Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَعْثَرْنَا : ہم نے خبردار کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر لِيَعْلَمُوْٓا :تا کہ وہ جان لیں اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : قیامت لَا رَيْبَ : کوئی شک نہیں فِيْهَا : اس میں اِذْ : جب يَتَنَازَعُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے بَيْنَهُمْ : آپس میں اَمْرَهُمْ : ان کا معاملہ فَقَالُوا : تو انہوں نے کہا ابْنُوْا : بناؤ عَلَيْهِمْ : ان پر بُنْيَانًا : ایک عمارت رَبُّهُمْ : ان کا رب اَعْلَمُ بِهِمْ : خوب جانتا ہے انہیں قَالَ : کہا الَّذِيْنَ غَلَبُوْا : وہ لوگ جو غالب تھے عَلٰٓي : پر اَمْرِهِمْ : اپنے کام لَنَتَّخِذَنَّ : ہم ضرور بنائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّسْجِدًا : ایک مسجد
اور اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان مطلع کردیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں،31۔ (اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب (اس زمانہ کے لوگ) ان کے معاملہ میں باہم جھگڑ رہے تھے سو ان لوگوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی عمارت بنوا دو ،32۔ ان کا پروردگار ہی (ان کے احوال کو) خوب جانتا تھا، جو لوگ اپنے کام پر غالب (و قادر) تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے پاس ایک معبد بنادیں گے،33۔
31۔ اصحاب کہف کی غازنشینی کو کوئی تین سو سال کی مدت ہوئی تھی کہ دنیائے مسیحیت میں یہ سوال زور شور سے چھڑ گیا کہ عقیدہ نشر وجزائے جسمانی آیا صحیح ہے بھی ؟ وقت کا ایک مشہور پادری تھیوڈر حشر اجساد کا صاف منکر تھا، بحث و مباحثہ کے عین شباب کے زمانہ میں اصحاب کہف اپنی نوم طویل سے جاگے۔ اور ان کے عجیب معاملہ کا علم عوام و خواص سب کو ہوا۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” وکذلک اعثرنا علیھم “۔ یعنی جس طرح ہم نے اپنی خاص قدرت و حکمت سے ان اصحاب کہف کو سلایا اور جگایا تھا۔ اسی طرح اپنی خصوصی حکمت وقدرت سے عام خلقت کو ان کے حال پر مطلع بھی کردیا۔ (آیت) ” لیعلموا ان وعداللہ حق “۔ یعنی تاکہ ان کے معاصرین کو بھی یقین آجائے کہ حق تعالیٰ کا وعدہ حشر ونشر کے باب میں سچا ہے۔ ایک بڑا مانع عقیدہ حشر ونشر کے قبول میں عام ذہنوں میں اس کا استبعاد رہتا ہے۔ واقعہ اصحاب کہف یعنی ان کی طویل نیند اور بیداری سے اہل مادیت کو واقعہ بعث وحشر کی ایک سند ونظیر ہاتھ آجاتی ہے۔ اور ذہن سے استبعاد دور ہوجاتا ہے۔ وہ صاحب جو روپیہ لیکر کھانا خریدنے چلے تھے۔ جب بازار پہنچے تو چونکہ قرنہا قرن کی مدت گذر چکی تھی۔ شہریوں کے وضع لباس زبان، مکانات، سب ہی کی ہیئت بالکل بدل چکی تھی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا۔ اور بادشاہت اب بجائے دشمنان مسیحیت کے خود مسیحیوں کی قائم تھی، وہ صاحب اپنے صدیوں قبل کے لباس ووضع کے باعث یوں ہی تماشہ بنے ہوئے تھے اور جب انہوں نے جیب سے نسلوں قبل کا سکہ نکالا۔ ، جب تو لوگوں کی حیرت اور بدگمانی بدرجہا بڑھ گئی۔ سب نے انہیں گھیر لیا اور انہیں حیران وپریشان ہو کر مجبورا اپنا پتہ بتانا اور اپنی سرگذشت دہرانی پڑی اور کچھ لوگ ان کے بیان کی تصدیق کے لئے آخر ان کے ساتھ غار کے دہانہ تک آئے۔ 32۔ (کہ اس حیرت انگیزوعظیم الشان واقعہ کی یاد گار قائم ہوجائے) (آیت) ” اذ یتنازعون بینھم امرھم “۔ یعنی جب لوگوں میں اس امر پر گفتگو ہورہی تھی کہ ان بزرگوں کی نعشوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے، ہوا یہ کہ جب لوگ ان کی زیارت کو جوق درجوق آنے لگے، اور غار کے دروازہ پر میلہ سا لگنے لگا تو ان حضرات کو وفات دے دی گئی۔ اور اب گفتگو یہ ہونے لگی کہ ان مقدس جسموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ (آیت) ” ابنوا علیھم بنیانا “۔ علیھم سے ان کے غار کے اوپر ان کے غار کے دروازہ پر۔ اے علی باب کھفھم (مدارک) 33۔ (تاکہ اس امر کی علامت قائم رہے کہ یہ لوگ عابد واہل توحید تھے، کوئی انہیں معبود نہ بنا لے) جو غار اصحاب کہف کی جانب منسوب ہے اس کے دہانہ پر ایک مسیحی خانقاہ اب بھی موجود ہے۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” الذین غلبوا علی امرھم “۔ یعنی حکام وقت۔ قال قتادۃ ھم الولاۃ (بحر) قیل المراد بہ الملک المسلم وقیل رؤساء البلد (کبیر) (آیت) ” علیھم “۔ یعنی اس غار کے اوپر غار کے دہانہ پر۔ اے علی باب الکھف (مدارک) (آیت) ” مسجد ا “۔ مسجد یہاں معبد یا پرستش گاہ کے عام معنی میں ہے۔ اسلامی مسجد کے اصطلاحی معنی میں نہیں۔ (آیت) ” لنتخذن علیھم مسجدا “۔ مفسر تھانوی (رح) اور دوسرے فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر کسی زمانہ میں مسجد کے بنانے سے بجائے مصالح کے مفاسد کا ظہور ہونے لگے تو مسجد بنانا جائز نہ رہے گا۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس مسجد سے وہ قصد نہ تھا۔ جو جاہلوں کا قبور کے پاس مسجد بنانے سے ہوتا ہے۔ اس لئے قبر پرستوں کو کوئی حجت ونظیر اس سے نہیں مل سکتی۔
Top