Maarif-ul-Quran - Yaseen : 27
بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُكْرَمِیْنَ
بِمَا : اس بات کو غَفَرَ لِيْ : اس نے بخش دیا مجھے رَبِّيْ : میرا رب وَجَعَلَنِيْ : اور اس نے کیا مجھے مِنَ : سے الْمُكْرَمِيْنَ : نوازے ہوئے لوگ
کہ بخشا مجھ کو میرے رب نے اور کیا مجھ کو عزت والوں میں
یلیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی و جعلنی من المکرمین۔
یہ بزرگ چونکہ بڑی بہادری کے ساتھ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، حق تعالیٰ نے ان کے ساتھ خاص اکرام و اعزاز کا معاملہ فرمایا اور جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ اس نے انعام و اکرام اور جنت کی نعمتوں کا مشاہدہ کیا، تو پھر اپنی قوم یاد آئی، اور تمنا کی کہ کاش میری قوم کو میرا حال معلوم ہوجاتا کہ رسولوں پر ایمان لانے کی جزاء میں مجھے اعزازو اکرام اور دائمی نعمتیں کیسے ملیں، تو شاید ان کو بھی ایمان کی توفیق ہوجاتی۔ اس تمنا کا اظہار مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے۔
پیغمبرانہ دعوت و اصلاح کا طریقہ مبلغین اسلام کے لئے اہم ہدایت
اس بستی کی طرف جو تین رسول بھیجے گئے، انہوں نے مشرکین و کفار سے جس طرح خطاب کیا اور ان کی سخت و تلخ باتوں اور دھمکیوں کا جس طرح جواب دیا اسی طرح ان کی دعوت سے مسلمان ہونے والے حبیب نجار نے اپنی قوم سے جس طرح خطاب کیا ان سب چیزوں کو ذرا مکرر دیکھئے، تو اس میں تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی خدمت انجام دینے والوں کے بڑے بڑے سبق ہیں۔
ان رسولوں کی ناصحانہ تبلیغ و تلقین کے جواب میں مشرکین نے تین باتیں کہیں۔
(1) تم تو ہمیں جیسے انسان ہو ہم تمہاری بات کیوں مانیں ؟
(2) اللہ رحمن نے کسی پر کوئی پیغام اور کوئی کتاب نہیں اتاری ؟
(3) تم خالص جھوٹ بولتے ہو۔
آپ غور کیجئے کہ بےغرض ناصحانہ کلام کے جواب میں یہ اشتعال انگیز گفتگو کیا جواب چاہتی تھی، مگر ان رسولوں نے کیا جواب دیا۔ صرف یہ کہ (آیت) ربنا یعلم انا الیکم لمرسلون یعنی ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں، اور (آیت) ما علینا الا البلغ المبین، یعنی ہمارا جو کام تھا وہ کرچکے کہ تمہیں اللہ کا پیغام واضح کر کے پہنچا دیا، آگے تمہیں اختیار ہے، مانو یا نہ مانو۔ دیکھئے ان کے کسی لفظ میں کیا ان کی اشتعال انگیزی کا کوئی تاثر ہے ؟ کیسا مشفقانہ جواب دیا۔
پھر ان لوگوں نے اور آگے بڑھ کر کہا کہ تم لوگ منحوس ہو، تمہاری وجہ سے ہم مصیبت میں پڑگئے۔ اس کا متعین جواب یہ تھا کہ منحوس تم خود ہو، تمہارے اعمال کی شامت تمہارے گلے میں آ رہی ہے، مگر ان رسولوں نے اس بات کو ایسے مجمل الفاظ میں ادا کیا جس میں ان کے منحوس ہونے کی تصریح نہیں فرمائی، بلکہ یہ فرمایا (آیت) طائرکم معکم یعنی تمہاری بدفالی تمہارے ساتھ ہے۔ اور پھر وہی مشفقانہ خطاب کیا، (آیت) ائن ذکرتم یعنی تم یہ تو سوچو کہ ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے، ہم نے تو صرف تمہیں خیر خواہانہ نصیحت کی ہے، بس سب سے بھاری جملہ جو بولا تو یہ کہ (آیت) بل انتم قوم مسرفون ”یعنی تم لوگ حدود سے تجاوز کرنے والے ہو“ بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہو۔
