Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ
: کیوں نہ
اِذْ
: جب
سَمِعْتُمُوْهُ
: تم نے وہ سنا
ظَنَّ
: گمان کیا
الْمُؤْمِنُوْنَ
: مومن مردوں
وَالْمُؤْمِنٰتُ
: اور مومن عورتوں
بِاَنْفُسِهِمْ
: (اپنوں کے) بارہ میں
خَيْرًا
: نیک
وَّقَالُوْا
: اور انہوں نے کہا
ھٰذَآ
: یہ
اِفْكٌ
: بہتان
مُّبِيْنٌ
: صریح
جب تم نے یہ قصہ سنا
15
تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی اور یوں
16
کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے
15
اس واقعہ افک کی پوری روئیداد خود حضرت عائشہ ؓ کی زبانی سنئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے (خود اپنا واقعہ افک یوں) بیان کیا کہ آپ کی عادت تھی کہ جب آپ سفر پر جاتے تو اپنی بیویوں کے نام قرعہ ڈالتے۔ قرعہ میں جس بی بی کے نام قرعہ نکلتا اسے آپ ساتھ لے جاتے۔ چناچہ آپ نے ایک غزوہ (بنی مصطلق) میں قرعہ ڈالا جو میرے نام نکلا۔ پس میں آپ کے ساتھ روانہ ہوگئی اور یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ میں ایک ہودے سوار رہتی اور جب اترتی تو ہودہ سمیت اتاری جاتی۔ ہم اس طرح سفر کرتے رہے جب آپ اس غزوہ سے فارع ہوئے اور سفر سے لوٹے تو ہم لوگ مدینہ کے نزدیک آن پہنچے۔ ایک رات کوچ کا حکم ہوا یہ حکم سن کر اٹھی اور پیدل چل کر لشکر سے پار نکل گئی۔ جب حاجت سے فارغ ہوئی تو لشکر کی طرف آنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ ظفار کے نگینوں کا ہار (جو میرے گلے میں تھا) ٹوٹ کر گرگیا ۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اسے ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے ہودہ اٹھا کر اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے ہودہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر لاد دیا۔ وہ یہ سمجھے رہے کہ میں ہودہ میں موجود ہوں۔ کیونکہ اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ پر گوشت اور بھاری بھر کم نہ ہوتی تھیں۔ اور تھوڑا سا کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لہذا ان لوگوں نے جب ہودہ اٹھایا تو اس کے ہلکے پن کا کوئی خیال نہ آیا۔ علاوہ ازیں میں ان دنوں ایک کمسن لڑکی تھی۔ خیر وہ ہودہ اونٹ پر لاد کر چل دیئے۔ لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار (جو اونٹ کے نیچے آگیا تھا) مجھے مل گیا میں اسی ٹھکانے کی طرف چلی گوی۔ جہاں رات کو اترے تھے۔ دیکھا تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا ہے اور نہ جواب دینے والا (سب جاچکے ہیں) میں نے ارادہ کیا کہ اپنے ٹھکانے پر چلی جاؤں۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ جب وہ لوگ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ تلاش کرنے آئیں گے۔ میں وہاں بیٹھی رہی۔ نیند نے غلبہ کیا اور میں سوگئی۔ لشکر کے پیچھے پیچھے (گرے پڑے کی خبر رکھنے کے لئے) ھفوان بن معطل سلمی مقرر تھے۔ وہ پچھلی رات چلے اور صبح میرے ٹھکانے کے قریب پہنچے اور دور سے کسی انسان کو سوتے ہوئے دیکھا پھر میرے قریب آئے تو مجھے پہچان لیا۔ کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے مجھے پہچان کر انا للؤہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو میں بیدار ہوگئی اور اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم انہوں نے نہ مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے انا للؤہ وانا الیہ راجعون کے سوا کوئی بات سنی۔ انہوں نے اپنی سواری بیٹھائی اور اس کا پاؤں اپنے ہاتھ سے دبائے رکھا تو میں اس پر سوار ہوگئی۔ وہ پیدل چلتے رہے اور اونٹنی کو چلاتے رہے تاآنکہ ہم لشکر سے سو اس وقت جاملے جب وہ عین دوپہر کو گرمی کی شدت کی وجہ سے اترے ہوئے تھے۔ اور جن لوگوں نے قسمت میں تباہی لکھی تھی وہ تباہ ہوئے اس تہمت کو سب زیادہ پھیلانے والا عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین) تھا۔ خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے وہاں پہنچ کر میں بیمار ہوگئی اور ایک مہینہ بھر بیمار رہی۔ لوگ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا چرچا کرتے رہے اور مجھے خبر تک نہ ہوئی۔ البتہ ایک بات سے مجھے وہم سا پیدا ہوا۔ وہ یہ تھی کہ آپ کی وہ مہربانی جو بیماری کی حالت میں مجھ پر ہوا کرتی تھی وہ اس بیماری میں نہیں پائی تھی۔ آپ تشریف لاتے، سلام علیک کہتے پھر یہ پوچھ کر کہ (اب طبیعت) کیسی ہے چل دیتے۔ اس بات سے مجھے کچھ شک تو پڑتا مگر کسی بات کی خبر نہ تھی۔ بیماری سے کچھ افاقہ ہوا اور ابھی کمزور ہی تھی کہ مناصع کی طرف گئی۔ مسطح کی ماں (سلمیٰ ) میرے ساتھ تھی۔ ہم لوگ ہر رات کو وہاں رفع حاجت کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اپنے گھروں کے نزدیک ہم پاخانے نہیں بناتے تھے بلکہ اگلے زمانہ کے عربوں کی طرح رفع حاجت کے لئے جنگل جایا کرتے۔ کیونکہ گھروں کے قریب پاخانہ بنانے سے ان کی بدبو ہمیں تکلیف دیتی۔ خیر میں اور مسطع کی ماں جو ابو رہم بن عبدمناف کی بیٹی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی، ابوبکر صدیق ؓ کی خالہ تھی۔ اسی کا بیٹا مسلح تھا۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد ہم دونوں گھر کو آرہی تھیں کہ مسطح کی ماں کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسلا تو کہنے لگی : مسطح ہلاک ہوگا، میں نے اسے کہا : کیا بکتی ہو، کہا تم ایسے شخص کو کو ستی ہو جو بدر میں شریک تھا ؟ وہ کہنے لگی : اے بھولی لڑکی، کیا تم نے وہ کچھ بھی سنا جو وہ کہتا ہے ؟ پوچھا کیا کہتا ہے ؟ تب اس نے تہمت لگانے والوں کی باتیں مجھ سے بیان کیں تو میری بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب میں گھر پہنچی۔ تو رسول اللہ تشریف لائے اور سلام کرکے پوچھا، اب کیسی ہے ؟ میں کہا : آپ مجھے اجازت دیجئے میں اپنے والدین کے ہاں جانا چاہتی ہوں۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تحقیق کروں۔ رسول اللہ ! نے مجھے اجازت دے دی تو میں اپنے والدین کے ہاں آگئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا۔ امی ! یہ لوگ (میری نسبت) کیا بک رہے ہیں ؟ اس نے کہا : بیٹی اتنا رنج نہ کرو۔ اللہ کی قسم ! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی مرد کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہوتی ہے اور وہ اس سے محبت کرتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو سوکنیں بہت کچھ کرتی رہتی ہیں میں نے کہا : سبحان اللہ ! لوگوں نے اس کا چرچا بھی کردیا۔ چناچہ میں یہ ساری رات روتی رہی۔ صبح ہوگئی۔ مگر نہ میرے آنسو تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ اور اسامہ بن زید کو بلایا کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو رہی تھی اور آپ اس سلسلہ میں ان سے مشورہ چاہتے تھے۔ چناچہ اسامہ بن زید نے آپ کو وہی مشورہ دیا جو وہ جانتے تھے کہ عائشہ ؓ ایسی ناپاک باتوں سے پاک ہے اور اسامہ کو آپ کی بیویوں سے محبت تھی انہوں نے صاف کہہ دیا کہ عائشہ ؓ پاکدامن اور بےقصور ہیں۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے کها : یارسول اللہ !~ اللہ تعالیٰ آپ پر تنگی نہیں کرے گا۔ عائشہ ؓ کے علاوہ اور بھی بہت عورتیں ہیں اور اگر آپ بریرہ سے پوچھیں تو وہ آپ ٹھیک ٹھیک بتلا دے گی چناچہ آپ نے بریرہ کو بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تم نے کوئی ایسی بات بھی دیکھی ہے کہ عائشہ ؓ کے متعلق تمہیں کچھ شک ہو ؟ بریرہ کہنے لگیں : اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں نے ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ ہاں میں اس میں ایک بات دیکھتی ہوں اور اس سے چشم پوشتی کر جاتی ہوں اور وہ یہ کہ وہ ابھی کم سن بچی ہے۔ آٹا گندھا پڑا چھوڑ کر سو جاتی ہے اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے (ان شہادتوں کے بعد) نبی ﷺ (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن ابی سلول کے خلاف آپ نے مدد چاہی۔ فرمایا۔ مسلمانوں ! اس شخص کے مقابل کوئی میری حمایت کرتا ہے۔ جس نے میرے اہل خانہ کے بارے میں مجھے دکھ پہنچایا ؟ میں نے تو اپنے اہل خانہ میں بھلائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص سے یہ لوگ متہمم کرتے ہیں اس میں بھی میں نے بھلائی ہی دیکھی ہے۔ وہ میرے گھر کبھی اکیلا نہیں آتا بلکہ میرے ساتھ ہی آتا ہے۔ یہ سنکر سعد بن معاذ (اوس قبیلہ کے سردار) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : میں اس کے مقابل آپ کی مدد کرتا ہوں۔ اگر یہ اوس قبیلے کا ہے تو ابھی اس کی گردن اڑا دیتا ہوں۔ اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج قبیلے کا ہے تو آپ جو حکم دیں گے بجا لائیں گے یہ بات سن کر حضرت سعد بن عبادہ جو خزرج قبیلے کے سردار تھے کھڑے ہوئے۔ وہ ایک نیک بخت آدمی تھے مگر قومی حمیت نے آدبوچا تو کہنے لگے : سعد بن معاذ ! اللہ کی قسم تو جھوٹ کہتا ہے تو نہ اسے مارے گا نہ مارسکے گا۔ اتنے میں اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کے چچا زادہ بھائی تھے۔ کھڑے ہو کر سعد بن عبادہ سے کہنے لگے : اللہ کی قسم ! تو جھوٹا ہے ہم ضرور اسے قتل کریں گے۔ کیا تو بھی منافق ہوگیا ہے جو منافقوں کی طرفداری کرتا ہے ؟ اس پر دونوں قبیلوں کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں۔ نبی اکرم ابھی منبر پر ہی تھے۔ آپ انھیں سمجھاتے اور تھماتے رہے جب وہ خاموش ہوئے تو آپ بھی خاموش ہوگئے۔ میرا وہ دن بھی رونے دھونے میں گزرا اور میں مسلسل دو دن سے رو رہی تھی۔ نہ میر آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی۔ میرے والدین سمجھے کہ رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے والدین پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی کہ ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اجازت دی تو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگی۔ اسی حالات میں آپ تشریف لائے اسلام کیا۔ پھر بیٹھ گئے۔ اس سے پہلے جب سے مجھ پر تہمت لگی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ بھر آپ انتظار کرتے رہے مگر وحی نہ آئی۔ آپ نے بیٹھ کر تشہد پڑھا۔ پھر فرمایا : عائشہ ؓ ! مجھے کو تیری نسبت ایسی ایسی خبر آئی ہے۔ اگر تو پاک ہے تو اللہ تیری بریت فرمائے گا اور اگر واقعی تجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے تو اللہ سے اپنے قصور کی معافی مانگ اور توبہ کر۔ جب بندہ گناہ کا اقرار کرتا ہے پھر اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ ان کے گناہ بخش دیتا ہے جب آپ یہ گفتگو ختم کرچکے تو یکبارگی میرے آنسو تھم گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی میری آنکھوں میں نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ رسول اللہ کو جواب دیں وہ کہنے لگے ! اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی والدہ (ام رومان) سے کہا کہ تم جواب دو اس نے کہہ دیا کہ میں نہیں جانتی کہ کیا جواب دوں آخر میں خود ہی جواب دینے لگے۔ میں ایک کمزور لڑکی تھی۔ قرآن مجھ کو زیادہ یاد نہ تھا۔ میں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں جانتی ہوں کہ یہ بات جو آپ لوگوں نے سنی ہے آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ اسے سچ سمجھنے لگے ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے سچا نہیں سمجھیں گے۔ اور اگر میں گناہ کا اقرار کرلوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو آپ لوگ مجھے سچا سمجھیں گے۔ اللہ کی قسم ! میں اپنی اور تمہاری مثال ایسی ہی سمجھتیں ہوں جیسے حضرت یوسف کے والد کی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا تھا میں بھی وہی کچھ کہتی ہوں کہ اب صبر کرنا ہی بہتر ہے اور تمہاری باتوں پر اللہ میری مدد کرنے والا ہے یہ کہہ کر میں نے کرو بدلی۔ مجھے یہ یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں۔ لہذا اللہ تعالیٰ ضرور میری بریت کردے گا۔ مگر اللہ کی قسم مجھے یہ خیال تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی آیات نازل کرے گا جو ہمیشہ پڑھی جائیں گی میں اپنا شان اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی۔ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ ! کوئی خواب دیکھیں گے جس سے آپ پر میری بریت واضح ہوجائے گی۔ پھر اللہ کی قسم ! ابھی رسول اللہ !~ وہاں سے ہلے بھی نہ تھے اور نہ ہی کوئی دوسرا آدمی وہاں سے باہر گیا کہ آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوگئی۔ معمول کے موافق آپ پر سختی ہونے لگی اور پسینہ موتیوں کی طرح آپ کے بدن سے ٹپکنے لگا حالانکہ وہ دن سردی کا دن تھا۔ مگر وحی اترنے میں ایسی ہی سختی ہوتی تھی ! جب امی موقوف ہوئی تو آپ خوش تپے اور ہنس رہے تھے۔ پھر پہلی بات آپ~صل
3
~ نے یہی کی : عائشہ ؓ ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری بریت فرما دی میری والدہ مجھے کہنے لگی : اٹھو اور آپ کا شکریہ ادا کروں۔ میں نے کہا۔ اللہ کی قسم میں نہیں اٹھوں گی۔ میں تو صرف اللہ عزوجل کا شکریہ ادا کروں گی جو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ( اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ ۭ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ ۭ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۭ لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَالَّذِيْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِيْمٌ
11
)
24
۔ النور :
11
) پوری دس آیات۔ جب یہ آیات اتری تو ابوبکر ؓ نے، جو محتاجی اور رشتہ کی وجہ سے مسطح کی مدد کیا کرتے تھے، کہا : اللہ کی قسم ! آئندہ میں مسطح کو کچھ نہیں دیا کروں گا جبکہ اس نے عائشہ ؓ کے متعلق ایسی باتیں کیں تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
22
)
24
۔ النور :
22
) یہ آیت سن کر ابوبکر صدیق ؓ کہنے لگے : اللہ کی قسم ! مجھے یہ پسند ہے کہ اللہ مجھے بخش دے۔ پھر وہ مسطح سے پہلا سا سلوک کرنے لگے اور کہا : اللہ کی قسم ! جب تک مسطح زندہ تھا میں یہ معمول بند نہ کروں گا حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ : (اس تہمت کے زمانہ میں) آپ زینب بن جحش (ام المومنین) سے میرا حال پوچھتے کہ تم عائشہ ؓ کو کیسی سمجھتی ہو اور تم نے کیا دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ !~ میں اپنے کان اور آنکھ کی خوب احتیاط رکھتی ہوں، میں تو عائشہ ؓ کو اچھا ہی سمجھتی ہوں آپ کی بیویوں میں سے زینب ہی میرے برابر کی تھیں۔ بڑھ چڑھ کر رہنا چاہتی تھیں۔ اللہ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انھیں بچا لیا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش اپنی بہن سے اس بارے میں جھگڑنے لگی تو جیسے دورے تہمت لگانے والے تباہ ہوئے وہ بھی تباہ ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس مفصل حدیث کی رو سے مسلمانوں کی مضبوط اخلاقی حالت کا درج ذیل امور سے پتہ چلتا ہے :
1
۔ خود رسول اللہ ﷺ اس واقعہ کو ایک بہتان ہی سمجھتے تھے۔ وہ صرف اپنی زوجہ محترمہ کو ہی نہیں، صفوان بن معطل کو بھی ایک پاکباز انسان سمجھتے تھے۔
2
۔ اس قصہ کا براہ راست صدمہ آپ کی ذات کو پہنچتا تھا۔ اور آپ کے ایک ادنیٰ سے اشارے سے بہتان تراشوں کا صفایا بھی کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب قومی اور قبائل عصبت کی بناء پر اس میں جھگڑا شروع ہوا تو آپ نے یہ صدمہ جانکاہ خود اپنی ذات پر برداشت کرلیا۔ مگر مسلمانوں میں جھگڑا نہ ہونے دیا۔
3
