Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا
: پس۔ سے
رَحْمَةٍ
: رحمت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
لِنْتَ
: نرم دل
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَ
: اور
وَلَوْ كُنْتَ
: اگر آپ ہوتے
فَظًّا
: تند خو
غَلِيْظَ الْقَلْبِ
: سخت دل
لَانْفَضُّوْا
: تو وہ منتشر ہوجاتے
مِنْ
: سے
حَوْلِكَ
: آپ کے پاس
فَاعْفُ
: پس آپ معاف کردیں
عَنْھُمْ
: ان سے (انہیں)
وَاسْتَغْفِرْ
: اور بخشش مانگیں
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَشَاوِرْھُمْ
: اور مشورہ کریں ان سے
فِي
: میں
الْاَمْرِ
: کام
فَاِذَا
: پھر جب
عَزَمْتَ
: آپ ارادہ کرلیں
فَتَوَكَّلْ
: تو بھروسہ کریں
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُتَوَكِّلِيْنَ
: بھروسہ کرنے والے
(اے محمد ﷺ خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے ہیں تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے تو ان کو معاف کردو اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت لیا کرو اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو بیشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر
159
۔ ماصلہ ہے اس میں تاکید کا معنی ہے ای فبرحمۃ، جیسا کہ اس قول میں ہے : عما قلیل، فبما نقضھم میثاقھم “۔ جند ما ھنالک مھزوم “۔ اور یہ علی الاطلاق زائدہ نہیں ہے، بلکہ اس پر رائدہ ہونے کا اطلاق سیبویہ نے کیا ہے اس حیثیت سے کہ اس کا عمل زائل ہوچکا ہے، ابن کیسان نے کہا ہے : ما نکرہ ہے اور با کے سبب محل جر میں ہے (آیت) ” ورحمۃ اس سے بدل ہے۔ اور آیت کا معنی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے جب احد کے دن پیٹھ پھیرنے والوں سے نرمی کی اور ان سے کوئی سختی نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ آپ نے یہ رویہ اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کردہ توفیق کے ساتھ اختیار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ما استفہامیہ ہے اور معنی یہ ہے : پس کتنی رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کہ آپ ان کے لئے نرم ہوگئے ہیں تو یہ بطور تعجب ہے، اور اس میں حقیقت سے دوری ہے، کیونکہ اگر اس طرح ہوتا تو یہ فبم بغیر الف کے ہوتا، لنت یہ لان یلین لینا ولیانا فتحہ کے ساتھ سے ماخوذ ہے اور الغظ الغلیظ کا معنی ہے خشک مزاج فظظت تغظ فظاظۃ فظاظا فانت فظ، (تو تند خو ہے) اس کی مونث فظۃ ہے اور جمع افظاظ ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ کے اوصاف میں سے یہ ہیں کہ نہ آپ تند خو ہیں، نہ سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں ساتھیوں کے ہمرہ بیٹھنے والے ہیں۔ (
1
) (صحیح بخاری کتاب البیوع، حدیث نمبر
1981
، ایضا کتاب التفسیر، حدیث نمبر
4461
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مفصل نے اشعار کہے ہیں جن سے فظ کے مذکر ہونے کا ثبوت ملتا ہے : ولیس بفظ فی الادانی والاولی یؤمون جدواہ ولکنہ سھل وفظ علی اعداہ یحذرونہ فسطوتہ حتف ونائلہ جزل : ان میں لفظ فظ دونوں جگہ مذکر ذکر ہوا ہے۔ اور ایک دوسرے شاعر نے اس کے مونث ہونے کے بارے کہا ہے : اموت من الضر فی منزلی وغیری یموت من الکظۃ : ودنیا اتجود علی الجاھلیہ نوھی علی ذی النھی فظہ : اس میں لفظ فظۃ مونث ذکر کیا گیا ہے : اور غلظ القلب سے مراد چہرے پر تیوری چڑھانا ہے (اور کرخت چہرے کے ساتھ کسی کی طرف متوجہ ہونا ہے) رغائب سے بہت کم متاثر ہونا اور شفقت و رحمت کا بہت کم ہونا ہے۔ اور اسی کے بارے شاعر کا قول ہے : یبکی علینا ولا نب کی علی احد لنحن اغلظ اکبادامن الابل : ہم پر رویا جائے گا اور ہم کسی پر نہیں روئیں گے یقینا ہم اونٹ سے زیادہ سخت دل ہیں۔ اور لا نفضوا کا معنی ہے لتفرقوا (تو وہ بکھر جاتے) فضفتھم فانفضوا “۔ یعنی میں نے انہیں منتشر کیا پس وہ منتشر ہوگئے اور اسی بارے میں ابو النجم کا قول ہے۔ اور اونٹ کا وصف بیان کرتا ہے : مستعجلات القیض غیر جرد ینفض عنھن الحصی بالصید : الفض کا اصل معنی توڑنا ہے اور اسی سے ان کا یہ قول ہے : لایفضض اللہ فاک۔ (اللہ تیرے منہ کو سلامت رکھے ’ یعنی نہ توڑے) اور اس کا معنی ہے : اے محمد ! ﷺ اگر آپ کی نرمی نہ ہوتی تو حیا (خجالت) اور خوف انہیں تمہارے قریب آنے سے روکتا اس کے بعد کہ وہ پیٹھ پھیر چکے تھے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی الامر :۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) علماء نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی مکرم ﷺ کو ان کاموں کا حکم فرمایا ہے جو انتہائی تدریج کے ساھ اور آہستہ آہستہ ہیں، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ انہیں معاف فرما دیں جو خاص کر آپ کو متبعین کی طرف سے اذیت پہنچی ہے، پس جب وہ اس درجہ میں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اس فعل کے بارے مغفرت طلب کریں جو متبعین سے صادر ہوا، جب وہ اس درجہ میں ہوگئے تو وہ اس اہل ہوگئے کہ امور میں ان سے مشورہ لیا جائے، اہل لغت نے کہا ہے : الاستشارۃ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے : شرت الدابۃ وشور تھا جب تو اس کیباریندوڑنے وغیرہ کی خبر جان لے، اور وہ جگہ جس میں گھوڑے دوڑتے ہیں اسے مشوار کہا جاتا ہے، اور کبھی ان کے اس قول سے ہوتا ہے : شرت العسل واشترتہ فھو مشورومشتار “۔ جیسا کہ تو اسے اپنی جگہ سے لے لے، عدی بن زید نے کہا ہے : فی سماع باذن الشیخ لہ و حدیث مثل ما ذمی مشار : اس میں مشار مذکور معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) ابن عطیہ نے کہا ہے : شوری (مشاورت) قواعد شریعت اور پختگی احکام میں سے ہے، جو اہل علم اور اہل دین سے مشاورت نہیں کرتا تو اس کا معزول ہونا واجب ہے، یہ ایسا حکم ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد سے مومنین کی مدح اور تعریف کی ہے : (آیت) ” وامرھم شوری بینھم “۔ اعرابی نے کہا ہے : ما غبنت قط حتی یغبن قومی ‘۔ (مجھ سے کبھی غبن اور دھوکہ نہیں کیا گیا مگر یہ کہ میری قوم سے دھوکہ کیا جائے) کہا گیا : یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو اس نے کہا : میں کوئی کام بھی نہیں کرتا یہاں تک کہ میں ان سے مشاورت کرلوں، اور ابن خویز منداد نے کہا ہے : حکمرانوں پر علماء سے ان معاملات میں مشورہ کرنا واجب ہے جنہیں وہ نہیں جانتے اور امور دین میں سے جن میں انہیں مشکل در پیش ہو اور فوجی ماہرین سے ان امور میں جو جنگ سے تعلق رکھتے ہیں اور لوگوں کے سرداروں سے ان امور میں سے جو مصالح سے تعلق رکھتے ہیں اور کتاب، وزراء اور عمال کے سر براہوں سے ان امور میں جو شہروں کے مصالح، منافع اور ان کی آبادی سے تعلق رکھتے ہیں، اور کہا جاتا ہے : ما ندم من استشار (جس نے مشاورت کی وہ نادم اور شرمندہ نہیں ہوا) اور یہ بھی کہا جاتا ہے : جو اپنی رائے پر اترا یا وہ گمراہ ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” وشاورھم فی الامر “۔ یہ آیت کاموں میں اجتہاد اور امکان وحی کے ساتھ ظنوں کو لینے کے جواز پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مکرم ﷺ کو اس بارے میں اجازت عطا فرمائی ہے اور اہل تاویل نے اس معنی میں اختلاف کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی مکرم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اس میں اپنے اصحاب سے مشاورت کریں، پس ایک گروہ نے کہا ہے : یہ جنگوں کی تدبیر کے بارے میں ہے، دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کے وقت کے بارے ہے اور اپنے نفوس کو مطمئن اور پاکیزہ رکھنے کے لئے اور اپنی اقدار کو بلند کرنے کے لئے اور اپنے دین پر جمع کرنے کے لئے (مشاورت ہے) اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کے ساتھ آپ کو ان کی رائے سے غنی کردیا ہے، یہ حضرت قتادہ، ربیع، ابن اسحاق، اور شافعی رحمۃ اللہ علہیم سے مروی ہے، امام شافعی نے کہا ہے : یہ اس قول کی طرح ہے والبکر تستامر (باکرہ عورت سے اس کے دل کی پاکیزگی کے لئے اجازت لی جائے گی) ، (مشاورت کی جائے گی۔ ) یہ اس لئے نہیں کہ یہ واجب ہے، اور مقاتل، قتادہ، اور ربیع رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : عربوں کے سرداروں سے جب کسی معاملہ میں مشاورت نہ کی جاتی تو وہ ان پر شاق اور گراں گزرتا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرامای کہ آپ ان سے معاملات میں مشاورت کریں، کیونکہ یہ ان کے لئے انتہائی مہربانی اور کرم ہے اور ان کے حسد وکینہ کو بہت دور کرنے والا ہے۔ (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الادب باب فی المشورۃ، جلد
2
، صفحہ
343
، اسلام آباد) اور ان کے دلوں کو پاک کرنے والا ہ، پس جب آپ ان سے مشاورت کریں گے تو وہ اپنے لئے آپ کی عزت و تکریم کو پہچان جائیں گے، اور دوسروں نے کہا ہے : یہ اس بارے میں ہے جس میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو، حضرت حسن بصری اور ضحاک رحمۃ اللہ علہیم سے یہی مروی ہے ان دنوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو مشاورت کا حکم اس لئے نہیں دیا کہ آپ کو ان کی رائے کی حاجت اور ضرورت ہے (
1
) (معالم التنزیل، جلد
1
، صفحہ
572
) بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ انہیں مشاورت کی فضیلت سے آگاہ فرمائیں اور تاکہ آپ کے بعد آپ کی امت اس کی اقتدا اور پیروی کرے اور حضرت ابن عباس ؓ کی قرات میں ہے (آیت) ” وشاورھم فی بعض الامر “۔ (اور آپ بعض معاملات میں ان سے مشاورت کریں۔ ) اور کسی کہنے والے نے کتنا اچھا کہا ہے : شاور صدیقک فی الخفی المشکل واقبل نصیحۃ ناصح متفضل : مشکل اور مخفی کاموں میں اپنے دوست سے مشورہ کر اور مہربان نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو قبول کر۔ فاللہ قد اوصی بذاک نبیہ فی قولہ شاورھم و توکل : پس اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے اپنے نبی ﷺ کو نصیحت فرمائی ہے اپنے اس ارشاد میں کہ آپ ان سے مشاورت کریں اور توکل اختیار کریں۔ مسئلہ نمبر : (
4
) مصنف ابی داؤد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” المستشارمؤتمن “۔ (
2
) (جامع ترمذی، کتاب الاستیذان والاداب، باب ان المستشار مؤتمن، حدیث
2747
