Ashraf-ul-Hawashi - Yaseen : 35
لِیَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖ١ۙ وَ مَا عَمِلَتْهُ اَیْدِیْهِمْ١ؕ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ
لِيَاْكُلُوْا : تاکہ وہ کھائیں مِنْ ثَمَرِهٖ ۙ : اس کے پھلوں سے وَمَا : اور نہیں عَمِلَتْهُ : بنایا اسے اَيْدِيْهِمْ ۭ : ان کے ہاتھوں اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ : تو کیا وہ شکر نہ کریں گے
کہ کھائیں اس کے میووں سے1 اور اس کو بنایا نہیں ان کے ہاتھوں نے پھر کیوں شکر نہیں کرتے2
1  یعنی شاید شبہ گزرتا کہ میرے پیچھے پھر کس طرح زندہ ہو کر حاضر کیے جائیں گے ؟ اس کو یوں سمجھا دیا کہ زمین خشک اور مردہ پڑی ہوتی ہے۔ پھر خدا اس کو زندہ کرتا ہے کہ ایک دم لہلہانے لگتی ہے۔ کیسے کیسے باغ و بہار، غلے اور میوے اس سے پیدا ہوتے ہیں جن کو تم استعمال میں لاتے ہو۔ اسی طرح خیال کرلو کہ مردہ ابدان میں روح حیات پھونک دی جائے گی۔ بہرحال مردہ زمین میں ان کے لیے ایک نشانی ہے جس میں غور کرنے سے بعث بعد الموت اور حق تعالیٰ کی وحدانیت و عظمت اور اس کے انعام و احسان کے مسائل کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں (تنبیہ) اوپر کی آیات میں ترہیب کا پہلو نمایاں تھا کہ عذاب الٰہی سے ڈر کر راہ ہدایت اختیار کریں۔ آیات حاضرہ میں ترغیب کی صورت اختیار فرمائی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کر شکر گزاری کی طرف متوجہ ہوں اور یہ بھی سمجھیں کہ جو خدا مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے وہ ایمانی حیثیت سے ایک مردہ قوم کو زندہ کر دے، یہ کیا مشکل ہے۔ 2  یعنی یہ پھل اور میوے قدرت الٰہی سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں یہ طاقت نہیں کہ ایک انگور یا کھجور کا دانہ پیدا کرلیں۔ جو محنت اور تردد باغ لگانے اور اس کی پرورش کرنے میں کیا جاتا ہے اس کو بار آور کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور غور سے دیکھا جائے تو جو کام بظاہر ان کے ہاتھوں سے ہوتا ہے وہ بھی فی الحقیقت حق تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت و طاقت اور اس کی مشیت و ارادہ سے ہوتا ہے لہذا ہر حیثیت سے اس کی شکر گزاری اور احسان شناسی واجب ہوئی۔ (تنبیہ) مترجم محقق (رح) نے " وما عملتہ ایدیہم " میں " ما " کو نافیہ لیا ہے۔ کما ہو داب اکثر المتاخرین۔ لیکن سلف سے عموماً " ما " کا موصلہ ہونا منقول ہے اور اسی کی تائید ابن مسعود کی قرأت " ومما عملتہ ایدیہم " سے ہوتی ہے۔
Top