Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
(آیت نمبر (32: اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے کہ ان کے سامنے دو آدمیوں کی مثال بیان کردیجیے ایک وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے دوسرا وہ جو ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا ناشکر گزار ہے اور ان دونوں سے جس قسم کے اقوال و افعال صادر ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر انہیں جو دنیاوی اور اخروی عذاب اور ثواب حاصل ہوگا ‘ تاکہ یہ لوگ ان دونوں کے احوال سے عبرت حاصل کریں اور انہیں جو عذاب یا ثواب حاصل ہوا اس سے نصیحت پکڑیں۔ ان دونوں آدمیوں کی متعین طور پر معرفت حاصل کرنے اور یہ معلوم کرنے میں کہ وہ کس زمانے اور کون سی جگہ کے لوگ ہیں ؟ کوئی فائدہ نہیں۔ فائدہ اور نتیجہ صرف ان کے واقعہ کو بیان کرنے میں ہے۔ ان کے قصہ کے علاوہ دیگر امور میں تعرض کرنا محض تکلف ہے۔ پس ان دونوں میں سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا سپاسی کرنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ نے دو باغ عطا کیے ‘ یعنی انگوروں کے دو خوبصورت باغ ( وحففنھما بنخل) ” اور ان دونوں کے گرد کھجوروں کے درخت تھے “ یعنی ان باغات میں ہر قسم کے پھل تھے خاص طور پر انگور اور کھجور کے درخت جو سب سے افضل درخت ہیں۔ باغ کے وسط میں انگور کی بیلیں تھیں کھجور کے درختوں نے اس کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اس طرح وہ بہت خوبصورت نظر آتا تھا انگور کی بیلوں اور کھجور کے درختوں کو بکثرت ہوا اور سورج کی وافر روشنی حاصل ہوتی تھی ‘ ہوا اور روشنی پھل کی تکمیل اور اس کے پکنے کے لیے بہت ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ درختوں کے درمیان کھیتی کاشت کی ہوئی تھی۔ پس ان کے لیے اس کے سوا کچھ باقی نہ تھا کہ ان سے کہا جاتا کہ ان دونوں باغوں کے پھل کیسے ہیں ؟ کیا ان کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی موجود ہے ؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ دونوں باغوں میں سے ہر باغ کا پھل اور اس کی فصل کئی گنا ہوتی تھی ( ولم تظلم منہ شیئا) ” اور وہ نہیں گھٹاتے تھے اس میں سے کچھ “ یعنی پھل لانے میں تھوڑی سی بھی کسر نہ چھوڑی اور اس کے ساتھ ساتھ دریا پانی سے لبریز اس کے چاروں جانب بہہ رہے تھے۔ (وکان لہ ثمر) اور اس شخص کا باغ بہت پھل لایا تھا جیسا کہ لفظ ( ثمر) کے نکرہ ہونے سے مستفاد ہوتا ہے۔ اس کے باغوں کا پھل پوری طرح پک گیا تھا ان کے درخت پھل کے بوجھ سے جھک رہے تھے۔ ان پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پس یہ کھیتی باڑی کے ہلو سے دنیا کی زیب وزینت کی انتہاے ‘ اس وجہ سے وہ شخص دھوکے میں پڑگیا ‘ تکبر کرنے اور اترانے لگا اور اپنی آخرت کو فراموش کر بیٹھا۔
Top