Dure-Mansoor - An-Noor : 15
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَ تَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّ تَحْسَبُوْنَهٗ هَیِّنًا١ۖۗ وَّ هُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمٌ
اِذْ تَلَقَّوْنَهٗ : جب تم لاتے تھے اسے بِاَلْسِنَتِكُمْ : اپنی زبانوں پر وَتَقُوْلُوْنَ : اور تم کہتے تھے بِاَفْوَاهِكُمْ : اپنے منہ سے مَّا لَيْسَ : جو نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کوئی علم وَّتَحْسَبُوْنَهٗ : اور تم اسے گمان کرتے تھے هَيِّنًا : ہلکی بات وَّهُوَ : حالانکہ وہ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمٌ : بہت بڑی (بات)
جب تم اس بات کو اپنی زبانوں سے نقل در نقل کر رہے تھے اور اپنے مونہوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم نہیں ہے اور تم اسے ہلکی بات سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بڑی بھاری بات ہے۔
1۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن ابی جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا آیت ” اذ تلقونہ بالسنتکم “ اور فرمایا بعض تمہارا روایت کرتا ہے بعض سے۔ 2۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” اذ تلقونہ بالسنتکم “ سے مراد ہے کہ بعض تمہارا روایت کرتا ہے بعض سے۔ 3۔ البخاری وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ عائشہ ؓ اس آیت کو پڑھتی آیت ” اذ تلقونہ بالسنتکم “ اور فرماتی تھیں کہ وہ ولق القول ہے یعنی یہ جھوٹی بات ہے اور ولق جھوٹ کو کہتے ہیں ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ ان آیات کے معنی دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والی تھیں اس لیے کہ آیات حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ زبان کی حفاظت نہ کرنا بڑا خطرناک ہے 4۔ البخاری ومسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ایک آدمی اللہ کی ناراضگی میں سے ایسا کلمہ کہتا ہے جس کی وہ پرواہ نہیں کرتا مگر اس کے ذریعہ دوزخ میں گر جاتا ہے اتنی دور جتنا آسمان و زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔ 5۔ الطبرانی نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کسی پاکدامن عورت پر تہمت لگانا سو سوال کے عمل کو ضائع کردیتا ہے (یعنی سو سال کی نیکیوں کو ختم کردیتا ہے )
Top