Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا
: پس۔ سے
رَحْمَةٍ
: رحمت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
لِنْتَ
: نرم دل
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَ
: اور
وَلَوْ كُنْتَ
: اگر آپ ہوتے
فَظًّا
: تند خو
غَلِيْظَ الْقَلْبِ
: سخت دل
لَانْفَضُّوْا
: تو وہ منتشر ہوجاتے
مِنْ
: سے
حَوْلِكَ
: آپ کے پاس
فَاعْفُ
: پس آپ معاف کردیں
عَنْھُمْ
: ان سے (انہیں)
وَاسْتَغْفِرْ
: اور بخشش مانگیں
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَشَاوِرْھُمْ
: اور مشورہ کریں ان سے
فِي
: میں
الْاَمْرِ
: کام
فَاِذَا
: پھر جب
عَزَمْتَ
: آپ ارادہ کرلیں
فَتَوَكَّلْ
: تو بھروسہ کریں
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُتَوَكِّلِيْنَ
: بھروسہ کرنے والے
(اے محمد ﷺ خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے ہیں تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو بیشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
قول باری ہے (فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم۔ اے پیغمبر ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو) یہاں یہ کہا گیا ہے کہ حرف، ما، صلہ کے معنی دے رہا ہے یعنی فبرحمۃ من اللہ قتادہ سے اس قول کی روایت کی گئی ہے جیسا کہ یہ ارشاد باری ہے (عما قلیل لیصبحن ناد مین جلد ہی یہ لوگ نادم ہوجائیں گے) نیز قول باری ہے (فبما نقضھم میثاقھم، ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے میثاق کو توڑدینے کی بناپر) اس پر اہل لغت کا اتفاق ہے ان کا قول ہے کہ یہ حرف تاکید کے معنی دیتا ہے اور اس سے الفاظ کی نشست میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اعشیٰ کا شع رہے۔ ؎ اذھبی ماالیک ادرکنی الحلم عدانی عن ھیجم اشفاقی اپنے کام سے کام رکھو، میرے اندرتحمل اور بردباری کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور تمھارے بھڑک اٹھنے کے بارے میں میراخوف مجھ سے آگے چلا گیا ہے۔ یعنی ختم ہوچکا ہے۔ یہاں حرف ما، زائد ہے۔ جولوگ قرآن میں مجاز کی نفی کے قائل ہیں ان کے قول کی یہاں تردید ہورہی ہے اس لیے کہ یہاں حرف، ما، کا ذکرمجانراکہوا ہے اور کلام سے اسے ساقط کردینے کی وجہ سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔ داعی الی اللہ کو نرم دل اور خوش اخلاق ہونا چاہے قول باری ہے (ولوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوامن جولک، ورنہ اگر کہیں تم تندخو اورسنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے) یہ آیت دعوالی اللہ کے سلسلے میں نرمی اور نرم خوئی اختیار کرنے اور تندخوئی اور سنگ دلی ترک کرنے کے وجوب پر دلالت کررہی ہے، جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے (ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن۔ آپ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے اور ان کے ساتھ پسند یدہ طریقے سے بحث کیجئے) اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (فقولالہ قولا لینا لعلہ یتذکراؤیخشیٰ تم دونوں فرعون سے نرم انداز میں بات کروشایدا سے نصیحت ہوجائے یاڈرپیدا ہوجائے) مجلس شوری کے فوائد قول باری ہے (وشاورھم فی الامر اوردین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو) یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور ﷺ پر وحی نازل ہوئی تھی۔ اس بناپر آپ کو اس چیز کی مطلقا ضرورت نہیں تھی کہ کسی مسئلے میں درست رائے معلوم کرنے کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کریں یا ان کے مشوروں پرچلیں۔ پھر آپ کہ اس آیت میں ان سے مشورہ کرنے کا کیوں حکم دیا گیا ؟ اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں۔ قتادہ، ربیع بن انس اور محمد بن اسحاق کا قول ہے، کہ یہ حکم صرف صحابہ کرام کے دلوں کو خوش کرنے اور ان کی حیثیت بلند کرنے کی خاطردیا گیا تھا، اس لیے کہ ان کی رائے پر اعتماد کیا جاسکتا تھا اور مشورے کے لیے ان کی طرف رجوع بھی کیا جاسکتا تھا۔ سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ اس حکم کا مقصدیہ ہے کہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی کرے اور اس میں اپنی کسرشان نہ سمجھے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس پہلو سے تعریف فرمائی ہے کہ ان کے امور باہمی مشوروں ہے طے ہوتے ہیں۔ حسن اور ضحاک کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے تمام صحابہ کرام کو مشاورت میں اس لیے شامل کردیا کہ ان کی جلالت قدرظاہرہوجائے اور امت اس مسئلے میں حضور ﷺ کے نقش قدم پرچلے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ آپ کو صرف ان ہی مقامات میں مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے، جو منصوص نہیں ہیں۔ اس قول کی مزید وضاحت میں ایک گروہ نے کہا ہے کہ صرف دنیاوی امور میں مشاورت کا حکم دیاگیا ہے۔ اس گروہ کے خیال میں حضور ﷺ دین کے کسی معاملے میں اپنے اجتہاد سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ البتہ دنیاوی امور میں یہ صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے کہ حضور ﷺ ان امور میں ان کی آراء سے مددلے لیں اور آپ کو تدبیر کی حد میں ایسی وجوہ کا علم ہوجائے کہ اگر صحابہ کرام کا مشورہ اور ان کی رائے نہ ہوتی تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ معرکہ بدر کے ون حباب بن المنزرنے آپ کو پانی یعنی چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا مشورہ دیا تھا جسے آپ نے قبول کرلیا۔ اسی طرح حضرت سعدبن عبادہ ؓ اور سعدبن معا ؓ ذنے خندق کی جنگ میں بنوغطفان کو قریش سے توڑنے کے لیے مدینہ کے پھلوں کے ایک حصے پر مصالحت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، اپ نے ان کا یہ مشورہ قبول کرلیا تھا اور تحریرپھاڑدی تھی۔ اسی طرح کی بہت سی اشیاء ہیں کا تعلق دنیاوی امور سے ہے۔ بعض دوسروں کا یہ قول ہے کہ حضور ﷺ اموردین، نیز ایسے نئے واقعات جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت نہ آئی ہو، اور ایسے دنیاوی امورجن میں اپنی رائے اور گمان غالب سے کام چلایاجاتا ہے صحابہ کرام سے مشورہ کرنے پر مامور اور اس کے پابند تھے۔ آپ نے غزدہ بدر کے موقعہ پر جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔ جبکہ اس معاملے کا تعلق دینی امور سے تھا۔ آپ کا طریق کاریہ تھا کہ جب آپ صحابہ کرام سے کسی معاملے میں مشورہ کرتے تو سب سے پہلے حضرات صحابہ کرام اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے، آپ بھی رائے کے اظہار میں ان کے ساتھ شریک رہتے، اور پھر آپ کا اجتہادجس نتیجے پر پہنچتا اس پر آپ عمل کرلیتے۔ اس طریق کا ر میں بہت سے فوائد پوشدہ تھے۔ اول یہ کہ لوگوں کو یہ بتادیاجائے کہ جو امورمنصوص نہیں ہیں ان کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ اجتہاد اور ظن غالب ہے۔ دوم لوگوں کو صحابہ کرام کے مرتبے سے آگاہ کرکے یہ بتایاجائے کہ یہ حضرات اجتہاد کے اہل ہیں، اور ان کی آراء کی پیروی جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ اتنابلند کردیا ہے کہ اس کے نبی (ﷺ) ان سے مشورے کرتے، ان کی اجتہادی آراء کو پسند کرتے اور منصوص احکام الٰہی کی موافقت کے لیے ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں سوم۔ اس کے ذریعے یہ بتادیا گیا کہ صحابہ کرام کا باطن اللہ تعالیٰ کے ہاں پسند یدہ ہے، اس لیے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور ﷺ کو ان سے مشورہ کرنے کا حکم نہ دیاجاتا۔ یہ چیز حضرات صحابہ کرام کے ایمان یقین کی صحت اور معاملات کی سوجھ بوجھ میں ان کی اونچی حیثیت، نیز نئے پیش آمدہ غیرمنصوص امور کے احکام میں اجتہاد کی گنجائش اور جواز پر دلالت کرتی ہے تاکہ حضور ﷺ کے بعد امت اس معاملے میں آپ کے نقش قدم پرچلتی رہے۔ آیت سے یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ حضور ﷺ کو محض صحابہ کرام کے دلوں کو خوش کرنے اور ان کی حیثیت بڑھا نے کی خاطرمش اور ت کا حکم دیا گیا تھا تاکہ بعد میں صحابہ کرام کے تعلق امت کا بھی یہی رویہ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام کو یہ معلوم ہوتا کہ جن امور میں ان سے مشورہ لیاجارہا ہے ان کے احکام معلوم کرنے میں، نیز جن باتوں کے متعلق ان سے استفسارکیاجاریا ہے ان کے بارے میں صحیح رائے تک پہنچنے میں اپنی تمام کا دشیں صرف کرنے کے بعد بھی نہ وہ قابل قبول ہوں گی اور نہ ہی ان پر عمل کیا جائے ، تو اس کے بعد آخران کے دلوں کو خوش کرنے والی اور ان کے درجے کو بلند کرنے والی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اپنے آراء کے متعلق ایک خش پیدا ہوجاتی اور انھیں یہ احساس ہوجاتا کہ ان کی یہ آراء ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہیں۔ اس بناپردرج بالا تاویل ساقط اور بے معنی ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس شخص کی تاویل کی کہاں سے گنجائش نکل سکتی ہے، جس کا قول ہے کہ مشاورت کا حکم محض اس واسطے دیا گیا ہے کہ امت بھی اس رویے کو اپنالے جبکہ اس قائل کے نزدیک امت کو اس بات کا علم ہے کہ صحابہ کرام کے ساتھ حضور ﷺ کی مشاورت کانہ کوئی نتیجہ نکلا اور نہ ہی ان حضرات کے دیے ہوئے کسی مشورے پر عمل ہوا۔ اب اگر امت کو بھی اس کی اقتداء کرنی چاہیے تو پھر یہ واجب ہوگا کہ مسلمانوں کا آپس میں مشورہ اسی ڈھنگ اور اسی نہج کا ہو۔ اور مشورہ کے نتیجے میں نہ تو کسی درست رائے کا پتہ چل سکے اور نہ ہی کسی رائے پر عمل ہوسکے۔ اس لیے کہ تاویل بالا کے قائلین کے ہاں حضور ﷺ اور صحابہ کرام کے درمیان مشاورت کی یہی نوعیت تھی۔ اب اگر امت اپنے باہمی مشورے سے کسی صحیح رائے پرنہچ جاتی ہے یا کسی رائے پر عمل کرلیتی ہے تو اس کا یہ طرزعمل صحابہ کرام کے اس طرزعمل اور نقش قدم پر نہیں ہوگا جو حضور ﷺ نے ان سے مشاورت کے سلسلے میں اپنایا تھا۔ جب اس وضاحت کی روشنی میں اس قول کا بطلان ثابت ہوگیا تو اب اس کے سوا اور کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ حضور ﷺ کا صحابہ کرام سے مشورہ کسی درست رائے تک پہنچنے اور اسے نتیجہ خیزنبانے کی خاطر ہوتا تھا جس کے ساتھ حضور ﷺ کے لیے اپنی رائے سے کام لینے اور ان کی رائے قبول کرنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ پھر اس صورت میں یہ جائز ہوتا کہ حضرات صحابہ کرام کی رائے حضور ﷺ کی رائے کے موافق ہوجائے یا ان میں بعض کی رائے آپ کی رائے کے موافق ہوجانے اور یہ بھی جائز ہوتا کہ حضور ﷺ سب کی رائے کے خلاف رائے دیننے اور اپنی رائے پر عمل کرلیتے ۔ مشاورکایہ پوراڈھا نچہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام اپنی رائے کا اظہارکرکے تنقیدو ملامت کا بدف نہ بنتے، بلکہ اللہ کی طرف سے دیے ہوئے حکم پر عمل پیرا ہونے کی بناپراجر کے مستحق ٹھہرتے۔ پھر جب حضور ﷺ ایک رائے پر عمل پیرا ہوجاتے تو اس صورت میں اپنی اپنی رائے ترک کرکے حضور ﷺ کی رائے کی اتباع واجب ہوجاتی۔ اس بحث کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ حضور ﷺ کی صحابہ کرام سے مشاورت امور میں ہوتی جو منصوص نہ ہوتے۔ اس لیے کہ منصوص امور میں مشاورت کی سرے سے گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ آپ کے لیے یہ ہرگز درست نہ ہوتا کہ آپ صحابہ کرام سے مثلا نماز ظہریاعصہ یا نظام زکوۃ یاصیام رمضان کے متعلق ان کی رائے معلوم کرتے۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے اموردین کو امو دنیا سے علیحدہ نہیں کیا بل کہ نظام شریعت میں دونوں کو شامل رکھا ہے اور پھر پیغمبر ﷺ کو مشاورت کا حکم دیا تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ مشاورت کا حکم اموردین اور دنیا دونوں سے متعلق ہو۔ نیز امور دنیا میں آپ کی مشاورت کا تعلق بھی اموردین سے ہوتا تھا۔ وہ اس طرح کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ جب آپ امور دنیا کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کرتے تو یہ مشورہ کفار کے خلاف جنگی کارروائیوں اور دشمنوں کی سازشوں اور جنگی چالوں کو ناکام بنانے کے متعلق ہوتا۔ حضور ﷺ چونکہ کفاف کی زنا گی گزارتے تھے جس میں بس قوت لایموت بی کی گنجائش ہوتی تھی اس لیے آپ کو اپنی معاش اور امر دنیا کی تدبیروانتظام کے سلسلے میں سرے سے کسی مشورے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام سے امور دنیا کے متعلق آپ کا مشورہ دراصل اموردین سے بی تعلق رکھتا تھا۔ ایسے معاملات میں اجتہاد رانے سے کام لینے اور غیہ منصوص امور کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد رائے کو استعمال کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس طریق کا ر میں ان حضرات کے قول کی صحت کی دلیل موجود ہے جو نئے پیداشدہ امور کے احکام کے لیے اجتہادرائے سے کام لینے کے قائل ہیں، نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے، کہ اجتہادرائے سے کام لینے والے ہر مجہدکاعمل مبنی برصواب ہے، نیز یہ کہ حضور ﷺ بھی غیر منصوص امور میں اجتہاد رائے سے کام لیتے تھے۔ قول باری (فاذاعزمت فتوکل علی اللہ) کا مشاورت کے ذکر کی ترتیب میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور ﷺ غیر منصوص امور میں صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اجتہاد رانے سے کام لیتے اور اپنی غالب رائے پر عمل کرتے تھے۔ اس لیے کہ اگر آپ کسی منصوص ام میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی راہنمائی ہوجاتی۔ صحابہ کرام سے مشورہ کرتے تو یقینا آپ کی عزیمت مشاورت پر مقدم ہوتی۔ اس لیے کہ نص ک اورود، مشاورت سے پہلے ہی عزیمت کی صحت کا موجب ہوجاتا۔ اب جبکہ ترتیب آیت میں عزیمت کا ذکرمش اور ت کے بعد آیا ہے تو یہ اس پر دلالت کردیا ہے کہ عزیمت مشاورت کے نتیجے میں پیداہوئی ہے اور یہ کہ اس سے پہلے اس معاملے میں کوئی نص دارد نہیں ہوئی تھی۔
Top