Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 76
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبْكَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوْلٰىهُ١ۙ اَیْنَمَا یُوَجِّهْهُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیْ هُوَ١ۙ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ١ۙ وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَضَرَبَ : اور بیان کیا اللّٰهُ : اللہ مَثَلًا : ایک مثال رَّجُلَيْنِ : دو آدمی اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَبْكَمُ : گونگا لَا يَقْدِرُ : وہ اختیار نہیں رکھتا عَلٰي شَيْءٍ : کسی شے پر وَّهُوَ : اور وہ كَلٌّ : بوجھ عَلٰي : پر مَوْلٰىهُ : اپنا آقا اَيْنَمَا : جہاں کہیں يُوَجِّهْهُّ : وہ بھیجے اس کو لَا يَاْتِ : وہ نہ لائے بِخَيْرٍ : کوئی بھلائی هَلْ : کیا يَسْتَوِيْ : برابر هُوَ : وہ۔ یہ وَمَنْ : اور جو يَّاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کے ساتھ وَهُوَ : اور وہ عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
اور خدا یک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں سے گونگا (اور دوسرے کی ملک) ہے (بےاختیار و ناتواں) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اسے بھیجتا ہے (خیر سے کبھی) بھلائی نہیں لاتا۔ کیا ایسا (گونگا بہرا) اور وہ شخص جو (سنتا بولتا اور) لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے اور خود سیدھے راستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہیں ؟
” وضرب اللہ مثلاً رجلین احدھما ابکم لا یقدر علی شئی وھو کلی علی مولاہ “ کل بوجھ کو کہتے ہیں جو اپنے مولیٰ پر وبال ہو۔ ” ابن مایوجھہ “ اس کو جہاں بھی بھیجتا ہے وہ ٹھیک کام نہیں کرکے لاتا۔” لا یاتیہ بخیر “ کیونکہ جو کچھ اس کو کہاجاتا ہے وہ اچھے طریقے سے نہیں سمجھتا۔ یہ مثال بتوں کی ہے جو نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں نہ کچھ سمجھتے ہیں۔ ” وھو کل علی مولاہ “ اس کی عبادت کرتے ہیں اور وہ اٹھانے کے اور بیٹھنے کے اور خدمت گاروں کے محتاج ہیں۔ ” ھل یستوی ھو ومن یا مر بالعدل “ اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں۔ یعنی اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی تمثیل دی ہے۔ ” وھو علی صراط مستقیم “ کلبی نے اس کا معنی بیان کیا ہے کہ وہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ بعض نے کہا کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں کہ وہ انصاف کا حکم دیتے ہیں اور وہ صراط مستقیم ہے اور بعض نے کہا کہ یہ دونوں مثالیں کافر اور مومن کی ہیں۔ عطیہ نے ابن عباس ؓ کے حوالے سے یہی لکھا ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ ” ابکم “ سے مراد ابی بن خلف ہے اور ” ومن یامربالعدل “ سے مراد حضرت حمزہ، حضرت عثمان بن عفان، حضرت عثمان بن مظعون ؓ ہیں۔ مقاتل کا قول ہے کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک شخص تھا جس کا نام ہاشم بن عمرو بن حارث تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا سخت دشمن تھا اور بہت ہی شریر تھا۔ اس کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا اور بعض نے کہ اس سے مراد حضرت عثمان اور ان کے کافر غلام اسید ابن ابوالعیص کے متعلق نازل ہوئی ۔ اسید کو اسلام سے سخت نفرت تھی اور اسلام کو ناپسندیدہ سمجھتا تھا۔
Top