Mazhar-ul-Quran - An-Noor : 55
وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا١ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّ یَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا١٘ وَّ مَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَۗۙ
وَقَالَ : اور (ابراہیم نے) کہا اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں اتَّخَذْتُمْ : تم نے بنا لیے ہیں مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَوْثَانًا : بت (جمع) مَّوَدَّةً : دوستی بَيْنِكُمْ : اپنے درمیان ( آپس میں) فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی میں ثُمَّ : پھر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن يَكْفُرُ : کافر (مخالف) ہوجائیگا بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض (ایک) بِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) کا وَّيَلْعَنُ : اور لعنت کرے گا بَعْضُكُمْ : تم میں سے بعض (ایک) بَعْضًا : بعض (دوسرے) کا وَّمَاْوٰىكُمُ : اور تمہارا ٹھکانا النَّارُ : جہنم وَمَا لَكُمْ : اور نہیں تمہارے لیے مِّنْ نّٰصِرِيْنَ : کوئی مددگار
اللہ1 نے وعدہ دیا ہے ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے، بیشک ان کو زمین میں خلافت دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا فرمائی تھی ، اور جس دین کو (اللہ نے) ان کے لیے پسند فرمایا (یعنی اسلام) ضرور ان کے (نفع آخرت کے ) لیے جما دے گا اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا، (بشرطیکہ) میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں، اور کوئی اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ فاسق ہیں۔
مسلمانوں کے صبر پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور اس کا ظہور۔ (ف 1) شان نزول۔ نبی ﷺ نے وحی نازل ہونے سے دس سال تک مکہ مکرمہ میں مع اصحاب کے قیام فرمایا، اور کفار مکہ کی ایذاؤں پر جو رات دن ہوتی رہتی تھیں صبر کیا، پھر بحکم الٰہی مدینہ طیبہ کو ہجرت فرمائی اور انصار کی منازل کو اپنی سکونت سے سرفراز کیا مگر کفار مکہ اس پر بھی بازنہ آئے۔ روزہ مرہ ان کی طرف سے جنگ کے اعلان ہوتے اور طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتیں، اصحاب رسول ہر وقت خطرہ میں رہتے تھے ایک روز ایک صحابی نے فرمایا کبھی ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ ہمیں امن میسر ہوگا اور ہتھیاروں کے بار سے ہم سبکدوش ہوجائیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فائدہ : اس آیت میں حضرت ابوبکر اور آپ کے بعد ہونے والے خلفاء راشدین کی خلافت کی دلیل ہے کیونکہ ان کے زمانہ میں فتوحات عظیمہ ہوئیں اور کسری وغیرہ ملوک کے خزائن مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور امن وتمکین اور دین کا غلبہ حاصل ہوا ۔ ترمذی اور ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : خلافت میرے بعد تیس سال ہے پھر ملک ہوگا اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق عنہ کی خلافت دو سال تین ماہ، حضرت عمر کی دس سال چھ ماہ، اور حضرت عثمان کی بارہ سال اور حضرت علی ؓ اجمعین کی چار سال نو ماہ اور حضڑت امام حسن کی خلافت چھ ماہ ہوئی۔ آگے فرمایا کہ اس شکر گزاری کی حالت کے بعد جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی ناشکری کریں گے وہ نافرمان ہوکرطرح طرح کی خرابی میں پڑجاویں گے۔
Top