Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کئے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
واضرب لہم مثلا رجلین اور ان سے دو آدمیوں کا حال بیان کرو۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مکہ میں قبیلۂ بنی مخزوم کے دو بھائی رہتے تھے ایک مؤمن تھا دوسرا کافر ‘ مؤمن کا نام ابوسلمہ عبداللہ (ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کے سابق شوہر) بن عبدالاسود بن عبد یالیل تھا اور کافر کا نام اسود بن عبدالاسود بن عبدیالیل انہی دونوں کے حق میں اس آیت کا نزول ہوا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ عیینہ بن حصین اور اس کے ساتھیوں کے احوال اور حضرت سلمان کے حال کو بطور تمثیل بنی اسرائیل کے دو بھائیوں کے احوال سے تشبیہ دی ہے جن میں سے ایک کا نام برقول ابن عباس یہودا اور برقول مجاہد تملیخا تھا اور دوسرے کا نام قطروس اور برقول وہب قطفر تھا اوّل مسلمان تھا دوسرا کافر سورة والصافات میں بھی انہی کا قصہ بیان کیا ہے عبداللہ بن مبارک نے بروایت معمر عطاء خراسانی کا بیان ان دونوں کے متعلق حسب ذیل نقل کیا ہے۔ ایک شخص کے دو بیٹے تھے دونوں کو باپ کی وراثت سے آٹھ ہزار درینار ملے۔ دونوں نے تقسیم کر کے اپنا اپنا حصہ لے لیا ‘ ایک بھائی نے ایک ہزار دینار کی زمین خریدی دوسرے نے ہزار دینار خیرات کردیئے اور کہا اے اللہ میرے بھائی نے ہزار دینار کی زمین خریدی ہے میں تجھ سے جنت میں ایک ہزار کی زمین خریدتا ہوں ‘ اوّل شخص نے ہزار دینار صرف کر کے مکان بنایا دوسرے نے ہزار دینار غریبوں کو تقسیم کر کے دعا کی ‘ اے اللہ ! اس نے ہزار دینار خرچ کر کے مکان بنایا ہے میں تجھ سے جنت کے اندر ہزار دینار کا مکان خریدتا ہوں۔ پھر اوّل شخص نے ہزار دینار صرف کر کے ایک عورت سے شادی کرلی اور دوسرے نے ہزار دینار راہ خدا میں دے کر کہا اے اللہ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ جنت کے اندر کسی جنت کی عورت سے میرا نکاح کر دے ‘ پھر اوّل شخص نے ایک ہزار دینار خرچ کر کے باندی غلام اور گھر کا سامان خریدا اور دوسرے نے ہزار دینار خیرات کر کے اللہ سے جنت کے اندر خدام اور سامان ملنے کی درخواست کی۔ جب یہ دوسرا شخص سب مال خیرات کرچکا تو کچھ مدت کے بعد مال کی کوئی سخت ضرورت پیش آئی اور دل میں خیال کیا مجھے بھائی کے پاس جانا چاہئے شاید اس کی طرف سے مجھے کچھ مل جائے یہ سوچ کر بھائی کے راستہ پر ایک طرف کو جا بیٹھا ‘ اس طرف سے دولت مند بھائی اپنے خادموں کے جھرمٹ میں گزرا اور بھائی کو دیکھ کر پہچان لیا اور پوچھا کیا حال ہے اس شخص نے کہا مجھے ایک حاجت درپیش ہے اور مفلس ہوگیا ہوں ‘ آپ کے پاس کچھ بھلائی کی امید لے کر آیا ہوں دولتمند بھائی نے کہا تمہارا مال کیا ہوا ‘ تقسیم کے وقت تم نے اپنا حصہ لے لیا تھا ‘ غریب بھائی نے اپنی سرگزشت بیان کردی ‘ دولت مند بھائی بولا ‘ اچھا تو تم خیرات کرنے والوں میں شامل ہوگئے چلے جاؤ ‘ میں کچھ نہیں دوں گا ‘ غرض اس نے غریب کو دھتکار دیا آخر دونوں مرگئے اور ان ہی کے متعلق آیت فاقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسآءَلُوْنَنازل ہوئی۔ یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ مال دار بھائی غریب بھائی کو ہاتھ پکڑ کر اپنے مال کی سیر کرانے لے گیا اور گھما پھرا کر سب طرح کا مال دکھایا۔ وَاضْرِبْ لَہُمْہم ضمیر کافروں اور مؤمنوں دونوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مثلبمعنی حال ‘ رجلین سے مراد ہیں وہ دو آدمی جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے (حضرت ابو سلمہ مخزومی اور اسود مخزومی) یا جو کبھی پہلے گزر گئے تھے (یعنی دو اسرائیلی بھائی یہودا اور قطروس) کوئی مقرر شخص مراد نہیں ہے بلکہ دو شخص جن میں مندرجۂ آیت اوصاف ہوں (عبرت دلانے اور نصیحت کرنے کے لئے) فرض کر لئے گئے ہیں اور ان کی حالت بیان کردی گئی ہے۔ جعلنا لاحدہما جنتین من اعناب وحففنہما بنخل وجعلنا بینہما زرعا اور دو شخصوں میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دے رکھے تھے اور ان دونوں باغوں کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنا رکھا تھا اور ان دونوں کے درمیان کھیتی بھی پیدا کردی تھی۔ اَحَدِہِمَاسے مراد کافر ہے۔ انگوروں کے باغوں سے مراد ہیں انگور کے درختوں کے باغ ‘ حَفَفْنٰہْمَا بِنَخْلٍیعنی انگور کے باغوں کے گرداگرد باڑھ کی طرح کھجور کے درخت تھے انگور کے باغ کھجور کے درختوں کے باڑھ کے اندر تھے۔ حَفَّہُ القومُاس کو قوم نے گھیر لیا۔ حففتہ بقومٍمیں نے اس کو قوم سے گھیر دیا اس کے گرداگرد قوم کا گھیرا ڈال دیا۔ اس صورت میں بقومٍ میں ب زائد ہوگی (کیونکہ حففت خود متعدی بدو مفعول ہے جن میں دوسرا مفعول فاعل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمَا یعنی دونوں باغوں کے درمیان واقع ہونے والی زمین بھی بنجر نہ تھی بلکہ اس میں ایک کھیتی تھی ‘ اس طرح ان باغوں میں پھل بھی تھے اور غلے کی پیداوار بھی تھی اور ترتیب بھی عمدہ تھی۔
Top