Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
وَضَرَبَ : اور اس نے بیان کی لَنَا : ہمارے لیے مَثَلًا : ایک مثال وَّنَسِيَ : اور بھول گیا خَلْقَهٗ ۭ : اپنی پیدائش قَالَ : کہنے لگا مَنْ يُّحْيِ : کون پیدا کرے گا الْعِظَامَ : ہڈیاں وَهِىَ : اور جبکہ وہ رَمِيْمٌ : گل گئیں
اور وہ ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے کہتا ہے ان ہڈیوں کو جو بوسیدہ ہوچکی ہیں کون زندہ کرے گا ؟
اپنی پیدائش کو فراموش کرکے ہمارے لیے مثالیں گھڑنے لگا : 78۔ انسان کو اس کی پیدائش بار بار کیوں یاد کرائی جا رہی ہے ؟ اس لیے کہ کہاوت ہے کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔ انسان کو اپنی پیدائش کے مرحلوں پر غور کر کے شرما جانا چاہئے کہ اس کی حقیقت اور اصلیت کیا ہے اور جو رویہ اس نے اختیار کر رکھا ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بڑے اونچے درجے کی شے ہے حالانکہ وہ جو کچھ ہے وہ اس کو بھی معلوم ہے کیا وہ نطفے سے پیدا ہو کر ایسا جھگڑالو بن گیا ہے کہ وہ رب کریم ہی کے لیے مثالیں بیان کرنے لگا ہے وہ ایک ہڈی کو اٹھا کر جو ایک مدت اس زمین کے اندر رہ کر بوسیدہ ہوچکی ہے اور دو انگلیوں کی مدد سے وہ بھربھری بنائی جا رہی ہے وہ اس ہڈی کو اپنی دو انگلیوں کے ساتھ پکڑ کر اس کو مسلتا ہے اور زبان سے کہتا ہے کہ کیا اللہ اس بھربھری مٹی کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور جب وہ ایسا کر رہا تھا اس وقت اس کی اپنی پیدائش اس کی آنکھوں میں کیوں نہ گھوم گئی ، یہ بھربھری مٹی تو پھر بھی آخر ایک چیز ہے وہ قطرہ ناپاک جس میں ایک چپک کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا کیا اس سے بھی یہ بھربھری ہڈی ناکارہ چیز ہے ؟ جو نظر آتی ہے ‘ دکھائی دیتی ہے اور کبھی اس میں زندگی موجود تھی ‘ اس آب وہوا اور زمین کی نمی نے مل کر اس کو اس طرح کردیا لیکن اس کے باوجود وہ ایک نظر آنے والی اور دیکھی جانے والی ایسی چیز ہے جس کو ہاتھ میں پکڑنے اور مسلنے اور بھربھری بنانے میں کسی طرح کی کوئی ناپاکی نہیں آئی اس بھربھری کرنے والے کی ہئیت وحالت میں کچھ تغیر پیدا نہیں ہوا اس پر تو اس کو اعتراض ہے کہ اس سے انسان کی پیدائش کیونکر ہوگی اور اپنی پیدائش پر اس نے غور نہیں کیا کہ وہ ایک جنس کی دو اصناف کی شرمگاہوں کے ملنے سے کس طرح پیدا ہوگیا ؟ اس میں زندگی جیسی عزیز چیز کہاں سے پیدا ہوگئی ؟ پھر جب وہ ماں کے پیٹ سے باہر آیا تو آلائش سے کس طرح لتھڑا پڑا تھا ‘ اس کو ایک ناپاک کیچڑ کی دلدل سے اٹھا کر دایہ نے نہلا دھلا کر صاف ستھرا کیا پھر اس کی شرمگاہ ہی کا خیال کرکے اس کی جنس کا تعین کیا گیا کہ وہ صنف نازک سے تعلق رکھنا ہے یا صنف مذکر سے اور علاوہ ازیں اس کی پہچان کا کوئی ذریعہ بظاہرموجود نہ تھا لیکن لیکن باتیں بناتے وقت وہ ان ساری باتوں کو بھول جاتا ہے اور پھر الٹے سیدھے سوال کرنا شروع کردیتا ہے کہ ” خدا ہوتا تو کہیں نظر آتا ‘ اتنے بڑے کارخانہ حیات کو صرف اور صرف ایک ہی ہستی چلا رہی ہے بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے یہ قیامت کی دھمکیاں کیا ہیں ؟ قیامت ویامت کچھ نہیں ہے ‘ یہ خواہ مخواہ کے ڈھکوسلے ہیں جو ملاؤں نے گھڑ رکھے ہیں بھلا ان بھربھری ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ “ یہ شوخ چشمی اور زبان درازی اور تکبر ونخوت اور پیشاب کا راستہ ان کی آپس میں کوئی نسبت ؟ تو کہاں کا مسافر اور کدھر الجھ رہا ہے ۔
Top