Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
آیت نمبر 32 تا 38 ترجمہ : اور حال بیان کیجئے ان کافروں اور مومنوں کے لئے ان دو شخصوں کا رجلین مثلاً سے بدل ہے رجُلَین اور اس کا مابعد مثلاً کی تفسیر ہے ان دو میں سے ایک کو جو کافر تھا انگور کے دو باغ دئیے تھے اور ہم نے دونوں باغوں کا کھجوروں کے درختوں کے ذریعہ احاطہ کردیا تھا اور ان کے بیچ بیچ میں کھیتی بھی اگائی تھی جس کے ذریعہ غذا حاصل کی جاتی تھی دونوں باغ اپنا پورا پھل دیتے تھے اس میں بالکل کمی نہیں کرتے تھے کِلتَا لفظ کے اعتبار سے مفرد ہے (مگر معنی کے اعتبار سے) تثنیہ پر دلالت کرتا ہے اور کلتا مبتدا ہے اور آتت اس کی خبر ہے اور ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان نہریں جاری کر رکھی تھیں اور اس شخص کے لئے دو باغوں کے علاوہ اور بھی اموال تھے ثمَر ثا اور میم دونوں کے فتحہ کے ساتھ اور دونوں کے ضمہ کے ساتھ ثُمُرٌ اور اول کے ضمہ اور ثانی کے سکون کے ساتھ ثُمْرً اور ثَمَرٌ ثَمَرَۃٌ کی جمع ہے جیسے شَجَرٌ شَجَرَۃٌ کی جمع ہے اور خُشُبٌ خَشَبَۃٌ کی جمع ہے اور بُدنٌ بَدَنۃٌ کی جمع ہے (تینوں میں مفرد ایک ہی وزن پر ہے البتہ تینوں کی جمع مختلف ہے) (ایک روز) اس کافر نے اپنے مومن ساتھی سے فخریہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور افراد خاندان میں بھی اور اپنے ساتھ کو گھماتا ہوا اور باغ کے پھلوں کو دکھاتا ہوا ساتھ لے کر اپنے باغ میں داخل ہوا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا تھا کفر کے ذریعہ، اور اس موقع پر جَنَّتَیہِ نہیں کہا یا تو اس لئے کہ جنت سے مراد روضہ ہے (جو کہ دونوں باغوں پر مشتمل ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے ایک باغ ہی دکھانے پر اکتفاء کیا تھا اور کہنے لگا میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا اور نہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت آئے گی اور اگر تیرے خیال کے مطابق ( قیامت آبھی گئی) اور میں اپنے رب کے پاس پہنچا دیا گیا تو ضرور اس باغ سے بھی بہتر جگہ مجھے ملے گی اس کے (مومن) ساتھی نے اس کی (ان کفریہ) باتوں کے جواب میں کہا کہ کیا تو اس ذات کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھ کو مٹی سے پیدا کیا ؟ اس لئے کہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے تھے پھر تجھ کو نطفہ منی سے پیدا کیا اور پھر تجھ کو صحیح سالم یعنی (تجھ کو معتدل الاعضاء) مرد بنایا لکِنَّا اس کی اصل لکِنْ اَنَا تھی ہمزہ کی حرکت نون کو دے دی اور ہمزہ کو حذف کردیا پھر نون کو نون میں ادغام کردیا ھُوَ ضمیر شان ہے اس کے بعد کا جملہ اس کی تفسیر کر رہا ہے اور معنی یہ ہیں کہ میں کہتا ہوں (یعنی عقیدہ رکھتا ہوں) کہ میرا رب تو اللہ ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد ضَرَبَ کا استعمال جب مثل کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کے دو مفعول ہوتے ہیں، یہاں ایک مفعول مثلاً ہے اور دوسرا رَجُلَیْنِ دونوں مفعول درحقیقت ایک ہی ہیں اور رجلین حذف مضاف کے ساتھ مثلاً سے بدل بھی ہوسکتا اَیْ مثلاً مثل الرجلین قولہ من اَعْنَابٍ میں من بیانیہ ہے، ما فی الجنتین مبین ہے مِن اعنابٍ بیان ہے قولہ حَفَفْنَا حَفَّ سے ماضی جمع متکلم (ن) حفًّا گھیرنا کلتا چونکہ لفظ کے اعتبار سے مفرد ہے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے اٰتَتْ کو مفرد لائے ہیں اور خلالھُمَا خبر ہے معنی کے اعتبار سے تثنیہ لائی گئی ہے کلتا الجنتینِ مرکب ہو کر مبتداء ہے اور جملہ اٰتَتْ خبر قولہ ثَمَرٌ سے باغات کے علاوہ دیگر اموال مراد ہیں خواہ وہ نقود کی شکل میں ہوں یا مویشیوں کی شکل میں قولہ یحاورُ (مفاعلۃ) مُحَاوَرَۃٌ وحِوَارًا گفتگو کرنا، جواب دینا، یُحَاوِرُ کی تفسیر یُفَاخِرُ سے قرینہ مقام کی وجہ سے ہے، قولہ مالاً ونفرًا یہ نسبت سے تمیز ہیں، قولہ اثمارَھا بعض نسخوں میں اثمارھا کے بجائے آثارھا ہے بمعنی رونق وشادابی قولہ أن تَبِیْدَ بتاویل مصدر ہو کر اَظنّ کا مفعول ہے قولہ سَوَّاکَ تسوِیۃ برابر کرنا، متناسب الاعضاء بنانا، یہ سَوَّیٰ جَعَلَ اور صَیَّرَ کے معنی میں ہے، جعل کا مفعول اول اور رجلاً مفعول ثانی ہے، لٰکِنَّا اصل میں لکن اَنا تھا، اَنَا کے ہمزہ کو خلاف قیاس حذف کر کے نون کا نون میں ادغام کردیا گیا ہے قولہ لٰکِنَّا میں لکن غیر عامل ہے، اس کے اندر ضمیر مبتداء اول ہے اور ھُوَ مبتداء ثانی ہے اور اللہ مبتدا ثالث ہے، رَبِّی خبر ہے۔ تفسیر وتشریح مذکورہ آیات میں جن دو شخصوں کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے مفسرین کا اس بات میں اختلاف ہے کہ یہ دونوں شخص فرضی ہیں اور بطور تمثیل ان کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے یا حقیقی اور واقعی ہیں، جو حضرات واقعی ہونے کے قائل ہیں ان کے درمیان ان کی تعیین میں اختلاف ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے دو بھائی تھے اور بعض کا قول ہے کہ وہ دونوں مکہ کے مخزومی قبیلہ کے دو بھائی تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ عبد الاسود تھا اور وہ مومن تھا اور دوسرا اسود ابن عبد الاسود تھا یہ کافر تھا اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ وہی دو شخص ہیں کہ جن کا ذکر سورة الصافات میں اللہ تعالیٰ کے قول قال قائل منھم انی کان لی قرین میں ہے، مذکورہ دونوں بھائیوں کے واقعہ کو ذکر کرنے کا مقصد دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی پائیداری کو بیان کرنا ہے، آپ ﷺ ان دو شخصوں کا جن کے درمیان دوستی یا قرابت کا تعلق تھا، بیان کیجئے عطاء خراسانی کے بیان کے مطابق ان کا قصہ اس طرح تھا، دو شریک یا دو بھائی تھے ان میں سے ایک مومن اور دوسرا کافر تھا ان دونوں کے پاس آٹھ ہزار دینار مشترکہ تھے بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان کے والد کے ترکہ سے آٹھ ہزار دینار ان کے حصہ میں آئے تھے، چار چار ہزار دونوں نے تقسیم کر لئے تھے ان میں سے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار کی زمین خریدی جب مومن بھائی کو اس کا علم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار کی زمین خریدی ہے اور میں تجھ سے ہزار دینار کے بدلے جنت میں زمین خریدتا ہوں اور یہ کہہ کر ایک ہزار دینار راہ خدا میں صرف کر دئیے، پھر کافر بھائی نے شادی کی اور اس پر اس نے ہزار دینار خرچ کئے جب اس مومن بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار صرف کر کے ایک عورت سے شادی کی ہے میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض جنت کی حور سے شادی کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے ہزار دینار راہ خدا میں خرچ کر دئیے پھر اس کے کافر بھائی نے ایک ہزار دینار کے عوض کچھ غلام اور گھریلو سامان خریدا جب اس مومن بھائی کو معلوم ہوا تو اس نے کہا یا اللہ میں بھی ایک ہزار دینار کے عوض تجھ سے جنت میں خدام اور سامانِ راحت خریدتا ہوں یہ کہ کر اس نے ایک ہزار دینار راہ خدا میں صدقہ کر دئیے اب اس کے پاس کچھ باقی نہ رہا اور شدید حاجت مند ہوگیا، اس نے سوچا اگر میں اپنے بھائی کے پاس جاؤں اور اس سے اپنی حاجت کا سوال کروں تو وہ ضرور میری مدد کرے گا، چناچہ وہ ایک روز اس راستہ پر جا کر بیٹھ گیا جہاں سے اس کے بھائی کی آمدورفت تھی جب اس کا بھائی بڑی شان و شوکت کے ساتھ وہاں سے گذرا تو اپنے اس غریب مومن بھائی کو دیکھ کر پہچان لیا اور کہا فلاں ؟ اس نے کہا ہاں، اس نے حالت دیکھ کر کہا تیرا یہ کیا حال ہے ؟ تو مومن بھائی نے جواب دیا مجھے حاجت شدیدہ پیش آگئی ہے مدد کے لئے تیرے پاس آیا ہوں، کافر بھائی نے معلوم کیا تیرا وہ مال کیا ہوا جو تیرے حصہ میں آیا تھا ؟ تو اس مومن بھائی نے پوری صورت حال بیان کی تو اس کے کافر بھائی نے کہا میں کچھ نہ دوں گا تو تو بڑا سخی ہے پھر کافر بھائی نے مومن بھائی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے باغوں میں گھمایا تو ان کے بارے میں آیت واضرب لھم مثلاً نازل ہوئی۔
Top