Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی رستے سے بھٹک جاؤ
(بقیہ سابقہ آیت) مسئلہ : اگر ایسی نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جس کا عوض ممکن نہ ہو تو ایسے وقت میں تیمم کرلینا جائز ہے جیسے عید کی نماز کے فوت کا اندیشہ خواہ ابتداً ہو یا بناء کے طور پر اور جیسے ولی کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے جنازہ کی نماز فوت ہوجانے کا اندیشہ (دونوں صورتوں میں تیمم کر کے نماز میں شریک ہوجانا جائز ہے) لیکن (نماز کا) وقت یا نماز جمعہ فوت ہوجانے کا اندیشہ ہونے کی صورت میں تیمم جائز نہیں (کیونکہ وقت نکلنے کے بعد قضاء صلوٰۃ ممکن ہے اور جمعہ ہونے کے بعد ظہر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک جنازہ اور عید کی نمازیں فوت ہوجانے کا اگر اندیشہ ہو تب بھی تیمم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان نمازوں کا وجوب ہی نہیں ہے۔ نماز عید تو سنت ہے اور نماز جنازہ فرض کفایہ ہے دوسروں کے پڑھنے سے سب کی طرف سے ادا ہوجاتی ہے البتہ نماز کا وقت اور جمعہ کی نماز فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو تیمم کرلینا جائز ہے۔ مگر امام شافعی (رح) کے نزدیک تیمم سے نماز پڑھنے کے بعد (وضو کر کے) دوبارہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔ امام احمد نے کہا مذکورۂ بالا چاروں صورتوں میں تیمم جائز نہیں کیونکہ صعید کے پاک اور پاک کن ہونے کی شرط ہے پانی نہ ملنا اور یہ شرط ان چاروں صورتوں میں موجود نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کا استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام کا جواب دینے کے لئے بھی تیمم کیا تھا۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ (حالانکہ سلام کا جواب بغیر وضو اور تیمم کے لئے بھی دینا جائز ہے اس سے معلوم ہوا کہ ادائے واجب کے لئے ہی تیمم جائز نہیں ہے بلکہ جواز تیمم عام ہے پس صلوٰۃ عید کا واجب نہ ہونا اور صلوٰۃ جنازہ کا فرض کفایہ ہونا مانع تیمم نہیں) مسئلہ : اگر وقت کے اندر تیمم سے نماز پڑھ لی پھر پانی مل گیا تو دوبارہ نماز پڑھنی واجب نہیں خواہ وقت باقی ہی ہو۔ عطاء ‘ طاؤس ‘ مکحول ‘ ابن سیرین اور زہری وجوب اعادہ کے قائل ہیں۔ ہماری دلیل حضرت ابوسعید خدری کی روایت کردہ حدیث ہے کہ دو آدمی سفر کو گئے نماز کا وقت آگیا تو دونوں نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی کیونکہ پانی موجود نہ تھا۔ پھر وقت کے اندر ہی پانی مل گیا تو ایک نے وضو کر کے نماز لوٹا لی دوسرے نے نہیں لوٹائی جب دونوں رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے تو واقعہ عرض کیا جس نے دوبارہ نہیں پڑھی تھی ‘ اس سے حضور ﷺ نے فرمایا تو نے سنت کے موافق کیا تیری نماز پوری ہوگئی اور جس نے دوسری بار نماز لوٹائی تھی اس سے فرمایا تجھے دوہرا ثواب ملے گا۔ رواہ ابو داؤد والنسائی والحاکم والدارمی۔ مسئلہ : اگر بعض اعضاء زخمی ہوں اور بعض زخمی نہ ہوں تو امام شافعی اور امام احمد (رح) کا قول ہے کہ زخمی کے لئے تیمم کرے اور صحیح کو دھو لے۔ میرے نزدیک یہی مختار ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کا قول ہے کہ اگر عضو کا بڑا حصہ صحیح ہو اور چھوٹا حصہ زخمی ہو تو صحیح کو دھو لے اور زخمی پر مسح کرلے تیمم نہ کرے اگر بڑا حصہ صحیح نہ ہو تو تیمم کرلے دھونے کی ضرورت نہیں۔ ہم کہتے ہیں جب عضو کا کچھ حصہ صحیح ہے اور پانی موجود ہے تو ایک اعتبار سے وہ بیمار نہیں ہے لہٰذا دھونے کا حکم ساقط نہ ہوگا اور ایک اعتبار سے وہ بیمار ہے تمام بدن کے لئے پانی استعمال نہیں کرسکتا لہٰذا تیمم کرنا درست ہے اس قول کی تائید حضرت جابر ؓ کی حدیث سے ہوتی ہے۔ حضرت جابر ؓ کا بیان ہے ہم ایک سفر کو گئے دوران سفر میں ایک شخص کے پتھر لگ گیا اور سر زخمی ہوگیا۔ پھر اس کو احتلام بھی ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا تمہارے خیال میں میرے لئے تیمم کی اجازت ہے ساتھیوں نے کہا ہمارے خیال میں تم کو اجازت نہیں ہے کیونکہ تم پانی استعمال کرسکتے ہو مجبوراً اس نے غسل کیا نتیجہ میں وہ مرگیا (حضور ﷺ کو اطلاع ملی تو) آپ ﷺ نے فرمایا ان لوگوں نے اس کو مارا ان پر اللہ کی مار ہو معلوم نہ تھا تو دریافت کیوں نہ کرلیا عاجز (یعنی نہ جاننے والے) کے لئے تسکین کا ذریعہ دریافت کرنا ہے اس شخص کے لئے کافی تھا کہ وہ تیمم کرلیتا زخم پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کرلیتا اور باقی بدن کو دھو لیتا۔ (رواہ الدارقطنی ومن طریق الدارقطنی ابن جوزی) مسئلہ : ایک تیمم سے جتنی نمازیں چاہے پڑھتا رہے جب تک حدث نہ ہو (یعنی وضو توڑنے والی کوئی چیز نہ پیدا ہو) اور جب تک پانی نہ ملے (ہر وقت کے لئے الگ الگ تیمم کرنے کی ضرورت نہیں) امام شافعی (رح) و امام احمد کے نزدیک ہر وقت کی نماز کے لئے الگ تیمم کرنا لازم ہے ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے خواہ دس برس پانی نہ ملے الخ (اصحاب السنن نے یہ حدیث حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے نقل کی ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ امام شافعی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ کے قول سے استدلال کیا ہے ابن عباس ؓ نے فرمایا تھا ایک تیمم سے ایک نماز سے زیادہ نہ پڑھنا سنت سے ہے رواہ الدارقطنی والبیہقی۔ رافعی نے کہا اگر صحابی کے قول میں مِنَ السَّنَّۃِآیا ہو تو اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کی سنت ہوتی ہے لہٰذا یہ اثر حدیث مرفوع کے حکم میں ہوگیا۔ اسی مضمون کا ایک قول حضرت علی ؓ کا بھی آیا ہے جس کو ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے حضرت عمرو بن عاص ؓ ہر نماز کے لئے تیمم کرتے تھے اور یہی فتویٰ دیتے تھے رواہ الدارقطنی بسندہ عن قتادہ۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی ہر نماز کے لئے تیمم کرتے تھے رواہ البیہقی۔ ہم کہتے ہیں ان آثار صحابہ ؓ میں سے کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے اثر کی سند میں ابو یحییٰ اور حسن بن عمارہ راوی ہیں جن کو ابن جوزی نے متروک کہا ہے اور حسن نے بہت ضعیف قرار دیا ہے۔ حضرت علی ؓ کے اثر کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ہے جس کو ابن مہدی اور قطان نے متروک قرار دیا ہے اور امام احمد نیز دارقطنی نے کہا کہ اس کی حدیث ناقابل استدلال ہے اور ابن معین و نسائی نے کہا یہ قوی نہیں ہے۔ حضرت عمرو بن عاص کا اثر منقطع ہے۔ قتادہ اور حضرت عمر ؓ کے درمیان بڑا ارسال ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کے اثر کی سند میں عامر احول ہے جس کے متعلق علماء حدیث کے اقوال مختلف ہیں۔ امام احمد وغیرہ نے اس کو نرم کہا ہے اور ابو حاتم و مسلم نے ثقہ۔ پھر یہ تمام آثار صحابہ اس قابل نہیں کہ خبر مرفوع صحیح کے مقابلہ پر لائے جاسکیں۔ اس کے علاوہ (ہر نماز کے لئے جدا تیمم کو) ہم استحباب پر محمول کرتے ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ نے جو من السنۃ فرمایا تو اس سے مراد یہ ہے کہ مستحب ہے واجب نہیں ہے (سنت رسول اللہ مراد نہیں ہے) مسئلہ : اگر پانی بھی نہ ملے (یعنی وضو یا غسل نہ کرسکے) اور صعید طیب بھی نہ ملے (یعنی تیمم بھی نہ کرسکے) گویا فاقد الطہورین ہو تو امام صاحب کے نزدیک نماز ترک کر دے مگر قضاء لازم ہے امام مالک کے نزدیک نماز ترک کر دے اور قضا بھی واجب نہیں۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک یونہی نماز پڑھ لے اور جب پانی مل جائے تو اعادہ واجب ہے۔ امام احمد کے نزدیک یونہی نماز پڑھ لے اور اعادہ بھی واجب نہیں۔ ہماری دلیل یہی آیت ہے اس آیت میں فرمایا ہے ولا جنبًا یعنی جنابت کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰی الخاس آیت میں جنابت کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی اور ممانعت صلوٰۃ کا خاتمہ غسل پر کیا۔ اگر پانی مل جائے اور تیمم پر کیا اگر پانی نہ ملے۔ اب رہا فاقد الطہورین جو نہ غسل کرسکے نہ تیمم ‘ اس کے لئے ممانعت صلوٰۃ کا خاتمہ نہیں ہوا (جب حکم کی غایت نہیں تو حکم ممانعت باقی رہے گا) لہٰذا وہ نماز ہی نہیں پڑھے گا۔ اگر شبہ کیا جائے کہ مسافر حکم ممانعت سے خارج ہے تو ہم کہیں گے تیمم کرنے والا مسافر حکم ممانعت سے خارج ہے اگر ایسی بات نہ ہوگی تو مسافر کے لئے بغیر تیمم کے نماز جائز ہوجائے گی۔ امام شافعی (رح) کی طرف سے کہا جاسکتا ہے کہ مطلقاً مسافر حکم ممانعت سے خارج تھا پھر اس کے لئے تیمم واجب کردیا گیا اور وجوب تیمم کی شرط پاک مٹی دستیاب ہونے کو قرار دیا تاکہ تکلیف بالمحال لازم نہ آئے اور جب پاک مٹی میسر نہ آئے تو تیمم کا حکم بھی ساقط ہوجائے گا اور مطلقاً مسافر حکم ممانعت سے خارج ہوجائے گا۔ ہماری دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ بغیر پاکی کے کوئی نماز نہیں قبول کرتا۔ رواہ الترمذی۔ اس حدیث میں لفظ صلوٰۃ کو بصورت نکرہ دائرۂ نفی میں ذکر کیا ہے جو مفید عموم ہے یعنی بغیر طہارت کے کوئی نماز اللہ قبول نہیں کرتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حدیث میں مراد یہ ہے کہ جو شخص طہارت پر قادر ہو اس کی نماز بغیر طہارت کے اللہ قبول نہیں کرتا تو یہ لفظ حدیث کی خود ساختہ تخصیص ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ ہماری دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت عمار بن یاسر نے حضرت عمر ؓ سے کہا تھا آپ کو یاد ہوگا کہ میں اور آپ سفر میں تھے اور ہم کو جنابت ہوگئی جس کی وجہ سے آپ نے تو نماز ہی نہیں پڑھی اور میں نے مٹی میں لوٹ لگا کر نماز پڑھ لی۔ پھر جب میں نے حضور ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا تیرے لئے اس طرح کافی تھا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کے نماز نہ پڑھنے کی تردید نہیں فرمائی۔ امام شافعی (رح) نے اپنے مسلک کے استدلال میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث پیش کی ہے حضرت عائشہ ؓ نے حضرت اسماء کا ایک ہار عاریت کے طور پر لیا تھا وہ (سفر میں) گم ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ ؓ کو تلاش کے لئے بھیجا (راستہ میں) نماز کا وقت آگیا تو ان صحابہ ؓ نے بغیر وضو کئے نماز پڑھ لی (کیونکہ پانی موجود نہ تھا) اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کی شکایت پیش کردی۔ اس وقت آیت تیمم نازل ہوئی اسید بن حضیر نے عرض کیا اللہ آپ کو جزائے خیر دے خدا کی قسم کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ پر کوئی دشواری آئی ہو اور اللہ نے اس سے نکلنے کا راستہ آپ کے لئے نہ پیدا کردیا ہو اور مسلمانوں کے لئے اس میں برکت نہ عطا کردی ہو۔ متفق علیہ۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے یہاں تک کہ صبح ایسے مقام پر ہوئی جہاں پانی نہ تھا اس پر آیت تیمم نازل ہوئی اور لوگوں نے تیمم کیا اسید بن حضیر نقیب رسول اللہ ﷺ نے کہا اے خاندان ابوبکر تمہاری یہ پہلی برکت ہی نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے جس اونٹ پر میں سواری تھی جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ہار مل گیا۔ اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ اس میں تو ہماری تائید موجود ہے ہمارے خلاف کوئی دلیل نہیں نکلتی کیونکہ اس میں یہ بات مذکور نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بلاوضو خود نماز پڑھی تھی بلکہ صحابہ ؓ نے ایسا کیا تھا تو اپنی رائے سے کیا تھا (حضور ﷺ کا کوئی حکم مذکور نہیں) اگر نماز بغیر وضو جائز ہوتی تو نزول آیت کے بعد لوگ تیمم نہ کرتے۔ رہا امام شافعی (رح) کا یہ قول کہ نماز بغیر طہارت کے واجب ہے اور پھر اس کا اعادہ بھی واجب ہے یہ اصول کے قاعدہ کے خلاف ہے کیونکہ سبب وجوب یعنی وقت ایک ہی ہے اور جب تک سبب مکرر نہ ہو واجب کیسے مکرر ہوجائے گا۔ باقی رہا امام مالک (رح) نے جو عدم قضاء کے قائل ہیں اور دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ قصور اس شخص کا نہیں ہے اس لئے قضا واجب نہیں ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جو نماز تم سے فوت ہوجائے اس کی قضا کرلو ‘ اس میں کوئی تخصیص نہیں کہ اپنے قصور سے فوت ہوئی ہو یا بلاقصور فوت ہوئی ہو۔ دیکھو سوتا رہنے سے اگر نماز فوت ہوجائے تو قضاء واجب ہے باوجودیکہ سونے والے کا کوئی قصور نہیں (کیونکہ نیند اختیاری نہیں سونے والا قصداً نماز ترک نہیں کرتا) ان اللہ کان عفوا . بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے اس نے تمہارے لئے آسانی کردی اور تیمم کی اجازت دے دی۔ غفورا . بہت بخشنے والا ہے۔ نزول آیت سے پہلے جو تم نے شرابیں پیں اور نشہ کی حالت میں نمازیں پڑھیں اور جنابت کے ساتھ نماز ادا کی سب کو بخش دیا۔ واللہ اعلم۔ الم تر محمد بن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا سردار جس کا نام رافعہ بن زید بن تابوت تھا جب رسول اللہ ﷺ سے کلام کرتا تھا تو زبان موڑ کر کہتا تھا محمد ﷺ ذرا اپنے کان ہماری طرف کیجئے تاکہ ہم آپ کو سمجھائیں پھر اسلام پر نکتہ چینی کرتا اور عیب نکالتا تھا۔ اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ آیت میں مخاطب عام ہے (کیونکہ آگے جمع مخاطب کی ضمیریں آئی ہیں اور) فرمایا ہے تَضِّلُوْا اور اَعَداءِکُمیا یوں کہا جائے کہ قوم کے سردار سے خطاب پوری قوم سے خطاب ہوتا ہے اس لئے اس جگہ واحد مخاطب کی ضمیر اور آگے جمع تھی جمع مخاطب کی ضمیریں ذکر کیں۔ رویت مجازاً بمعنی نظر ہی اس لئے اس کے بعد الیٰ آیا ہے ورنہ رویت آنکھوں سے ہو یا دل سے اس کے مفعول پر الیٰ نہیں آتا یا یوں کہا جائے کہ نظر کے معنی کا اس میں احتمال ہے یا یوں تاویل کی جائے کہ رویت خواہ آنکھوں سے ہو یا دل سے معنی انتہا کو متضمن ہے اس لئے مفعول پر الیٰ آیا ہے۔ الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب اے مخاطب کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نظر نہیں کی جن کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے۔ اس سے مدینہ کے یہودی مراد ہیں۔ نصیباً کی تنوین تحقیر کے لئے ہے اور الکتاب سے مراد ہے تورات یعنی تورات کا ایک ادنی حصہ مراد یہ ہے کہ دل کا یقین اور معنی کا فہم تو ان کو نہیں دیا گیا صرف زبان سے قراءت ان کو نصیب ہوئی ہے۔ یشترون الضلالۃ . وہ خریدتے ہیں گمراہی۔ یعنی بعثت سے پہلے تو ان کو یقین تھا کہ نبی امی آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے اور کافروں کے خلاف یہ نبی امی کے طفیل سے فتح کی دعا بھی کرتے تھے لیکن جب وہ نبی مبعوث ہوگئے تو انہوں نے ان کی نبوت کو نہیں مانا تو سابق ایمان کے عوض کفر کو لے لیا۔ یا یہ مراد ہے کہ وہ ہدایت جو ان کے قبضہ میں تھی اور پیغمبر کا اتباع کر کے وہ اس کو حاصل کرسکتے تھے انہوں نے اس ہدایت کو چھوڑ کر اس کے عوض گمراہی کو لے لیا۔ ویریدون ان تضلوا السبیل . اور ان کی خواہش ہے کہ مسلمانو تم بھی راہ حق سے بہک جاؤ۔ اَلَم تَرَمیں استفہام کا حاصل ہے ‘ تقریر مدعی اظہار تعجب اور مخاطب کو بچنے کی ہدایت کرنا یعنی تم دیکھ رہے ہو تم کو معلوم ہو کہ ان کو تم سے اور مسلمانوں سے عداوت ہے باوجودیکہ کہ یہ تمہاری صداقت کو جانتے بھی ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو کیونکہ تمہارا سب سے بڑا دشمن وہی ہے جو تم کو دوامی تباہی میں ڈالنا چاہتا ہے تم اپنے معاملات میں ان کو خیرخواہ نہ سمجھو۔
Top