Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ
: اور بیان کریں آپ
لَهُمْ
: ان کے لیے
مَّثَلًا
: مثال (حال)
رَّجُلَيْنِ
: دو آدمی
جَعَلْنَا
: ہم نے بنائے
لِاَحَدِهِمَا
: ان میں ایک کے لیے
جَنَّتَيْنِ
: دو باغ
مِنْ
: سے۔ کے
اَعْنَابٍ
: انگور (جمع)
وَّحَفَفْنٰهُمَا
: اور ہم نے انہیں گھیر لیا
بِنَخْلٍ
: کھجوروں کے درخت
وَّجَعَلْنَا
: اور بنادی (رکھی)
بَيْنَهُمَا
: ان کے درمیان
زَرْعًا
: کھیتی
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
آیت نمبر
32
تا
34
قولہ تعالیٰ : واضرب لھم مثلا رجلین یہ مثال ہے اس آدمی کیلئے جو دنیا کے ساتھ عزت حاصل کرتا ہے اور مومنین کے ساتھ بیٹھنا ناپسند کرتا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : واصبر نفسک کے ساتھ متصل ہے۔ اور ان دونوں آدمیوں کے نام اور ان کی تعیین میں اختلاف ہے، پس کلبی (رح) نے کہا ہے : یہ اہل مکہ میں سے دو مخزومی بھائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، ان میں سے ایک مومن تھا اور وہ حضرت ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد بن ہلال بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم تھے۔ ام سلمہ کے خاوند نے حضور نبی مکرم ﷺ کی رسالت کو قبول کرلیا تھا۔ اور دوسرا کافر تھا اور وہ اسود بن عبد الاسد تھا، ان دونوں بھائیوں کا ذکر سورة الصافات میں اس قول باری تعالیٰ قال قائل منھم انی کان لی قرین۔ (الصافات) کے تحت کیا گیا ہے، ان دونوں میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینار وارثت میں ملے تھے، پس ان میں سے ایک نے اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیا اور اس نے اپنے بھائی سے کسی شے کا مطالبہ کیا تو پھر اس نے کہا جو کہا۔۔۔۔ ؟ اسے ثعلبی اور قشیری نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضور نبی مکرم ﷺ اور اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے والے تمام لوگوں اور کفر کرنے والے تمام لوگوں کی مثال ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ عینیہ بن حصن اور اس کے ساتھیوں کی حضرت سلمان، حضرت صہیب اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مثال کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے وہ دونوں بھائی تھے ان میں سے ایک مومن تھا اور اس کا نام یہوذا تھا ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق ہے۔ اور حضرت مقاتل نے کہا ہے : اس کا نام تملیخا تھا، اور دوسرا کافر تھا اور اس کا نام طوش تھا۔ اور یہی وہ دونوں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے سورة الصافات میں بیان کیا ہے۔ اور اسی طرح محمد بن حسن مقری نے ذکر کیا ہے اور کہا ہے : ان دونوں میں سے جو نیک اور اچھا تھا اس کا نام تملیخا، اور دوسرے کا نام قرطوش تھا، اور یہ دونوں شریک تھے پھر انہوں نے مال تقسیم کرلیا تو ہر ایک حصہ میں تین ہزار دینا آئے، پس ان میں سے مومن نے ایک ہزار کے غلام خریدے اور انہیں آزاد کردیا، اور دوسرے ہزار کے عوض کپڑے خریدے اور ننگوں کو پہنا دئیے۔ اور تیسرے ہزار کے عوض طعام خریدا اور بھوکوں کو کھلا دیا، اور مساجد بھی بنائیں اور نیکی اور خیر کا عمل کیا۔ اور رہا دوسرا تو اس نے اپنے مال کے عوض خوشحال اور مالدار عورتوں سے نکاح کیا اور چوپائے اور گائیں وغیرہ خیریدیں اور ان سے ان کے بچے حاصل کئے تو اس طرح ان میں اس کے لئے خوب اضافہ ہوگیا، اور باقی ماندہ مال کے ساتھ اس نے تجارت کی اور اس سے نفع حاصل کیا یہاں تک کہ مال و دولت میں اپنے ہمعصروں سے سبقت لے گیا۔ اور پہلے آدمی کو کوئی حاجت پیش آگئی، تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو کسی باغ میں خدمت کیلئے خدمت پر دے دے کہ وہ اس کی خدمت کرتا رہے گا۔ تو اس نے کہا : اگر میں اپنے شریک اور اپنے ساتھی کے پاس جاؤں اور اس سے پوچھوں کہ وہ مجھے اپنے کسی باغ میں خدمت کیلئے اجرت پر رکھ لے تو مجھے امید ہے کہ وہ میرے لئے زیادہ نفع بخش اور مفید ہوگا، چناچہ وہ اس کے پاس آیا تو موٹے پردوں اور رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اس تک نہ پہنچ سکا، لیکن جب وہ اس پر داخل ہوا اور اسے پہچانا اور اپنی حاجت اور ضرورت کا اس کے سامنے ذکر کیا تو اس نے اسے کہا : کیا میں نے تجھے مال نصف نصف کرکے دے نہیں دیا تھا، تو تو نے اپنے مال کے ساتھ کیا کیا ؟ اس نے کہا : میں نے اس کے عوض اللہ تعالیٰ سے وہ کچھ خرید لیا ہے جو اس سے بہتر اور اچھا ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ تو اس نے کہا : کیا تو یقینی تصدیق کرنے والوں میں سے ہے، میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور میں تجھے تو فقط احمق اور بیوقوف دیکھ رہا ہوں، اور میرے پاس تیری سفاہت اور بےوقوفی کی جزا سوائے محرومی اور پشیمانی کے اور کچھ نہیں، کیا تو دیکھتا نہیں جو کام میں نے اپنے مال کے ساتھ کیا یہاں تک کہ میں اس خوشحالی اور دولتمندی تک پہنچ گیا ہوں جو تو دیکھ رہا ہے، اور یہ اس لئے ہے کہ میں نے کمایا اور تو نے بےوقوفی کی تو میرے پاس سے نکل جا۔ پھر اس غنا اور دولتمندی کے قصہ میں سے وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے کہ پھل کا احاطہ کیا اور اسے بالکل تباہ کردیا اس عذاب کے ساتھ جو آسمان سے اس پر بھیجا گیا۔ اور ثعلبی نے یہ قصہ دوسرے لفظوں میں ذکر کیا ہے، اور معنوی اعتبار سے یہ دونوں قریب قریب ہیں۔ حضرت عطا نے بیان کیا ہے : وہ دونوں شریک تھے اور ان کے آٹھ ہزار دینار تھے۔ اور کہا گیا ہے : وہ دونوں اپنے باپ کی طرف سے اس کے وارث بنے تھے اور وہ دونوں بھائی تھے اور انہوں نے اسے تقسیم کرلیا، تو ان میں سے ایک نے ایک ہزار کے بدلے زمین خریدلی، تو اس کے ساتھ نے کہا : اے اللہ ! بیشک فلاں نے ایک ہزار دینار کے عوض زمین خریدی ہے اور میں تجھ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت میں زمین خریدتا ہوں پس اس نے وہ صدقہ کر دئیے، پھر اس نے ایک عورت کے ساتھ شادی کی اور اس پر ایک ہزار دینار خرچ کئے، تو اسنے کہا : اے اللہ ! بیشک فلاں نے ایک ہزار دینار کے عوض ایک عورت سے شادی کی ہے اور میں تجھ سے ایک ہزار کے عوض جنت کی عورتوں کا رشتہ طلب کرت اہوں، اور پھر ایک ہزار دینار صدقہ کر دئیے، پھر اس نے ایک ہزار دینار کے بدلے خدام اور سازو سامان خریدا ہے، اور میں تجھ سے ایک ہزار دینار کے عوض جنت کا سازوسامان اور خادم خریدتا ہوں، چناچہ ایک ہزار دینار صدقہ کر دئیے۔ پھر اسے کوئی شدید حاجت پیش آگئی تو اس نے اسے سارے واقعہ کی خبر دی تو اس نے کہا : بلاشبہ تو تصدیق کرنے والوں میں سے ہے اس بات کے بارے، قسم بخداً میں تجھے کوئی شے نہ دوں گا۔ پھر اس نے اسے کہا : تو آسمان والے خدا کی عبادت کرتا ہے، اور میں صرف بت کی پرستش کرتا ہوں، تو اس کے ساتھ نے کہا : قسم بخدا ! میں یقیناً اسے نصیحت کروں گا، پس اس نے وعظ و نصیحت کی، اور اسے یاد دلایا اور اسے خوفزدہ کیا۔ تو اس نے کہا : ہمارے ساتھ چل ہم مچھلی کا شکار کریں گے۔ پس جس نے زیادہ پکڑ لیں تو وہ حق پر ہوگا، تو اس نے اسے کہا : اے میرے بھائی ! بیشک دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت حقیر ہے اس سے کہ وہ اسے نیکی اور احسان کرنے والے کے لئے اجر وثواب بنائے یا کافر کے لئے سزا۔ اس نے کہا : تو میں اس کے ساتھ نکلنے کو ناپسند کرتا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے دونوں کو ابتلا میں ڈال دیا، پس کافر اپنا جال پھینکتا ہے اور ساتھ اپنے بت کا نام لیتا ہے۔ تو اس میں اچھلتی کودتی مچھلیاں آجاتی ہیں، اور مومن اپنا جال پھینکتا ہے اور اس پر وہ اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو اس کیلئے اس میں کوئی شے نہیں آتی، تو اس نے اس کو کہا : تو دیکھ رہا ہے ! میں دنیا میں اپنے حصہ، مرتبہ اور افرادی قوت کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ ہوں، اسی طرح میں آخرت میں بھی تجھ سے افضل ہوں گا۔ اگر جو تو کہہ رہا ہے تیرے خیال کے مطابق وہ حق ہے، پس وہ فرشتہ جو ان دونوں کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا اس نے شور مچایا، پس اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اسے پکڑ لے اور اسے جنتوں کی طرف لے جائے اور اس میں اسے مومن کے مراتب اور گھر دکھائے پس جب اس نے دیکھا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تیار کیا ہے تو اس نے کہا : تیری عزت کی قسم ! اسے کوئی نقصان نہیں دے گا جو کچھ اس نے دنیا میں پالیا ہے اس کے بعد کہ اس کا انجام اور ٹھکانہ یہ ہے، اور اس نے اسے جہنم میں کافر کی منازل بھی دکھائیں تو اس نے کہا : تیری عزت کی قسم ! اسے کوئی نفع نہیں دے گا جو کچھ دنیا میں اسے حاصل ہوا ہے اس کے بعد کہ اس کا ٹھکانہ یہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مومن کو موت دے دی اور کافر کو اپنے عذاب کے ساتھ ہلاک کردیا، پس جب مومن نے جنت میں اقامت اور ٹھکانا حاصل کرلیا اور وہ کچھ دیکھا جو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے تیار کیا تھا تو وہ اس کے ساتھی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔ بس فرمایا : ان کان لی قرین۔ یقول ائنک لمن المصدقین۔ الآیہ۔ (الصافات) (کہ میرا ایک جگری دوست ہوا کرتا تھا وہ (مجھے) کہا کرتا تھا کہ کیا تو (قیامت پر) ایمان لانے والوں سے ہے) ۔ تو ایک ندادینے والے نے ندادی : اے اہل جنت ! کیا تم جھانک رہے ہو پس وہ جہنم کی طرف جھانکا اور اسے سواء الجحیم میں دیکھ لیا، پس یہ آیت نازل ہوئی : واضرب لھم مثلا الآیہ (اور بیان فرمائیے ان کے لئے مثال) ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دو بھائیوں کا حال اس سورت میں بیان کیا، اور آخرت میں دو کا حال سورة الصافات میں اپنے اس قول میں بیان کیا : انی کان لی۔۔۔۔۔۔ المصدقین۔۔۔۔۔ تا قولہ۔۔۔ فلیعمل العملون۔ (الصافات) ابن عطیہ نے کہا ہے : اور ابراہیم بن قاسم الکاتب نے اپنی کتاب فی عجائب البلاد میں ذکر کیا ہے کہ بحیرہ تنیس یہ دو باغ تھے، اور یہ دو بھائیوں کے تھے تو ان میں سے ایک نے اپنا حصہ دوسرے کو بیچ دیا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اسے خرچ کردیا یہاں تک کہ دوسرے نے اسے عار دلائی، اور ان دونوں کے درمیان گفتگو چلتی رہی تو اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں اسے غرق اور تباہ کردیا، اور وہی اس آیت سے مراد لیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے : بیشک یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے بیان فرمائی ہے، یہ کسی سابقہ حالت کی خبر نہیں ہے، اور اسے زجرو توبیخ اور ڈراوا بنایا ہے ؛ اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے، لیکن سیاق آیت اس کے خلاف پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ : وحفضھما بنخل یعنی ہم نے ان دونوں کو اطراف سے کھجور کے درختوں کے ساتھ گھیر دیا ہے اور الحفاف کا معنی طرف اور جانب ہے۔ اور اس کی جمع أحفۃ ہے ؛ اور کہا جاتا ہے : حف القوم بفلان یحفون حفا، یعنی انہوں نے اسے گھیر لیا۔ اور اسی سے حآفین من حول العرش (الزمر :
75
) (حلقہ باندھے کھڑے ہوں گے عرش کے اردگرد) ہے۔ وجعلنا بینھما زرعا یعنی ہم نے انگوروں کے اردگرد کھجور کے درخت اگا دئیے، اور انگوروں کے درمیان میں کھیتی اگادی۔ کلما الجنتین یعنی دونوں باغوں میں سے ہر ایک اتت اکلھا مکمل پھل لایا، اسی لئے آتتا نہیں کہا۔ اور لفظ کلتا اور کلا میں اختلاف ہے کیا یہ مفرد ہیں یا تثنیہ ؟ پس اہل بصرہ نے کہا ہے : یہ مفرد ہیں، کیونکہ کلا اور کلتا دونوں تثنیہ کی تاکید کے لئے ہیں جیسا کہ جمع میں تاکید کے لئے کل ہے اور یہ اسم مفرد ہے تثنیہ نہیں ہے، پس جب اس کے بعد اسم ظاہر ہو تو حالت رفعی، نصبی اور جری میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے۔ تو کہتا ہے : رأیت کلا الرجلین وجاء فی کلا الرجلین اور مررت بکلا الرجلین اور جب اس کے ساتح ضمیر متصل ہو تو حالت نصبی اور جری میں الف کو یا سے بدل دیا جاتا ہے، جیسے تو کہتا ہے : رأیت کلیھما اور مررت بکلیھما، جیسے تو علیھما کہتا ہے۔ اور فراء نے کہا ہے : یہ اسم تثنیہ ہے، اور یہ کل سے ماخوذ ہے پس لام کو مخفف کیا گیا اور الف تثنیہ کا اضافہ کردیا گیا۔ اور اسی طرح کلتا مونث کیلئے آتا ہے، اور یہ دونوں استعمال نہیں ہوتے مگر مضاف کر اور واحد کے ساتھ کلام نہیں کی جاتی، اور اگر اس کے ساتھ کلام کی جائے تو کہا جائے گا : کل وکلت اور کلان وکلتان۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا گیا ہے : فی کلت رجلیھا سلامی واحدہ کلتاھما مقرونۃ بزائدہ اس میں شاعر نے اس کے دو پاؤں میں سے ایک کا ارادہ کیا ہے پس اسے مفرد ذکر کیا ہے۔ اور اہل بصرہ کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ اگر یہ تثنیہ ہوتا تو پھر یہ واجب تھا کہ اس کا الف حالت نصبی اور جری میں اسم ظاہر کے ساتھ یا ہوجاتا، اور اس لئے بھی کہ کلا کا معنی کل کے معنی کے خلاف ہے کیونکہ کل احاطہ کے لئے آتا ہے اور کلا مخصوص شے پر دلالت کرت ا ہے، اور رہا یہ شاعر تو اس نے ضرورت شعری کے تحت الف کا حذف کردیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ زائدہ ہے، اور جو چیز ضرورت کے تحت ہوتی ہے اس کو حجت بنانا جائز نہیں ہوتا، پس یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اسم مفرد ہے جیسا کہ کمعی مگر اسے وضع کیا گیا ہے کہ یہ تثنیہ پر دلالت کرے، جیسا کہ ان کا قول نحن اسم مفرد ہے لیکن دو اور اس سے زیادہ پر دلالت کرتا ہے۔ اس پر جریر کا قول دلالت کرتا ہے کلا یومی أمامۃ یوم صد وإن لم نأتھا إلا لماھا پس کلا سے مفرد یوم کی خبر دی گئی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول : آتت کے ساتھ مفرد کی خبر دی ہے اور اگر تثنیہ ہوتا تو کہتا آتتا، ویوما اور کلتا کے الف کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ پس سیبویہ نے کہا ہے : کلتا کا الف تانیث کے لئے ہے اور تافعل کے لام کلمہ کا بدل ہے اور وہ واو ہے اور یہ اصل میں کلوا ہے، بیشک واؤ کو تا سے بدل دیا گیا ہے کیونکہ تا میں تانیث کی علامت ہے، اور کلتا میں الف مضمر کے ساتھ ملنے سے یا ہوجاتا ہے پس وہ تانیث کی علامت سے نکل جاتا ہے، پس واؤ کو تا سے بدلنے میں تانیث کے لئے تاکید ہوگئی، اور ابو عمرو الجرمی نے کہا ہے : اس میں تا ملحق ہے اور الف لام الفعل ہے، اور ان کے نزدیک اس کی تقدیر فعتل ہے، اگر معاملہ اس طرح ہو جیسے انہوں نے گمان کیا ہے تو پھر وہ اس کی نسبت میں کلتوی کہتے، اور جب انہوں نے کلوی کہا اور تا کو ساقط کردیا تو یہ اس پر دلیل ہے کہ انہوں نے اسے اس تا کے قائم معام قرار دیا ہے جو أخت میں ہے جب تو اس کی طرف نسبت کرتا ہے تو کہتا ہے أخوی، اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ ابو جعفر نحاس نے کہا ہے : اور نحویوں نے قرآن کے علاوہ میں معنی پر محمول کرتے ہوئے اس کی اجازت دی ہے کہ تو کہے : کلتا الجنتین آتتا اکلھما، کیونکہ معنی مختار کلتا ھما آتتا ہے۔ اور فراء نے کلتا الجنتین آتی اکلہ کہنا بھی جائز قرار دیا ہے، انہوں نے کہا ہے : کیونکہ اس کا معنی کل الجنتین (دو باغوں میں سے ہر ایک) ہے۔ اور کہا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرأت میں کل الجنتین آتی أکلہ ہے۔ (دو باغوں میں سے ہر ایک اپنا پھل لایا) اس بنا پر فراء کے نزدیک اس کا معنی ہے : کل شئ من الجنتین آتی أکلہ۔ (دو باغوں میں سے ہر شے اپنا پھل لائی) اور الأکل (ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ) سے مراد کھجور کے درخت اور دیگر درختوں کا پھل ہے۔ اور ہر وہ شے جو کھائی جاتی ہے وہی أکل ہے، اور اسی معنی میں یہ قول باری تعالیٰ ہے : أکلھا دائم (جنت کے پھل دائمی ہیں) یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ ولم تظلم منہ شیئا یعنی اس سے کوئی چیز کم نہیں ہوئی۔ قولہ تعالیٰ : وفجرنا خللہا نھرا یعنی ہم نے دونوں باغوں کے درمیان کو شق کیا اور نہر جاری کردی وکان لہ ثمر ابو جعفر، شیبہ، عاصم، یعقوب اور ابن ابی اسحاق نے ثمرثا اور میم کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : واحیط بثمرہ یہ ثمرۃ کی جمع ہے۔ جوہری نے کہا ہے : الثمرۃ، الثمر اور الثمرات کی واحد ہے، اور الثمر کی جمع ثمار ہے جیسا کہ جبل کی جمع جبال ہے۔ فراء نے کہا ہے : ثمار کی جمع ثمر ہے ؛ جیسا کہ کتاب کی جمع کتب ہے، اور الثمر کی جمع أثمار ہے مثلاً عنق کی جمع اعناق ہے۔ اور الثمر سے مراد المال الثمر (نفع بخش مال) بھی ہے اس میں میم مخفف اور مستقل دونوں طرح ہے۔ اور ابو عمر و نے کان لہ ثمرثا کو ضمہ اور میم کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اور اس کی تفسیر انواع المال (طرح طرح کا مال) کی ہے۔ اور باقیوں نے دونوں حرفوں کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : مراد سونا، چاندی اور دیگر اموال ہیں، سورة الانعام میں اس کا مفصل بیان گزر چکا ہے۔ اور بحاس نے ذکر کیا ہے : احمد بن شعیب نے ہمیں بیان کیا ہے انہوں نے کہا ہمیں عمران بن بکار نے خبر دیا ہے انہوں نے کہا ہمیں ابراہیم بن علاء زبیری نے بیان کیا ہے انہوں نے کہا ہمیں شعیب بن اسحاق نے بیان کیا ہے انہوں نے کہا (ہمیں خبر دی ہے) ہارون نے انہوں نے کہا مجھے أبان نے ثعلب سے انہوں نے اعمش سے بیان کیا ہے کہ حجاج نے کہا ہے : اگر تو کسی کو وکان لہ ثمر پڑھتے ہوئے سنے تو تو اس کی زبان کاٹ دے، تو میں اعمش کو کہا : کیا تو اسے پکڑ سکتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں ولا نعمۃ عین (اور آنکھ جیسی کوئی نعمت نہیں ہے) اور وہ ثمر پڑھتے تھے اور اسے الثمر کی جمع بناتے تھے۔ نحاس نے کہا ہے : پس اس قول کی بنا پر تقدیر یہ ہے کہ یہ ثمرۃ کی جمع ثمار ہے، اور پھر ثمار کی جمع ثمر ہے اور عربی میں یہی احسن ہے مگر پہلا قول زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ واللہ اعلم کیونکہ قول باری تعالیٰ : کلتا الجنتین اتت اکلھا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ اس کا پھل ہے۔ قولہ تعالیٰ : فقال لصاحبہ وھو یجاورہ یعنی وہ اس کے ساتھ کلام میں سوال و جواب کرنے لگا۔ (بحث و مباحثہ کرنے لگا) اور المحاورۃ بمعنی المجاوبۃ (ایک دوسرے کو جواب دینا) ہے اور التحاور بمعنی التجاوب (باہم گفتگو کرنا) ہے، اور کہا جاتا ہے : کلمتہ فما أحار إلی جوابا، وما زجع ألی حویرا ولا حویرۃ ولا محورۃ ولا حوارا ؛ یعنی میں نے اس کے ساتھ کلام کی اور اس نے کوئی جواب نہ لوٹایا۔ ان اکثر منک مالا واعذ نفرا، المنفر سے مراد وہ جماعت ہے جو دس سے کم ہو۔ اور یہاں اس سے مراد اتباع کرنے والے خفام اور بچے ہیں، جیسا کہ اس کا بیان پہلے گزفر چکا ہے۔
Top