Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 14
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۚۖ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت لَمَسَّكُمْ : ضرور تم پر پڑتا فِيْ مَآ : اس میں جو اَفَضْتُمْ : تم پڑے فِيْهِ : اس میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑگئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا
(ولولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب عظیم) (24 : 14) ” اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں تم پڑگئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہیں آلیتا “۔ اللہ تعالیٰ نے نئی تشکیل پانے والی جماعت مسلمہ کے لیے یہ واقعہ بطور آزمائش رو نما کرایا تو اللہ نے اس کو اپنے فضل اور رحم و کرم کے ذریعہ یوں خوش اسلوبی سے حل کرا دیا۔ اس عظیم غلطی پر کسی کو سزانہ دی ورنہ یہ فعل تو سخت سزا کا مستحق تھا کیونکہ اس واقعہ کے ذریعہ اہل مدینہ نے محبوب خدا ﷺ کو سخت اذیت دی تھی۔ لہٰذا مناسب تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سخت سزاد یتے۔ نبی ﷺ کے علاوہ اس واقعہ میں آپ کے صدیق ساتھی ‘ آپ کی محبوب اہلیہ اور ایک صادق اور پاکباز مسلمان کو اذیت دی گئی۔ پھر اس عظیم شر کی وجہ سے اسلام کے تمام مقدساتا کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ منافقین نے یہ سازش اس قدر گہرائی سے تیار کی تھی کہ وہ اسلامی نظریہ حیات کی بنیادوں ہی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اگر نبی پر اہل ایمان کا اعتماد ہی نہ رہے اور نبی کے خاندان پر نہ رہے اور پھر وحی الہیٰ پر نہ رہے تو ظاہر ہے کہ اسلام ختم ہی سمجھا جائے گا اور ایسے حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس فتنے کے حاملین کو سخت سزادی جاتی اور ان پر اللہ کا عذاب بھی آتا مگر اللہ نے فضل و کرم کیا کہ اس آزمائش میں مسلمان کا میاب رہے۔ اس پورے مہینے میں مدینہ کی جو صورت حالات تھی اس کا اظہار قرآن کریم کے ان الفاظ سے اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ مدینہ میں کس قدر فکری انتشار تھا۔ لوگوں کے معیار کس قدر بدل گئے تھے۔ ان کی اقدار اور پیمانے کس طرح بدل گئے تھے۔ اس وقت وہ کیسی غلطی کررہے تھے۔
Top