Tafseer-al-Kitaab - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ : اور سورج تَجْرِيْ : چلتا رہتا ہے لِمُسْتَقَرٍّ : ٹھکانے (مقررہ راستہ لَّهَا ۭ : اپنے ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : نظام الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : جاننے والا (دانا)
اور سورج (ہے کہ) اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے۔ یہ اندازہ ٹھہرایا ہوا ہے اس زبردست و باخبر (ہستی) کا،
[14] یہ آیت منجملہ ان آیات میں سے ہے جن سے قرآن مجید کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہے۔ پندرہویں صدی میں مشہور منجم نکولس کا پر نیکس ( Nicholas Copernicus 1473-1543 AD) نے یہ اعلان کر کے کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے دنیائے علم میں ایک زلزلہ سا ڈال دیا تھا۔ اس کی تائید جرمنی کے مشہور ہیئت دان کیپلر (Kepler 1571-1630 AD) نے بھی کی تو دنیا نے کا پر نیکس کے '' انکشاف '' کو ایک حقیقت سمجھ لیا۔ اور کیونکہ اس آیت کی رو سے سورج متحرک ہے اس لئے دنیائے اسلام میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے پاس نہ علم تھا نہ رصدگاہیں اور نہ فلک بین دوربینیں تھیں، اس لئے وہ اس '' انکشاف '' کی تردید نہ کرسکے۔ آخر قرآن کی حفاظت کرنے والے رب العزت نے قرآن کی تائید کا انتظام خود ہی کیا اور یورپ میں ایسے منجم پیدا کر دئیے جنہوں نے سالہا سال کے مشاہدے اور مطالعے کے بعد پورے وثوق سے اعلان کیا کہ سورج کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہا ہے ان میں سرفہرست سر ولیم ہر شل ( 1738-1822 AD Herschel) تھا۔ اس کا قول ہے : The Sun is travelling through space. (سورج خلا میں سفر کر رہا ہے) ۔ سورج کی منزل کون سی ہے اس کی وضاحت نہ قرآن نے کی ہے نہ ہر شل نے۔ لیکن قرآن نے چودہ سو سال پہلے جو دعویٰ کیا تھا وہ دانایان مغرب کو آخرکار تسلیم کرنا پڑا۔
Top