Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 47
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَبِالرَّسُوْلِ : اور رسول پر وَاَطَعْنَا : اور ہم نے حکم مانا ثُمَّ يَتَوَلّٰى : پھر پھر گیا فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ اُولٰٓئِكَ : اور وہ نہیں بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور (بعض لوگ) کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور رسول پر ایمان لائے اور (ان کا) حکم مان لیا پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فرقہ پھرجاتا ہے اور یہ لوگ صاحب ایمان ہی نہیں ہیں
47:۔ اوپر ذکر تھا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے ہیں ‘ وہ خود تو راہ راست پر آنے کا قصد نہیں کرتے اور کسی کو زبردستی راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے ‘ طبرانی کبیر اور مسند بزار میں معتبر سند سے عمران بن حصین کی حدیث 2 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ منافق لوگ ظاہر میں مسلمانوں کے سے عمل کرتے ہیں اور ان کے دل میں دغا بازی بسی ہوتی ہے اس لیے بہ نسبت کھلے کھلے کافروں کے زبان دراز منافق کی باتوں سے دھوکے میں آجانے کا بڑا خوف ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر یہ بدلوگوں کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں منافقوں کا ذکر جو شروع فرمایا اب اس کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منافقوں کے دل میں کھوٹ ہوتی ہے اور دل کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو معلوم نہیں ‘ اسی واسطے بغیر اللہ تعالیٰ کی مدد کے منافقوں کی شرارت سے بچنا دشوار ہے ‘ چناچہ حضرت عائشہ ؓ پر جو طوفان اٹھایا گیا وہ منافقوں کی شرارت کا نتیجہ تھا ‘ آخر اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ طوفان مٹا ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ کھلے کھلے منکر شریعت لوگوں کے علاوہ بعضے دھوکے باز لوگ ایسے بھی ہیں جو زبان سے اللہ اور رسول کے فرمانبرداری کا اقرار کرتے ہیں ‘ لیکن ان کے دل میں دغا بازی بسی ہوتی ہے اس لیے یہ انکا زبانی اقرار جھوٹا ہے اور اس اوپرے دل کی فرمانبرداری کے اقرار سے یہ لوگ مسلمان نہیں ٹھہر سکتے ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث 3 ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ کی نظر آدمی کی ظاہری حالت پر نہیں ہے بلکہ اس کی نظر آدمی کے دل پر ہمیشہ لگی رہتی ہے ‘ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر آدمی کے دل پر لگی رہتی ہے اور منافقوں کی فرمانبرداری کا اثر ان کے دل میں کچھ نہیں ہوتا اس واسطے اللہ تعالیٰ کے نزدیک منافقوں کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہے۔ (2 ؎ مجمع الزوائدص 187 جلد اول ) (3 ؎ مشکوٰۃ باب الریاء والسمعۃ )
Top