Mutaliya-e-Quran - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے؟
لَوْلَآ [ کیوں نہیں ] اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ [ جب تم لوگوں نے سنا اس (بہتان) کو ] ظَنَّ [ تو خیال کیا ] الْمُؤْمِنُوْنَ [ مومنوں نے ] وَالْمُؤْمِنٰتُ [ اور مومنات نے ] بِاَنْفُسِهِمْ [ اپنی جانوں (یعنی اپنے لوگوں) پر ] خَيْرًا ۙ [ بھلائی کا ] وَّقَالُوْا [ اور (کیوں نہیں) کہا ] ھٰذَآ [ یہ ] اِفْكٌ مُّبِيْنٌ [ ایک کھلا بہتان ہے ] نوٹ ۔ 1: واقعہ افک کی نوعیت یہ ہے کہ غزوۂ بنی مصطلق ہے واپسی میں فوج نے شب میں کہیں پڑاؤ ڈالا۔ فوج کے کوچ سے پہلے بی بی عائشہ ؓ ضرورت سے باہر نکلیں۔ اتنے میں کوچ کا حکم ہوگیا اور قافلہ روانہ ہوگیا۔ بی بی عائشہ ؓ کا ساربان بھی یہ سمجھ کر روانہ ہوگیا کہ وہ اپنے ہو وج میں سوار ہیں۔ آپ ؓ جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوگیا تھا۔ ان کو اس کے سوا کوئی اور تدبیر نظر نہیں آئی کہ وہیں ٹھہر جائیں تآنکہ اللہ تعالیٰ کوئی راہ پیدا کرے۔ حضرت صفوان رضی تعالیٰ عنہ اس خدمت پر مامور تھے کہ وہ قافلہ کے پیچھے چلیں تاکہ بھولی بسری چیزوں کا جائزہ لے سکیں۔ صبح کو جب وہ پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے اور دیکھا کہ بی بی عائشہ ؓ پیچھے رہ گئی ہیں تو انھوں نے اپنا اونٹ بٹھایا۔ بی بی عائشہ ؓ اس پر سوار ہوگئیں اور انھوں نے مہار پکڑ کر اونٹ کو قافلہ سے جا ملایا۔ فوج کے کوچ و مقام کے دوران اس قسم کے واقعہ کا پیش آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن منافقین نے اس ذرا سی بات کو ایک افسانہ بنا ڈالا۔ اس واقعہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے حق میں برا نہیں ہوا بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر کے پہلو ہیں۔ اس واقعہ نے معاشرہ کی اصلاح و تنظیم سے متعلق بہت سے احکام و ہدایات کے نزول کے لئے ایک سازگار فضا پیدا کردی کہ اگر اس فضا کے پیدا ہوئے بغیر یہ احکام اترتے تو بہت سے لوگوں پر ان کی حقیقی قدروقیمت واضح نہ ہو پاتی۔ (تدبر قرآن) ۔ نوٹ۔ 2: آیت ۔ 12 میں اسلامی معاشرہ کا ایک اخلاقی اصول دیا گیا کہ ہر مسلمان مردو عورت کا یہ حق ہے کہ دوسرے افراد معاشرہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیں۔ اور اس وقت تک ان کے اس حق کا احترام کریں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ اس حسن ظن کے حق دار باقی نہیں رہے۔ اس حق کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے بارے میں کان میں کوئی ایسی بات پڑے جو اس حسن ظن کو مجروح کرنے والی ہو تو وہ اس کو فورا قبول نہ کرے اور نہ آگے بیان کرے بلکہ اس کو رد کردے اور اس وقت تک اس پر یقین نہ کرے جب تک اس کے سامنے اس کا کوئی معقول ثبوت نہ آجائے۔ (تدبر قرآن)
Top