Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
لَا تَقْرَبُوا
: نہ نزدیک جاؤ
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
سُكٰرٰى
: نشہ
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَعْلَمُوْا
: سمجھنے لگو
مَا
: جو
تَقُوْلُوْنَ
: تم کہتے ہو
وَلَا
: اور نہ
جُنُبًا
: غسل کی حالت میں
اِلَّا
: سوائے
عَابِرِيْ سَبِيْلٍ
: حالتِ سفر
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَغْتَسِلُوْا
: تم غسل کرلو
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مَّرْضٰٓى
: مریض
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر۔ میں
سَفَرٍ
: سفر
اَوْ جَآءَ
: یا آئے
اَحَدٌ
: کوئی
مِّنْكُمْ
: تم میں
مِّنَ
: سے
الْغَآئِطِ
: جائے حاجت
اَوْ
: یا
لٰمَسْتُمُ
: تم پاس گئے
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَلَمْ تَجِدُوْا
: پھر تم نے نہ پایا
مَآءً
: پانی
فَتَيَمَّمُوْا
: تو تیمم کرو
صَعِيْدًا
: مٹی
طَيِّبًا
: پاک
فَامْسَحُوْا
: مسح کرلو
بِوُجُوْهِكُمْ
: اپنے منہ
وَاَيْدِيْكُمْ
: اور اپنے ہاتھ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَفُوًّا
: معاف کرنیوالا
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کرلو ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور پانی نہ ملنے کے سبب غسل نہ کرسکو تو تیمم کرکے نماز پڑھ لو) اور اگر تم بیمار ہو سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی لو اور منہ اور ہاتھوں پر مسح (کرکے تیمم) کرلو بےشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے
یایہا الذین امنوا . ابوداؤد ‘ حاکم اور ترمذی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول نقل کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن کیا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے ہمارے لئے کھانا تیار کرایا اور ہم کو بلایا اور شراب پلائی۔ یہ واقعہ شراب حرام ہونے سے پہلے کا ہے اور شراب کا نشہ ہم کو اتنا چڑھا اور نماز کا وقت آگیا تو لوگوں نے مجھ کو آگے بڑھایا میں نے پڑھا قُلْ یٰاَیُّہَا الْکَافِرُون اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَآخر تک اسی طرح (بغیر لا کے) پڑھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ حتی تعلموا ما تقولون یہاں تک کہ جو کچھ منہ سے نکال رہے ہو اس کو سمجھ لو۔ نشہ جس حد تک مانع نماز ہے اس کی تعیین اس لفظ سے کردی (یعنی تھوڑا نشہ مانع صلوٰۃ نہیں جب تک نشہ اتنا نہ ہو کہ آدمی یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں نماز پڑھ سکتا) ایک سوال : جب نشہ اس حد تک پہنچ جائے کہ آدمی کو اپنے کہے ہوئے الفاظ کو سمجھنے کا بھی ہوش نہ رہے تو ایسے بےہوش آدمی کو خطاب کرنا ہی درست نہیں ہے پھر اللہ نے نشہ والوں کو اس آیت میں کس طرح مخاطب بنایا۔ جواب : نشہ اترنے کے بعد خطاب کا رخ شراب پینے والوں کی طرف کیا گیا ہے مراد یہ ہے کہ (نماز تو فرض ہے اور اس کا وقت بدلا نہیں جاسکتا لہٰذا) نماز کے اوقات میں تم نشہ آور چیز کے قریب نہ جاؤ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد لوگ نماز کے اوقات میں شراب سے اجتناب رکھتے تھے (دوسرے اوقات میں پیتے تھے) یہاں تک کہ حرمت شراب کا حکم نازل ہوگیا یعنی آیت مائدہ نازل ہوگئی۔ یوں بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ لا تقربوا اگرچہ صیغہ نہی کا ہے لیکن نہی سے اس جگہ مراد نفی ہے یعنی حالت نشہ میں نماز نہیں ہوتی جب تک اپنے کہے ہوئے الفاظ سمجھنے نہ لگو اس وقت حتی تعلموا نفی صلوٰۃ کی انتہا ہوگی (یعنی کہے ہوئے الفاظ کو جاننے اور سمجھنے کی حد پر نفی صلوٰۃ ختم ہوجائے گی) لیکن اگر نہی کو اصلی معنی میں رکھا جائے گا تو حتی تعلموانہی کی علت ہوگی اور حتی۔ کی کے معنی میں ہوگا (تاکہ تم سمجھ لو) ضحاک بن مزاحم کے نزدیک نشہ سے نیند کا نشہ مراد ہے گویا نیند کے غلبہ کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت فرما دی۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز کے اندر اگر کوئی اونگھنے لگے تو سو جائے تاکہ نیند جاتی رہے کیونکہ اونگھتے میں نماز پڑھتا رہے گا تو ممکن ہے کہ استغفار کرنا چاہتا ہو اور اپنے کو گالیاں دینے لگے۔ (بخاری و مسلم ‘ ابوداؤد ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ) آیت میں اس بات کی تنبیہ ہے کہ نمازی کو حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہو اس کو جانے آیات کے معانی سمجھے اور ان پر غور کرے اور توجہ بٹانے والی چیزوں سے پرہیز رکھے۔ حضرت اسلع کا بیان ہے میں رسول اللہ ﷺ : کی خدمت کرتا اور اونٹ پر آپ کے لئے کجاوہ رکھ دیتا تھا۔ ایک روز حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا۔ اسلع اٹھ کر کجاوہ رکھ دو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے جنابت ہوگئی ہے ‘ ٹھنڈی رات ہے ‘ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے سے مجھے مرجانے یا بیمار ہوجانے کا ڈر ہے۔ اس پر حضرت جبریل ( علیہ السلام) آیت تیمم لے کر نازل ہوئے اور حضور ﷺ نے مجھے تیمم کر کے دکھایا ایک ضرب کے بعد چہرہ پر مسح ‘ اور ایک ضرب کے بعد دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک ‘ میں نے اٹھ کر تیمم کیا۔ پھر کجاوہ کس دیا۔ رواہ الطبرانی و ابن مردویہ فریانی اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت اس مسافر کے لئے نازل ہوئی جس کو سفر میں جنابت ہوگئی ہو اس کو تیمم کرنے کا حکم دیا گیا الخ۔ ہم سورة مائدہ میں انشاء اللہ بیان کریں گے کہ حکم تیمم کی سب سے پہلی آیت وہی ہے جو سورة مائدہ میں مذکور ہے اور وہ اس سے پہلے نازل ہوئی ہے ممکن ہے کہ جواز تیمم کی یہ آیت اس شخص کے لئے اتاری گئی ہو جس کو ٹھنڈی رات میں ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے سے مرنے یا بیمار ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ حدیث اسلع سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا . اور نہ حالت جناب میں نماز کے قریب جاؤ ‘ تاوقتیکہ غسل نہ کرلو۔ ہاں راستہ سے گزرتے ہوئے (جا سکتے ہو خواہ غسل نہ کیا ہو یعنی جنابت کی حالت میں بغیر غسل کئے مسجد کے اندر سے گزر سکتے ہو) جُنُبوہ شخص جس کو جنابت ہوگئی ہو۔ عورت ہو یا مرد اس میں واحد جمع برابر ہے (جمع پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے) قاموس میں جنابت کا معنی منی لکھا ہے حنفیہ کا قول ہے لغت میں جناب کا معنی ہے منی کا شہوت کے ساتھ اخراج ہونا۔ اَجْنَب الرَّجُلُفلاں شخص نے فلاں عورت سے اپنی شہوت پوری کرلی یعنی انزال کے ساتھ۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جنابت کا اطلاق صرف جماع پر ہوتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ حافظ ابن حجر (رح) نے امام شافعی (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ حقیقت میں جنابت کا اطلاق جماع پر ہوتا ہے خواہ انزال نہ ہو۔ جنابت کا اصل لغوی معنی ہے دور ہونا۔ جنب بھی لوگوں سے دور اور الگ ہوتا ہے۔ چونکہ داؤد ظاہری (رح) کے نزدیک جنابت کا معنی ہے خروج منیٰ اس لئے ان کے نزدیک صرف جماع کرنے سے جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا۔ داؤد نے حضرت ابی بن کعب ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ حضرت ابی ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر مرد عورت سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے فرمایا جتنے حصّہ (عضو) سے عورت کو چھوا ہے اس کو دھو لے (یعنی استنجاء کرلے) پھر وضو کر کے نماز پڑھ لے۔ رواہ البخاری و مسلم۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی انصاری کو بلوایا وہ (فوراً آگئے اس وقت ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا یہ حالت دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا شاید ہم نے تم پر عجلت کردی انصاری نے عرض کیا جی ہاں ! فرمایا اگر تم پر جلدی کردی جائے (یعنی بغیر انزال کے کسی فوری ضرورت کی وجہ سے الگ ہوجانا پڑے) یا خشکی ہوجائے تو تم پر وضو ہے (یعنی غسل نہیں ہے) رواہ البخاری ومسلم۔ مسلم میں بھی یہ قصہ مذکور ہے اس میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان اتنا مزید ہے کہ پانی (یعنی غسل) صرف پانی سے (یعنی انزال سے) ہوتا ہے۔ مسئلہ : چاروں اماموں کا اور عام جمہور اہل اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ محض جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو اب اگر جنابت کے معنی جماع قرار دیئے جائیں جیسے کہ امام شافعی (رح) نے فرمایا اور اشتقاق کا تقاضا بھی یہی ہے تو آیت سے ہی صرف جماع کا موجب غسل ہونا ثابت ہو رہا ہے اور اگر جنابت کا معنی شہوت کے ساتھ خروج منی قرار دیا جائے تو یہ معنی بھی ہر جماع میں پائے جاتے ہیں خواہ حقیقتاً ہوں یا حکماً ۔ حکماً کا یہ مطلب ہے کہ جماع عام طور پر بغیر انزال کے نہیں ہوتا اور خروج منی کا سبب جماع ہی ہے۔ پھر شرمگاہ میں غائب ہونے کے وقت کبھی رقت مادہ کی وجہ سے خروج محسوس بھی نہیں ہوتا لہٰذا سبب کو مسبب کے قائم مقام قرار دے دیا گیا جیسے نیند کو ناقض وضو اس لئے کہا گیا ہے کہ سوتے میں ریح کا خروج ہوسکتا ہے اور سونے والے کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آنکھیں بندھن ہیں جب سو جاتی ہیں تو بندھن آزاد ہوجاتا ہے رواہ احمد و ابو داؤد ابن ماجۃ والدارقطنی عن علی ؓ نیز بکثرت احادیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ صرف جماع سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مرد عورت کی چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھ گیا اور اس کو مشقت میں ڈال دیا تو غسل واجب ہوگیا۔ بخاری و مسلم۔ حضرت عائشہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مرد چاروں شاخوں (اطراف اربعہ) کے درمیان بیٹھ گیا اور شرمگاہوں کے منہ مل گئے تو غسل واجب ہوگیا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسا ہی کیا اور ہم نے غسل کیا۔ داؤد ظاہری (رح) نے جن دو حدیثوں سے استدلال کیا ہے وہ منسوخ ہیں امام احمد (رح) اور مؤلفین سنن نے حضرت سہل ؓ بن سعد کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا انصاری ؓ کہتے ہیں کہ انما الماء من المائ کی (یعنی انزال کے بغیر جماع کے بعد صرف استنجا کرلینا کافی تھا) اجازت تھی شروع اسلام میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی تھی۔ پھر ہم کو غسل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس روایت کو ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور اسماعیل نے کہا ہے کہ صحیح بر شرط بخاری ہے۔ اگر شبہ کیا جائے کہ ابن ہارون اور دارقطنی نے بالجزم بیان کیا ہے کہ زہری نے یہ حدیث خود حضرت سہل ؓ بن سعد سے نہیں سنی (بلکہ حضرت سہل ؓ اور زہری ؓ کے درمیان ایک راوی اور ہے) اور ابن حجر نے لکھا ہے کہ ابو داؤد نے جس سند سے اس کو لکھا ہے اس میں انقطاع ہے کیونکہ عمرو بن حرب نے بروایت ابن شہاب (زہری) بیان کیا اور ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جو میرے نزدیک پسندیدہ ہے اور اس پسندیدہ شخص نے حضرت سہل کا قول بیان کیا (یہ پسندیدہ شخص کون تھا زہری نے اس کا نام نہیں بیان کیا۔ بہرحال زہری کا کوئی راوی تھا جو زہری کی نظر میں ثقہ تھا اور اس راوی سے حضرت سہل نے حضرت ابی بن کعب کا قول بیان کیا) ہم اس شبہ کو دور کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ ابو داؤد کی سند صحیح ہے کیونکہ اگر ثقہ راوی یہ کہے کہ مجھ سے ایک ثقہ نے کہا یا ایسے شخص نے کہا جو میرے نزدیک پسندیدہ تھا تو ایسی روایت سے جو حدیث آتی ہے اس کو صحیح مانا گیا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام احمد اور ابن ماجہ نے جس سند سے اس کو بیان کیا ہے وہ سند منقطع ہو کیونکہ ممکن ہے زہری نے کسی ثقہ شخص سے بھی حضرت سہل کا قول سنا ہو اور خود بھی حضرت سہل سے سنا ہو۔ مسئلہ : باتفاق علماء خروج منی سے غسل واجب ہوجاتا ہے لیکن امام اعظم امام محمد ‘ امام مالک اور امام احمد (رح) کے نزدیک انفصال کے وقت کود کر جدا ہونا شرط ہے (خواہ نکلنے کے وقت کود کر نہ نکلے) امام ابو یوسف کے نزدیک مقام سے جدا ہونے اور خارج ہونے یعنی انفصال و خروج دونوں کے وقت کود کر جدا ہونا اور کود کر نکلنا ضروری ہے۔ امام شافعی صرف خروج منی کو موجب غسل قرار دیتے ہیں۔ خواہ لذت کے ساتھ ہو یا بغیر لذت کے کود کر ہو یا بہہ کر۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے جب مذی کا حکم پوچھا گیا تو فرمایا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور منی میں غسل ہے۔ رواہ الطحاوی۔ ایک شبہ : پہلے حدیث ذکر کی جا چکی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ المَاء (اس حدیث میں کود کر یا شہوت سے نکلنے کی کوئی شرط نہیں ہے) دوسری حدیث میں حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت سے آئی ہے کہ ام سلیم ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اگر عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر غسل ہے فرمایا ہاں اگر (بیدار ہونے کے بعد) پانی دیکھے۔ بخاری و مسلم۔ (اس حدیث میں بھی پانی کا لفظ عام ہے کود کر یا شہوت سے خارج ہونے کی کوئی قید نہیں) جواب : دونوں حدیثوں میں الماء میں الف لام عہد کا ہے اور معہود وہی پانی ہے جو کود کر اور شہوت کے ساتھ خارج ہو۔ امام شافعی (رح) الف لام کو جنسی کہتے ہیں۔ ان کا قول زیادہ محتاط ہے۔ مسئلہ : بیدار ہو کر اگر رقیق پانی نظر آئے ‘ احتلام ہونا یاد نہ ہو اور نہ یہ معلوم ہو کہ یہ منی ہے یا مذی تو غسل واجب ہے نیند میں انسان غافل ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے احتلام ہوگیا ہو اور منی میں زیادہ مدت تک بندش یا غذا کی خرابی کی وجہ سے رقت پیدا ہوگئی ہو۔ لہٰذا اس احتمال اور شک کو ظن کے قائم مقام قرار دے کر وجوب غسل کا حکم دیا جائے گا۔ ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا اگر کسی شخص کو (بیدار ہونے کے بعد) کپڑے پر تری محسوس ہو اور احتلام ہونا یاد نہ ہو تو کیا کرے فرمایا غسل کرے۔ دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی خواب میں احتلام ہوتا دیکھے مگر (بیدار ہو کر) تری نہ پائے تو کیا کرے فرمایا اس پر غسل نہیں ہے۔ اس روایت کی سند میں عبداللہ بن عمر از عبیداللہ بن عمر از قاسم بن محمد آیا ہے اور بقول ترمذی یحییٰ بن سعید نے ان کو ضعیف الحفظ کہا ہے۔ الاعابری سبیل کا مطلب یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ ہوجاؤ مگر سفر کی حالت ہو اور پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ آیت کے اس مطلب کی تائید مندرجہ بالا شان نزول سے ہوتی ہے پھر اس کے بعد تیمم کا ذکر بھی کیا گیا ہے گویا عابر سبیل سے مراد تیمم کرنے والا ہے کیونکہ مسافر کو عام طور پر پانی نہیں ملتا تیمم کرنا پڑتا ہے۔ آیت میں دلیل ہے اس امر کی کہ تیمم ساتر حدث ہے (وقتی اور ہنگامی طور پر ناپاکی کو چھپا دیتا ہے) حدث (ناپاکی) کو دور نہیں کرتا۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن داؤد ظاہری تیمم کو رافع حدث (یعنی کامل طور پر پاک کردینے والا) کہتے ہیں حنفیہ کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ داؤد کے نزدیک تیمم رافع حدث ہے اگر پانی مل جائے تو تیمم ٹوٹ جاتا ہے جس طرح وضو شکن اسباب سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ تیمم رافع حدث نہیں ہے ورنہ پانی ملنے سے تیمم کے ٹوٹ جانے کے کوئی معنی نہیں ‘ کیا پانی کا وجود موجب ناپاکی ہے ؟ جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مٹی سے طہارت عارضی ہوتی ہے ناپاکی چھپی رہتی ہے پانی ملتے ہی مخفی حدث کا ظہور ہوجاتا ہے نئی ناپاکی نہیں پیدا ہوجاتی۔ داؤد ظاہر کے قول کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پاک مٹی (سے تیمم) مسلمان کا وضو ہے خواہ دس برس تک پانی نہ ملے ‘ یہ حدیث اصحاب سنن نے حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے نقل کی ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے لئے تمام زمین مسجد کردی گئی ہے اور زمین کی مٹی کو طہور (پاک کن) بنا دیا گیا ہے۔ رواہ مسلم و ابن خزیمہ وغیرہما۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ دونوں حدیثیں اور ان جیسی دوسری حدیثیں مجاز پر محمول ہیں کیونکہ اول الذکر حدیث میں آخری جملے یہ ہیں کہ جب پانی مل جائے تو استعمال کرنا ضروری ہے۔ اگر تیمم سے واقعی اور حقیقی طہارت ہوجاتی اور ناپاکی بالکل دور ہوجاتی تو پھر طہارت کے لئے پانی کے استعمال کو کیوں ضروری قرار دیا جاتا۔ صحیحین میں حضرت عمران بن حصین ؓ کی روایت سے ایک حدیث آئی ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں رسول اللہ ﷺ نے جنابت والے کو تیمم کرنے کا حکم دیا تھا پھر جب پانی مل گیا تو اوس کو غسل کرنے کا حکم دیا اگر تیمم سے جنابت بالکل (جڑ سے) جاتی رہتی تو غسل کا حکم حضور ﷺ نہ دیتے۔ فائدہ : عابری سبیل کا مندرجۂ بالا مطلب حضرت علی ؓ حضرت ابن عباس ؓ مجاہد اور سعید بن جبیر ؓ کی تفسیر کے اعتبار سے ہے۔ لیکن بعض اہل تفسیر کے نزدیک الصلوٰۃ سے مواضع الصلوٰۃ یعنی مساجد مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجدوں کے قریب بھی نہ جاؤ ہاں مسجد کے اندر سے گزرتے ہوئے نکل سکتے ہو ٹھہرنا نہ چاہئے۔ ابن جریر ؓ نے حضرت یزید بن ابی حبیب ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ کچھ انصاریوں کے گھروں کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے ان کو جنابت ہوتی اور پانی اندر مکانوں میں موجود نہ ہوتا تو ان کو پریشانی ہوتی کیونکہ گزرنے کا راستہ مسجد میں ہو کر ہی تھا اس پر اللہ نے نازل فرمایا ولا جنبا الا عابری سبیل آیت کی یہ تفسیر حضرت ابن مسعود ؓ ‘ سعید بن المسیب ضحاک ؓ ‘ حسن بصری (رح) ‘ عکرمہ (رح) نخعی اور زہری نے بیان کی ہے اسی تفسیر کی بنا پر امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک جنب آدمی ہر وقت مسجد کے اندر سے گزر سکتا ہے حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کیونکہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے مگر لفظ عام ہے لہٰذا حکم بھی عام ہوگا۔ خواہ مسجد کے اندر ہو کر گزرنے کی کوئی اضطراری ضرورت نہ ہو۔ ہمارے نزدیک جنب کے لئے مسجد میں گزرنا جائز نہیں۔ خواہ نخواہ مضاف کو محذوف ماننے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر صلوٰۃ سے مراد مواضع صلوٰۃ ہوں تو گھروں کے اندر جو نماز کی جگہ مقرر کرلی جاتی ہے اس میں بھی جنب کا داخلہ ممنوع ہونا چاہئے حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔ پھر حتی تعلموا ما تقولونکے الفاظ صراحتہً بتا رہے ہیں کہ صلوٰۃ سے نماز ہی مراد ہے مقام صلوٰۃ مراد نہیں ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ معطوف میں وہ چیز مقدر مانی جائے جو معطوف علیہ میں مذکور یا مقدر نہ ہو۔ مسئلہ : مسجد میں جنب کا ٹھہرنا حنفیہ کی طرح امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک بھی ناجائز ہے مگر امام احمد (رح) کے نزدیک جائز ہے تینوں اماموں کے مسلک کی دلیل یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر دو ۔ میں مسجد (میں ٹھہرنے یا داخل ہونے) کو نہ حیض والی کے لئے جائز قرار دیتا ہوں نہ جنابت والے کے لئے۔ رواہ ابو داؤد ‘ وابن ماجہ ‘ والبخاری فی التاریخ والطبرانی عن جسرۃ بنت دجاجۃ عن عائشہ ؓ ۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو ابو داؤد نے بروایت جسرۃ عن ام سلمہ ؓ (بھی) لکھا ہے ابو زرعہ نے اول روایت کو صحیح کہا ہے۔ خطابی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور صراحت کی ہے کہ اس کی سند میں اخلت بن خلیفہ عامری مجہول شخص ہے۔ ابن رفعہ نے اس کو متروک کہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ابن رفع کا قول قابل قبول نہیں ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی اخلت کو متروک نہیں کہا بلکہ امام احمد (رح) نے اس کے متعلق کہا ہے کہ میں اس میں کوئی خرابی نہیں پاتا۔ ابن خزیمہ نے اس کی تصحیح کی ہے اور ابن قطان نے حسن کہا ہے اب اگر بعض لوگ اس کو نہیں جانتے تو ان کے نہ جاننے سے اخلت متروک یا مجہول نہیں ہوجائے گا۔ یہ حدیث امام احمد کے خلاف جمہور کے مسلک کو ثابت کر رہی ہے بلکہ امام شافعی (رح) (جو مسجد میں سے گزرنے کو جائز قرار دیتے ہیں) کے قول کے خلاف بھی اس حدیث میں صراحت ملتی ہے کیونکہ کلام کی رفتار ہی مسجد کے اندر سے گزرنے کو روکنے کے لئے ہے۔ مسئلہ : جنب کے لئے کعبہ کا طواف جائز نہیں کیونکہ طواف مسجد میں ہوتا ہے اور مسجد میں جنب کا داخلہ درست نہیں۔ جنابت والے کے لئے قرآن پڑھنا بھی جمہور علماء کے نزدیک ناجائز ہے۔ امام مالک کے نزدیک تعوذ کے لئے چند آیات کی تلاوت جائز ہے۔ داؤد کے نزدیک تمام قرآن کی تلاوت جنب کے لئے جائز ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے حائضہ اور جنب قرآن کا کچھ حصہ بھی نہ پڑھیں۔ سورة بقرہ کی آیت ولا تقربوہن حتی یطہرن کی تفسیر میں اس کی تحقیق گزر چکی ہے۔ پھر جنب کے لئے قرآن کو چھونا ناجائز ہے آیت لایمسَّہٗ الاَّ الْمُطَہَّرُوْنَکی تفسیر میں اس کی تفصیل آئے گی اور نقوش حروف کو چھونا ناجائز ہے تو قرآن کے الفاظ زبان پر لانا کس طرح درست ہوسکتا ہے۔ شبہ : بےوضو آدمی کے لئے آیت لاَ یَمسّہٗ الاَّ الْمُطَہَّرُوْنَکے حکم کے مطابق قرآن کو چھونا جائز نہیں ہے مگر آیات قرآنی کو پڑھنا تو جائز ہے اس کی کیا وجہ ؟ ازالہ : بےوضو ہونے کا اثر ظاہر بدن پر ہوتا ہے منہ کے اندر نہیں پہنچتا (اور جنابت کا اثر منہ کے اندر ہوتا ہے) اس کے علاوہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ بےوضو ہونا عمومی اور ہمہ وقتی چیز ہے اور جنابت اتنی کثیر الوقوع نہیں۔ اگر بےوضو کے لئے آیات کو پڑھنا ناجائز قرار دیا جاتا تو بڑی دشواری ہوجاتی۔ جنابت کی حالت میں قرأت قرآن کی ممانعت سے کوئی دشواری پیدا نہیں ہوتی۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ سوائے جنابت کے اور کوئی چیز رسول اللہ ﷺ : کو قراءت قرآن سے نہیں روکتی تھی۔ رواہ احمد واصحاب السنن وابن خزیمۃ وابن حبان وابن الجارود والبیہقی والترمذی وابن السکن وعبدالحق والبغوی فی شرح السنۃ۔ ترمذی اور بیہقی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ صحیحین میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو سے پہلے سورة آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں۔ حَتّٰی تغتسلوا کا مطلب یہ ہے کہ مسافر معذور کے علاوہ کسی اور جنب کے لئے تاوقتیکہ غسل نہ کرے نماز پڑھنا جائز نہیں ‘ مسافر معذور کے لئے تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے یا یوں کہا جائے کہ حالت جنابت میں نماز نہیں ہوتی تاوقتیلہ غسل نہ کرلے۔ ایک اعتراض : حالت جنابت میں نماز پڑھنے کی ممانعت یا نماز نہ پڑھنے کی انتہا غسل کو کیسے قرار دیا جاسکتا ہے غسل کرنے سے تو جنابت دور ہوجاتی ہے۔ جواب : لفظ حتی اس حصۂ کلام پر داخل ہوتا ہے جو اول کلام کے آخری جزء کے بعد ہوتا ہے جیسے نمت البارحۃ حتی الصباح یعنی رات کے آخری جزء کے بعد جو صبح کی حد آتی ہے میں اس وقت تک سویا ‘ یہ ہی صورت اس جگہ ہے (کہ حالت جنابت میں نماز کی ممانعت جنابت کے آخری جزء کے بعد آنے والے غسل تک ہے اس کے بعد جائز ہے) مزید شبہ : حتی تغتسلوا کہنے کا فائدہ کیا نکلا جب کہ حالت جنابت میں نماز پڑھنے کی ممانعت کردی (تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ جب جنابت دور ہوجائے یعنی غسل کرلو تو نماز پڑھ سکتے ہو) ازالہ : یہ بات بتانی مقصود ہے کہ غسل سے جنابت دور ہوجاتی ہے غسل کے مسائل کی تفصیل سورة مائدہ کی آیت وان کنتم جنبًا فاطہروا کی تفسیر کے ذیل میں آئے گی۔ وان کنتم مرضی او علی سفر . اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو۔ بیمار یا مسافر ہونے کا ذکر محض اتفاقی ہے کیونکہ عموماً پانی کا استعمال انہی دونوں وجہوں سے معدوم ہوتا ہے (مسافر کو پانی نہیں ملتا اور بیمار استعمال نہیں کرسکتا) لہٰذا جمہور کے نزدیک ان دونوں شرطوں کا کوئی مفہوم (احترازی) نہیں ہے۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ اگر کسی بستی کا پانی ختم ہوجائے اور وہاں کے باشندوں کو پانی نہ مل سکے تو تیمم سے نماز پڑھ لیں لیکن پانی ملنے پر نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہے کیونکہ تیمم کی اجازت آیت مذکورہ میں صرف بیمار اور مسافر کے لئے ہے۔ ہم کہتے ہیں بیماری اور سفر کی شرط تیمم کے لئے باجماع علماء نہیں ہے یہ شرط اتفاقی ہے اسی لئے تیمم سے نماز پڑھنی بالاجماع واجب ہے لہٰذا دوبارہ پڑھنا واجب نہیں ہوسکتا سبب وجوب ایک ہے واجب کیسے دوبارہ ہوسکتا ہے اور چونکہ بیماری یا سفر کی شرط نہیں ہے اس لئے اگر کوئی تندرست ایسی بستی میں مقیم ہو جہاں اکثر پانی ختم (یا خشک) ہوجاتا ہے اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لے پھر اگر پانی مل بھی جائے تو دوبارہ پڑھنا واجب نہ ہوگا۔ حضرت ابوذر ؓ ربذہ میں مقیم تھے۔ ربذہ میں چند روز تک پانی دستیاب نہیں ہوتا تھا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تیرے لئے مٹی کافی ہے خواہ دس برس تجھے پانی نہ ملے۔ دوسری روایت میں ہے پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے اگرچہ دس برس تک ہو۔ رواہ اصحاب السنن۔ ابوداؤد نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ اگر عابری سبیل سے مراد مسافر ہوں تو دوبارہ علیٰ سفر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بیمار اور مسافر کو ایک ہی حکم کے تحت لانا مقصود ہے پانی موجود ہونے کے باوجود استعمال کرنے سے مجبور ہونا اور پانی نہ ملنا دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ او جآء احد منکم من الغآئط . یا تم میں سے کوئی ٹٹی سے آیا ہو۔ غائط نشیبی زمین۔ گڑھا غائط سے آنے سے بطور کنایہ مراد ہے۔ بول و براز سے فارغ ہو کر آنا (دیہات میں) دستور عموماً یہی ہے کہ بول و براز کے لئے لوگ پست گڑھوں کی طرف ہی جاتے ہیں (تا کہ آڑ رہے) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بول و براز کی وجہ سے بےوضو ہوجائے۔ مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ حسب معمول دونوں راستوں سے خارج ہونے والی چیز کے خروج سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ اگر کوئی غیر معمولی چیز (مثلاً پیپ ‘ کیڑے ‘ لہو وغیرہ) ان دونوں راستوں سے خارج ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ امام مالک (رح) کا مسلک اس آیت کی روشنی میں یہ ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی چیز ان راستوں سے خارج ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ مسئلہ : جمہور کے نزدیک ان راستوں سے غیر معمولی چیز کا خروج بھی وضو کو توڑ دیتا ہے ایک قول امام مالک کا بھی یہی مروی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث استحاضہ کے سلسلہ میں اس پر دلالت کر رہی ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ بنت جیش سے فرمایا تھا (استحاضہ کا) خون دھو دیا کر اور ہر نماز کے لئے وضو کرلیا کر صحیح بخاری و صحیح مسلم۔ امام شافعی (رح) نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ قے اور خون وغیرہ جو ان دونوں معمولی راستوں سے خارج نہ ہو اس کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ امام احمد (رح) کے نزدیک اگر دونوں راستوں کے علاوہ کسی اور جگہ سے مذکورہ بالا چیزیں قلیل مقدار میں خارج ہوں تو وضو نہیں ٹوٹتا مگر آیت سے ان دونوں قولوں میں سے کسی کا استنباط نہیں کیا جاسکتا اس لئے امام اعظم (رح) کا قول ہے کہ جو نجس چیز کہیں سے کسی مقدار میں خارج ہو وضو کو توڑ دیتی ہے اور چونکہ غیر سیال خون نجس نہیں ہے اور تھوڑی قے بلغم اور تھوک کے حکم میں ہے اس لئے ان کا خروج ناقض وضو نہیں ہے۔ ہمارے مسلک کا ثبوت قیاس سے ہوتا ہے۔ دونوں راستوں سے خارج ہونے والی چیز نجس ہوتی ہے اور اس کا خروج ناقض وضو ہے۔ معلوم ہوا کہ بدن کے اندر سے جو نجس چیز خارج ہو اس کا خروج ناقض ہے۔ خواہ کہیں سے ہو مگر نجس ہو اور خواہ دونوں راستوں سے بول و براز کے علاوہ کوئی اور نجس چیز خارج ہو۔ اگر شبہ کیا جائے کہ نجس چیز کے خارج ہونے سے پورے وضو کا وجوب صرف نقلی ہے۔ تقاضائے عقل کے خلاف ہے اور جو حکم غیر عقلی ہو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا (کیونکہ خلاف قیاس حکم کا اقتصار اس کے مورد اور مقام پر ہونا مسلمہ مسئلہ ہے) ہم کہتے ہیں اتنی بات تو تقاضائے عقل کے مطابق ہے کہ نجاست کے خروج سے طہارت جاتی رہتی ہے۔ ہاں صرف چار اندام کا نجس ہوجانا اور ان کی طہارت کا وجوب ضرور غیر عقلی ہے لیکن اول کی طرح یہ بھی متعدی قرار پائے گا ہمارے مسلک کا اثبات متعدد احادیث سے بھی ہوتا ہے۔ ایک روایت معدان کی ہے کہ حضرت ابو درداء ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو قے ہوئی تو آپ نے وضو کیا۔ دمشق کی مسجد میں میں نے اس حدیث کا ذکر حضرت ثوبان سے کیا تو انہوں نے فرمایا ابو درداء ؓ نے سچ کہا۔ میں نے حضور ﷺ کو وضو کرایا تھا۔ رواہ احمد۔ اس روایت کا سلسلۂ سند اس طرح امام احمد (رح) نے بیان کیا ہے۔ حسین معلم ‘ یحییٰ بن کثیر۔ اوزاعی۔ یعیش بن ولید مخزومی۔ معدان۔ ابو درداء۔ معترضین کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ مضطرب ہے کیونکہ دوسری روایت میں راویوں میں اختلاف ہے معمر نے یحییٰ بن کثیر از یعیش از خالدبن معدان از ابو درداء بیان کیا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ بعض راویوں کا مضطرب ہونا ‘ دوسروں کے ضبط و حفظ پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ اثرم کا بیان ہے میں نے امام احمد سے کہا لوگ اس حدیث میں مضطرب ہیں فرمایا حسین معلم نے تو بغیر اضطراب کے بیان کی ہے ترمذی نے بھی اس کو حسن اور صحیح ترین کہا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کو نماز میں قے ہوجائے تو (نماز چھوڑ کر) جا کر اس کو وضو کرنا چاہئے پھر (آکر) اپنی گزشتہ نماز پر بناء کرے (یعنی جتنی پڑھ چکا ہے اس سے آگے پڑھے) بشرطیکہ اس نے کلام نہ کیا ہو۔ دارقطنی نے یہ حدیث اسماعیل بن عیاش کی روایت سے متصلاً بیان کی ہے اس کی سند میں ایک شخص عبداللہ بن ابی ملیکہ ہیں جنہوں نے حضرت عائشہ سے یہ حدیث سنی۔ دارقطنی نے لکھا ہے کہ حفاظ حدیث نے اس حدیث کو ابن جریج سے مرسلاً بیان کیا ہے متصلاً بیان صرف اسماعیل بن عیاش کی روایت میں ہے اور ابو حاتم رازی نے اسماعیل کو ہیچ قرار دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین نے اسماعیل بن عیاش کو ثقہ کہا ہے اور ثقہ کی طرف سے اگر زیادتی ہو تو وہ قابل قبول ہوتی ہے اور علماء حدیث کا طریقہ ہی ہے کہ (بنظر احتیاط) مرسل کو مقدم قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ (اس حدیث کو اگر مرسل ہی مانا جائے تو) مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے۔ اس موضوع کی متعدد احادیث اور بھی ہیں جن کو طوالت کے خوف سے ہم نے ذکر نہیں کیا۔ امام احمد (رح) نے قلیل و کثیر کا جو فرق قائم کیا ہے تو اس کے ثبوت میں انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث پیش کی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ ایک دو قطرے خون (کے نکلنے) سے وضو (لازم) نہیں ہاں اگر سیال خون ہو (تو ایک قطرہ خون بھی ناقض وضو ہے) ۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھوڑوں سے (رسنے والے) خون میں اجازت دے دی تھی۔ یہ دونوں حدیثیں دارقطنی نے نقل کی ہیں۔ اول حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن فضل بن عطیہ ہے جس کو امام احمد اور یحییٰ بن حبان نے جھوٹا کہا ہے اور دوسری روایت عطیہ نے لفظ عن سے روایت کی ہے اور یہ مدلس ہے۔ امام مالک (رح) اور شافعی (رح) نے اپنے استدلال میں حضرت انس ؓ کی روایت کردہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور (بغیر جدید) وضو کئے نماز پڑھی صرف پچھنے لگنے کی جگہ کو دھو ڈالا اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ رواہ الدارقطنی والبیہقی۔ اس کی سند میں صالح بن مقاتل راوی ہے جو ضعیف ہے۔ نووی نے اس کو ضعفاء کی فہرست میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر (رح) نے ابن عربی کا قول لکھا ہے کہ دارقطنی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے مگر یہ واقعہ کے خلاف ہے کیونکہ صالح قوی نہیں ہے۔ حضرت ثوبان کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قے کی پھر وضو کا پانی طلب فرما کر وضو کیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا قے سے وضو فرض ہوجاتا ہے۔ فرمایا اگر فرض ہوجاتا تو تجھے قرآن میں ملتا۔ رواہ الدارقطنی۔ اس کی سند میں عتبۃ بن السکن راوی ہے جو متروک الحدیث ہے بیہقی نے لکھا ہے کہ اس کو واضع حدیث (حدیثیں خود ساختہ بیان کرنے والا) کہا گیا ہے۔ اولا مستم النسآء یا تم عورتوں سے لگے ہو۔ لگنے اور چھونے سے بطور کنایہ جماع مراد ہے۔ حضرت علی ؓ حضرت عائشہ ؓ ‘ حضرت ابن عباس ؓ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ‘ حسن (رح) ‘ مجاہد (رح) اور قتادہ کا یہی قول ہے۔ ابوحنیفہ اور سفیان ثوری بھی اسی کے قائل ہیں۔ اس صورت میں جنابت بمعنی انزال ہوگا۔ بمعنی جماع نہ ہوگا ورنہ عطف صحیح نہ ہوگا (کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کا مفہوم جدا جدا ہونا چاہئے اور جنباً سے مراد بھی جب جماع ہوگا اور لمس نساء سے تو جماع مراد ہی ہے لہٰذا معطوف اور معطوف علیہ کا مفہوم ایک ہی ہوا) حضرت ابن مسعود ؓ حضرت عمر بن خطاب ؓ حضرت ابن عمر ؓ اور شعبی (رح) کا قول ہے کہ ملامست نساء سے مراد حقیقی معنی ہے یعنی بیرونی جلد کا بیرونی جلد سے لگ جانا اور چھو دینا۔ اسی بنیاد پر یہ حضرات قائل ہیں کہ عورت کو چھو دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ دونوں کے درمیان کوئی (کپڑا وغیرہ) حائل نہ ہو۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا اس سے مراد ہے جماع کے علاوہ (ہر قسم کا لمس اور مس) بیہقی نے حضرت ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے کہ بوسہ بھی ایک قسم کا لمس ہے اور اس میں وضو لازم ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ جس نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا یا اس کو ہاتھ سے چھوا تو اس پر وضو لازم ہے۔ امام احمد زہری اور اوزاعی بھی عورت کے چھونے کو وضو شکن قرار دیتے ہیں۔ (1) [ حضرت عمر نے فرمایا بوسہ بھی ایک طرح کا لمس ہے اس کے بد بھی وضو کرو، حضرت عثمان نے فرمایا چھونا، صرف ہاتھ سے ہوتا۔ (از مولف)] ایک روایت میں امام شافعی کا قول بھی یہی آیا ہے۔ امام مالک (رح) امام شافعی (رح) اسحاق اور ایک روایت میں امام احمد کا بھی قول ہے کہ شہوت کے ساتھ مشتہاۃ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ورنہ نہیں ٹوٹتا (یعنی شہوت کے ساتھ نہ چھوئے یا عورت مشتہاۃ نہ ہو تو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا) امام شافعی (رح) کے نزدیک شرط یہ ہے کہ ہاتھ کے اندرونی حصہ سے چھوئے اگر ہاتھ کا بیرونی بالائی حصہ لگ جائے گا تو وضو نہ ٹوٹے گا۔ آپ نے مس ذکر پر قیاس کیا ہے کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے (یعنی اگر ایک حکم بلاشرط اور بغیر قید کے ہو اور دوسری روایت میں شرط اور قید کا بھی ذکر ہو تو بلاقید حکم کو بھی مفید مانا جائے گا) خواہ دونوں کا تعلق الگ الگ واقعہ سے ہو اور مس ذکر کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد موجود ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اپنی شرمگاہ تک پہنچا دے (تو دوبارہ وضو کرے) علماء نے لکھا ہے کہ لفظ افضاء اسی معنی (یعنی باطن کف سے مس) کو مفید ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ لفظ افضاء کے ساتھ مس ذکر والی حدیث صحیح نہیں ہے پھر افضاء کا یہ معنی بھی ہم کو تسلیم نہیں ہے اور مطلق و مقید کا تعلق دو واقعوں سے ہو تو مطلق کو مقید پر محمول کرنا ہمارے نزدیک درست نہیں۔ لہٰذا امام اعظم (رح) کے مسلک پر آیت کا توضیحی مطلب اس طرح ہوگا کہ اگر تم جنب ہو یعنی تم کو انزال ہوگیا ہو۔ بیماری کی حالت ہو یا سفر کی یا بول و براز وغیرہ سے تمہارا وضو ٹوٹ گیا ہو۔ یا بغیر انزال کے تم نے جماع کیا ہو تو تیمم کرسکتے ہو۔ امام شافعی (رح) کے مسلک پر توجیہ اس طرح ہوگی اگر تم جنب ہو یعنی تم نے عورتوں سے جماع کیا ہو بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ‘ یا بول و براز کی وجہ سے یا عورت کو چھونے کی وجہ سے بےوضو ہوگئے ہو تو تیمم کرلو۔ اگر مرضی کے ساتھ جنباً کو محذوف نہ مانا جائے۔ تو آئندہ آیت اوجاء احد منکم من الغائط میں او کو واؤ عاطفہ کے معنی میں لینا ہوگا اور کلام کا مطلب اس طرح ہوگا کہ تم اگر بیمار یا مسافر ہو اور تم میں سے کوئی ٹٹی سے آئے یا تم نے جماع کیا ہو۔ اس وقت ملامست سے جماع مراد ہوگا عورت کو چھونا مراد نہ ہو سکے گا کیونکہ حقیقت و مجاز کا اجتماع درست نہیں۔ یعنی حقیقی اور مجازی معنی بیک وقت مراد لینا ناجائز ہے۔ حضرت عمر ؓ کے نزدیک چونکہ لمس سے مراد چھونا ہی ہے اور آپ نے جنبا کو مرضی سے پہلے محذوف نہیں قرار دیا ہے اس لئے جنب کے لئے تیمم آپ کے نزدیک جائز نہ تھا۔ جیسا کہ حضرت عمار سے مناظرہ کے وقت آپ نے بیان کیا تھا۔ (مناظرہ کا یہ قصہ آگے آئے گا) ۔ ابن جوزی نے بیان کیا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل خدمت گرامی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک مرد نے ایک عورت سے وہ تمام حرکتیں کیں جو مرد سے کرتا ہے۔ صرف جماع نہیں کیا ‘ حضور ﷺ کا اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا اچھی طرح وضو کر کے کھڑا ہو کے نماز پڑھ لے۔ ابن جوزی نے کہا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر ابن جوزی کا اس جگہ یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ سائل کے سوال کی یہ غرض نہ تھی کہ عورت کے چھونے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں۔ اس کا مقصد تھا اس جرم کی معافی کی صورت دریافت کرنا اور یہ معلوم کرنا کہ ایسے شخص کی شرعی سزا کیا ہے ؟ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بتادیا کہ اچھی طرح وضو کرنا اور نماز پڑھنا اس کے گناہ کا کفارہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں آیا ہے کہ مسلمان وضو کرتے وقت جب منہ دھوتا ہے تو اس کے چہرہ کے سب گناہ دھل کر نکل جاتے ہیں۔ حضرت عثمان ؓ کی بھی مرفوع روایت ہے کہ جس شخص نے میرے وضو کی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی جس کے اندر کوئی دوسرا خیال اپنے دل میں لایا تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ صحیحین۔ ایک اور روایت میں حضرت انس ؓ : کا بیان آیا ہے کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے شرعی حد کے قابل جرم کیا ہے ‘ مجھ پر حد جاری فرما دیجئے۔ حضور ﷺ نے اس سے جرم کچھ نہ پوچھا اور نماز کا وقت آگیا تو اس نے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی الحدیث۔ اس حدیث میں وضو کا حکم نہیں ہے۔ صحیحین۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص خدمت گرامی میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مدینہ کے آخری حصہ میں ایک عورت سے میری ملاقات ہوئی اور جماع کے علاوہ میں نے اس سے ہر حرکت کی۔ الحدیث۔ اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَقِمِ الصَّلٰوۃ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّءٰاتِ ۔ ہم حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ (رات کو) نماز پڑھتے تھے اور میں حضور ﷺ کے سامنے جنازہ کی طرح پڑی رہتی تھی جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے ہاتھ سے دبا دیتے تھے تو میں پاؤں سمیٹ لیتی تھی۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس زمانہ میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ متفق علیہ یہ حدیث بہت طریقوں سے آئی ہے۔ حضرت عائشہ راوی ہیں ایک رات رسول اللہ ﷺ کو میں نے موجود نہ پایا ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا تو میرا ہاتھ آپ کے قدم پر لگا اس وقت آپ سجدہ میں تھے اور کہہ رہے تھے اے اللہ میں تیرے غضب سے تیری رضامندی کی اور تیرے عذاب سے تیری معافی کی اور تجھ سے تیری ہی پناہ لیتا ہوں میں تیری حمد پوری پوری نہیں کرسکتا تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف کی ہے۔ رواہ البخاری۔ طبرانی کی روایت میں (حضرت عائشہ ؓ کا قول) ہے میں نے آپ کے بالوں میں اپنا ہاتھ ڈالا تاکہ یہ معلوم کرلوں کہ آپ نے غسل کیا ہے یا نہیں۔ حافظ نے کہا بظاہر یہ دونوں واقعے جدا جدا ہیں۔ کلام کی رفتار تغایر کی مقتضی ہے۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعتکاف کی حالت میں ہوتے تھے اور میں آپ کے بالوں میں کنگھا کرتی تھی۔ رواہ البخاری۔ ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر رسول اللہ ﷺ کا اعتکاف کی حالت میں ہونا بغیر وضو کے نہ ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ : حضرت میمونہ اور حضرت ام سلمہ ؓ : کا بیان ہے کہ ان میں سے ہر ایک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (ایک پردہ بیچ میں ڈال کر) ایک برتن سے پانی لے کر غسل کرتی تھی۔ میں کہتا ہوں غسل سے پہلے وضو کرنا سنت ہے اور اشتراک کی صورت میں ناممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کا ہاتھ بی بی کے ہاتھ سے نہ لگے۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت ہے کہ حضرت زینب کی صاحبزادی امامہ کو (پشت پر) اٹھائے ہوئے حضور ﷺ نماز میں مشغول ہوتے تھے صحیحین۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی رسول اللہ ﷺ کا سر میری گود میں ہوتا تھا اور اسی حالت میں آپ قرآن پڑھتے تھے۔ صحیحین۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میری گود میں حضور ﷺ کی وفات ہوئی اور ہدایت عقل کا تقاضا ہے کہ وفات کے وقت آپ ﷺ بےوضو نہیں ہوں گے۔ انہی احادیث کی وجہ سے امام شافعی (رح) اور ان کے ساتھیوں نے آیت میں مزید شرط یہ لگا دی ہے کہ عورت کو چھونا اس وقت ناقض وضو ہوتا ہے جب شہوت کے ساتھ ہو لیکن اس قول کے خلاف بھی حضرت عائشہ ؓ کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بعض بیبیوں کا بوسہ لے کر بغیر (تازہ) وضو کئے نماز کو تشریف لے گئے۔ رواہ البزار۔ بزار نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور ترمذی و ابن ماجہ نے بھی یہ حدیث بیان کی ہے اور سلسلۂ سند و کیع از اعمش از حبیب بن ابی ثابت از عروہ از ام المؤمنین عائشہ ؓ بیان کیا ہے۔ اگر شبہ کیا جائے کہ بخاری نے اس کو ضعیف کہا ہے اور صراحت کی ہے کہ حبیب نے عروہ سے نہیں سنا تو یہ شبہ غلط ہے کیونکہ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور نہ سننے کی شہادت نفی کی شہادت ہے جو قابل قبول نہیں۔ امام احمد اور ابن ماجہ (رح) نے حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وضو کرنے کے بعد بوسہ لیتے تھے پھر بغیر (جدید) وضو کئے نماز پڑھ لیتے تھے۔ اس روایت کا سلسلہ حجاج از عمرو بن شعیب از زینب سہمیہ از ام المؤمنین عائشہ ؓ ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ زینب نامعلوم ہے۔ میں کہتا ہوں اگر زینب مجہول بھی ہے تب بھی اس کی روایت مقبول ہے کیونکہ وہ دوسرے قرن کی عورت ہے اور دوسرے قرن کے مجہول راوی کی روایت معتبر ہے۔ اس روایت میں حجاج اگرچہ بعض لوگوں کے نزدیک مجروح ہے لیکن اوزاعی (رح) نے اس کی طرح براہ راست عمرو بن شعیب کی روایت بیان کی ہے۔ دارقطنی نے یہی کہا ہے اور اوزاعی (رح) بہت ثقہ تھے۔ دارقطنی نے یہ حدیث سفیان ثوری (رح) کے طریق سے بھی بیان کی ہے اس سند میں ابراہیم تیمی سے حضرت عائشہ ؓ کا فرمانا منقول ہے جس پر ترمذی نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے ابراہیم کا سننا ثابت نہیں اور نہ اس موضوع کی کوئی حدیث مرفوع صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں ابراہیم جلیل القدر تابعی ہیں ان کا سننا ممکن تو ہے اور صحت کے لئے امکان سماع ہی کافی ہے۔ ثبوت سماع کی ضرورت نہیں پھر اگر اس کا رفع صحیح نہ بھی ہو تو حدیث مرسل ہوجائے گی اور ہمارے نزدیک مرسل قابل استدلال ہے۔ رہا ترمذی کا قول کہ اس موضوع کی کوئی حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں تو غالباً ترمذی کی مراد یہ ہے کہ کوئی حدیث متصل السند مرفوع صحیح بذاتہٖ ثابت نہیں ورنہ یہ حدیث مرسل موجود ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top