Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Noor : 14
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۚۖ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت لَمَسَّكُمْ : ضرور تم پر پڑتا فِيْ مَآ : اس میں جو اَفَضْتُمْ : تم پڑے فِيْهِ : اس میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر بڑا (سخت) عذاب نازل ہوتا
فرمان ہے کہ اے وہ لوگوں جنہوں نے صدیقہ کی بابت اپنی زبانوں کو بری حرکت دی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا کہ وہ دنیا میں تمہاری توبہ کو قبول کرلے اور آخرت میں تمہیں تمہارے ایمان کی وجہ سے معاف فرما دے تو جس بہتان میں تم نے اپنی زبانیں ہلائیں اس میں تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا۔ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں ہے جن کے دلوں میں ایمان تھا لیکن رواداری میں کچھ کہہ گئے تھے جیسے حضرت مسطع حضرت حسان، حضرت حمنہ ؓ۔ لیکن جن کے دل ایمان سے خالی تھے جو اس طوفان کے اٹھانے والے تھے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول وغیرہ منافقین یہ لوگ اس حکم میں نہیں تھے۔ کیونکہ نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ عمل صالح۔ یہ بھی یادر ہے کہ جس بدی پر جو وعید ہے وہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب توبہ نہ ہو اور اس کے مقابلہ میں اس جیسی یا اس سے بڑی نیکی نہ ہو۔ جب کہ تم اس بات کو پھیلا رہے تھے، اس سے سن کر اس سے کہی اور اس نے سن کر دوسرے سے کہی۔ حضرت عائشہ کی قرأت میں اذا تلقونہ ہے یعنی جب کہ تم اس جھوٹ کی اشاعت کر رہے تھے۔ پہلی قرأت جمہور کی ہے۔ اور یہ قرأت ان کی ہے جنہیں اس آیت کا زیادہ علم تھا۔ اور تم وہ بات زبان سے نکالتے تھے، جس کا تمہیں علم نہ تھا۔ تم گو اس کلام کو ہلکا سمجھتے رہے، لیکن دراصل اللہ کے نزدیک وہ بڑا بھاری کلام تھا۔ کسی مسلمان عورت کی نسبت ایسی تہمت جرم عظیم ہے۔ پھر اللہ کے رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ کے اوپر ایسا کلمہ، سمجھ لو کہ کتنا بڑا کبیرا گناہ ہوا ؟ اسی لئے رب کی غیرت اپنے نبی ﷺ کی وجہ سے جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرما کر خاتم الانبیاء سید المرسلین ﷺ کی زوجہ مطہرہ ؓ کی پاکیزگی ثابت فرمائی۔ ہر نبی ؑ کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اس بےحیائی سے دور رکھا ہے پس کیسے ممکن تھا کہ تمام نبیوں کی بیویوں سے افضل اور ان کی سردار۔ تمام نبیوں سے افضل اور تمام اولاد آدم کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بیوی اس میں آلودہ ہوں۔ حاشا وکلا۔ پس تم گو اس کلام کو بےوقعت سمجھو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ انسان بعض مرتبہ اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ کہہ کر گزرتا ہے، جس کی کوئی وقعت اس کے نزدیک نہیں ہوتی لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم کے اتنے نیچے طبقے میں پہنچ جاتا ہے کہ جتنی نیچی زمین آسمان سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نیچا ہوتا ہے۔
Top