Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 39
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْئًا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِۙ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : اور جن لوگوں نے کفر کیا اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل كَسَرَابٍ : سراب کی طرح بِقِيْعَةٍ : چٹیل میدان میں يَّحْسَبُهُ : گمان کرتا ہے الظَّمْاٰنُ : پیاسا مَآءً : پانی حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَهٗ : جب وہ وہاں آتا ہے لَمْ يَجِدْهُ : اس کو نہیں پاتا شَيْئًا : کچھ بھی وَّ وَجَدَ : اور اس نے پایا اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗ : اپنے پاس فَوَفّٰىهُ : تو اس (اللہ) نے اسے پورا کردیا حِسَابَهٗ : اس کا حساب وَاللّٰهُ : اور اللہ سَرِيْعُ الْحِسَابِ : جلد حساب کرنے والا
جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے میدان میں ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے اور خدا ہی کو اپنے پاس دیکھے تو وہ اسے اس کا حساب پورا پورا چکا دے۔ اور خدا جلد حساب کرنے والا ہے
والذین کفروا اعمالہم کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمان مآء حتی اذا جآء ہ لم یجدہ شیئا اور جو لوگ کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے کسی چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا (آدمی دور سے) اس کو پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچا تو اس کو (اپنے گمان کے موافق) کچھ بھی نہ پایا۔ یعنی کافروں کے اعمال (قیامت کے دن) ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے ‘ کیونکہ وہ سراب کی طرح (بےحقیقت) ہوں گے۔ سراب اس سفید ریت کو کہتے ہیں جو ریگستانی میدان میں دوپہر کے وقت دھوپ میں آب رواں کی طرح دور سے نظر آتی ہے۔ قیعہ اور قاع (مفرد) ہموار میدان اس کی جمع قیعان آتی ہے اور قونع صیغۂ تصغیر ہے۔ بعض کے نزدیک قیعۃٌ اور قاعٌ کی جمع ہے۔ کافر قیامت کے دن سخت ناکام ہوگا اس کو تشبیہ اس پیاسے سے دی جو پانی کا سخت ضرورت مند ہو اور سراب اور سراب کو آب سمجھ کر نامراد ہوجائے۔ اِذَا جَآءَ ہُ یہاں تک کہ اس ریت کے پاس جس کو پانی خیال کیا جاتا ہے پہنچ جائے یا سراب کے مقام پر پہنچ جائے۔ لَمْ یَجِدْہُ شَیْءًا یعنی گمان کے مطابق اس کو کچھ نہ ملے۔ ووجد اللہ عندہ فوفہ حسابہ اور اس کے پاس اللہ (کی قضاء) کو پایا پھر اللہ نے اس کی عمر کا حساب کتاب برابر برابر چکا دیا۔ وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ یعنی اس نے اللہ کا عذاب اپنے پاس پایا اور اللہ نے اس کے اعمال کے مطابق پورا پورا بدلہ دیا۔ ایک شبہ وجد کا فاعل ظمآن ہے (لیکن اس صورت میں مطلب خبط ہوجاتا ہے) پیاسے کا سراب کے پاس اللہ کا عذاب پانا ایک بیکار بات ہے۔ (حقیقی مراد تو یہ ہے کہ قیامت کے دن خدا کے سامنے جا کر کافر اپنی سزا پائے گا لیکن کافر کی طرف وجد کی ضمیر راجع نہیں ہے) ۔ ازالہ میرے نزدیک اس شبہ کے دو جواب ہوسکتے ہیں۔ (1) قیامت کے دن کافر سخت پیاسا ہوگا آگ بصورت آب اس کے سامنے آئے گی وہ آگ کو پانی سمجھے گا اور اس کی طرف دوڑے گا لیکن وہاں اس کو اللہ کا عذاب بصورت آتش ملے گا اور اپنی خیالی مراد نہیں ملے گی۔ (2) عذاب سے مراد (آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ) وہ دکھ اور نامرادی ہے جو سخت پیاسے کو سراب پر پہنچ کر حاصل ہوتی ہے اور اس سارے دکھ کی بنیاد اس کی بداعمالیاں ہوتی ہیں اللہ نے فرمایا ہے تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی کرتوت کے بد لہ میں پہنچتی ہے اور اللہ تمہارے بہت سے جرائم سے درگزر فرماتا ہے (ورنہ پوری بد اعمالیوں کی سزا تو دنیا ہی میں اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہئے) اولیٰ یہ ہے کہ حتیٰ کو ابتدائیہ قرار دیا جائے اور اس کا تعلق اَعْمَالُہُمْ کَسْرَابٍسے مانا جائے اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ کافر جب قیامت کے دن اپنے اعمال پر پہنچے گا اور اس کا کیا کرایا سامنے آئے گا تو وہاں سوائے اللہ کے عذاب کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ‘ اس وقت جَآءَ ہٗمیں جَآءَکی ضمیر کافر کی طرف راجع ہوگی ظمان کی طرف راجع نہ ہوگی اور ہ کی ضمیر مفعول عمل کی طرف لوٹے گی سراب کی طرف نہیں لوٹے گی۔ واللہ سریع الحساب۔ اور اللہ تیزی کے ساتھ حساب لینے والا ہے۔ ایک کے حساب میں مشغولیت اس کو دوسرے کے حساب سے نہیں روکتی۔ اس دنیا کے آدھے دن کے بقدر وقت میں وہ سب بندوں کا حساب لے لے گا۔
Top