Ahkam-ul-Quran - An-Nahl : 76
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ١ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ١ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ١ۙ وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَضَرَبَ : اور بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال رَّجُلَيْنِ : دو آدمی اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَبْكَمُ : گونگا لَا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي شَيْءٍ : کسی شے پر وَّهُوَ : اور وہ كَلٌّ : بوجھ عَلٰي : پر مَوْلٰىهُ : اپنا آقا اَيْنَمَا : جہاں کہیں يُوَجِّهْهُّ : وہ بھیجے اس کو لَا يَاْتِ : وہ نہ لائے بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی هَلْ : کیا يَسْتَوِيْ : برابر هُوَ : وہ۔ یہ وَمَنْ : اور جو يَّاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
اور خدا یک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار و ناتواں) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں ؟
گونگے غلام کا حکم اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے (وضرب اللہ مثلا رجلین احمدھما بکم لا یقدر علی شی وھو کل علی مولاہ۔ اللہ ایک اور مثال دیتا ہے۔ دو آدمی ہیں ایک گونگا بہرا ہے کوئی کام نہیں کرسکتا اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے) لیکن آیت کی اس امر پر دلالت نہیں ہو رہی ہے کہ گونگا کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا آیت میں گونگے سے گونگا غلام مراد ہے آپ اس قول باری کو دیکھئے (وھو کل علی مولاہ اینما یوجھہ لا یات بخیر۔ اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے جدھر بھی وہ اسے بھیجے کوئی بھلا کام اس سے نہ بن آئے) آقا کا ذکر نیز آقا کی طرف سے اسے بھیجنے کا بیان اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد غلام ہے گویا اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت میں ملکیت کی نفی کے لئے بت کے مقابلہ میں ایک ایسے غلام کی مثال بیان کی جو گونگا نہیں تھا پھر دوسری آیت میں اس کمی میں اور اضافہ کرتے ہوئے فرمایا (ابکم لا یقدر علی شی وھو کل علی مولاہ اینما یوجھہ لایات بخیر) یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کا نقص اور ان میں خیر کی کمی کو مبالغہ کے طور پر بیان کرنے کے لئے آیت میں گونگا غلام مراد لیا ہے۔ نیز یہ کہ وہ غلام کسی اور کا مملوک ہے جو اس میں تصرف کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (وھو کل علی مولاہ) میں چچا زاد بھائی مراد ہے اس لئے کہ چچا زاد بھائی کو بھی مولیٰ کہا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ ایک شخص پر اس کے چچا زاد بھائی کے نان و نفقہ کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ نہ ہی وہ اس پر بوجھ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ شخص اسے اپنے کاموں کی خاطر ادھر ادھر بھیج سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت میں ابکم یعنی گونگے کے سلسلے میں دو باتوں کا ذکر کیا تو اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس سے کوئی آزاد شخص مراد نہیں ہے جس کا کوئی چچا زاد بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک گونگا غلام مراد لیا ہے جو کسی کا مملوک ہو علاوہ ازیں یہاں چچا زاد کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ چچا زاد بھائی کی بہ نسبت باپ بھائی اور چچا ایک شخص کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اس کے لئے ان رشتہ داروں کی حیثیت اولیٰ ہوتی ہے اس بنا پر آیت میں وارد لفظ مولیٰ کو چچا زاد بھائی پر محمول کرنے سے اس کا فائدہ زائل ہوجائے گا۔ نیز جب علی الاطلاق مولیٰ کا ذکر کیا جائے تو اس سے مراد یا تو مولائے رق (غلام) ہوتا ہے یا مولائے نعمت (آقا) ہوتا ہے اور چچا زاد پر اسے کسی دلالت کی بنا پر محمول کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اصنام مراد لینا درست نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (عبدا مملوکا) ایسی بات اصنام کے متعلق نہیں کہی جاسکتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی نظروں سے دلالت کا مقام پوشیدہ رہ گیا اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف ایسے غلام کا ذکر کیا ہے جو ہمارا مملوک ہو اور پھر اسے ان بتوں کے لئے مثال کے طور پر بیان کیا جنہیں لوگ پوجتے تھے اور یہ بتادیا کہ ان بتوں کی حیثیت ان غلاموں جیسی ہے جو کسی چیز کے مالک نہیں ہوتے اور جس طرح ایک بت کسی حال میں بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اسی طرح ایک غلام بھی کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے بتوں کو عباد (بندے) کہا ہے چناچہ ارشاد ہے (ان الذین تدعون من دون اللہ عباد امثالکم۔ تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کی پوجا کرتے ہو وہ بھی تمہاری طرح بندے ہیں) غلام کی ملکیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ غلام نہ تو کسی چیز کا مالک ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہمبستری کی خاطر کوئی لونڈی خرید سکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ غلام مالک بھی ہوسکتا ہے اور ہمبستری کی خاطر لونڈی بھی خرید سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن امیہ المکی نے سعید بن ابی سعید المقبری سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ انہوں نے فرمایا ” کسی مملوک یعنی لونڈی کا فرج صرف اس شخص کے لئے حلال ہے جو اگر اسے فروخت کرے یا ہبہ کر دے یا صدقہ کر دے یا آزاد کر دے تو اس کا یہ عمل جائز قرار دیا جائے “ اس سے حضرت ابن عمر ؓ نے مملوک یعنی غلام مراد لیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک غلام ہمبستری کے لئے کوئی لونڈی حاصل نہیں کرسکتا۔ اسی طرح یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے۔ ابراہیم نخعی، ابن سیرین اور الحکم سے مروی ہے کہ غلام ہمبستری نہیں کرسکتا۔ یعنی ہمبستری کے لئے کوئی لونڈی نہیں خرید سکتا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ غلام تسری کرسکتا ہے کہ یعمر نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے بعض غلاموں کو تسری کرتے ہوئے دیکھتے لیکن انہیں اس سے نہیں روکتے تھے۔ حسن اور شعبی کا قول ہے کہ غلام اپنے آقا کی اجازت سے تسری کرسکتا ہے۔ امام ایو یوسف نے العلاء بن کثیر سے، انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (العبد لا یتسری۔ غلام تسری نہیں کرے گا) یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا، اگر وہ کسی چیز کا مالک ہوتا تو اس کے لئے جماع کی خاطر لونڈی خریدنا بھی اس قول باری کی بنا پر جائز ہوجاتا (والذین ھم لفروجھ حافظون الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم۔ اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی نگہداشت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا ان سے جن کی ملکیت انہیں حاصل ہوتی ہے) اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (من باع عبدا ولہ ما لہ فما لہ للبائع الا ان یشترطہ المبتاع۔ جس شخص نے کوئی غلام فروخت کیا تو اس کا مال فروخت کنندہ کے لئے ہوگا الایہ کہ خریدار نے اس کی شرط لگا دی ہو) اس ارشاد کی دلالت اس بنا پر ہو رہی ہے کہ جب آپ نے غلام کے مال کو فروخت کنندہ یا خریدار میں سے کسی ایک کے لئے قرار دیا تو آپ نے غلام کو اس مال سے خالی ہاتھ خارج کردیا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ آقا کو ہر اس چیز کو اپنے قبضے میں لینے کا حق ہوتا ہے جو غلام کے قبضے میں ہوتی ہے۔ بلکہ آقا اس چیز کا زیادہ حقدار ہوتا ہے اس لئے کہ غلام کی گردن کا وہ مالک ہوتا ہے۔ اگر غلام کے اندر مالک بننے کی اہلیت ہوتی تو آقا کے لئے اس کے قبضے کی چیز کو اپنے قبضے میں کرلینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ جن باتوں میں غلام اپنے آقا سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔ ان باتوں میں آقا کو دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ غلام کے مال پر آقا کے قبضے کا جواز اس پر دلالت نہیں کرتا کہ غلام اس مال کا مالک نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ قرض خواہ کو اپنے قرض کے بدلے مقروض کی ہر چیز اپنے قبضے میں کرلینے کا اختیار ہوتا ہے لیکن یہ امر اس پر دلالت نہیں کرتا کہ مقروض ان چیزوں کا مالک نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے وہ اس طرح کہ قرض خواہ مقروض کے مال پر اس لئے قبضہ نہیں کرتا کہ مقروض کا وہ مالک ہے بلکہ وہ اپنے قرض کے بدلے اس کے مال پر قبضہ کرتا ہے جبکہ آقا اپنے غلام کے مال کا اس لئے حقدار ہوتا ہے کہ وہ اس کی گردن کا مالک ہوتا ہے۔ اگر غلام مالک ہوتا تو آقا اس بنا پر اس کے مال کا مستحق قرار نہ پاتا کہ وہ اس کی گردن کا مالک ہے جس طرح غلام کی گردن کا مالک ہونے کے باوجود وہ اس کی بیوی کو طلاق دینے کا مالک نہیں ہوتا۔ اس امر میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام مالک نہیں ہوتا۔ اس کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مال کے بدلے مکاتب بنا لیا اور اس نے اس مال کی ادائیگی کردی تو اس غلام کو آزادی مل جائے گی اور اس کی ولاء آزاد کرنے والے آقا کے لئے ثابت رہے گی۔ اس غلام کو اس کے آقا کی ملکیت سے آزاد ہونے والا سمجھا جائے گا۔ اگر یہ آزاد ہونے والا غلام ان لوگوں میں سے ہوتا جو مالک بننے کے اہل ہوتے ہیں تو یہ غلام بھی کتابت کا مال ادا کر کے اپنی گردن کا مالک ہوجاتا اور یہ ملک اس کے آقا کی طرف منتقل نہ ہوتی جس طرح اس صورت میں غیر آقا کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر یہ آقا اس غیر کو یہ حکم دیتا کہ وہ اس غلام کو مال کے بدلے اس کی طرف سے آزاد کر دے۔ اگر وہ اپنی ذات پر خود آزاد ہوجانے کی بنا پر اپنی گردن کا مالک ہوجاتا تو اس صورت میں ولاء اس کے آقا کے لئے نہ ہوتی بلکہ اس کی ولاء خود اس کی اپنی ذات کے لئے ہوتی۔ جب غلام کی گردن کی ملکیت مال ادا کرنے کی وجہ سے خود اس کی ذات کی طرف منتقل نہیں ہوتی بلکہ اسے آقا کی ملکیت سے آزادی ملتی ہے۔ تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اس لئے کہ اگر وہ ان لوگوں میں سے ہوتا جو مالک ہونے کے اہل ہوتے ہیں تو پھر اس کا اپنی گردن کا مالک ہونا اولیٰ ہوتا اس لئے کہ اس کی گردن ایسی چیز ہے جس میں تملیک کا جواز ہوتا ہے۔ مال غلام کا مالک، آقا ہے یا غلام اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من باع عبدا ولہ مال فمالہ للمائع۔ جو شخص کوئی غلام فروخت کرے اور اس غلام کے پاس کوئی مال ہو تو یہ مال فروخت کنندہ کا ہوگا) آپ کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ غلام میں مالک بننے کی اہلیت ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے مال کی اصافت غلام کی طرف کی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے بیع کی حالت میں مال پر فروخت کنندہ کی ملکیت ثابت کردی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ ایک مال بیک وقت آقا اور غلام دونوں کی ملکیت میں نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس مال کا غلام کی ملکیت میں ہونا محال ہے ورنہ آقا اور غلام دونوں میں سے ہر ایک کو پورا مال مل جاتا۔ اس طرح خود اس روایت میں جس مال کی اضافت غلام کی طرف کی گئی ہے اس پر فروخت کنندہ کی ملکیت کا اثبات موجود ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث میں غلام کی طرف مال کی اضافت صرف اس بنا پر ہے کہ وہ مال اس کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں۔ ” یثہ فلاں کا گھر ہے “ جبکہ وہ گھر اس کی ملکیت میں نہ ہو وہ صرف اس میں رہتا ہو۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (انت و مالک لا بیک۔ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) اس ارشاد میں آپ نے بیٹے کے مال پر باپ کی ملکیت کے اثبات کا ارادہ نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ عبید اللہ بن ابی جعفر نے بکیر بن عبد اللہ بن الاشجع سے، انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (من اعتق عبداً فمالہ لہ الا ان یشترط السید مالہ فیکون لہ۔ جس شخص نے کوئی غلام آزاد کیا تو اس غلام کا مال اس غلام کو ہی مل جائے گا الایہ کہ آقا نے اس مال کی شرط لگا دی ہو اس صورت میں یہ مال آقا کو مل جائے گا) یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غلام میں مالک بننے کی اہلیت ہوتی ہے اس لئے کہ اگر وہ آزادی سے پہلے اس مال پر ملکیت رکھنے کا اہل نہ ہوتا تو آزادی کے بعد بھی اس پر اس کی ملکیت نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں غلام کے مالک ہونے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ لوگوں کی عادت اور عرف کے طور پر ایسا ہوتا ہو کہ غلام کے جسم پر جو کپڑے وغیرہ ہوں وہ اسے آزاد کرتے وقت اتار لئے نہ جاتے ہوں۔ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے اس عرف اور عادت کو منطوق حکم کا درجہ دے دیا اور آپ نے عادۃً آقا کی طرف سے غلام کی ان چیزوں کو اس کی ملکیت میں رہنے دینے کے معاملہ کو اس بات کی علامت قرار دے دیا کہ گویا آقا، آزادی دینے کے بعد ان چیزوں کو غلام کی ملکیت میں دے دینے پر رضامند ہوگیا ہے۔ نیز اہل نقل یعنی محدثین کے ایک گروہ نے اس روایت کی تصنیف کی ہے۔ ایک قول کے مطابق عبید اللہ بن جعفر سے حدیث کو مرفوع روایت کرنے میں غلطی ہوگئی ہے نیز اس روایت کے متن میں بھی اس نے غلطی کی ہے۔ اصل روایت وہ ہے جو ایوب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے نقل کی ہے کہ جب حضرت ابن عمر ؓ اپنا کوئی غلام آزاد کرتے تو اس کے مال سے کوئی تعرض نہ کرتے۔ اصل روایت یہ ہے عبید اللہ بن جعفر سے اسے مرفوعاً روایت کرنے نیز اس کے الفاظ کے بیان میں غلطی ہوئی ہے۔ حضور ﷺ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔ ابو مسلم الکتجی نے روایت بیان کی ہے انہیں محمد بن عبد اللہ انصاری نے، انہیں عبد الاعلیٰ بن ابی المسادر نے عمران بن عمیر سے، انہوں نے اپنے والد سے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے مملوک تھے، ان سے حضرت عبد ؓ اللہ نے فرمایا : عمیر، اپنا سارا مال مجھے بتادو ، میں تمہیں آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (من اعتق عبذا فمالہ للذی اعتق جو شخص کوئی غلام آزاد کرے تو اس غلام کا مال اس شخص کو مل جائے گا جس نے اسے آزاد کیا ہے) “ اس حدیث کو یونس بن اسحاق نے عمران بن عمیر اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ المسعودی نے اس حدیث کو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ ہمارے نزدیک مرقوفاً روایت کی بنا پر حدیث میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی۔ غلام کو نکاح سے کونسی استغنا حاصل ہوگی ؟ اگر کوئی استدلال کرنے والا اس قول باری (وانکحوا الایا مفی منکم والصالحین من عبادکم و امالکم وان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ۔ اور تم اپنے بےنکاحوں کا نکاح کرو اور تمہارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو اس کے لائق ہوں ان کا بھی۔ اگر یہ لوگ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا) سے استدلال کرے تو یہ بات ان تمام کی طرف لوٹتی ہے جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے یعنی بےنکاحے غلام اور لونڈیاں۔ اس چیز نے غلام کے لئے دولت مندی اور فقر دونوں کا اثبات کردیا جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ غلام میں مالک بننے کی اہلیت ہوتی ہے اس لئے کہ اگر اس میں یہ اہلیت نہ ہوتی تو وہ ہمیشہ فقیر ہی رہتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قول باری (ان یکونوا فقراء یغنھم اللہ من فضلہ) سے مراد یا تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو نکاح کی بنا پر حلال طریقے سے جنسی ملاپ کی وجہ سے حرام طریقے سے جنسی ملاپ سے استغناء ہوجائے گا یا مراد یہ ہے کہ انہیں مال کی وجہ سے دولت مندی حاصل ہوجائے گی۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نکاح کرنے والے بہت سے جوڑے مال کے ذریعے دولت مند نہیں بن جاتے اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس امر کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دے دے وہ وقوع پذیر ہو کر رہتا ہے تو ان دونوں باتوں سے ہمارے لئے یہ واضح ہوگیا کہ آیت میں مال کے ذریعے غنیٰ مراد نہیں ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ حلال وطی کے ذریعے حرام وطی سے استغناء ہوجاتا ہے۔ نیز اگر آیت میں غنیٰ بالمال مراد بھی ہو تو اس کا دائرہ صرف بےنکاحوں اور آزادوں تک محدود رہے گا جن کا آیت میں ذکر ہے۔ اس دائرے میں غلام داخل نہیں ہوں گے جو ہمارے بیان کردہ دلائل کی روشنی میں مالک بننے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ نیز ہمارے مخالف کے نزدیک مال کی بنا پر غلام دولت مند نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کا آقا اس کے تمام مال کا اس سے بڑھ کر مستحق ہوتا ہے۔ اس لئے غلام کو آخر سک مال کی بنا پر دولتمندی حاصل ہوسکتی ہے جبکہ اس کا غیر یعنی آقا اس کے مال کا اس سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں صرف آقا کو دولت مندی حاصل ہوسکتی ہے غلام کو حاصل نہیں ہوسکتی، غلام، مال کی بنا پر دولت مند نہیں بنتا اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (امرت ان اخذ الصدقۃ من اغنیاء کم واردھا فی فقراء کم۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مال داروں سے صدقات وصول کر کے تمہارے فقراء کو واپس کردوں) ہمارے مخالف کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ غلام کے مال میں سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ اگر غلام مالدار ہوتا تو اس کے مال میں زکوٰۃ واجب ہوجاتی کیونکہ وہ مسلمان اور مال دار ہوتا ہے نیز مکلفین میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غلام جب اپنی بیوی کو طلاق دینے کی اہلیت رکھتا ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ آزاد انسان کی طرح وہ مال کی ملکیت کا بھی اہل شمار کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا غلام اس لئے طلاق دینے کا مالک قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے آقا کو اس کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی۔ اگر غلام مال کا مالک ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ آقا کو اس کے مال کا مالک قرار نہ دیا جائے۔ نیز آقا کے لئے اس کا مال اپنے قبضے میں کرلینا بھی جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ ہر وہ چیز جس کی ملکیت آقا کو اس کے غلام کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ غلام کو آقا کی طرف سے اس کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی، آپ نہیں دیکھتے کہ جس غلام کی تصرفات پر پابندی لگی ہو اگر وہ اپنے ذمہ کسی قرض کا اقرار کرلے تو غلامی کے زمانے میں یہ قرض اس کے ذمہ عائد نہیں ہوگا لیکن اگر اس کا آقا اس پر اس قرض کا اقرار کرلے گا تو یہ قرض اس پر عائد ہوجائے گا۔ اسی طرح آقا کو اختیار ہے کہ وہ اپنے غلام کا کہیں نکاح کرا دے لیکن غلام کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنا نکاح خود کہیں کرلے۔ اس لئے کہ یہ ایسی بات ہے جس کا آقا اپنے غلام کی طرف سے مالک ہوتا ہے۔ اگر آقا اپنے غلام پر کسی قصاص یا حد کا اقرار کرے گا تو یہ حد یا قصاص اس پر لازم نہیں ہوگا، اس لئے کہ غلام اپنی ذات کے دائرے میں اس چیز کا خود مالک ہوتا ہے۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ غلام کے اندر مالک بننے کی اہلیت نہیں ہوتی ہے اس لئے کہ اگر غلام، مال کا مالک ہوتا تو آقا کے لئے اس کے مال میں تصرف کرنا جائز نہ ہوتا جس طرح طلاق کے معاملہ میں، آقا کا تصرف جائز نہیں ہے اس لئے کہ غلام خود اس کا مالک ہوتا ہے۔
Top