یہ تو ان رسولوں کا مکالمہ تھا، اب وہ مکالمہ دیکھئے جو ان رسولوں کی دعوت پر ایمان لانے والے نو مسلم نے کیا۔ اس نے پہلے تو اپنی قوم کو دو باتیں بتا کر رسولوں کی بات ماننے کی دعوت دی۔ اول یہ کہ ذرا یہ تو سوچو کہ یہ لوگ دور سے چل کر تمہیں نصیحت کرنے آئے ہیں، سفر کی تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم سے کچھ مانگتے نہیں، یہ بات خود انسان کو غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ یہ بےغرض لوگ ہیں ان کی بات میں غور تو کرلیں۔ دوسرے یہ کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں وہ سرا سر عقل و انصاف اور ہدایت کی بات ہے۔ اس کے بعد قوم کو ان کی غلطی اور گمراہی پر متنبہ کرتا تھا کہ اپنے پیدا کرنے والے قادر مطلق کو چھوڑ کر تم لوگ خود تراشیدہ بتوں کو اپنا حاجت روا سمجھ بیٹھے ہو، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ نہ وہ خود تمہارا کوئی کام بنا سکتے ہیں اور نہ اللہ کے یہاں ان کا کوئی مقام اور درجہ ہے کہ اس سے سفارش کر کے تمہارا کام کرا دیں۔
مگر حبیب نجار نے یہ ساری باتیں ان کی طرف منسوب کرنے کے بجائے اپنی طرف منسوب کرنے کا عنوان اختیار کیا کہ میں ایسا کروں تو بڑی گمراہی کی بات ہوگی۔ (آیت) ومالی لا اعبد الذی فطرنی الآیة۔ یہ سب اس لئے کہ مخالف کو اشتعال نہ ہو، بات میں ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ پھر جب اس کی قوم نے اس کی شفقت و رحمت کا بھی کچھ اثر نہ لیا، اور ان کو قتل کرنے کے لئے ان پر پل پڑی تو اس وقت بھی ان کی زبان پر کوئی بد دعا کا کلمہ نہ آیا بلکہ یہی کہتے ہوئے جان دے دی کہ رب اھد قومی ”یعنی میرے پروردگار میری قوم کو ہدایت فرما دے“ اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ قوم کے اس ظلم وستم سے شہید ہونے والے کو جب اللہ کی طرف سے انعام و اکرام اور جنت کی نعمتوں کا مشاہدہ ہوا تو اس وقت بھی اپنی یہی ظالم قوم یاد آئی، اور اس کی خیر خواہی و ہمدردی سے یہ تمنا کی کہ کاش میری قوم میرے حالات انعام و اکرام سے واقف ہوجاتی، تو شاید وہ بھی اپنی گمراہی سے باز آ کر ان نعمتوں کی شریک بن جاتی۔ سبحان اللہ خلق اللہ کی خیر خواہی ان کے مظالم کے باوجود کس طرح ان حضرات کی رگ وپے میں پیوست ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے قوموں کی کایا پلٹی ہے، کفر و ضلالت سے نکال کر وہ مقام بخشا ہے کہ فرشتے بھی ان پر رشک کرتے ہیں۔
آج کل کے مبلغین اور خدمت دعوت و اصلاح کے انجام دینے والوں نے عموماً اس پیغمبرانہ اسوہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے ان کی دعوت و تبلیغ بےاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ تقریر و خطاب میں غصہ کا اظہار، مخالف پر فقرے چست کرنا بڑا کمال سمجھا جاتا ہے، جو مخالف کو اور زیادہ ضد وعناد کی طرف دھکیل دیتا ہے، اللہم اجعلنا متبعین لسنن انبیاء ک و رفقنا لما تحب و ترضاہ۔
Top