Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا : پس۔ سے رَحْمَةٍ : رحمت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ لِنْتَ : نرم دل لَھُمْ : ان کے لیے وَ : اور وَلَوْ كُنْتَ : اگر آپ ہوتے فَظًّا : تند خو غَلِيْظَ الْقَلْبِ : سخت دل لَانْفَضُّوْا : تو وہ منتشر ہوجاتے مِنْ : سے حَوْلِكَ : آپ کے پاس فَاعْفُ : پس آپ معاف کردیں عَنْھُمْ : ان سے (انہیں) وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَھُمْ : ان کے لیے وَشَاوِرْھُمْ : اور مشورہ کریں ان سے فِي : میں الْاَمْرِ : کام فَاِذَا : پھر جب عَزَمْتَ : آپ ارادہ کرلیں فَتَوَكَّلْ : تو بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَوَكِّلِيْنَ : بھروسہ کرنے والے
(اے محمد ﷺ خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے ہیں تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو بیشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر 159۔ ماصلہ ہے اس میں تاکید کا معنی ہے ای فبرحمۃ، جیسا کہ اس قول میں ہے : عما قلیل، فبما نقضھم میثاقھم “۔ جند ما ھنالک مھزوم “۔ اور یہ علی الاطلاق زائدہ نہیں ہے، بلکہ اس پر رائدہ ہونے کا اطلاق سیبویہ نے کیا ہے اس حیثیت سے کہ اس کا عمل زائل ہوچکا ہے، ابن کیسان نے کہا ہے : ما نکرہ ہے اور با کے سبب محل جر میں ہے (آیت) ” ورحمۃ اس سے بدل ہے۔ اور آیت کا معنی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے جب احد کے دن پیٹھ پھیرنے والوں سے نرمی کی اور ان سے کوئی سختی نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ آپ نے یہ رویہ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کردہ توفیق کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ما استفہامیہ ہے اور معنی یہ ہے : پس کتنی رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کہ آپ ان کے لئے نرم ہوگئے ہیں تو یہ بطور تعجب ہے، اور اس میں حقیقت سے دوری ہے، کیونکہ اگر اس طرح ہوتا تو یہ فبم بغیر الف کے ہوتا، لنت یہ لان یلین لینا ولیانا فتحہ کے ساتھ سے ماخوذ ہے اور الغظ الغلیظ کا معنی ہے خشک مزاج فظظت تغظ فظاظۃ فظاظا فانت فظ، (تو تند خو ہے) اس کی مونث فظۃ ہے اور جمع افظاظ ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ کے اوصاف میں سے یہ ہیں کہ نہ آپ تند خو ہیں، نہ سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں ساتھیوں کے ہمرہ بیٹھنے والے ہیں۔ (1) (صحیح بخاری کتاب البیوع، حدیث نمبر 1981، ایضا کتاب التفسیر، حدیث نمبر 4461، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مفصل نے اشعار کہے ہیں جن سے فظ کے مذکر ہونے کا ثبوت ملتا ہے : ولیس بفظ فی الادانی والاولی یؤمون جدواہ ولکنہ سھل وفظ علی اعداہ یحذرونہ فسطوتہ حتف ونائلہ جزل : ان میں لفظ فظ دونوں جگہ مذکر ذکر ہوا ہے۔ اور ایک دوسرے شاعر نے اس کے مونث ہونے کے بارے کہا ہے : اموت من الضر فی منزلی وغیری یموت من الکظۃ : ودنیا اتجود علی الجاھلیہ نوھی علی ذی النھی فظہ : اس میں لفظ فظۃ مونث ذکر کیا گیا ہے : اور غلظ القلب سے مراد چہرے پر تیوری چڑھانا ہے (اور کرخت چہرے کے ساتھ کسی کی طرف متوجہ ہونا ہے) رغائب سے بہت کم متاثر ہونا اور شفقت و رحمت کا بہت کم ہونا ہے۔ اور اسی کے بارے شاعر کا قول ہے : یبکی علینا ولا نب کی علی احد لنحن اغلظ اکبادامن الابل : ہم پر رویا جائے گا اور ہم کسی پر نہیں روئیں گے یقینا ہم اونٹ سے زیادہ سخت دل ہیں۔ اور لا نفضوا کا معنی ہے لتفرقوا (تو وہ بکھر جاتے) فضفتھم فانفضوا “۔ یعنی میں نے انہیں منتشر کیا پس وہ منتشر ہوگئے اور اسی بارے میں ابو النجم کا قول ہے۔ اور اونٹ کا وصف بیان کرتا ہے : مستعجلات القیض غیر جرد ینفض عنھن الحصی بالصید : الفض کا اصل معنی توڑنا ہے اور اسی سے ان کا یہ قول ہے : لایفضض اللہ فاک۔ (اللہ تیرے منہ کو سلامت رکھے ’ یعنی نہ توڑے) اور اس کا معنی ہے : اے محمد ! ﷺ اگر آپ کی نرمی نہ ہوتی تو حیا (خجالت) اور خوف انہیں تمہارے قریب آنے سے روکتا اس کے بعد کہ وہ پیٹھ پھیر چکے تھے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی الامر :۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) علماء نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی مکرم ﷺ کو ان کاموں کا حکم فرمایا ہے جو انتہائی تدریج کے ساھ اور آہستہ آہستہ ہیں، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ انہیں معاف فرما دیں جو خاص کر آپ کو متبعین کی طرف سے اذیت پہنچی ہے، پس جب وہ اس درجہ میں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اس فعل کے بارے مغفرت طلب کریں جو متبعین سے صادر ہوا، جب وہ اس درجہ میں ہوگئے تو وہ اس اہل ہوگئے کہ امور میں ان سے مشورہ لیا جائے، اہل لغت نے کہا ہے : الاستشارۃ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے : شرت الدابۃ وشور تھا جب تو اس کیباریندوڑنے وغیرہ کی خبر جان لے، اور وہ جگہ جس میں گھوڑے دوڑتے ہیں اسے مشوار کہا جاتا ہے، اور کبھی ان کے اس قول سے ہوتا ہے : شرت العسل واشترتہ فھو مشورومشتار “۔ جیسا کہ تو اسے اپنی جگہ سے لے لے، عدی بن زید نے کہا ہے : فی سماع باذن الشیخ لہ و حدیث مثل ما ذمی مشار : اس میں مشار مذکور معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) ابن عطیہ نے کہا ہے : شوری (مشاورت) قواعد شریعت اور پختگی احکام میں سے ہے، جو اہل علم اور اہل دین سے مشاورت نہیں کرتا تو اس کا معزول ہونا واجب ہے، یہ ایسا حکم ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد سے مومنین کی مدح اور تعریف کی ہے : (آیت) ” وامرھم شوری بینھم “۔ اعرابی نے کہا ہے : ما غبنت قط حتی یغبن قومی ‘۔ (مجھ سے کبھی غبن اور دھوکہ نہیں کیا گیا مگر یہ کہ میری قوم سے دھوکہ کیا جائے) کہا گیا : یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو اس نے کہا : میں کوئی کام بھی نہیں کرتا یہاں تک کہ میں ان سے مشاورت کرلوں، اور ابن خویز منداد نے کہا ہے : حکمرانوں پر علماء سے ان معاملات میں مشورہ کرنا واجب ہے جنہیں وہ نہیں جانتے اور امور دین میں سے جن میں انہیں مشکل در پیش ہو اور فوجی ماہرین سے ان امور میں جو جنگ سے تعلق رکھتے ہیں اور لوگوں کے سرداروں سے ان امور میں سے جو مصالح سے تعلق رکھتے ہیں اور کتاب، وزراء اور عمال کے سر براہوں سے ان امور میں جو شہروں کے مصالح، منافع اور ان کی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں، اور کہا جاتا ہے : ما ندم من استشار (جس نے مشاورت کی وہ نادم اور شرمندہ نہیں ہوا) اور یہ بھی کہا جاتا ہے : جو اپنی رائے پر اترا یا وہ گمراہ ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ (آیت) ” وشاورھم فی الامر “۔ یہ آیت کاموں میں اجتہاد اور امکان وحی کے ساتھ ظنوں کو لینے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کو اس بارے میں اجازت عطا فرمائی ہے اور اہل تاویل نے اس معنی میں اختلاف کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی مکرم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس میں اپنے اصحاب سے مشاورت کریں، پس ایک گروہ نے کہا ہے : یہ جنگوں کی تدبیر کے بارے میں ہے، دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کے وقت کے بارے ہے اور اپنے نفوس کو مطمئن اور پاکیزہ رکھنے کے لئے اور اپنی اقدار کو بلند کرنے کے لئے اور اپنے دین پر جمع کرنے کے لئے (مشاورت ہے) اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ساتھ آپ کو ان کی رائے سے غنی کردیا ہے، یہ حضرت قتادہ، ربیع، ابن اسحاق، اور شافعی رحمۃ اللہ علہیم سے مروی ہے، امام شافعی نے کہا ہے : یہ اس قول کی طرح ہے والبکر تستامر (باکرہ عورت سے اس کے دل کی پاکیزگی کے لئے اجازت لی جائے گی) ، (مشاورت کی جائے گی۔ ) یہ اس لئے نہیں کہ یہ واجب ہے، اور مقاتل، قتادہ، اور ربیع رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : عربوں کے سرداروں سے جب کسی معاملہ میں مشاورت نہ کی جاتی تو وہ ان پر شاق اور گراں گزرتا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرامای کہ آپ ان سے معاملات میں مشاورت کریں، کیونکہ یہ ان کے لئے انتہائی مہربانی اور کرم ہے اور ان کے حسد وکینہ کو بہت دور کرنے والا ہے۔ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الادب باب فی المشورۃ، جلد 2، صفحہ 343، اسلام آباد) اور ان کے دلوں کو پاک کرنے والا ہ، پس جب آپ ان سے مشاورت کریں گے تو وہ اپنے لئے آپ کی عزت و تکریم کو پہچان جائیں گے، اور دوسروں نے کہا ہے : یہ اس بارے میں ہے جس میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو، حضرت حسن بصری اور ضحاک رحمۃ اللہ علہیم سے یہی مروی ہے ان دنوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو مشاورت کا حکم اس لئے نہیں دیا کہ آپ کو ان کی رائے کی حاجت اور ضرورت ہے (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 572) بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ انہیں مشاورت کی فضیلت سے آگاہ فرمائیں اور تاکہ آپ کے بعد آپ کی امت اس کی اقتدا اور پیروی کرے اور حضرت ابن عباس ؓ کی قرات میں ہے (آیت) ” وشاورھم فی بعض الامر “۔ (اور آپ بعض معاملات میں ان سے مشاورت کریں۔ ) اور کسی کہنے والے نے کتنا اچھا کہا ہے : شاور صدیقک فی الخفی المشکل واقبل نصیحۃ ناصح متفضل : مشکل اور مخفی کاموں میں اپنے دوست سے مشورہ کر اور مہربان نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول کر۔ فاللہ قد اوصی بذاک نبیہ فی قولہ شاورھم و توکل : پس اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے اپنے نبی ﷺ کو نصیحت فرمائی ہے اپنے اس ارشاد میں کہ آپ ان سے مشاورت کریں اور توکل اختیار کریں۔ مسئلہ نمبر : (4) مصنف ابی داؤد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” المستشارمؤتمن “۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب الاستیذان والاداب، باب ان المستشار مؤتمن، حدیث 2747، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جس سے مشورہ لیا جائے اسے اس پر امین بنایا جاتا ہے، علماء نے کہا ہے : مستشار کی تعریف یہ ہے کہ اگر مشورہ احکام کے بارے میں ہو تو وہ عالم اور دیندار ہو اور سوائے عاقل کے ایسا بہت کم ہوتا ہے، حسن (رح) نے کہا ہے : کسی آدمی کا