنور ہوتے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرتے۔ فرمایا کہ ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ ویسے تو وہ قرآن کریم پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جہاں دین کے اصول ان کے مفادات سے ٹکراتے ہوں اور انہیں اندیشہہو کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم ماننے میں ان کا دنیاوی نقصان ہوجائے گا تو وہ اللہ و رسول کے فیصلوں کو چھوڑ کر کفار مشرکین کے دربار میں حاضری دینے سے بھی شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ علماء مفسرین نے احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ بشر نامی ایک منافق شخص تھا اس نے کسی یہودی کی زمین ہتھیالی اور اس پر قبضہ رک لیا جس کی وجہ سے آپس میں جھگڑا بڑھ گیا تو یہودی نے کہا کہ تم اس بات کا فیصلہ کرانے کے لئے اپنے پیغمبر (حضرت محمد ﷺ کے پاس چلو وہ جو بھی فیصلہ دیں گے میں اس کو مان لوں گا۔ یہودی اس بات کو اچھی طرح جانتا تھا کہ اللہ کے یہ پیغمبر جو بھی فیصلہ کریں گے۔ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور وہ فیصلہ دینے میں مسلم غیر مسلم کی طرف داری نہ کریں گے۔ اس بات کا یقین اس منافق کو بھی تھا کہ نبی کریم ﷺ عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے اسی لئے بشر کا اصرار یہ تھا کہ کعب ابن اشرف یہودی سردار کے پاس چلتے ہیں اور اس سے فیصلہ کر الیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع ہیں ہمیں جیسا کرنے کا حکم دیا جائے گا ویسا ہی کریں گے لیکن جب معاملہ کی بات آئی تو وہ لوگ اپنے ذاتی فائدے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر اتر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کی منافقت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ اگر ان کے فائدے کی بات ہوتی تو یہ گردن جھکا کر چلے آتے لیکن جب ان کے مفاد پر ضرب پڑتی نظر آتی ہے تو پھر وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے اطاعت و فرماں برداری کا عہد کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ یہ سب کچھ یا تو اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں منافقت کا مرض پل رہا ہے یا ان کو دین اسلام کے سچے اصولوں پر یقین نہیں ہے اور وہ شک و شبہ میں مبتلا ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ان کے ساتھ زیادتی اور ظلم کریں گے۔ فرمایا کہ جو لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم و زیادتی کررہے ہوں اللہ کو یکا پڑی ہے کہ ان پر مزید ظلم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک طرف تو یہ نام نہاد مسلمان ہیں جن کے عمل سے ان کی منافقت کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہے دوسری طرف وہ مخلص صاحبان ایمان ہیں کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان جو بھی جھگڑے اور اختلافات ہوں وہ دور کرد یئے جائیں اور مناسب فیصلے کئے جائیں تو وہ اہل ایمان دوڑ کر اللہ اور رسول کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے ہی لوگ وہ ہیں جن کو دنیا میں عزت و سربلندی اور آخرت میں ہمیشہ کی راحتیں عطا کی جائیں گی یہ دنیا کے کامیاب ترین لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمادیا کہ جو لوگ بڑی بڑی قسمیں کھا کر اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ انہیں جہاد ‘ ہجرت اور ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لئے کہا جائے گا تو وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل کھڑے ہوں گے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ وہ بڑی بڑی قسمیں کھا کر اللہ اور رسول کی اطاعت کی باتیں نہ کریں کیونکہ ان کا عمل ان کے ہر دعوے کی تردید کررہا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ حق و صداقت کی ہر بات کو پہنچانے کی ذمہ داری پوری فرماتے رہیں آگے ان کا کام ہے کہ وہ اس پر عمل کر کے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں۔ بہر حال آخرت کی کامیابی ان ہی لوگوں کا مقدر ہے جو ایمان و عمل صالح کے پیکر ہیں۔ اگر انہوں نے عمل نہ کیا تو ان کی زندگیاں عبرت کا نمونہ بن کر رہ جائیں گی۔
Top