Al-Qurtubi - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو
آیت نمبر 201 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومنھم یعنی لوگوں میں سے۔ اس سے مراد مسلمان ہیں جو دنیا اور آخرت کی خیر طلب کرتے ہیں۔ اور الحسنتین کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں : حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ دنیا میں الحسنة سے مراد حسین و شکیل عورت ہے اور آخرت میں آہو چشم حوریں ہیں۔ وقنا عذان النار۔ اس سے مراد بری اور بدصورت عورت مراد لینا تجوز ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں بعد ہے۔ یہ حضرت علی ؓ سے صحیح نہیں ہے کیونکہ النار سے مراز حقیقۃ جلانے والی آگ ہے اور آگ سے عورت مراد لینا تجوز ہے۔ قتادہ نے کہا : حسنة الدنیا سے مراد دنیا میں عافیت اور مال بقدر ضرورت ہے۔ حسن نے کہا : حسنة الدنیا سے مراد علم اور عبادت ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ اکثر اہل علم کا یہ قول ہے کہ الحسنتین سے مراد دنیا وآخرت کی نعمتیں ہیں اور یہ صحیح ہے کیونکہ لفظ تمام چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ حسنة نکرہ ہے اور دعا کے سیاق میں ہے۔ یہ بطور بدل ہر حسنة کا احتمال رکھتا ہے اور حسنة الاخرۃ سے مراد بالا جماع جنت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کوئی ایک حسنة مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ہمیں اچھا عطییہ عطا فرما۔ پس اسم کو حذف کیا گیا۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقنا عذاب النار، قنا اصل میں اوقنا تھا واو کو حذف کیا گیا جس طرح یقی اور یشی میں حذف کی گئی کیونکہ واو، یا کسرہ کے درمیان واقع ہے جیسے یعد، میں واو حذف ہے۔ یہ بصریوں کا قول ہے۔ کو فیوں نے کہا ؛ واو کو لازم اور متعدی کے درمیان فرق کرنے کے لئے حذف کیا گیا ہے۔ محمد بن زید نے کہا : یہ غلط ہے کیونکہ عرب کہتے ہیں ورم، یرم، واو کو حذف کرتے ہیں۔ آیت سے مراد یہ دعا ہے کہ وہ ان لوگوں سے نہ ہو جو گناہوں کی وجہ سے آگ میں داخل ہوں گے اور شفاعت انہیں نکالے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دعا جنت میں داخلہ کی طلب کے لئے دعا کو مؤکد کرنا ہے تاکہ دونوں طرف سے نجات اور فوز میں رغبت ہو جیسا کہ ایک صحابی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی تھی میں اپنی دعا میں کہتا ہوں : اے اللہ ! مجھے جنت میں داخل کر اور مجھے آگ سے عافیت دے اور میں آپ کی کلام اور معاذ کی کلام کو نہیں جانتا، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :” ہماری کلام تیری کلام کے قریب ہوتی ہے “۔ ابوداؤد نے اپنی سنن میں اور ابن ماجہ نے یہ روایت کی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: یہ آیت ایک جامع دعا ہے دنیا وآخرت کو شامل ہے۔ حضرت انس ؓ سے کہا گیا : ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں فرمائیں۔ آپ نے دعا کی : اللھم آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرۃ حسنة عذاب النار۔ لوگوں نے کہا : ہمارے لئے مزید دعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا : تم کیا چاہتے ہو، میں نے دنیا و آخرت تو مانگ لی ہے ؟ صحیحین میں حضرت انس سے مروی ہے، فرمایا : نبی کریم ﷺ اکثر اس دعا کے ساتھ دعا مانگتے تھے : اللھم آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرۃ حسة و قنا عذاب النار۔ حضرت انس جب دعا مانگنے کا ارادہ کرتے تو اس کے ساتھ دعا مانگتے اور حضرت عمر کی حدیث میں ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو یہ دعا مانگتے : ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسة وفی الاٰخرۃ حسنة وقنا عذاب النار۔ اس کے علاوہ آپ کی کوئی عادت نہ تھی۔ یہ ابوعبید نے ذکر کیا ہے۔ ابن جزیج نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ موقف میں مسلمان کی اکثر دعا یہ ہونی چاہیے : ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسة وفی الاٰخرۃ حسنة وقنا عذاب النار۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : رکن کے پاس ایک فرشتہ کھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا وہ آمین کہتا ہے۔ پس تم کہو : ربنآ اٰتنا فی الدنیا حسة وفی الاٰخرۃ حسنة وقنا عذاب النار۔ عطا بن ابی رباح سے رکن یمانی کے متعلق پوچھا گیا جب کہ وہ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے۔ عطا نے کہا : مجھے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ستر فرشتوں کو اس پر مقرر کیا گیا ہے جو یہ دعا پڑھے : اللھم انی اسالک العفو و العافیة فی الدنیا والآخرۃ ربناآتنا فی الدنیا حسة وفی الآخرۃ حسنة وقنا عذاب النار۔ تو وہ کہتے ہیں : آمین (الحدیث) اس حدیث کو ابن ماجہ نے سنن میں نقل کیا ہے اور پوری حدیث مسند اسورۂ الحج میں آئے گی۔
Top