Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 47
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَبِالرَّسُوْلِ : اور رسول پر وَاَطَعْنَا : اور ہم نے حکم مانا ثُمَّ يَتَوَلّٰى : پھر پھر گیا فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ اُولٰٓئِكَ : اور وہ نہیں بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور (کچھ) لوگ کہتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا حکم مانا پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد پھرجاتا ہے اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ مسلمان ہی نہیں
پہلے گروہ کا ذکر جس کو اسلام کی زبان میں منافقین کا گروہ کہا جاتا ہے : 79۔ انہوں نے زبان سے کیا کہا ؟ انہوں نے کہا کہ ” ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا حکم مانا “ ظاہر ہے کہ جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ تو بجائے خود سچی لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان سے ظاہر کر رہے ہیں اس لئینا پنے اس قول میں وہ جھوٹے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے رسول ہونے اور اللہ تعالیٰ کے اللہ ماننے کی شہادت دیتے ہیں ، معلوم ہوا کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہے ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہے تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہوگا اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو لیکن شہادت دینے والا اس کے حق ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو تو ہم ایک لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کیونکہ وہ اپنا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے اور دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے ۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے مثال کے طور پر ایک مسلم و مومن اگر اسلام کو برحق کہے تو وہ یقینا سچا ہے لیکن ایک یہودی یا عیسائی ‘ یہودی یا عیسائی رہتے ہوئے اسلام کو برحق مانے تو بات اس کی سچی ہوگی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے اور اگر وہ دین اسلام کو باطل کہے تو ہم کہیں گے کہ بات ان کی سچی تھی لیکن جب اس کے امتحان کا وقت آیا تو وہ اپنی اس بات سے پھر گیا لہذا ان کے اس اقدام نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے دعوی ایمان میں سچے نہیں تھے اس لئے قرآن کریم نے ان کے متعلق صاف صاف کہہ دیا (وما اولئک بالمؤمنین) یعنی اس طرح کے مدعیان ایمان اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن نہیں ہیں کیونکہ ایمان کا حق صرف زبان سے ان الفاظ کا کہہ دینا کفایت نہیں کرتا اس لئے شرط لازم ہے کہ اللہ ورسول کے احکام کی بےچون وچرا اطاعت کی جائے اگر کوئی شخص یہ شرط پوری نہیں کرتا تو وہ اپنے دعوی میں صادق نہیں کہلا سکتا اس لئے اسلام کی زبان میں ایسے لوگوں کو جو بات کے لحاظ سے سچے اور شہادت کے لحاظ سے جھوٹے ثابت ہو رہے ہوں ان کو منافق قرار دیتا ہے اور زیر نظر آیت میں انہی لوگوں کا بیان ہے : ایسے لوگوں کی منافقت کو مزید واضح کی جارہا ہے تاکہ کوئی شبہ باقی نہ رہے : 80۔ زیر نظر آیت میں ان کی منافقت کی دلیل بیان کی جارہی ہے کہ اگر ان کو اس امر کی دعوت دی جائے کہ اپنے اختلافات اور منازعات باہمی کا فیصلہ کتاب وسنت کے مطابق کرا لو تو یہ بات سنتے ہی وہ اعراض کر جاتے ہیں اور اس طرح منہ پھیر جاتے ہیں گویا انہوں نے سنا ہی نہیں گویا وہ سنی ان سنی کردیتے ہیں اور اسی طرح آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں کہ ایک قدم سیدھا نہیں اٹھاتے اور ان احکام و فرامین کی کوئی پروا نہیں کرتے جس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا دعوی ایمان سراسر غلط اور دھوکا پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ دھوکا باز کبھی سچا نہیں ہو سکتا ۔ ان کے حالات وبیانات کی تفصیل پیچھے سورة الانفال اور سورة توبہ میں بیان کردی گئی ہے اس لئے یہاں صرف ان کی طرف اشارہ کردیا گیا ہیں ان کے بیانات اور اعمال کی تفصیل بیان نہیں کی گئی اس لئے تفصیل کے لئے آپ سورة الانفال اور التوبہ ہی کی طرف مراجعت کریں اور ایک اشارہ آنے والی آیت میں بھی کیا گیا ہے اس کو ملاحظہ کریں ۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا نظر آئے تو سرتسلیم خم کردیتے ہیں : 81۔ مطلب یہ ہے کہ اختلاف ومنازعت میں یہ بات واضح نظر آئے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے یا جس بات اور کام کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اس میں ان کے لئے دنیاوی فائدہ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے تو وہ اپنی تلون مزاجی کے باعث فورا اس کو قبول کرنے کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں گویا وہ اپنی غرض کے بندے ہیں ان کی غرض پوری ہے تو وہ پکے مسلمان اور صحیح معنوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں اور اگر ان کی غرض دوسری طرف سے پوری ہو رہی ہے تو وہ مسلمانوں کا ساتھ ساتھ چھوڑنے کے لئے ہر آن اور ہر وقت تیار کھڑے ہیں اور چرب زبان اتنے ہیں کہ باتوں ہی باتوں میں وہ دوسری طرف کھسک جائیں گے اور اپنی غرض پوری کرلیں گے اس معاملہ میں وہ اتنے ماہر ہیں کہ ان کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی بس باتوں ہی باتوں میں وہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چل پڑتے ہیں گویا ان کا مقصود اصل فقط اپنی دنیوی غرض سے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ آج کل مسلمانوں کی عموما اور نئی روشنی کے روشن خیالوں اور جدید قسم کی تعلیمات حاصل کرنے والے لوگوں کی خصوصا یہی حالت ہے کہ یہ سب کے سب اسلامی قومیت کے دعوی کے باعث کتاب وسنت کے اتباع کا دعوی کرتے ہیں مگر ان کی عملی زندگی دیکھو تو بالکل ان کے بخط مستقیم مخالف ہوتی ہے ، ہاں ! قرآن کریم اور سنت رسول کا کوئی حکم ان کی خواہش اور سمجھ کے مطابق نکل آئے تو پھولے نہیں سماتے اور اس کو بار بار بیان کرتے ہیں اور نہایت ہی خوش وخرم نظر آتے ہیں اور دراصل وہ اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں نہ کہ کتاب وسنت کی لیکن نام وہ کتاب وسنت ہی کا لیتے ہیں اور اگر کوئی بات ان کی خواہش کے خلاف ہو تو وہ اس کتاب وسنت کو ماننے ہی کے لئے تیار نہیں اور چرب زبانی سے وہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ یہ بات کتاب وسنت کے مطابق نہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ان کی خواہش کے مطابق نہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں وہ بالکل ننگے ہوجاتے ہیں اور ان کی حالت بینا آنکھ رکھنے والوں کو صاف صاف نظر آنے لگتی ہے ۔
Top