Fi-Zilal-al-Quran - Yaseen : 78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
وَضَرَبَ : اور اس نے بیان کی لَنَا : ہمارے لیے مَثَلًا : ایک مثال وَّنَسِيَ : اور بھول گیا خَلْقَهٗ ۭ : اپنی پیدائش قَالَ : کہنے لگا مَنْ يُّحْيِ : کون پیدا کرے گا الْعِظَامَ : ہڈیاں وَهِىَ : اور جبکہ وہ رَمِيْمٌ : گل گئیں
” اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۔ کہتا ہے ” کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جب کہ یہ بو سیدہ ہوچکی ہوں ؟ “
وضرب ۔۔۔۔۔ خلق علیم (36: 78-79) ” وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۔ کہتا ہے ” کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں “۔ اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے “ کس قدر سادہ منطق ہے یہ ؟ نہایت فطری استدلال ۔ ایسا استدلال جو مشاہدہ کے مطابق نظر آتا ہے ۔ یہ نطفہ جو کچھ کہ وہ ہے کیا وہ بوسیدہ ہڈیوں سے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے ۔ کیا انسان اسی نطفے سے نہیں بنا اور کیا انسان کی پیدائش ثالی کا عمل پیدائش ادل کا عمل نہیں ہے اور جس ذات نے اسے حقیر نطفے کو ایک انسان بنایا اور اسے وہ شخصیت دی کہ وہ صریح جھگڑالو بن گیا تم وہ ذات ان بوسیدہ ہڈیوں سے انسان کو تیار نہیں کرسکتی اور انہی ہڈیوں اور اجزاء سے ایک خلق جدید تیار نہیں کرسکتی ؟ یہ معاملہ تو بہت ہی آسان اور ظاہر ہے ۔ اور اس قدر ظاہر ہے کہ اس پر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چہ جائیکہ کوئی اس پر مباحثہ کرے ۔ قل یحییھا۔۔۔۔ خلق علیم (36: 79) ” اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے “۔ اس کے بعد اللہ کی قدرت خالقہ کی ماہیت کا ایک نمونہ انہیں بتایا جاتا کہ یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ جائے ۔ اللہ کی یہ صنعت کاری ان کے مشاہدہ اور ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے ہے اور یہ اسے آزماتے رہتے ہیں ۔
Top