دین مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کی عقل مکمل نہ ہو، اور جب اس سے مشورہ لیا جائے تو اس صفت سے متصف ہو اور وہ اصلاح کی پوری کوشش کرے اور وہ اپنی جدوجہد اور صلاحیت صرف کرے اور پھر اشارۃ خطا واقع ہوجائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں، خطابی وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) دنیوی امور میں مستشار کی تعریف یہ ہے کہ وہ عاقل ہو، تجربہ کار ہو اور مشورہ طلب کرنے والے سے محبت کرنے والا ہو۔ جیسا کہ کسی نے کہا : شاور صدیقک فی الخفی المشکل : (تو مشکل اور مخفی کام میں اپنے دوست سے مشورہ کر) اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور دوسرے نے کہا ہے : وان باب امر علیک التوی فش اور نبی با و تعصہ : اور اگر کسی کام کا دروازہ تجھ پر بند ہوجائے تو کسی دانا اور عقلمند سے مشورہ کرلے اور تو اس کی نافرمانی نہ کر۔ اور مشاورت برکت ہے، اور آپ ﷺ نے فرمایا : ما ندم من استشار ولا خاب من اسخار۔ (وہ نادم نہ ہوگا جس نے مشورہ کیا اور وہ خائب و خاسر نہ ہوگا جس نے استخارہ کیا) اور حضرت سہل بن سعد الساعدی نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے : ” کوئی بندہ کبھی مشورہ کے سبب شقی اور بدبخت نہیں ہوا اور کوئی رائے کے استغنا کے ساتھ سعید اور خوش بخت نہیں ہوا “۔ اور بعض نے کہا ہے : اس سے مشاورت کر جو امور کا تجربہ رکھتا ہو، کیونکہ وہ تجھے اپنی ایسی رائے دے گا جو اس پر انتہائی مہنگی واقع ہوگی اور تو اسے مفت حاصل کرلے گا، حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خلافت کے لئے مجلس شوری مقرر فرمائی، حالانکہ یہ بہت بڑا اور اہم مسئلہ تھا، امام بخاری (رح) نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے ائمہ کرام اہل علم امناء سے امور مباحہ میں مشاورت کرتے تھے تاکہ آسانی اور سہولت کے ساتھ وہ ان پر عمل پیرا ہو سکیں (1) (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، جلد 2، صفحہ 1095) اسلام آباد) حضرت سفیان ثوری (رح) نے بیان کیا ہے : چاہیے کہ تمہارے مشیر متقی اور امانتدار ہوں اور ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں، اور حسن نے کہا ہے : قسم بخدا ! جو قوم آپس میں مشورہ کرتی ہے تو جو وہاں حاضر ہوتے ہیں وہ ان کی راہنمائی افضل کی طرف کردیتے ہیں۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کوئی قوم نہیں جن کا مشورہ ہو اور ان کے ساتھ احمد یا محمد نامی آدمی بھی حاضر ہو اور وہ اسے اپنے مشورہ میں شامل کریں مگر اسے انکے لئے پسند کرلیا جائے گا۔ “ مسئلہ نمبر : (6) شوری کی بنیاد اختلاف آراء پر ہے اور مشورہ لینے والا اس اختلاف میں غور وفکر کرتا ہے اور ایسے قول کو دیکھتا ہے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہو اگر اس لئے ممکن ہو، اور جب اللہ تعالیٰ اس میں سے جہاں تک چاہے راہنمائی فرما دے تو وہ اس پر پختہ ہوجائے اور اسے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے نافذ کر دے، کیونکہ مطلوب تک پہنچنے کی یہی انتہائی کوشش ہے اور اس آیت میں اسی کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “۔ حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرمایا کہ جب آپ کسی کام کا ارادہ کریں تو اس میں لگ جائیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں، نہ کہ آپ ان کی مشاورت کا ارادہ کریں، اور عزم سے مراد ایسا امر ہے جس میں خوب غور وفکر کی گئی ہو اور اسے مہذب بنادیا گیا ہو، وہ بغیر نظر وفکر کے صرف رائے سے عزم نہیں بن سکتا، مگر عرب کے بہادروں کے بارے طویل قصائد کے قعہ میں۔ جیسا کہ کسی نے کہا : اذا ھم القی بین عینیہ عزمہ ونکب من ذکر العواقب جانبا : جب وہ قصد کرتا ہے تو اپنے عزم کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا ہے اور ہم انجام کے ذکر کو ایک جانب ڈال دیتے ہیں۔ ولم یستشر فی رایہ غیر نفسہ ولم یرض الا قائم السیف صاحبا : اور وہ اپنی رائے میں اپنے سوا کسی سے مشورہ نہیں کرتا اور تلوار اٹھانے والے کے سوا کسی ساتھی سے راضی نہیں ہوتا۔ اور نقاش نے کہا ہے : العزم اور الحزم دونوں کا معنی ایک ہے حاء کو عین سے بدلا گیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ خطا ہے اور حزم سے مراد کسی کام میں عمدہ اور گہری غور فکر کرنا اور اس کی کانٹ چھانٹ کرنا (یعنی مہذب بنانا) ہے اور اس میں خطا سے بچنا اور احتیاط کرنا ہے۔ اور العزم سے مراد کام کرنے کا قصد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” وشاورھم فی الامر، فاذا عزمت “۔ پس مشاورت اور جو اس کے معنی میں ہے وہ حزم ہے اور عرب کہتے : قد احزم لواعزم “۔ (میں احتیاط برتوں کا اگر میں قصد کروں گا) اور امام جعفر الصادق اور جابر بن عبداللہ نے (آیت) ” فاذا عزمت “۔ تاکو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، عزم کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف کی ہے کیونکہ وہی اس کی ہدایت اور توفیق عطا فرمانے والا ہے، جیسا کہ اس نے کہا ہے : (آیت) ” ومارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی “۔ (الانفال : 17) ترجمہ : (اور اسے محبوب ! ) نہیں پھینکی آپ نے (وہ مشت خاک) جب آپ نے پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔ اور کلام کا معنی ہے یعنی میں نے آپ کا قصد کیا ہے اور میں نے آپ کو توفیق دی ہے اور میں نے آپ کی راہنمائی کی ہے (آیت) ” فتوکل علی اللہ “۔ (سو آپ اللہ تعالیٰ پر توکل کیجئے) اور باقیوں نے تا کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، مہلب نے کہا ہے : اور نبی مکرم ﷺ نے اپنے رب کے حکم سے اس کی پیروی کی ہے اور فرمایا ہے : ” کسی نبی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنے ہتھیار پہننے کے بعد پھر انہیں اتارے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما دے (1) (صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، جلد 2 صفحۃ 1095) یعنی اس کے لئے مناسب نہیں کہ جب وہ عزم کرلے تو پھر اس سے پھرجائے کیونکہ اس سے اس توکل کو توڑنا لازم آتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عزیمت کے ساتھ شرط قرار دیا ہے۔ پس آپ ﷺ کا اپنے ہتھیار پہننے کا اشارہ احد کے دن نکلنے کی طرف ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کے ساتھ مشرف ومکرم فرمایا اور وہ مومنین صلحاء تھے جو غزوہ بدر میں حاضر نہ ہو سکے تھے : یا رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ ہمارے دشمن کی طرف نکلئے، یہ عزیمت پر دال ہے اور آپ ﷺ نے قعود (مدینہ منورہ میں ہی رہنے) کا اشارہ کیا اور اسی طرح عبداللہ بن ابی نے بھی اسی کا اشارہ دیا اور اس نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ یہیں مقیم رہئے اور لوگوں کے ساتھ ان کی طرف نہ نکلئے پس اگر وہ ٹھہر گئے تو وہ بری مجلس کے ساتھ ٹھہریں گے