Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا : پس۔ سے رَحْمَةٍ : رحمت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ لِنْتَ : نرم دل لَھُمْ : ان کے لیے وَ : اور وَلَوْ كُنْتَ : اگر آپ ہوتے فَظًّا : تند خو غَلِيْظَ الْقَلْبِ : سخت دل لَانْفَضُّوْا : تو وہ منتشر ہوجاتے مِنْ : سے حَوْلِكَ : آپ کے پاس فَاعْفُ : پس آپ معاف کردیں عَنْھُمْ : ان سے (انہیں) وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَھُمْ : ان کے لیے وَشَاوِرْھُمْ : اور مشورہ کریں ان سے فِي : میں الْاَمْرِ : کام فَاِذَا : پھر جب عَزَمْتَ : آپ ارادہ کرلیں فَتَوَكَّلْ : تو بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَوَكِّلِيْنَ : بھروسہ کرنے والے
یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم خو ہیں اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے، سو ان سے درگزر کریں ان کے لیے مغفرت چاہیں اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں، پس جب آپ فیصلہ کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَ نْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ۔ (یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم خو ہیں اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ سو ان سے درگزر کریں ان کے لیے مغفرت چاہیں اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں۔ پس جب آپ فیصلہ کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ اپنے اوپر بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) (159) آنحضرت ﷺ کے کریمانہ اخلاق اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں آیتِ کریمہ کے پہلے لفظ میں ” ما “ کا استعمال اہل نحو کے نزدیک تاکید کے لیے ہوا ہے۔ لیکن محققین یہ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے مواقع پر ” ما “ کا استعمال محض آہنگ کو ٹھیک رکھنے کے لیے بھی ہوتا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ آپ کے اخلاقِ عالیہ جس کا آئندہ ذکر ہورہا ہے وہ اتنے عظیم اور بلند ہیں کہ محض کسب واکتساب سے انھیں حاصل کرنا ممکن نہیں ایسے اخلاق محض اللہ کی رحمت سے نصیب ہوتے ہیں اور آپ پر صرف اللہ کی رحمت ہی نہیں بلکہ آپ دنیا میں رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لیے ایسے اخلاق کا وجود محض آپ کی خصوصیت اور سراسر اللہ کی رحمت ہے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ سابقہ آیات میں منافقین پر سخت تنقید ہوئی ہے اور مزید یہ بات بھی کہ آنحضرت ﷺ منافقین کی سازشوں اور عین جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران ان کی حرکتوں سے حددرجہ دل گرفتہ تھے۔ لیکن اس کا اظہار نہیں فرما رہے تھے۔ اب جو پروردگار کی طرف سے سخت تنقید سامنے آئی تو اندیشہ پیدا ہوا کہ آپ بھی ان پر گرفت فرمائیں گے اور سختی کا اظہار کریں گے۔ لیکن حالات کا تقاضا یہ تھا کہ ابھی آپ ان منافقین کو مزید مہلت دیں اور ان سے اپنا کریمانہ رویہ بدستور جاری رکھیں تاکہ ان میں جو لوگ اصلاح کے قابل ہوں وہ اصلاح قبول کرکے مخلص مومنین میں شامل ہوجائیں۔ لیکن آگے چل کر جب ان منافقین پر اتمامِ حجت ہوگیا اور اب مزید اصلاح کی امید اس گروہ میں باقی نہ رہی تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا رویہ بدلنے کا حکم دیا اور ان کے بارے میں سخت احکام نازل کیے۔ سورة توبہ میں ان کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ آنحضرت ﷺ سے عفو و درگزر کی سفارش بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں کے بارے میں آنحضرت ﷺ کو عفو و درگزر کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے وہ منافقین نہیں بلکہ مخلص مسلمان ہیں۔ جن سے بعض اسباب کے تحت اجتہادی غلطیاں ہوئیں، وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، کہیں اشتعال کا شکار ہوئے اور کبھی ہراس کا نشانہ بنے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو غیر معمولی نقصان ہوا۔ جنگ کے بعد جب حالات نارمل ہوئے تو جن مسلمانوں سے کو تاہیاں ہوئی تھیں وہ حددرجہ پریشان رہنے لگے تھے۔ مسلمانوں کو مختلف حوادث کا سامناچون کہ ان کی وجہ سے کرنا پڑا اس لیے وہ اپنے تئیں مجرم سمجھ رہے تھے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کے لیے صدمے کا باعث یہ تھا کہ ان کی بعض کوتاہیوں کے نتیجے میں خود آنحضرت ﷺ زخمی ہوئے۔ آپ انھیں پکارتے رہے لیکن جنگ کی ہولناکی نے جو بدحواسی پیدا کی اس کی وجہ سے انھوں نے آنحضرت ﷺ کی آواز نہیں سنی چناچہ ان کی اس فروگزاشت کی انھیں سزا یہ ملی کہ اللہ نے انھیں غم پر غم پہنچائے۔ لیکن اب مزید دل گرفتگی اور دل کے صدمے سے نکالنے کے لیے آنحضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ آپ پر اللہ کا یہ خصوصی کرم ہے کہ اس نے آپ کو نرم خو بنایا ہے۔ حالات کیسے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں آپ نے اپنی نرم خوئی کو کبھی نہیں بدلا۔ اگر آپ تندخو ہوتے تو عرب کے بدو اور ان پڑھ لوگ جو اپنی طبیعتوں میں سختی اور اکھڑ پن رکھتے تھے وہ تو آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے۔ لیکن یہ آپ کی نرم خوئی، آپ کی محبت اور آپ کے اخلاقِ کریمانہ کا نتیجہ ہے کہ جن سر پھرے لوگوں کو کبھی کوئی رام نہ کرسکا وہ آپ کی ایک ایک ادا پر قربان ہونے لگے اور آپ سے اس درجہ انھوں نے محبت کی کہ کسی ذات سے آج تک انسانوں کے کسی گروہ نے اس طرح ٹوٹ کر محبت نہیں کی ہوگی۔ جنگ احد کا حادثہ ایک بہت بڑ احادثہ ہے سب کے دل زخمی ہوئے ہیں اور آپ کا خصوصی طور پر زخمی ہونا مسلمانوں کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ اگر آپ نے ان سے درگزر سے کام نہ لیا تو وہ اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گے اس لیے آپ ان سے درگزر فرمائیں۔ وہ چونکہ آپ کے صحابہ ہیں اور دین کی انھوں نے بےپناہ خدمت انجام دی ہے۔ مہاجرین نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور انصار نے اپنا سب کچھ ان کے قدموں میں ڈال دیا، اس لیے اللہ کی نظر میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔ پروردگار آنحضرت ﷺ سے سفارش فرما رہے ہیں کہ آپ ان سے درگزر فرمائیں اور مزید یہ فرمایا کہ صرف درگزر ہی نہ فرمائیں بلکہ ہم سے سفارش بھی کریں کہ ہم ان کی مغفرت کردیں۔ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ کا یہی مفہوم ہے۔ شیخ الہند نے یہی مفہوم مراد لیا ہے کہ اپنے رسول سے یہ فرمایا جارہا ہے کہ ان سے جو غلطی ہوگئی ہے اسے خود بھی معاف کردیجیے اور میری جناب میں بھی شفاعت کیجیے کہ میں بھی ان سے راضی ہوجاؤں۔ سبحان اللہ ! کیا شان ہے صحابہ کرام کی اور کتنا مقام ہے ان کے نبی مکرم کا اور اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ آپ ان سے جب درگزر فرمائیں گے اور اللہ سے ان کے لیے استغفار کریں گے تو یقینا آپ کا دل ان کی طرف سے بالکل صاف ہوجائے گا اور یہ خطرہ باقی نہیں رہے گا کہ کہیں آپ کے دل کا کوئی احساس اللہ کے یہاں ان کی آخرت کو مجروح کردے۔ لیکن صحابہ کرام کی دلجوئی اور ان کو حوصلہ دینے کے لیے مناسب یہ ہے کہ حسب سابق اپنے فیصلوں اور اپنے کاموں میں انھیں اپنے مشورے میں شامل رکھیں تاکہ انھیں پورا ا طمینان ہوجائے اور وہ یقین کرلیں کہ آنحضرت ﷺ کی وہی نظر کرم ان کے حال پر ہے جو اس سے پہلے تھی۔ حالات کا تقاضا اگرچہ کچھ اور تھا لیکن آنحضرت ﷺ کے جودوکرم کے بحر زخار نے رحمت کامینہ برسانے سے دریغ نہیں فرمایا۔ جو عطا اور بخشش صحابہ کے حال پر پہلے تھی اب بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ عالیہ اور صفاتِ حسنہ کے ذکر کے ساتھ آپ کو جو ہدایات عطا کی گئیں وہ قیامت تک کے لیے ارشاد واصلاح اور تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے ایک ہدایت نامہ بن گئیں جن سے معلوم ہوتا رہے گا کہ ایک داعی الی اللہ کو کن صفات کا مرقع ہونا چاہیے ؟ اور اگر کبھی ناموافق صورتحال سے بھی دوچار ہونا پڑے تو اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے ؟ سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے اپنی رحمت سے آپ کو نرم خو بنایا ہے۔ اگر آپ کہیں تند خو ہوتے تو عرب کے سرپھرے جن میں آزادی کی حس خودسری تک پہنچی ہوئی تھی وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتے اور کبھی دیوانوں کی طرح آپ کے گرد جمع نہ ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مرشد ومبلغ کے لیے ترش روئی، سخت کلامی اور نازک مزاجی اس کی دعوتی اور اصلاحی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کی موجودگی میں دعوت کا کام انجام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ صحابہ کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے آپ کو درگزر کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ کوئی ایسی کوتاہی جس سے پیغمبر کا دل دکھے اس سے ایمان چلے جانے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ کو درگزر کرنے کا حکم دیا جارہا ہے تو کسی شیخ اور مربی یا دین کا کام کرنے والی جماعت کے امیر کے لیے بدرجہ اولیٰ یہ بات ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے لیے دل آویزی کا پیکر بنے، بات بات پر ان سے باز پرس نہ کرے اور برا کہنے والوں سے بھی کبھی انتقام لینے کا ارادہ نہ کرے بلکہ نرمی اور چشم پوشی کو اپنا رویہ بنائے۔ مزید فرمایا کہ آپ کو صحابہ کے لیے استغفار کرنا چاہیے یعنی آپ کے دل میں ان کے لیے اتنی جگہ ہونی چاہیے کہ آپ نہ صرف اپنا دل ان سے صاف رکھیں بلکہ اللہ سے بھی ان کی مغفرت کی سفارش فرمائیں۔ جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے لیے نا خوشی میں بھی دعائیں کرتا اور بھلائی مانگتا ہے اسی طرح دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کو اپنے ساتھیوں کے لیے ایسے ہی جذبات کا حامل ہونا چاہیے۔ مشاورت کی ہدایت مزید فرمایا کہ عفو و درگزر اور استغفار کے ساتھ ساتھ آپ انھیں مشاورت میں بھی شریک رکھیں تاکہ وہ اجتماعیت سے کٹنے نہ پائیں اور باہمی حسن ظن اور اعتماد میں اضافہ ہو۔ اہل علم جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو دینی امور میں تو مشورہ لینے کی بالکل ضرورت نہیں تھی کیونکہ دینی امور میں قدم قدم پر وحی الہٰی راہنمائی کرتی تھی۔ البتہ ! انتظامی معاملات میں وحی نہ اترنے کی صورت میں آپ کو مشاورت کی ضرورت ہوتی تھی۔ اگرچہ آپ کی اجتہادی قوت آپ کی راہنمائی کے لیے کافی تھی اور کسی بھی فروگذاشت کی صورت میں وحی الہٰی کی نگہداشت حفاظت کے لیے کافی تھی۔ باایں ہمہ ! آپ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ امت کو مشاورت کی اہمیت کا اندازہ ہو اور نیز یہ بات بھی معلوم ہوجائے کہ مشورہ سنت نبوی ہے اور امت مسلمہ کے لیے اس کا اتباع ضروری ہے۔ اس لیے امام ابو عبداللہ القرطبی نے خوب لکھا ہے : قال ابن عطیہ والشوریٰ من قواعدالشریعۃ وعزائم الاحکام ومن لایستشیراھل العلم والدین فعزلہ واجب۔ (مشورہ شریعت کے مسلمہ اصولوں اور اہم ترین احکام سے ہے اور جو حاکم اہل علم ودین سے مشورہ نہیں کرتا بلکہ خودرائی سے کام لیتا ہے اسے معزول کردینا لازمی ہے ) بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عبداللہ بن عمر ( رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے۔ جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہوا کریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ امت میں اس کو رواج دینے کے لیے آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ صحابہ سے مشورہ کیا۔ غزوہ بدر میں آگے بڑھنے کا فیصلہ مشورہ سے ہی ہوا اور آپ کے ساتھیوں نے مشورہ دیتے ہوئے جس سرفروشی کا ثبوت دیا وہ ہمیشہ یادگار رہے گا۔ بدر میں پہنچ کر پڑاؤ کے لیے جگہ کے انتخاب میں آپ نے مشورہ ہی سے تبدیلی کی۔ غزوہ احد میں مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ صحابہ کرام کے مشورے سے ہی ہوا۔ غزوہ خندق میں بنو غطفان وغیرہ سے صلح کا معاہدہ اوس و خزرج کے سرداروں کی مخالفت کی وجہ سے ختم کیا گیا۔ حدیبیہ کے ایک معاملے میں صدیق اکبر ( رض) کے مشورہ پر فیصلہ ہوا۔ مختصر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے مشورہ کو اپنی سنت کے طور پر امت میں چھوڑا تاکہ امت اسی کو شورائیت کی بنیاد بنا کر اپنے اجتماعی امور سرانجام دے سکے۔ فیصلے کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اس آیت کریمہ میں یہ بھی فرمایا گیا کہ جب مشورہ کے بعد آپ کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کریں اور جس کام کا ارادہ کیا ہے اسے سرانجام دینے کا فیصلہ کرلیں اور عزم کی قوت کے ساتھ اسے بروئے کار لائیں۔ مشاورت میں یقینا موجود اسباب میں سے ایک ایک بات پر بحث ہوتی ہے۔ مثبت اور منفی پہلو سامنے آتے ہیں، تحفظات بھی طے کیے جاتے ہیں اور اقدامات کا بھی فیصلہ ہوتا ہے۔ اپنی قوت کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور موانع اور مشکلات کا بھی۔ ان تمام باتوں کو سمجھ لینے کے بعد جب یہ فیصلہ ہوجائے کہ اب اقدام کرنا ہے اور اس کام کو سرانجام دینا ہے تو پھر اسباب کی کمی کو دیکھتے ہوئے کسی کمزوری کو پاس نہ آنے دینا بلکہ اللہ کے بھروسے پر ایک ایک قدم اٹھانا ” توکل “ کا اصل مفہوم ہے۔ ہم نے توکل کو تعطل کا ہم معنی سمجھ لیا ہے۔ جب کسی کام کو نہ کرنے کا ارادہ ہو اور اس کے لیے جان مارنے کی ہمت نہ ہو تو ہم بےعمل ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب ہم اللہ کے بھروسے پر ہی حالات کو آگے بڑھنے دیں گے۔ توکل کے لیے اولین شرط موجود اسباب کی فراہمی ہے اس کے بعد اللہ پر بھروسہ ہے۔ اس لیے حضور نے فرمایا : اعقل ثم توکل ” اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو کہ اب یہ کہیں نہیں جائے گا۔ “ اونٹ کو کھلا چھوڑ کر یعنی احتیاطی عمل کو ترک کرکے توکل کرنا، یہ توکل نہیں۔ شاعر نے ٹھیک کہا : توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر
Top