Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
مسلمانو ! جب تم نے اس کو سنا تھا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کے متعلق نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہا ، یہ تو صریح جھوٹ ہے (ہم نہیں مان سکتے)
اسلامی معاشرہ کے اخلاقی اصول کی وضاحت اور ذمہ داری کا احساس : 20۔ زیر نظر آیت میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم کو آپس میں حسن ظن سے کام لینا چاہئے کیونکہ تم ایک دوسرے کے اندرونی حالات سے اچھی طرح واقف ہو اور جانتے ہو کہ ایک مومن جو اللہ رب ذوالجلال والاکرام کی رضا کا طالب ہے اس قسم کے شنیع فعل کا ارتکاب نہیں کرسکتا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایسا قدم کبھی اچانک نہیں اٹھایا جاسکتا بلکہ اس کے لئے ایک باقاعدہ پلیٹ فارم بناکر ایک مدت تک اس پر چلنا پڑتا ہے اس طرح کی برائی اچانک ممکن ہی نہیں سکتی اور اگر پہلے اس طرح کی کوئی بات ہوتی تو وہ چھپی کیسے رہ سکتی تھی پھر جن لوگوں کے متعلق ایسی باتیں کہی گئی ان میں سے اس طرح کا کوئی تصور بھی پیش نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے ان ساری باتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ کسی کی ہاں میں ہاں ملاتے بلکہ ان کا حق تو یہ تھا کہ ایسی بات سنتے ہی الامان والحفیظ کہہ دیتے اور ایسی بات کرنے والوں کا پردہ فاش کردیتے اور ان کے عزائم کو فورا ملیا میٹ کردیتے اور ان کو برملا کہتے کہ یہ بات تم نے محض جھوٹ موٹ گھڑ لی ہے (افک) کہتے ہی جھوٹ اور افتراء کو ہیں (افک) کے اصل معنی ہی پلٹ دینے کے ہیں چونکہ افتراء وبہتان بھی ایک چیز کی اصلیت سے مقلوب ہونا ہے اور بہتان لگانے والے اس کی اصلیت کو پلٹ دیتے ہیں اس لئے اسے (افک) کہا جاتا ہے ۔ اس طرح ایک طرح سے مسلمانوں کی گوشمالی بھی کی گئی اور ان کو سبق بھی سکھایا گیا کہ تم نے غور وفکر سے کام کیوں نہ لیا اور کیوں نہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ اس کی اشاعت کرنے والا مسلمانوں کا شدید ترین دشمن عبداللہ بن ابی سلول ہے اور یہ ناپاک الزام اس ذات کی طرف منسوب کیا جارہا ہے جو نبی اعظم وآخر ﷺ جیسے مقدس انسان کی اہلیہ اور ام المومنین ہے اور پھر وہ صدیق اکبر جیسے انسان کی بیٹی ہے اور کوئی شخص اس واقعہ سے پہلے ایسی بات کی طرف اشارہ تک بھی نہیں کرسکا اور دفعتا ایسی بات ممکن بھی نہیں ہو سکتی ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ ایک بداخلاق انسان نے اس قصہ کو مشہور کیا لیکن اس کا انداز ایسا تھا کہ جو کچھ اس نے کہا وہ اشاروں ‘ کنایوں میں کہا تاکہ وہ قانون کی زد میں آسانی کے ساتھ نہ آسکے اور پھر تم اس کی زندگی کے حالات وواقعات کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے اور دوسری طرف جو انسان تھے ان میں سے بھی تم ایک ایک سے واقف تھے ان ساری باتوں کے باوجود تم نے بات سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ واللہ ! یہ تو بہتان عظیم ہے اور ایسا ہونا کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔ بلاشبہ اس وقت ابھی ابھی اس نئے اور جدید قانون کا اعلان ہوا تھا جس کا ذکر اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں بیان کیا شاید لوگ ڈرتے ہوں گے کہ اگر کوئی بات منہ سے نکل گئی تو کہیں قانون کی زد میں نہ آجائیں کیونکہ قانون کی وضاحت سے ابھی اور اچھی طرح واقف نہ تھے لیکن آج ہم مسلمانوں کو کیا ہوگیا کہ ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے کے لئے ہر انسان ہر وقت تیار کھڑا ہے اخبارات ‘ ٹیوی اور رسائل ایسے الزامات سے لبریز پڑے ہیں ‘ بڑوں بڑوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں ‘ کھلے بندوں الزام لگائے جاتے ہیں ‘ جھوٹ موٹ باتیں بیان کی جاتی ہیں اور ایسی باتوں کو ایک فیشن سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے تیار کھڑا ہے اور افوائیں پھیلانا ایک فن تصور کیا جاتا ہے اور قوم میں کتنے اہل قلم ہیں جن کا روز گار ہی ایسا ہے کہ وہ ان افواہوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کو جو کچھ رطب ویابس ملتا ہے وہ اس کو لیتے اور مزید جھوٹ کی چاشنی بھر کر اپنے اخبار میں ایک خبر داغ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے مسلم معاشرے کے انسان ہیں کہ وہ (افک مبین) کہنے کی بجائے امنا وصدقنا کہہ کر ان کی تصدیق کرتے ہیں اور وحی والہام کی طرح اس کی اشاعت کی جاتی ہے ۔
Top