Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا
: پس۔ سے
رَحْمَةٍ
: رحمت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
لِنْتَ
: نرم دل
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَ
: اور
وَلَوْ كُنْتَ
: اگر آپ ہوتے
فَظًّا
: تند خو
غَلِيْظَ الْقَلْبِ
: سخت دل
لَانْفَضُّوْا
: تو وہ منتشر ہوجاتے
مِنْ
: سے
حَوْلِكَ
: آپ کے پاس
فَاعْفُ
: پس آپ معاف کردیں
عَنْھُمْ
: ان سے (انہیں)
وَاسْتَغْفِرْ
: اور بخشش مانگیں
لَھُمْ
: ان کے لیے
وَشَاوِرْھُمْ
: اور مشورہ کریں ان سے
فِي
: میں
الْاَمْرِ
: کام
فَاِذَا
: پھر جب
عَزَمْتَ
: آپ ارادہ کرلیں
فَتَوَكَّلْ
: تو بھروسہ کریں
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُتَوَكِّلِيْنَ
: بھروسہ کرنے والے
سو کچھ اللہ ہی کی رحمت ہے جو تو نرم دل مل گیا ان کو اور اگر تو ہوتا تند خو سخت دل تو متفرق ہوجاتے تیرے پاس سے سو تو ان کو معاف کر اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور ان سے مشورہ لے کام میں پھر جب قصد کرچکا تو اس کام کا تو پھر بھروسہ کر اللہ پر اللہ کو محبت ہے توکل والوں سے۔
ربط آیات
غزوہ احد میں بعض مسلمانوں کی لغزش اور میدان چھوڑنے سے جو صدمہ اور غم رسول اللہ ﷺ کو پہنچا تھا، اگرچہ آنحضرت ﷺ نے اپنے طبعی اخلاق اور عادات عفو و کرم کی بنا پر ان کو اس پر کوئی ملامت نہیں کی اور کوئی معاملہ سختی کا بھی نہیں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول کے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان کے دلوں میں اس غلطی پر جو صدمہ اور اپنے قصور پر جو ندامت تھی ان سب کو دھو دینا منظور ہوا تو اس آیت میں آپ کو مزید لطف و کرم کی ہدایت اور صحابہ کرام سے معاملات میں مشورہ لینے کا حکم دیا۔
خلاصہ تفسیر
بعد اس کے (کہ صحابہ کرام سے ایسی لغزش ہوئی جس پر آپ کو ملامت اور مواخذہ کرنے کا حق تھا) خدا ہی کی رحمت کے سبب (جو کہ آپ پر ہے) آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ (خدانخواستہ) تند خو سخت مزاج ہوتے تو یہ (بیچارے) آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے (پھر ان کو یہ فیوض برکات کہاں نصیب ہوتے) سو (جب آپ نے برتاؤ میں ایسی نرمی فرمائی تو ان سے جو غلطی آپ کی تعمیل حکم میں ہوگئی ہے اس کو دل سے بھی ان کو معاف کر دیجئے (اور ان سے جو غلطی اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوتاہی سے ہوئی اس کے لئے) آپ ان کے لئے استغفار کیجئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ نے خود انکی معافی اور مغفرت کا اعلان پہلے ہی فرما دیا تھا مگر آپ کا ان کے لئے دعا مغفرت کرنا مزید ان کے لئے مفید اور موجب تسلی ہوگا) اور ان سے خاص خاص باتوں میں (بدستور) مشورہ لیتے رہا کیجئے (تاکہ اس خصوصی لطف سے ان کے دلوں سے غم دھل جائے) پھر (مشورہ لینے کے بعد) جب آپ (کسی ایک جانب) رائے پختہ کرلیں (خواہ وہ ان کے مشورہ کے موافق ہو یا مخالف) تو اللہ تعالیٰ پر اعتماد (کر کے اس کام کو کر ڈالا) کریں بیشک اللہ تعالیٰ ایسے اعتماد کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
معارف و مسائل
مرشد و مربی کی خاص صفات۔
صحابہ کرام جو رسول کریم ﷺ کے عشاق اور اپنی جان و مال سے زیادہ آپ کو عزیز رکھنے والے تھے، ان سے جب آپ کے حکم کے خلاف ایک لغزش صادر ہوگئی تو یہاں اسی کی طرف تو یہ خطرہ تھا کہ ان حضرات کو جب اپنی لغزش اور خلاف ورزی حکم پر تنبیہ ہو تو ان کا صدمہ حد سے بڑھ جائے، جو ان کے قلب و دماغ کو معطل کر دے۔ یا رحمت سے مایوس بنا دے، اس کا علاج تو پچھلی آیت میں بتلا دیا گیا کہ فاثا بکم غما علم اس لغزش کی سزا دنیا میں دی جا چکی ہے آخرت کا کھاتہ بیباق ہوگیا۔