اور اگر وہ ہماری طرف مدینہ طیبہ میں آئے تو ہم فناؤں اور گلیوں کے دھانوں پر ان سے جنگ لڑیں گے اور عورتیں اور بچے ٹیلوں پر چڑھ کر ان پر پتھر پھینکیں گے، قسم بخدا اس شہر میں دشمن نے کبھی بھی ہمارے ساتھ جنگ نہیں لڑی مگر ہم اس پر غالب آئے اور جب بھی ہم اس سے نکل کر دشمن کی طرف گئے تو وہ ہم پر غالب آئے، جن کا ذکر ہم نے کیا انہوں نے اس رائے کا انکار کردیا اور انہوں نے لوگوں کو تشجیح دلائی اور جنگ کی طرف دعوت دی، پس رسول اللہ ﷺ نے نماز جمعہ پڑھائی اور نماز کے بعد اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لے گئے اور اپنے ہتھیار پہنے، نتیجتا وہ قوم نادم ہوئی اور انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو مجبور کیا ہے، پس جب آپ ہتھیار پہن کر انکی طرف تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ کی خواہش ہے تو یہیں ٹھہر جائیں کیونکہ ہم آپ کو مجبور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ جب وہ اپنے ہتھیار پہن لے تو پھر انہیں قتال کرنے سے پہلے اتار دے۔ “ (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 540) مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین “۔ توکل کا معنی عجز کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا ہے اور اس کا اسم التکلان ہے، اسی سے کہا جاتا ہے : اتکلت علیہ فی امری (میں نے اپنے کام میں اس پر اعتماد کیا ہے) اور اس کی اصل او تکلت ہے واؤ کو ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے یا سے بدلا گیا ہے، پھر یا کو تا سے بدل دیا گیا اور پھر اسے تا افتعال میں مدغم کردیا گیا۔ اور کہا جاتا ہے : وکلتہ بامری توکیلا “ (میں نے اسے اپنے کام کا وکیل بنایا) اس کا اسم وکالۃ ہے واؤ مسکور بھی ہے اور مفتوح بھی۔ علماء نے توکل کے بارے میں اختلاف کیا ہے، متصوفہ میں سے ایک گروہ نے کہا ہے : اس کا مستحق صرف وہ ہوتا ہے جس کے دل میں غیر اللہ یعنی درندے یا کسی اور شے کا خوف نہ ہو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ضمان کی وجہ سے رزق کی تلاش میں سعی اور جدوجہد کرنا چھوڑ دے، اور عام فقہاء نے کہا ہے : وہ جس کا ذکر قول باری تعالیٰ : (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون “۔ کے تحت ہوچکا ہے، اور وہی صحیح ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا کردیا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے اپنے اس قول میں خبر دی ہے ” لا تخافا “ اور فرمایا ہے : (آیت) ” فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ ، قلنا لا تخف “۔ (طہ) ترجمہ : موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا، ہم نے فرمایا (اے کلیم) مت ڈرو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے اس قول سے خبر دی ہے۔ : (آیت) ” فلما را ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم واوجس منھم خیفۃ قالوا لاتخف “۔ (ھود : 70) ترجمہ : پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ نہیں بڑھ رہے کھانے کی طرف تو اجنبی خیال کیا انہوں نے اور دل ہی دل میں ان سے اندیشہ کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا ڈریئے نہیں۔ پس جب حضرت خلیل (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے تو یہ دونوں مثالیں تیرے لئے کافی ہیں، تو ان دونوں کے سوا کا ڈرنا تو بدرجہ اولی ہے، اور اس معنی کا بیان آگے آئے گا۔
Top