Maarif-ul-Quran - Yaseen : 35
لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ١ۙ وَ مَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ١ؕ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ
لِيَاْكُلُوْا : تاکہ وہ کھائیں مِنْ ثَمَرِهٖ ۙ : اس کے پھلوں سے وَمَا : اور نہیں عَمِلَتْهُ : بنایا اسے اَيْدِيْهِمْ ۭ : ان کے ہاتھوں اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ : تو کیا وہ شکر نہ کریں گے
کہ کھائیں اس کے میووں سے اور اس کو بنایا نہیں ان کے ہاتھوں نے پھر کیوں شکر نہیں کرتے
پہلی آیت میں زمین کی ایک مثال پیش فرمائی ہے جو ہر وقت ہر انسان کے سامنے ہے کہ خشک زمین پر آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین میں ایک قسم کی زندگی پیدا ہوتی ہے جس کے آثار اس میں پیدا ہونے والی نباتات اور اشجار اور ان کے ثمرات سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اور ان درختوں کے بڑھانے اور باقی رکھنے کے لئے زیر زمین اور سطح زمین پر چشموں کا جاری کرنا ذکر فرمایالیاکلوا من ثمرہ، یعنی ہواؤں بادلوں اور زمین کی ساری قوتوں کو کام میں لگانے کا منشاء یہ ہے کہ لوگ ان کے پھل کھائیں۔ یہ سب چیزیں تو آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں، جو ہر انسان دیکھنا جانتا ہے آگے انسان کو اس چیز پر متنبہ کیا گیا جس کے لئے یہ سارا کارخانہ قائم کیا گیا۔ فرمایا
نباتات کی پیداوار میں انسان کے عمل کا دخل نہیں
وما عملتہ ایدیہم، جمہور مفسرین نے اس میں حرف ما کو نفی کے لئے قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے کہ نہیں بنایا ان پھلوں کو ان لوگوں کے ہاتھوں نے۔ اس جملے نے غافل انسان کو اس پر متنبہ کیا ہے کہ ذرا اپنے کام اور محنت میں غور کر کہ تیرا کام اس باغ و بہار میں اس کے سوا کیا ہے کہ تو نے زمین میں بیج ڈال دیا۔ اس پر پانی ڈال دیا، زمین کو نرم کردیا کہ نازک کونپل نکلنے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو، مگر اس بیج میں سے درخت اگانا، درخت پر پتے اور شاخیں نکالنا پھر اس پر طرح طرح کے پھل پیدا کرنا ان سب چیزوں میں تیرا کیا دخل ہے۔
یہ تو خالص قادر مطلق حکیم ودانا ہی کا فعل ہوسکتا ہے۔ اس لئے تیرا فرض ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے خالق ومالک کو فراموش نہ کرے۔ اسی کی نظیر سورة واقعہ کی آیت ہے(آیت) افرءیتم ما تحرثون ءانتم تزرعونہ ام نحن الزارعون، یعنی دیکھو تو جو چیز تم بوتے ہو اس کو نشو و نما دے کر درخت تم نے بنایا ہے یا ہم نے ؟ خلاصہ یہ ہوا کہ اگرچہ ان پھلوں کے بنانے میں انسان کا کوئی دخل نہیں، مگر ہم نے اپنے فضل سے ان کو پیدا بھی کیا اور انسان کو ان کا مالک بھی بنادیا اور اس کو اس کے کھانے اور فائدہ اٹھانے کا سلیقہ بھی سکھا دیا۔
انسانی غذا اور حیوانات کی غذا میں خاص فرق
اور ابن جریر وغیرہ بعض مفسرین نے وما عملتہ میں لفظ ما کو نفی کے لئے نہیں بلکہ اسم موصول بمعنے الذی قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے کہ یہ سب چیزیں اس لئے پیدا کی ہیں کہ لوگ ان کے پھل کھاویں، اور ان چیزوں کو بھی کھاویں جو ان نباتات اور پھلوں سے خود انسان اپنے ہاتھوں کے کسب و عمل سے تیار کرتا ہے، مثلاً پھلوں سے طرح طرح کے حلوے، اچار، چٹنی تیار کرنا اور بعض پھلوں سے تیل وغیرہ نکالنا جو انسانی کسب و عمل کا نتیجہ ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ پھل جو قدرت نے بنائے ہیں بغیر کسی کسب و عمل اور انسانی تصرف کے بھی کھانے کے قابل بنائے گئے ہیں، اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ سلیقہ بھی دیا ہے کہ ایک ایک پھل سے طرح طرح کی خوش ذائقہ اور مفید چیزیں تیار کرلے۔
اس صورت میں پھلوں کا پیدا کرنا اور انسان کو اس کا سلیقہ دینا کہ ایک پھل کو دوسری چیزوں سے مرکب کر کے طرح طرح کی اشیاء خوردنی خوش ذائقہ اور مفید تیار کرلے، یہ دوسری نعمت ہے۔ ابن کثیر نے ابن جریر کی اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ اس تفسیر کی تائید حضرت عبداللہ ابن مسعود کی قرات سے بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کی قرات میں لفظ ما کے بجائے مما آیا ہے یعنی (آیت) مما عملتہ ایدیہم۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ دنیا کے تمام حیوانات بھی نباتات اور پھل کھاتے ہیں، کچھ جانور گوشت کھاتے ہیں کچھ مٹی کھاتے ہیں، لیکن ان سب جانوروں کی خوراک مفردات ہی سے ہے۔ گھاس کھانے والا خالص گھاس، گوشت کھانے والا خالص گوشت کھاتا ہے، ان چیزوں کو دوسری چیزوں سے مرکب کر کے طرح طرح کے کھانے تیار کرنا، نمک، مرچ، شکر، ترشی وغیرہ سے مرکب ہو کر ایک کھانے کی دس قسمیں بن جاتی ہیں۔ یہ مرکب خوراک صرف انسان ہی کی ہے اسی کو مختلف چیزوں سے ایک مرکب غذا تیار کرنے کا سلیقہ دیا گیا ہے۔ یہ گوشت کے ساتھ نمک، مرچ، مصالحے اور پھلوں کے ساتھ شکر وغیرہ کا امتزاج انسان کی صنعت کاری ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھا دی ہے۔ قدرت کی ان عظیم الشان نعمتوں اور ان میں قدرت کی صنعت کاری کی بےمثال آیتوں کو ذکر فرمانے کے بعد آخر میں فرمایاافلا یشکرون، کیا یہ عاقل لوگ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد شکر گزار نہیں ہوتے ؟ آگے اس زمینی پیداوار اور آب وہوا کے ذکر کے بعد انسان اور حیوانات کو بھی شامل کر کے قدرت مطلقہ کی ایک اور نشانی سے آگاہ کیا جاتا ہے،
Top