دوسری طرف رسول کریم ﷺ اس غلطی اور لغزش کے نتیجہ میں زخمی ہوئے، جس سے جسمانی تکلیف بھی پہونچی، اور روحانی تکلیف تو پہلے ہی سے تھی، تو اس جسمانی و روحانی تکلیف سے یہ احتمال تھا کہ آنحضرت ﷺ کے قلب مبارک میں صحابہ کرام کی طرف سے تکدر پیدا ہوجائے جو ان کی ہدایت و تلقین میں مخل ہوجائے، اس کے لئے آنحضرت ﷺ کہ یہ تعلیم دینا تھی کہ آپ ان کی خطا سے درگذر فرمائیں، ان کی لغزش دل سے معاف کردیں، اور آئندہ کے لئے بھی لطف و مہربانی کا معاملہ جاری رکھیں۔ اس مضمون کو حق تعالیٰ نے ایک عجیب و غریب اسلوب بیان کے ساتھ ارشاد فرمایا، جس میں ضمنی طور پر چند اہم فوائد بھی آگئے۔
ایک یہ کہ آنحضرت ﷺ کو ان چیزوں کا حکم ایسے انداز سے دیا گیا ہے جس میں آپ کی ثناء و تعریف اور عظمت شان کا اظہار بھی ہے کہ یہ صفات آپ کے اندر پہلے سے موجود ہیں اور دوسرے اس سے پہلے فبما رحمة کا لفظ بڑھا کر یہ بھی بتلا دیا کہ ان صفات کمال کا آپ کے اندر ہونا یہ ہماری رحمت سے ہے، کسی کا ذاتی کمال نہیں پھر لفظ رحمت کو بصورت نکرہ لا کر رحمت کے عظیم اور وسیع ہونے کی طرف اشارہ کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ رحمت صرف صحابہ کرام پر ہی نہیں، بلکہ خود آنحضرت ﷺ پر بھی ہے کہ آپ کو ان صفات کمال کے ساتھ متصف فرما دیا۔ اس کے بعد ایک تیسرا اہم فائدہ بعد کے جملوں سے ظاہر فرما دیا کہ یہ نرم خوئی، خوش اخلاقی، عفو و درگزر اور لطف و مہربانی کی صفات اگر آپ کے اندر نہ ہوتیں تو اصلاح خلائق کا جو کام آپ کے سپرد ہے وہ حسب منشاء انجام نہ پاتا، لوگوں کے ذریعہ اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کا فائدہ حاصل کرنے کے بجائے آپ سے بھاگ جاتے۔
اور اس سب مجموعہ سے ایک اور اہم فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ارشاد اصلاح اور تبلیغ کے آداب اس سے معلوم ہوگئے کہ جو شخص رشد و ہدایت اور دعوت الی اللہ اور اصلاح خلق کے کام کا ارادہ کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ صفات اپنے اندر پیدا کر ے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول کی سختی برداشت نہیں ہو سکتی تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ تشدد اور کج خلقی کے ساتھ خلق اللہ کو اپنے گرد جمع کرسکے اور ان کی اصلاح کا فرض انجام دے سکے۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آپ تند خو، سخت طبیعت ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے، اس سے معلوم ہوا کہ مرشد و مبلغ کے لئے تند خوئی سخت کلامی، زہر اور اس کے کام کو ضائع کرنے والی چیز ہے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا فاعف عنھم یعنی ان سے جو خطا ہوگئی ہے اس کو آپ معاف فرما دیں، اس سے معلوم ہوا کہ مصلح کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کی خطاؤں کا انتقام نہ لے۔ بلکہ عفو و درگزر سے کام لے، برا کہنے والوں پر مشتعل نہ ہو، ایذا دینے والوں سے نرمی کا معاملہ کرے۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا واستغفرلھم، یعنی آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی مغفرت طلب کریں، جس میں یہ ہدایات ہے کہ صرف یہی نہیں کہ خود ان کی ایذاؤں پر صبر کریں۔ بلکہ دل سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑیں اور چونکہ سب سے بڑی خیر خواہی ان کی آخرت کی درستی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے عذب اسے بچانے کے لئے بخشش کی دعا مانگیں۔
اس کے بعد ارشاد ہے وشاورھم فی الامر یعنی حسب سابق اپنے فیصلوں اور کاموں میں ان حضرات سے مشوہ بھی لیا کریں تاکہ ان کی پوری تسلی ہوجائے، اس میں اس کی طرف ہدایت فرمائی کہ جو خیر خواہی کا داعیہ ان کے لئے قلب میں ہے عمل سے بھی اس کا اظہار کریں کہ اپنی مشاورت سے ان کو مشرف فرماویں۔
