Ruh-ul-Quran - Yaseen : 25
اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِؕ
اِنِّىْٓ : یشک میں اٰمَنْتُ : میں ایمان لایا بِرَبِّكُمْ : تمہارے پروردگار فَاسْمَعُوْنِ : پس تم میری سنو
بیشک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں، پس تم میری بات سنو
اِنِّیْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ ۔ (یٰسٓ: 25) (بےشک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں، پس تم میری بات سنو۔ ) اتمامِ حجت اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب اس مخلص انسان نے محسوس کیا کہ یہ سنگ دل لوگ بجائے میری ہمدردی اور خیرخواہی میں ڈوبی ہوئی تقریر سے اثر لینے کے مجھے سنگسار کردینے پر تل گئے ہیں اور ان کی جاہلی عصبیت نے انہیں بالکل درندہ بنادیا ہے۔ تو انھوں نے اتمامِ حجت کے طور پر سب کے سامنے اعلان کیا کہ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں کیونکہ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ جو میرا خالق اور رب ہے بندگی بھی اسی کی زیب دیتی ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرسکتا۔ اس لیے میں اس کی ذات وصفات کو تسلیم کرتے ہوئے غیرمشروط طور پر ایمان کا اعلان کرتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ جس طرح وہ میرا رب ہے تمہارا بھی رب ہے۔ اگر اس کی ربوبیت کا تقاضا مجھے ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے تو تمہیں بھی اس تقاضے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تو تم میری اس بات کو غور سے سنو اور سمجھو۔ میں جانتا ہوں کہ اس کے بعد میری آواز خاموش کردی جائے گی۔ لیکن جب تک میری قوت گویائی باقی ہے میں تمہیں تمہارے رب کی یاد دلاتا رہوں گا۔ دوسرا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مخلص انسان کا خطاب قوم سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے ہے۔ ان کی دعوت و تبلیغ کی تائید کے لیے جو کچھ بن پڑے وہ کر گزرنا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ کیونکہ یہ ان پر ایمان لا چکے تھے۔ چناچہ اپنے اس فرض کو آخری حد تک انجام دینے کے لیے انھوں نے برہنہ دشمنوں کے سامنے اس کا اعلان کرکے ان کی صداقت کا اعتراف کیا۔ اور لوگوں کے سامنے یہ بات واضح کردی کہ اگر ان کی صداقت میں کوئی شبہ ہوتا اور یہ لوگ اپنے دعویِٰ رسالت میں جھوٹے ہوتے تو میں کبھی جان پر کھیل کر اس بےباکانہ طریقے سے ایمان کا اظہار نہ کرتا۔ پھر رسولوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ میرے اس اعلان کو سن لیجیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے میرے ایمان کی شہادت دیجیے۔
Top