Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 212
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۘ وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
زُيِّنَ : آراستہ کی گئی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : کفر کیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَسْخَرُوْنَ : اور وہ ہنستے ہیں مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اتَّقَوْا : پرہیزگار ہوئے فَوْقَهُمْ : ان سے بالا تر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَاللّٰهُ : اور اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
خوشنما بنادیا گیا دنیا کی زندگی اور اس کے متاع فانی و زائل کو ان بدنصیب لوگوں کے لئے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر3 اور وہ مذاق اڑاتے ہیں ان خوش نصیب لوگوں کا جو اپنے سینوں میں ایمان و یقین کا نور رکھتے ہیں حالانکہ جن لوگوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنایا ہوگا وہ قیامت کے اس ابدی فیصلے کے دن ان کافروں سے کہیں بالا و برتر ہوں گے اپنے مراتب و درجات کے اعتبار سے اور اللہ جس کو چاہتا ہے روزی دیتا ہے بغیر کسی حساب کے
582 حب دنیا ہلاکت و بربادی کی جڑ بنیاد ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ بیماری کی جڑ بنیاد دنیا کے متاع فانی پر ریجھ جانا اور اس کی محبت میں گرفتار ہوجانا ہے۔ والعیاذ باللہ ۔ پس اس ارشاد سے اصل مرض کی تشخیص فرما دی گئی ہے کہ ان لوگوں کی اس محرومی اور بدنصیبی کی اصل وجہ یہ ہے، کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی اور اس کے متاع فانی پر ریجھ گئے، اور انہوں نے اس کے متاع فانی اور حطام زائل ہی کو سب کچھ سمجھ لیا، جس کی بناء پر یہ اسی کیلئے جیتے اور اسی کیلئے مرتے ہیں۔ اور اس وجہ سے انہوں نے آخرت کی اصل، حقیقی اور ابدی زندگی اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا جو کہ خساروں کا خسارہ اور دائمی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس فریب نظر میں مبتلا ہونے کے باعث اہل کفر و باطل اپنے کفر و باطل پر مست و مگن ہیں، اور یہ حق اور اہل حق کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہوتے، اور اہل حق کی طرف سے جب انکو انکے انجام سے خبردار کیا جاتا ہے، تو یہ اس کو سننے کی بجائے الٹا انکا مذاق اڑاتے ہیں، اور انکو زچ کرنے کیلئے طرح طرح کی باتیں بناتے، آوازے کستے، اور انکو تنگ کرنے کیلئے طرح طرح کے مطالبات کرنے لگتے ہیں، اور اس طرح یہ لوگ کلمہ حق کو سننے ماننے اور اس کو اپنانے سے اندھے، بہرے اور گونگے بن کر رہ جاتے ہیں، جو کہ خساروں کا خسارہ اور دائمی ہلاکت و تباہی کا راستہ ہے۔ سو راہ حق و ہدایت سے اعراض و روگردانی باعث ہلاکت و تباہی ہے ـ اور اس کا نتیجہ و انجام بہت برا اور نہایت ہولناک ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 583 کفر و باطل پر اڑ جانا سب سے بڑا خسارہ : یعنی ایک قسم تو ان کفار کی ہے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور وہ حق کو ماننے اور قبول کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ سو ایسے لوگ کبھی نہ کبھی نور حق سے مشرف ہوجاتے ہیں، اور اسلام کے حظیرہ قدس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ سو وہ تو قابل عتاب و مواخذہ نہیں، مگر ایک قسم ان کفار کی وہ ہے جو حق کے بارے میں عقل سے کام لیتے ہی نہیں، اور وہ اپنے کفر و باطل ہی پر اڑے رہتے ہیں، اور وہ اپنے کفر و باطل کے سیاہ اور مہیب دلدل سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہوتے، اور اپنے گھٹا ٹوپ اندھیروں ہی میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں، یہاں تک کہ فرصت عمر تمام ہوجاتی ہے، اور وہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سو ایسے بدبخت ہی دوزخ کا ایندھن بنیں گے، اور ایسے ہی منحوس لوگ ہیں جو اہل ایمان کا مذاق اڑاتے، اور اس طرح یہ اپنے کفر کی سیاہی کو اور پکا کرتے ہیں، اور اپنے کفر و باطل کی نحوست کی بناء پر وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح وہ خود اپنا ہی نقصان کرتے اور ایک نہایت ہی ہولناک اور ابدی خسارے کی طرف بڑھے جارہے ہیں، ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط رویے اور غلط راستے سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 584 اہل ایمان کا مذاق اڑانا کفار اشرار کا ہمیشہ کا شیوہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حالانکہ نور ایمان کی دولت، جس سے یہ خوش نصیب لوگ سرفراز ہیں وہ دولت ہے جس سے انسان دنیا و آخرت میں کامیابی اور فائز المرامی سے سرفراز و بہرہ مند ہوتا ہے، اور اس کی بنا پر حاملین عرش فرشتے بھی اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں، مگر یہ کفار اشرار ہیں کہ ایسے مومین صادقین کا مذاق اڑتے، ان کی تحقیر و تذلیل کرتے، اور ان کی طرح طرح سے دلآزاری کرتے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم، سو اہل ایمان کا مذاق اڑانا کفار اشرار کا شیوہ اور محرومی کا باعث ہے، والعیاذ باللہ العظیم اور ایسے لوگ اپنی دنیاوی ترقی اور مادی سروسامان کی بناء پر تکبر میں مبتلا ہو کر اہل ایمان کا مذاق اڑاتے اور ان کی تحقیر کرکے اپنی محرومی کے داغ کو اور پکا اور گہرا کرتے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو دنیاوی مال و دولت کا یہ پہلو زیادہ باعث ہلاکت و محرومی ہے کہ اس سے انسان محروم سے محروم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ - 585 اہل تقویٰ کیلئے عظیم الشان درجات کی خوشخبری : سو اہل ایمان کو قیامت کے اس یوم فصل و تمییز میں ایسے عظیم الشان درجات سے نوازا جائے گا کہ یہاں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، مگر چونکہ یہ سب کچھ ابھی پردہ غیب میں ہے، اس لئے نور ایمان سے محروم لوگ ایسے متقی اور پرہیزگار لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اور خود ان کو جس ہولناک انجام سے دوچار ہونا ہے اس سے یہ لوگ غافل و لاپرواہ اور بےفکر ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَزِیْزِ ۔ سو اس ارشاد ربانی میں ایک طرف تو ان کفار و مشرکین کو تنبیہ ہے جو ان اہل حق اور اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اپنی اس روش سے باز آکر اپنی اصلاح اور اپنی آخرت کی فکر کرو کہ تمہارا بھلا اسی میں ہے۔ اور دوسری طرف اس میں اہل حق کیلئے تسکین و تسلی کا سامان ہے کہ ایسے کفار و اَشرار کے طعن وتشنیع اور مذاق و استہزاء سے تمہیں افسردہ اور دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں، کہ تمہارے لیے رب نے آخرت میں ایسے عظیم الشان درجات تیار کر رکھے ہیں جن کا اس دنیا میں تصور کرنا بھی کسی کیلئے ممکن نہیں۔ سو ایمان وتقوی کی دولت ہی اصل دولت ہے جو دارین کی سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ اس دولت سے محفوظ و سرفراز رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 586 رزق و روزی کا مسئلہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے بےحساب روزی عطا فرماتا ہے۔ پس نہ تو دنیاوی روزی اور دولت کا مل جانا اللہ تعالیٰ کے یہاں عزت و شرف اور محبوبیت کا ثبوت ہوسکتا ہے، اور نہ ہی اس کا نہ ملنا اس کے یہاں مبغوض اور غیر محبوب ہونے کی علامت قرار پاسکتا ہے، بلکہ یہ مسئلہ محض اس کی حکمت و مشیئت پر مبنی و موقوف ہے، جس کے حکم و مصالح کا احاطہ اس کے سوا کوئی نہیں کرسکتا ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ البتہ دین و ایمان کی دولت سے سرفرازی ضرور اس کی رضا اور محبت کی علامت ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں نبئ اکرم ﷺ سے صاف وصریح طور پر مروی ہے، کہ " اللہ تعالیٰ دنیا تو اپنے پیاروں کو بھی دیتا ہے اور دشمنوں کو بھی، مگر دین صرف اسی کو دیتا ہے جو اس کے یہاں محبوب ہوتا ہے " اور دین و ایمان سے سرشار ایسے ہی حضرات کو وہ دنیا کی حقیقی عزت و عظمت کے علاوہ آخرت میں بھی بےحد و حساب روزی عطاء فرمائیگا۔ (جامع، صفوۃ البیان وغیرہ) ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ سو دولت ایمان و یقین سے سرفرازی دارین کی فوز و فلاح سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔
Top