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جس سے مشورہ لیا جائے اسے اس پر امین بنایا جاتا ہے، علماء نے کہا ہے : مستشار کی تعریف یہ ہے کہ اگر مشورہ احکام کے بارے میں ہو تو وہ عالم اور دیندار ہو اور سوائے عاقل کے ایسا بہت کم ہوتا ہے، حسن (رح) نے کہا ہے : کسی آدمی کا دین مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کی عقل مکمل نہ ہو، اور جب اس سے مشورہ لیا جائے تو اس صفت سے متصف ہو اور وہ اصلاح کی پوری کوشش کرے اور وہ اپنی جدوجہد اور صلاحیت صرف کرے اور پھر اشارۃ خطا واقع ہوجائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں، خطابی وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) دنیوی امور میں مستشار کی تعریف یہ ہے کہ وہ عاقل ہو، تجربہ کار ہو اور مشورہ طلب کرنے والے سے محبت کرنے والا ہو۔ جیسا کہ کسی نے کہا : شاور صدیقک فی الخفی المشکل : (تو مشکل اور مخفی کام میں اپنے دوست سے مشورہ کر) اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور دوسرے نے کہا ہے : وان باب امر علیک التوی فش اور نبی با و تعصہ : اور اگر کسی کام کا دروازہ تجھ پر بند ہوجائے تو کسی دانا اور عقلمند سے مشورہ کرلے اور تو اس کی نافرمانی نہ کر۔ اور مشاورت برکت ہے، اور آپ ﷺ نے فرمایا : ما ندم من استشار ولا خاب من اسخار۔ (وہ نادم نہ ہوگا جس نے مشورہ کیا اور وہ خائب و خاسر نہ ہوگا جس نے استخارہ کیا) اور حضرت سہل بن سعد الساعدی نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے : ” کوئی بندہ کبھی مشورہ کے سبب شقی اور بدبخت نہیں ہوا اور کوئی رائے کے استغنا کے ساتھ سعید اور خوش بخت نہیں ہوا “۔ اور بعض نے کہا ہے : اس سے مشاورت کر جو امور کا تجربہ رکھتا ہو، کیونکہ وہ تجھے اپنی ایسی رائے دے گا جو اس پر انتہائی مہنگی واقع ہوگی اور تو اسے مفت حاصل کرلے گا، حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خلافت کے لئے مجلس شوری مقرر فرمائی، حالانکہ یہ بہت بڑا اور اہم مسئلہ تھا، امام بخاری (رح) نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے ائمہ کرام اہل علم امناء سے امور مباحہ میں مشاورت کرتے تھے تاکہ آسانی اور سہولت کے ساتھ وہ ان پر عمل پیرا ہو سکیں (
1
) (صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، جلد
2
، صفحہ
1095
) اسلام آباد) حضرت سفیان ثوری (رح) نے بیان کیا ہے : چاہیے کہ تمہارے مشیر متقی اور امانتدار ہوں اور ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں، اور حسن نے کہا ہے : قسم بخدا ! جو قوم آپس میں مشورہ کرتی ہے تو جو وہاں حاضر ہوتے ہیں وہ ان کی راہنمائی افضل کی طرف کردیتے ہیں۔ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کوئی قوم نہیں جن کا مشورہ ہو اور ان کے ساتھ احمد یا محمد نامی آدمی بھی حاضر ہو اور وہ اسے اپنے مشورہ میں شامل کریں مگر اسے انکے لئے پسند کرلیا جائے گا۔ “ مسئلہ نمبر : (
6
) شوری کی بنیاد اختلاف آراء پر ہے اور مشورہ لینے والا اس اختلاف میں غور وفکر کرتا ہے اور ایسے قول کو دیکھتا ہے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہو اگر اس لئے ممکن ہو، اور جب اللہ تعالیٰ اس میں سے جہاں تک چاہے راہنمائی فرما دے تو وہ اس پر پختہ ہوجائے اور اسے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے نافذ کر دے، کیونکہ مطلوب تک پہنچنے کی یہی انتہائی کوشش ہے اور اس آیت میں اسی کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “۔ حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو حکم ارشاد فرمایا کہ جب آپ کسی کام کا ارادہ کریں تو اس میں لگ جائیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کریں، نہ کہ آپ ان کی مشاورت کا ارادہ کریں، اور عزم سے مراد ایسا امر ہے جس میں خوب غور وفکر کی گئی ہو اور اسے مہذب بنادیا گیا ہو، وہ بغیر نظر وفکر کے صرف رائے سے عزم نہیں بن سکتا، مگر عرب کے بہادروں کے بارے طویل قصائد کے قعہ میں۔ جیسا کہ کسی نے کہا : اذا ھم القی بین عینیہ عزمہ ونکب من ذکر العواقب جانبا : جب وہ قصد کرتا ہے تو اپنے عزم کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا ہے اور ہم انجام کے ذکر کو ایک جانب ڈال دیتے ہیں۔ ولم یستشر فی رایہ غیر نفسہ ولم یرض الا قائم السیف صاحبا : اور وہ اپنی رائے میں اپنے سوا کسی سے مشورہ نہیں کرتا اور تلوار اٹھانے والے کے سوا کسی ساتھی سے راضی نہیں ہوتا۔ اور نقاش نے کہا ہے : العزم اور الحزم دونوں کا معنی ایک ہے حاء کو عین سے بدلا گیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ خطا ہے اور حزم سے مراد کسی کام میں عمدہ اور گہری غور فکر کرنا اور اس کی کانٹ چھانٹ کرنا (یعنی مہذب بنانا) ہے اور اس میں خطا سے بچنا اور احتیاط کرنا ہے۔ اور العزم سے مراد کام کرنے کا قصد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” وشاورھم فی الامر، فاذا عزمت “۔ پس مشاورت اور جو اس کے معنی میں ہے وہ حزم ہے اور عرب کہتے : قد احزم لواعزم “۔ (میں احتیاط برتوں کا اگر میں قصد کروں گا) اور امام جعفر الصادق اور جابر بن عبداللہ نے (آیت) ” فاذا عزمت “۔ تاکو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، عزم کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف کی ہے کیونکہ وہی اس کی ہدایت اور توفیق عطا فرمانے والا ہے، جیسا کہ اس نے کہا ہے : (آیت) ” ومارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی “۔ (الانفال :
17
) ترجمہ : (اور اسے محبوب ! ) نہیں پھینکی آپ نے (وہ مشت خاک) جب آپ نے پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی۔ اور کلام کا معنی ہے یعنی میں نے آپ کا قصد کیا ہے اور میں نے آپ کو توفیق دی ہے اور میں نے آپ کی راہنمائی کی ہے (آیت) ” فتوکل علی اللہ “۔ (سو آپ اللہ تعالیٰ پر توکل کیجئے) اور باقیوں نے تا کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، مہلب نے کہا ہے : اور نبی مکرم ﷺ نے اپنے رب کے حکم سے اس کی پیروی کی ہے اور فرمایا ہے : ” کسی نبی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنے ہتھیار پہننے کے بعد پھر انہیں اتارے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرما دے (
1
) (صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، جلد
2
صفحۃ
1095
) یعنی اس کے لئے مناسب نہیں کہ جب وہ عزم کرلے تو پھر اس سے پھرجائے کیونکہ اس سے اس توکل کو توڑنا لازم آتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عزیمت کے ساتھ شرط قرار دیا ہے۔ پس آپ ﷺ کا اپنے ہتھیار پہننے کا اشارہ احد کے دن نکلنے کی طرف ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کے ساتھ مشرف ومکرم فرمایا اور وہ مومنین صلحاء تھے جو غزوہ بدر میں حاضر نہ ہو سکے تھے : یا رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ ہمارے دشمن کی طرف نکلئے، یہ عزیمت پر دال ہے اور آپ ﷺ نے قعود (مدینہ منورہ میں ہی رہنے) کا اشارہ کیا اور اسی طرح عبداللہ بن ابی نے بھی اسی کا اشارہ دیا اور اس نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ یہیں مقیم رہئے اور لوگوں کے ساتھ ان کی طرف نہ نکلئے پس اگر وہ ٹھہر گئے تو وہ بری مجلس کے ساتھ ٹھہریں گے اور اگر وہ ہماری طرف مدینہ طیبہ میں آئے تو ہم فناؤں اور گلیوں کے دھانوں پر ان سے جنگ لڑیں گے اور عورتیں اور بچے ٹیلوں پر چڑھ کر ان پر پتھر پھینکیں گے، قسم بخدا اس شہر میں دشمن نے کبھی بھی ہمارے ساتھ جنگ نہیں لڑی مگر ہم اس پر غالب آئے اور جب بھی ہم اس سے نکل کر دشمن کی طرف گئے تو وہ ہم پر غالب آئے، جن کا ذکر ہم نے کیا انہوں نے اس رائے کا انکار کردیا اور انہوں نے لوگوں کو تشجیح دلائی اور جنگ کی طرف دعوت دی، پس رسول اللہ ﷺ نے نماز جمعہ پڑھائی اور نماز کے بعد اپنے کاشانہ اقدس میں تشریف لے گئے اور اپنے ہتھیار پہنے، نتیجتا وہ قوم نادم ہوئی اور انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کو مجبور کیا ہے، پس جب آپ ہتھیار پہن کر انکی طرف تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ کی خواہش ہے تو یہیں ٹھہر جائیں کیونکہ ہم آپ کو مجبور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ جب وہ اپنے ہتھیار پہن لے تو پھر انہیں قتال کرنے سے پہلے اتار دے۔ “ (
1
) (معالم التنزیل، جلد
1
، صفحہ
540
) مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین “۔ توکل کا معنی عجز کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا ہے اور اس کا اسم التکلان ہے، اسی سے کہا جاتا ہے : اتکلت علیہ فی امری (میں نے اپنے کام میں اس پر اعتماد کیا ہے) اور اس کی اصل او تکلت ہے واؤ کو ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے یا سے بدلا گیا ہے، پھر یا کو تا سے بدل دیا گیا اور پھر اسے تا افتعال میں مدغم کردیا گیا۔ اور کہا جاتا ہے : وکلتہ بامری توکیلا “ (میں نے اسے اپنے کام کا وکیل بنایا) اس کا اسم وکالۃ ہے واؤ مسکور بھی ہے اور مفتوح بھی۔ علماء نے توکل کے بارے میں اختلاف کیا ہے، متصوفہ میں سے ایک گروہ نے کہا ہے : اس کا مستحق صرف وہ ہوتا ہے جس کے دل میں غیر اللہ یعنی درندے یا کسی اور شے کا خوف نہ ہو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ضمان کی وجہ سے رزق کی تلاش میں سعی اور جدوجہد کرنا چھوڑ دے، اور عام فقہاء نے کہا ہے : وہ جس کا ذکر قول باری تعالیٰ : (آیت) ” وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون “۔ کے تحت ہوچکا ہے، اور وہی صحیح ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا کردیا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے اپنے اس قول میں خبر دی ہے ” لا تخافا “ اور فرمایا ہے : (آیت) ” فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ ، قلنا لا تخف “۔ (طہ) ترجمہ : موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا، ہم نے فرمایا (اے کلیم) مت ڈرو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے اس قول سے خبر دی ہے۔ : (آیت) ” فلما را ایدیھم لا تصل الیہ نکرھم واوجس منھم خیفۃ قالوا لاتخف “۔ (ھود :
70
) ترجمہ : پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ نہیں بڑھ رہے کھانے کی طرف تو اجنبی خیال کیا انہوں نے اور دل ہی دل میں ان سے اندیشہ کرنے لگے۔ فرشتوں نے کہا ڈریئے نہیں۔ پس جب حضرت خلیل (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے تو یہ دونوں مثالیں تیرے لئے کافی ہیں، تو ان دونوں کے سوا کا ڈرنا تو بدرجہ اولی ہے، اور اس معنی کا بیان آگے آئے گا۔
Top