Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 212
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۘ وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
زُيِّنَ : آراستہ کی گئی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : کفر کیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَسْخَرُوْنَ : اور وہ ہنستے ہیں مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّقَوْا : پرہیزگار ہوئے فَوْقَهُمْ : ان سے بالا تر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، اُن کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی اُن کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے رہا دنیا کا رزق، تو اللہ کو اختیار ہے، جسے چاہے بے حساب دے
[ زُیِّنَ : سجایا گیا ] [ لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے جنہوں نے ] [ کَفَرُوْا : ناشکری کی ] [ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا : دنیوی زندگی کو ] [ وَیَسْخَرُوْنَ : اور وہ لوگ مذاق کرتے ہیں ] [ مِنَ الَّذِیْنَ : ان سے جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے ] [ اتَّقَوْا : تقویٰ کیا ] [ فَوْقَہُمْ : ان سے بالاتر ہوں گے ] [ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَرْزُقُ : عطا کرتا ہے ] [ مَنْ : اس کو جس کو ] [ یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے ] [ بِغَیْرِ حِسَابٍ : کسی شمار کے بغیر ] ز ی ن زَانَ (ض) زَیْنًا : کسی چیز کو خوبصورت بنانا ‘ سجانا ‘ آراستہ کرنا۔ زِیْنَۃٌ (اسم ذات) : وہ چیز جس سے کسی چیز کو سجایا جائے ‘ سجاوٹ ‘ آرائش۔ { مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ } (الاعراف :32) ” کس نے حرام کیا اللہ کی اس سجاوٹ کو جو اس نے نکالی اپنے بندوں کے لیے ؟ “ زَیَّنَ (تفعیل) تَزْیِیْنًا : بتدریج سجانا ‘ خوب سجانا۔ { وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا ‘ یَعْمَلُوْنَ ۔ } (الانعام) ” اور خوب سجایا ان کے لیے شیطان نے اس کو جو وہ لوگ کیا کرتے تھے۔ “ { وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَـیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّـنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ } (الحُجُرات :7) ” اور لیکن اللہ نے محبوب بنایا تمہارے لیے ایمان کو اور اس نے خوب سجایا اس کو تمہارے دلوں میں۔ “ تَزَیَّنَ (تفعّل) تَزَیُّنًا اور اِزَّیُّنًا : بتکلف آراستہ ہونا۔ { اِذَا اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ } (یونس :24) ” جب پکڑا زمین نے اپنا سنگھار اور وہ آراستہ ہوئی۔ “ ترکیب : ” زُیِّنَ “ کا نائب فاعل ” اَلْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا “ ہے۔ ” اَلْحَیٰوۃُ “ مؤنث غیر حقیقی ہے ‘ اس لیے اس کے فعل کے لیے مذکر کا صیغہ بھی جائز ہے۔ ” لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ متعلق فعل ہے۔ ” وَیَسْخَرُوْنَ “ کا ” وائو “ عاطفہ ہے۔ ” یَسْخَرُوْنَ “ کی ” ھُمْ “ کی ضمیر فاعلی ” لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ کے لیے ہے۔ ” وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا “ کا ” وائو “ استینافیہ ہے اس لیے اس سے پہلے وقف لازم ہے۔ ” وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا “ مبتدأ ہے ‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ظرف ” فَوْقَھُمْ “ قائم مقام خبر ہے۔ اس میں ” ھُمْ “ کی ضمیر ” لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا “ کے لیے ہے۔ ” یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ “ دوسرا ظرف ہے اور متعلق خبر ہے۔” یَرْزُقُ “ اور ” یَشَآئُ “ دونوں کا مفعول ” مَنْ “ ہے۔ ” یَشَائُ “ کی ” ھُوَ “ کی ضمیر فاعلی اللہ کے لیے ہے۔ نوٹ (1) : قرآن مجید میں ایک سو سے زیادہ مقامات پر لفظ ” یَشَائُ “ آیا ہے اور پچاس سے زیادہ مقامات پر اس سے پہلے ” مَنْ “ یا ” لِمَنْ “ آیا ہے۔ ہمارے کچھ عقل پرست لوگ (عقل پسندی قرآنی ہدایات کے مطابق ہے ‘ لیکن عقل پرستی غلط ہے) ایسے مقامات پر ” مَنْ “ کو ” یَشَائُ “ کا فاعل مان کر ترجمہ کرتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ قرآن مجید کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں عقل پرستوں کی غلطی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ” مَنْ “ کو اگر ” یَشَائُ “ کا فاعل مان کر ترجمہ کریں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے جو چاہتا ہے۔ اب اگر ایمان داری سے سوچا جائے تو ہر غیر متعصب ذہن کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ اس کو بیشمار ملے ‘ اور اس دنیا میں کون ہے جس کو اس کی خواہش کے مطابق ملا ہے ؟ عام آدمی کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں ‘ یہ خواہش تو اپنے وقت کے کسی فرعون کی بھی پوری نہیں ہوئی۔ عقل پرستوں کی سوچ میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے چاہنے کو اپنے چاہنے پر قیاس کرتے ہیں ‘ حالانکہ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ بلکہ صحیح تر بات یہ ہے کہ ان میں کسی قسم کا کوئی نسبت و تناسب نہیں ہے۔ ہمارا چاہنا ہمارے محدود علم ‘ محدودسمجھ ‘ بے لگام خواہشات ‘ خاندان ‘ برادری ‘ ذات پات اور رنگ و نسل کے تعصبات کے تحت ہوتا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کا چاہنا اس کی لامحدود صفات ‘ مثلاً علم ‘ رأفت ‘ رحمت اور حکمت وغیرہ کے مطابق ہوتا ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو سمجھ کر تسلیم کرلیتے ہیں ‘ ان کو قرآن مجید کے مذکورہ مقامات کا وہ مفہوم سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی جو صحابۂ کرام ؓ امت کو سمجھا گئے ہیں۔
Top