Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا : پس۔ سے رَحْمَةٍ : رحمت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ لِنْتَ : نرم دل لَھُمْ : ان کے لیے وَ : اور وَلَوْ كُنْتَ : اگر آپ ہوتے فَظًّا : تند خو غَلِيْظَ الْقَلْبِ : سخت دل لَانْفَضُّوْا : تو وہ منتشر ہوجاتے مِنْ : سے حَوْلِكَ : آپ کے پاس فَاعْفُ : پس آپ معاف کردیں عَنْھُمْ : ان سے (انہیں) وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَھُمْ : ان کے لیے وَشَاوِرْھُمْ : اور مشورہ کریں ان سے فِي : میں الْاَمْرِ : کام فَاِذَا : پھر جب عَزَمْتَ : آپ ارادہ کرلیں فَتَوَكَّلْ : تو بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَوَكِّلِيْنَ : بھروسہ کرنے والے
سو آپ ان کو معاف فرما دیجیے اور ان کے لیے استغفار کیجئے اور کاموں میں ان سے مشورہ لیجیے پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر توکل کیجئے بیشک تو کل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کریمانہ غزوہ احد کے موقعہ پر مسلمانوں سے جو لغزش ہوگئی تھی اور میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے جس سے رسول اکرم ﷺ کو غم پہنچا اور تکلیف ہوئی اس پر آپ نے ان سے سختی کا معاملہ نہیں کیا۔ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی اللہ تعالیٰ شانہ نے آپ کے ان کریمانہ اخلاق اور آپ کی نرم مزاجی کی اس آیت میں تعریف فرمائی۔ نیز مسلمانوں کی بھی دلداری اور دل جوئی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اول تو دو مرتبہ اپنی طرف سے معافی کا اعلان فرمایا۔ جس کا ذکر پچھلے رکوع میں آچکا ہے پھر اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ آپ بھی معاف فرما دیں اور نہ صرف یہ کہ خود معاف فرما دیں بلکہ ان کے لیے اللہ جل شانہ سے بھی استغفار کریں۔ اور مزید دلداری یوں فرمائی کہ آپ کو ان سے مشورہ لینے کا حکم دیا پھر فرمایا کہ مشورہ کے بعد جس طرف آپ کی رائے پختہ ہوجائے اللہ کے بھروسہ پر اس پر عمل کر لیجیے جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اعتماد رکھتے ہیں وہ اللہ کو محبوب ہیں۔ خوش خلقی کا بلند مرتبہ : آنحضرت ﷺ خوش اخلاق و خوش مزاج ہمیشہ ہی سے تھے اس موقعہ پر خاص طور پر اس کا مظاہرہ ہوا۔ مؤطا میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کی تکمیل کروں۔ حضرت ابو درداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ سب سے زیادہ بھاری چیز قیامت کے دن جو مومن کی ترازو میں رکھی جائے گی وہ اچھے اخلاق ہوں گے اور بیشک اللہ کو فحش گو اور بد زبان مبغوض ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک مومن اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے راتوں رات نماز پڑھنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے کا درجہ پا لیتا ہے۔ نرمی خوش خلقی کا بہت بڑا جزو ہے صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نرمی سے محروم ہوگیا وہ خیر سے محروم ہوگیا۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ نرمی جس کسی چیز میں بھی ہوگی اسے زینت دے دے گی اور جس چیز سے نرمی نکال جائے گی وہ عیب دار ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں بتادوں جو آتش دوزخ پر حرام ہے اور جس پر آتش دوزخ حرام ہے پھر فرمایا کہ یہ صفت اس شخص کی ہے جس سے ملنا جلنا آسان ہو نرم مزاج ہو قریب ہو سہل ہو، سنن ابو داؤد میں ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سخت مزاج بد اخلاق داخل نہیں ہوگا۔ (یہ روایات مشکوٰۃ المصابیح باب الرفق والحیار و حسن الخلق) میں مذکور ہیں۔ آنحضرت ﷺ تو تمام خلق حسن والوں کے سردار تھے۔ آپ کیوں نرم نہ ہوتے آپ کو بڑی بڑی تکلیفیں پہنچیں سب کو سہہ گئے اور نرمی کے ساتھ نباہ گئے۔ یہ جو فرمایا (وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ) (اور اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے) اس میں جہاں آنحضرت سرور عالم ﷺ کی خوش خلقی اور نرم مزاجی اور رأفت اور شفقت کا ذکر ہے وہاں اس امر کی بھی تصریح ہے کہ یہ صحابہ جو آپ کے پاس جمع ہیں اور آپ سے بےپناہ محبت کرتے ہیں اور دل و جان سے آپ پر نثار ہیں اس میں اس کا بہت دخل ہے کہ آپ سخت مزاج اور سخت دل نہیں ہیں اگر خدا نخواستہ آپ ایسے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے چلے جاتے اور منتشر ہوجاتے۔ معلمین اور مرشدین خوش خلقی اختیار کریں : انسان کا مزاج ہے کہ بردبار و خوش اخلاق متواضع اور منکر المزاج کے پاس جانا اور اٹھنا بیٹھنا اور اس سے فیض لینا اور علم و معرفت حاصل کرنا پسند کرتا ہے جو حضرات حضرت رسول اکرم ﷺ کے نائب ہیں معلم ہیں محدث ہیں، مفتی ہیں، مرشد ہیں، مبلغ ہیں داعی اور ہادی ہیں، ان لوگوں کے لیے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے، اگر امت کو علم سکھانا اور فیض پہنچانا ہے تو نرم مزاج، نرم خو، شفیق اور مہربان بردبار بنیں ورنہ صاحب بڑے عالم اور اونچے درجہ کے مرشد ہیں اور ہمیں ان سے فیض مل سکتا ہے پھر بھی فیض لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، یوں تو ہر مسلمان ہی کو خوش خلق اور نرم مزاج ہونا چاہیے لیکن خاص کر مسلمین مصلحین، مبلغین مرشدین کو تو بہت ہی زیادہ اس صفت سے متصف ہونا ضروری ہے۔ حضرت سعدی (رح) نے کیا اچھا فرمایا : کس نہ بیند کہ تشنگان حجاز برلب آب شور گرد آیند ہر کجا چشمہ بود شیریں مردم و مرغ و مور گرد آیند کمال یہی ہے کہ عامۃ المسلمین میں گھل مل کر رہے۔ خیر کے کام کرے خیر کی تعلیم دے اور ان سے جو تکلیف پہنچے اس کو برداشت کرے۔ اپنی ذاتی نیکیوں کو لے کر تنہائی میں بیٹھ جانا تاکہ لوگ تکلیف نہ دیں اس میں وہ بات نہیں جو خیر پہنچانے اور تکلیف اٹھانے میں ہے۔ سنن مذتری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان لوگوں میں گھل مل کر رہتا ہے اور ان سے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرتا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو گھل مل کر نہیں رہتا اور لوگوں کی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 432) مشورہ کرنے کا حکم : پھر فرمایا (وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ) اللہ جل شانہ نے آنحضرت سرور عالم ﷺ کو صحابہ کرام سے مشورہ فرمانے کا حکم دیا۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی اپنے صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اور اس کے بعد بھی آپ نے مشورے فرمائے۔ آیت شریفہ میں مشورے کا حکم دے کر حضرات صحابہ کی اللہ تعالیٰ نے دلجوئی فرمائی اور ان کا اعزازو اکرام فرمایا یہ مشورہ ان امور میں نہیں تھا جہاں کوئی نص قطعی اور واضح حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے موجود ہو، جن امور کو آنحضرت سرور عالم ﷺ کے سپرد فرما دیا گیا ان میں مشورہ کرنے کا حکم فرمایا۔ مشورہ کی ضرورت اور اہمیت : اس سے مشورے کی اہمیت اور ضرورت ظاہر ہوئی اور یہ بھی پتہ چلا کہ جب سید الاولین والآخرین ﷺ مشورہ سے مستغنی نہیں تو آپ کے بعد ایسا کون ہوسکتا ہے جو مشورہ سے بےنیاز ہو، آئندہ آنے والے امراء اور اصحاب اقتدار اور امت کے کاموں کے ذمہ دار جو بھی آئیں سب کے لیے مشورہ کرنے کی ضرورت واضح ہوگئی۔ مشورہ میں بہت خیر ہے جو اصحاب رائے ہوں خواہ عمر یا مرتبہ میں چھوٹے ہی ہوں ان کو مشورہ میں شریک کرنا چاہیے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کرنے کی صورت میں مختلف رائیں سامنے آجاتی ہیں۔ ان رایوں کے درمیان سے کسی مناسب ترین رائے کو اختیار کرلینا آسان ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ بڑے کی نظر سے وہ گوشے اوجھل رہ جاتے ہیں جو چھوٹوں کی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ تمام گوشے سامنے آنے سے کسی پہلو کو اختیار کرنے میں بصیرت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلاَ نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ (یعنی جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہ ہوگا۔ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہ ہوگی) ۔ (ذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد) خانگی امور میں اور اداروں کے معاملات میں مشورے کرتے رہنا چاہیے جن لوگوں سے مشورہ کیا جائے ان کی ذمہ لازم ہے کہ وہ وہی رائے دیں جسے اپنی دیانت سے فیما بینھم و بین اللّٰہ صحیح سمجھتے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ان المستشار مؤتمن (یعنی جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے) (اخرجہ الترمذی فی ابواب الزہدو ابن ماجہ فی کتاب الادب) اگر کوئی شخص اپنے ذاتی معاملہ میں مشورہ کرے تب بھی اسے وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ سنن ابو دواؤد میں ہے کہ آنحضرت سرورعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ من اشار علی اخیہ بامر یعلم ان الرشد فی غیرہ فقد خانہ (جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جس کو وہ سمجھتا ہے کہ مشورہ لینے والے کی بہتری دوسری رائے میں تھی جو پیش نہیں کی گئی تو اس نے خیانت کی) (رواہ ابو داؤد فی کتاب العلم) اور حضرت علی ؓ سے اس کا قاعدہ کلیہ مروی ہے جسے علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ صفحہ 383 میں نقل کیا ہے اور وہ یہ کہ فاذا استشیر احد کم فلیشر بما ھو صانع لنفسہ (کہ جب کسی سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ مشورہ دے جسے وہ اپنے لیے اختیار کرتا اگر وہ خود اس حال میں مبتلا ہوتا جس میں مشورہ لینے والا مبتلا ہے) اور یہ مضمون اس حدیث کے مطابق ہے جس میں افضل الایمان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ان تحب للناس ماتحب لنفسک وتکرہ لھم ماتکرہ لنفسک (یعنی یہ کہ تو لوگوں کے لیے اسی کو پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے لوگوں کے لیے اس چیز کو ناپسند جانے جس کو اپنے لیے ناپسند جانتا ہے) (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 16) مشورہ کی شرعی حیثیت : مشورے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر تو کل کیجیے بیشک تو کل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) مطلب یہ ہے کہ مشورے کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے فرما کر عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کیجیے اور اپنے عزم کے مطابق عمل کیجیے۔ اس میں یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کے بعد آپ کو سب کے یا کسی ایک کے مشورے کا پابند ہونا ضروری نہیں۔ جس طرف آپ کا رحجان ہو اس پر عمل کرلیں اس میں مشورہ دینے والوں کو بھی دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں مشورہ دینا اور لینا ضائع نہیں ہے کیونکہ اس میں ہر شخص کو غور و خوض کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کا ثواب مل چکا ہے اب آپ جس رائے کو مناسب جانیں (اور رایوں میں اپنی ذاتی رائے بھی ہے) اس پر عمل فرمائیں۔ اپنا عزم فرمانے کے بعد اللہ پر بھروسہ کرنے کا حکم فرمایا اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ تمام مشوروں اور تدبیروں کے بعد بھروسہ صرف اللہ ہی پر رہے بندوں کی رائیں اور تدبیریں صرف اسباب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسباب پر بھروسہ کرنا مومن کا کام نہیں، مومن کا بھروسہ صرف اللہ پر ہوتا ہے۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ کے بعد بھی مشورہ کی سنت جاری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مشورہ لینے والے کے لیے خواہ امیر المؤمنین ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے کہ سب کا یا کسی ایک کا مشورہ مانے۔ باوجود مشورہ لینے کے اسے اپنی رائے پر عمل کرنے کا پورا پورا اختیار ہے۔ حق بات یہ ہے کہ جب مشورہ لینے والا بھی مخلص ہو اور مشورہ دینے والے بھی مخلص ہوں اور ہر ایک کو اللہ کی رضا مقصود ہو تو کسی وقت بھی بدمزگی پیدا ہونے کا موقعہ نہیں رہتا۔ آپس میں ضدا ضدی اور یہ اعتراض کہ میری رائے پر عمل کیوں نہ کیا اور امیر کی شکایت کہ وہ آمر مطلق ہے مشورہ کرکے بھی اپنی رائے پر عمل کرتا ہے۔ یہ سب باتیں جبھی ہوتی ہیں جب امیر اور مامور میں اخلاص نہ ہو اور آپس میں اعتماد نہ ہو اور امارت کے اصول پر امیر و مامور کو چلنے کا ارادہ نہ ہو، نفسانی اور دنیاوی چیزوں نے جگہ پکڑ رکھی ہو۔ اگر امیر کے انتخاب میں اللہ کی رضامندی کا دھیان رکھا ہو ار متقی آدمی کو امیر بنایا ہو جس کے علم و عمل اور اخلاص پر اعتماد ہو جو دنیا دار نہ ہو عہدہ کا طالب نہ ہو تو اس صورت میں امیر کا اپنی رائے پر عمل کرنا ناگوار نہ ہوگا۔ انتخاب تو غلط کریں اور پھر امیر کے خلاف احتجاج کرنے جلوس نکالنے کے جاہلانہ طریقوں سے امیر کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے۔ موجودہ جمہوریت اور اس کا تعارف زمانہ قدیم میں بادشاہتیں جاری تھیں ولی عہدی کے اصول پر بادشاہت ملتی تھی عرب و عجم میں بادشاہ تھے ان میں ظالم بھی تھے، رحم دل بھی تھے اور انصاف پسند بھی۔ لیکن بادشاہت کی تاریخ میں زیادہ تر مظالم ہی ملتے ہیں۔ ان مظالم سے تنگ آکر یورپ والوں نے جمہوریت کا طرز حکومت جاری کیا۔ اور اس کا نام عوامی حکومت رکھا۔ اس کے جو طریق کار ہیں انہیں عام طور سے سبھی جانتے ہیں۔ اس جمہوریت کا خلاصہ عوام کو دھوکہ دینا اور کسی ایک پارٹی کے چند افراد کے ملک پر مسلط ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عنوان یہ ہے کہ اکثریت کی رائے انتخاب میں معتبر ہوگی۔ اور انتخاب بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوگا اس میں امید وار کے لیے عالم ہونا، دیندار ہونا بلکہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں پڑھے لکھے اور بالکل جاہل، جپٹ مرد عورت امید وار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بعض پارٹی کے نمائندے ہوتے ہیں اور بعض آزاد ہوتے ہیں ان میں بعض وہ بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ اسلام کے نظام حدود و قصاص کو ظالمانہ کہتے ہیں جس کی وجہ سے حدودکفر میں داخل ہوجاتے ہیں اور انتخاب میں پارٹیوں کے زور پر اور سرداروں کے زور پر اور پیسوں کے زور پر ووٹ دینے والے بھی عموماً وہی لوگ ہوتے ہیں جو دین اسلام کے تقاضوں کو نہیں جانتے لہٰذا بےپڑھے اور ملحد اور زندیق بھی منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آجاتے ہیں۔ جس شخص کو زیادہ ووٹ مل گئے وہی ممبر منتخب ہوجاتا ہے اگر کسی سیٹ پر گیارہ آدمی کھڑے ہوں تو ان میں سے اگر دس آدمیوں کو 15۔ 15 ووٹ ملیں اور ایک شخص کو سولہ ووٹ مل جائیں تو یہ شخص سب کے مقابلہ میں کامیاب مانا جائے گا اور کہا یہ جائے گا کہ اکثریت سے منتخب ہوا حالانکہ اکثریت اس شخص کے مخالف ہے ڈیڑھ سو افراد نے اسے ووٹ نہیں دیئے۔ سولہ آدمیوں نے ووٹ دیئے ہیں ڈیڑھ سو کی رائے کی حیثیت نہیں یہ جمہوریت ہے جس میں 150 آدمیوں کی رائے کا خون کیا گیا اور سولہ افراد کی رائے کو مانا گیا۔ پھر پارلیمنٹ میں جس کسی پارٹی کے افراد زیادہ ہوجائیں اسی کی حکومت بن جاتی ہے اور وہ افراد اسی طریقہ پر پارلیمنٹ میں آئے ہیں جو ابھی ذکر ہوا اس طرح سے تھوڑے سے افراد کی پورے ملک پر حکومت ہوجاتی ہے اور پارٹی کے چند افراد اختیار سنبھال لیتے ہیں اور سیاہ وسفید کے مالک ہوجاتے ہیں خود پارٹی کے جو افراد کسی بات سے متفق نہ ہوں انہیں پارلیمنٹ میں پارٹی ہی کے موافق بولنا پڑتا ہے اپنی ذاتی رائے کا خون کردیتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور اکثریت کی حقیقت ہے۔ پھر خدا کی پناہ مرکزی حکومت کے صدر اور وزیر اعظم اور دوسرے وزراء کے بےت کے اخراجات بنگلے اور ان کی سجاوٹیں گاڑیاں ڈرائیور، پٹرول کا خرچ، باورچی، مالی اور دوسرے خادموں کی تنخواہیں اور وزیروں کی بےجا کھپت پارٹی کے آدمی ہونے کی بنیاد پر خواہ مخواہ عہدے نکالنا اور حدیہ ہے کہ وزیر بےقلمدان بنانا اور کثیر تعداد میں مشیروں کو کھپانا ان سب کا بوجھ قوم کی گردن پر ہوتا ہے۔ پھر ہر صوبہ کا گورنر، وزیر اعلیٰ دوسرے وزراء اور نائب وزراء ان سب اخراجات سے ملک کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور ملک چلانے کے لیے سودی قرضے لیتے ہیں۔ اور قوم پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ انکم ٹیکس، برآمد ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی۔ یہ سب مصیبت قوم پر سوار ہوتی ہے اور عوام کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ تمہاری حکومت ہے عوام ان پارٹی بازوں اور سیاسی بازی گروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور سیدھا سادھا اسلامی نظام جس میں ایک امیر مرکزی حکومت میں ہو جس کا معمولی سا وظیفہ ہو۔ اور علاقوں میں چند امیر ہوں اور یہ سب لوگ سادگی کے ساتھ رہیں بقدر ضرورت واجبہ ان کو وظیفہ مل جائے معمولی سے گھر میں رہیں۔ اگر کسی کا اپنا گھر ہے تو اسی میں قیام پذیر ہو۔ اس نظام کو ماننے کے لیے لوگ تیار نہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جمہوریت ہے اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام میں شوریٰ کی بھی کوئی حیثیت ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ مگر اس کی حیثیت وہی ہے جو اوپر ذکر کردی گئی ایسی حیثیت جس میں پورے ملک میں انتخاب ہو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہر کس وناکس ووٹر ہو اور کثرت رائے پر فیصلہ رکھا جائے اسلام میں ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ بعض اہل علم بھی دانستہ یا نا دانستہ طور پر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اسلام کی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بڑی محنتوں سے جمہوریت کو لائے ہیں اب اس کے خلاف کیسے بولیں۔ اور ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہوتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انتخاب میں کوئی بھی کیسا ہی بےدین منتخب ہوجائے جمہوریت جاہلیہ کی وجہ سے اس کے عہدہ کو ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں اب تو منتخب ہو ہی گیا عوام کی رائے کو کیسے ٹھکرائیں۔ قانون کے تابع ہیں اس کے خلاف چلنے بولنے کی کوشش کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔ حضرات خلفائے اربعہ کا انتخاب : یہ تو سب جانتے ہیں کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان و علی ؓ خلفاء راشدین تھے ان حضرات کو منتخب کرتے وقت کوئی بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر انتخاب نہیں ہوا۔ نہ پورے ملک سے ووٹ لیے گئے تاریخ اور سیرت کے جاننے والے اس امر سے واقف ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرات مہاجرین اور انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ وہاں اس بات کا مشورہ ہو رہا تھا کہ امیر کون ہو۔ انصار میں سے بعض حضرات یہ رائے دے رہے تھے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے ہو۔ حضرت ابوبکر و عمر ؓ بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ لائیے میں بیعت کرتا ہوں انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ حضرت عمر ؓ نے بیعت کرلی اس کے بعد مہاجرین نے بیعت کرلی ان کے بعد انصار نے بیعت کی۔ یہ تو حضرت ابوبکر ؓ کا انتخاب تھا جو سب سے پہلے خلیفہ تھے۔ اس کی تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ 246: ج 5 میں مذکور ہے، اس کے بعد جب ابوبکر ؓ کی وفات ہونے لگی تو انہوں نے بغیر کسی مشورہ کے حضرت عمر ؓ کو خلیفہ بنا دیا۔ پھر جب حضرت عمر ؓ کو دشمن نے خنجر مار دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں جانبر ہونے والا نہیں ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ خلافت کا مستحق ان حضرات کے علاوہ کوئی نہیں جن سے رسول اللہ ﷺ راضی تھے اور اسی حالت رضا مندی میں آپ کی وفات ہوئی۔ پھر انہیں حضرات میں سے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے نام لیے اور فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیا جائے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میرا بیٹا عبداللہ بن عمر ؓ مشورے میں شریک ہوگا لیکن اسے خلافت سپرد نہ کی جائے اور فرمایا کہ اگر سعد کو منتخب کرلیا جائے تو وہ اس کے اہل ہیں۔ اور اگر ان کے علاوہ کسی دوسرے کو امیر بنا لیا جائے تو وہ ان سے مدد لیتا رہے جب حضرت عمر ؓ کی وفات ہوگئی اور ان کو دفن کردیا گیا تو وہ حضرات جمع ہوئے جن کو خلافت کے لیے نامزد فرمایا تھا کہ اپنے میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے فرمایا کہ تم سب اپنا معاملہ تین آدمیوں کے سپرد کرو حضرت زبیر ؓ نے فرمایا میں نے اپنا معاملہ حضرت علی ؓ کے سپرد کیا اور حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عثمان ؓ کے سپرد کیا۔ حضرت سعد ؓ نے فرمایا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے سپرد کیا۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ تم دونوں میرے سپرد کرتے ہو تو میں تم میں جو افضل ترین ہوگا اس کے انتخاب میں کوتاہی نہیں کروں گا ان دونوں نے کہا کہ ہاں ہم تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے دونوں سے علیحدہ علیحدہ تنہائی میں بات کی اور دونوں نے اقرار کیا کہ اگر میرے علاوہ دوسرے کو تم نے امیر بنا دیا تو میں فرمانبر داری کروں گا اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے کہا لاؤ ہاتھ بڑھاؤ یہ کہہ کر ان سے خود بیعت کرلی اور حضرت علی ؓ نے بھی ان سے بیعت کرلی۔ دوسرے حضرات جو باہر منتظر تھے وہ بھی اندر آئے اور انہوں نے حضرت عثمان ؓ سے بیعت کرلی۔ مفصل واقعہ صحیح بخاری صفحہ 524: ج 1 میں مذکور ہے۔ یہ انتخاب خلیفہ ثالث کا تھا (اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ نے برضاء ورغبت حضرت عثمان ؓ سے بیعت کی تھی اور پہلے سے اقرار کرلیا تھا کہ اگر ان کو امیر بنا دیا گیا تو میں فرمانبر دار ہوں گا) ۔ جب حضرت عثمان ؓ کی شہادت ہوئی تو ان کی جگہ کسی امیر کے انتخاب کی ضرورت محسوس کی گئی اہل مصر جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کیا تھا وہ حضرت علی ؓ کو اصرار کرتے رہے کہ آپ خلافت کا بوجھ سنبھالیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے اور باغوں کی طرف تشریف لے گئے۔ کوفہ والوں نے حضرت زبیر ؓ کو تلاش کیا وہ بھی نہ ملے۔ بصرہ والوں نے حضرت طلحہ ؓ سے عرض کیا انہوں نے انکار کردیا۔ پھر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معروض پیش کی انہوں نے بھی قبول نہ کیا۔ حضرت ابن عمر ؓ کے پاس گئے انہوں نے بھی نہ مانا ساری کوششیں کرکے پھر حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خلافت قبول کرنے پر اصرار کرتے رہے آخر میں انہوں نے ذمہ داری قبول فرمائی۔ یہ تفصیل البدایۃ والنہایۃ صفحہ 226: ج 7 میں لکھی ہے۔ یہ چاروں خلفاء کا انتخاب تھا ان میں کبھی بھی پورے ملک میں الیکشن نہیں ہوا۔ بلکہ پورے صحابہ ؓ بھی شریک نہیں ہوئے نہ پورا مدینہ شریک ہوا چند افراد نے منتخب کرلیا سب نے مان لیا۔ ممکن ہے یورپ کی جمہوریت جاہلیہ سے مرعوب ہو کر بعض ناواقف یہ کہنے لگیں کہ صحیح طریقہ وہی ہے جو آج کل رواج پائے ہوئے ہے۔ ان حضرات نے انتخاب صحیح نہیں کیا۔ (العیاذ باللہ) اس جاہلانہ اپچ کا جواب دینے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم عرض کردیتے ہیں کہ یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی ذات پر پہنچتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے سورة توبہ کی آیت نمبر 100 میں مہاجرین اور انصار اور جو خوبی کے ساتھ ان کا اتباع کریں ان کی تعریف فرمائی اور ان کے بارے میں رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ فرمایا اگر انہیں حضرات نے اسلام کو نہیں سمجھا اور امیر کا انتخاب جس طرح ہونا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا تو ان کے بعد اسلام کو اور اسلام کے تقاضوں کو جاننے والا کون ہے ؟ پھر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین (رواہ ابو داؤد الترمذی) (کہ میرے طریقے کو اور خلفاء راشدین کے طریقے کو اختیار کرنا) اگر ان حضرات کا اپنا انتخاب صحیح نہیں اور انہوں نے دوسروں کا انتخاب صحیح نہیں کیا تو وہ خلفاء راشدین ہو ہی نہیں سکتے اگر آج کے جاہلوں کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ حضرات صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی خلیفہ راشد نہیں ہوا (العیاذ باللہ) دشمنوں کے طریقہ کار سے مرعوب ہو کر اسلام کی تحریف اور تبدیل کرنے پر آمادہ ہو جاناایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔
Top