Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 25
اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِؕ
اِنِّىْٓ : یشک میں اٰمَنْتُ : میں ایمان لایا بِرَبِّكُمْ : تمہارے پروردگار فَاسْمَعُوْنِ : پس تم میری سنو
میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں سو میری بات سن رکھو
(36:25) انی امنت بربکم (میں ایمان لے آیا ہوں تمہارے رب پر) ۔ اس کی تین صورتیں ہیں ! (1) یہ خطاب قوم سے ہے جس کو اس نے یوں خطاب کیا تھا۔ یقوم اتبعوا المرسلین۔ (2) یہ خطاب بادشاہ سے ہے جس کے پاس قوم کے آدمی اسے پکڑ کرلے گئے تھے۔ (3) بعض علما نے کہا ہے کہ بربکم میں خطاب رسولوں کو ہے کیونکہ جب اس کو یقین ہوگیا کہ مجھے قتل کردیا جائے گا۔ تو اس نے اپنے مومن ہونے کا پیغمبروں کو گواہ بنا لیا۔ اور کہا کہ میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں۔ میرے گواہ رہنا۔ ترجیحا یہ خطاب قوم سے ہی ہے۔ فاسمعون۔ اسمعوا۔ سماع سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے ن وقایہ ہے ی متکلم کی محذوف ہے ۔ پس میری سنو ! یعنی میرے ایمان کی اطلاع سن لو۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ اس پر مجھے تمہاری طرف سے کیا سہنا پڑے گا۔ فائدہ۔ (1) تفسیر الماجدی میں ہے کہ وما لی لا اعبد الذی فطرنی۔ ء اتخذ انی اذا ہر جگہ صیغہ واحد متکلم کے استعمال سے مولانا اشرف علی تھانوی نے یہ استنباط کیا ہے کہ مرد مومن نے یہ سب اپنے اوپر رکھ کر اس لئے کہا کہ مخاطبین کو اشتعال نہ ہو جو غوروتدبر کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ فائدہ : (2) انی امنت بربکم میں بجائے بربی کہنے کے بربکم کہا اس کہنے میں ایمان کی ایک بلیغ دعوت ہے۔
Top