Tafheem-ul-Quran (En) - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
ان لوگوں کو ایک مثال سنا دو ، دو آدمی تھے ان میں سے ایک کے لیے ہم نے انگور کے دو باغ مہیا کردیئے ، گرداگرد کھجور کے درختوں کا احاطہ تھا ، بیچ کی زمین میں کھیتی تھی
پیغمبر اسلام ﷺ کے ذریعہ سے ایک مثال بیان کر کے تفہیم کرادی : 35۔ زیر نظر آیت 32 سے آیت 44 تک تیرہ آیتوں میں دو آدمیوں کی مثال بیان فرما کر تفہیم کرانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ اچھی زندگی اور بری زندگی کے مآل سے انسان اچھی طرف واقف ہوجائے اور جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے اس سے آگاہ ہوجائے ، لیکن ایسا کب ہوگا ؟ جب انسان خود غور وفکر کرے گا اور سمجھ سوچ سے کام لینے کی کوشش کرے گا ، اگر وہ خود کوشش نہ کرے تو بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہوگا ۔ اس طرح گویا وہ انسانوں کے درمیان مناظرانہ گفتگو کی شکل میں ذکر ہوا ہے اور ساتھ ہی اس کا نتیجہ اور ثمرہ بھی بیان فرما دیا گیا ہے ، اس کے متعلق بعض مفسریں کا خیال ہے کہ قرآن کریم نے اس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے اور اس طرح کفار مکہ اور مسلمانوں کی جماعت کے حالات کو سامنے رکھ کر تذکیر ونصیحت کے لئے بیان کیا ہے اور یہ بات نہیں ہے کہ اس طرح کا واقعہ اور حقیقت دو آدمیوں (مومن اور کافر) کے درمیان زمانہ ماضی میں پیش آیا تھا اور بعض کا خیال ہے کہ جس طرح اصحاب کہف کا واقعہ پیش آیا ہے اس طرح نزول قرآن کریم سے قبل دو انسانوں کے درمیان یہ واقعہ بھی پیش آیا ہے اور قرآن کریم نے ان دونوں واقعات کو مشرکین مکہ کی تذکر وتنذیر کے لئے بیان کیا ہے ۔ فرمایا ” اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں کو ایک مثال سنا دو ‘ دو آدمی تھے ان میں سے ایک کے لئے ہم نے انگور کے دو باغ مہیا کر دئے اور ان کے گرداگرد کھجور کے درختوں کا احاطہ تھا اور درمیان میں کھیتی تھی ۔ “ یہ گویا اس باغ کی خوبصورتی کا تفصیلی بیان ہے ۔
Top