۔ آپ اس سلسلہ میں پورا مہینہ بےتاب و بےقرار رہے اس لئے کہ یقینی علم۔۔ یا علم غیب آپ کو حاصل نہ تھا۔ ورنہ آپ دوسروں سے حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں کوئی استفسار نہ فرماتے۔ اور شاید اس تاخیر میں یہ مصلحت بھی پوشیدہ جو کہ بعد میں آنے والے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کو عالم الغیب نہ سمجھنے لگیں یا ثابت نہ کرنے لگیں۔
4
۔ اپنے یقین کامل کے باوجود آپ) نے اس واقعہ کو حتمی تردید اس لئے نہ فرمائی کہ ایک شوہر کی اپنی بیوی کے لئے تردید مخالفین کی نظروں میں کچھ۔۔ نہیں رکھتی۔
5
۔ حضرت عائشہ ؓ کے والدین بھی ذاتی طور پر حضرت عائشہ ؓ کو پاکباز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کی والدہ ام رومان کے جواب سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم وہ بھی حتمی تردید اس لئے نہ کرسکتے تھے یا پاکبازی کا بیان اس لئے نہ دے سکتے تھے کہ والدین کا اپنی بیٹی کے حق میں پاکیزگی کا بیان مخالفین کا منہ بند نہیں کرسکتا۔
6
۔ آپ نے اس سلسلہ میں حضرت اسامہ بن زید، حضرت بریرہ اور ام المومنین حضرت زینب بنت حجش سے استفسار فرمایا اور یہ سب آپ کے گھر کے افراد تھے۔ سب نے پرزور الفاظ میں حضرت عائشہ ؓ کی پاکبازی کا بیان دیا۔ حضرت زینب جو حضرت عائشہ ؓ کی سوکن اور حضرت عائشہ ؓ کے بیان کے مطابق ان کے مقابلہ کی چوٹ تھیں۔ انہوں نے بھی حضرت عائشہ ؓ کا ذکر خیر ہی فرمایا۔ چوتھے گھر کے فرد حضرت علی ؓ تھے جن سے آپ نے استفسار فرمایا۔ انہوں نے اس الزام کی تردید یا حضرت عائشہ ؓ کی پاکبازی بیان کرنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کی کبیدگی اور خوشنودی کا لحاظ رکھ کر جواب دیا۔ تاہم ان کی زبان سے بھی ایسا کوئی لفظ نہیں نکلا جس سے اس الزام کی تائید ہوتی ہو یا حضرت عائشہ ؓ کی ذات یا پاکبازی پر کوئی حرف آتا ہو۔
7
۔ عامہ~ن~ المسلمین کی بھی اخلاقی حالت اتنی مضبوط تھی کہ منافقوں کے پرزور پروپیگنڈہ کے باوجود تین افراد کے سوائے کوئی ان سے متاثر نہ ہوسکا ان میں سے بھی حمنہ بنت جحش اپنی بہن کی خاطر اور حضرت عائشہ ؓ کو نیچے دکھانے کی وجہ سے اس بہتان میں شامل ہوگئی تھیں۔ اور اس واقعہ میں مسلمانوں کے لئے خیر کے پہلو یہ تھے :
1
۔ اس واقعہ مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہوگیا اور منافقین چھٹ کر سامنے آگئے۔ جو یہ چاہتے تھے کہ اس طرح مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انھیں کمزور کردیا جائے۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور مسلمانوں کی اخلاقی توفق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔
2
۔ جو افراد اس صدمہ سے جس قدر متاثر تھے اسی قدر وحی الٰہی ان کے لئے تسلی اور خوش کا باعث ہوئی۔ جب وحی ختم ہوئی تو خود رسول اللہ ﷺ خوشی کی وجہ سے ہنس رہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کے والدین کی خوشی کا بھی یہ اثر تھا کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کو آپ کا شکریہ ادا کرنے کو کہا۔ اور آئندہ کے لئے ان کا لقب ہی صدیقہ پڑگیا۔
3
۔ مسلمانوں کو ایسی ہدایات و احکام دیئے گئے جن پر عمل پیرا ہونے سے وہ ایسے فتنہ پرور طوفانوں کا بخیر و بخوبی مقابلہ کرسکیں۔
16
جب اس بہتان کا عام چرچا ہونے لگا تو ایک دن حضرت ابو ایوب انصاری کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا : لوگ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حضرت ایوب کہنے لگے : لوگ بکواس کرتے ہیں۔ تم ہی خود ہی بتلاؤ۔ کہ تم ایسا کام کرسکتی ہو ؟ وہ کہنے لگی : ہرگز نہیں وہ کہنے لگے : پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی کی بیوی) عائشہ ؓ صدیقہ تجھ سے بڑھ کر پاک صاف اور طہر و مطہر ہیں۔ ان کی نسبت ایسا بےحد گمان کیوں کیا جائے۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں خود ہوتا تو ایسا خیال تک نہ کرسکتا تھا اور صفوان تو مجھ سے بہتر مسلمان ہے اور مسلمانوں کی اکثریت کی فکر کا اندازہ یہی تھا۔
Top