اس پوری آیت میں مصلح و مبلغ کے لئے چند صفات کا ہونا ضروری قرار دیا گیا، اول سخت کلامی اور کج خلقی سے بچنا، دوسرے ان لوگوں سے کوئی غلطی یا ان کے متعلق ایذاء کی کوئی چیز صادر ہوجائے تو انتقام کے در پے نہ ہونا بلکہ عفو و در گزر کا معاملہ کرنا، تیسرے یہ کہ ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی وجہ سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑنا، ان کے لئے دعا، و استغفار بھی کرتے رہنا اور ظاہری معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ چھوڑا، مذکورہ آیت میں آنحضرت ﷺ کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا حکم اور پھر مشورہ کے بعد طریق عمل کی ہدایت کی گئی ہے، مشورہ کے بارے میں قرآن کریم نے دو جگہ صریح حکم دیا ہے، ایک یہی آیت مذکورہ دوسرے سورة شوری کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وامرھم شوری بینھم ص (24: 83) ”یعنی اور ان کا ہر کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔“ اور بعض جگہ ضمنی طور پر مشورہ کی ہدایت فرمائی ہے جیسے رضاعت کے احکام میں ارشاد فرمایاعن تراض منھما وتشاور (2: 332) یعنی بچے کا دودھ چھڑانا ماں اور باپ دونوں کی رضامندی اور مشورہ سے ہونا چاہئے، مشورہ سے متعلق چند اہم مسائل قابل غور ہیں۔
پہلا مسئلہ، لفظ امر اور مشورہ کے معنی، دوسرا مسئلہ، مشورہ کی شرعی حیثیت، تیسرا مسئلہ رسول کریم ﷺ کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا درجہ، چوتھا مسئلہ، حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ، پانچواں مسئلہ، مشورہ میں اختلاف رائے ہو تو فیصلہ کی صورت، چھٹا مسئلہ، ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعال یر توکل۔
پہلا مسئلہ لفظ امر اور شوری کی تحقیق۔
لفظ امر کا اطلاق عربی زبان میں کئی معنی کے لئے ہوتا ہے، ایک عام معنی میں آتا ہے، جو ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو شامل ہے، دوسرا اطلاق بمعنی حکم اور حکومت ہے، جس پر قرآن کریم میں لفظ اولی الامر محمول ہے، تیسرا اطلاق حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کے لئے ہے، جس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے مثلاً الا لہ الخلق والامر (7: 45) الیہ یرجع الامرکلة (11: 321) ان الامرکلہ للہ (3: 451) امرہ الی اللہ (2: 572) اور محققین کے نزدیک قل الروح میں امر ربی (71: 58) میں بھی یہی امر مراد ہے، اب قرآن کے ارشاد وشاورھم فی الامر (3: 951) اور وامرھم شوری بینھم (24: 83) میں دونوں معنی کا احتمال ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پہلے ہی معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی بھی اس میں شامل ہیں تو یہ بھی کچھ بعید نہیں، کیونکہ حکم اور حکومت کے معاملات سبھی خاص اہمیت رکھتے ہیں، اس لئے امر کے معنے ان آیات میں ہر اس کام کے ہیں جو خاص اہمیت رکھتا ہو، خواہ حکومت سے متعلق ہو خواہ معاملات سے، اور لفظ شوریٰ ، مشورہ، مشاورت کے معنی ہیں کسی قابل غور معاملہ میں لوگوں کی رائے حاصل کرنا، اس لئے وشاورھم فی الامر کے معنی یہ ہوئے کہآنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ قابل غور معاملات میں جن میں حکومت کے متعلقہ معاملات بھی شامل ہیں، صحابہ کرام سے مشورہ لیا کریں، یعنی ان حضرات کی رائے معلوم کیا کریں۔
اسی طرح سورة شوری کی آیت 83 وامرھم شوری بینھم کے معنی یہ ہوئے کہ ہر قابل غور معاملہ میں جس میں کوئی اہیمت ہو، خواہ حکم و حکومت سے متعلق ہو یا دوسرے معاملات سے، ان میں سچے مسلمانوں کی عادت مستمرہ یہ ہے کہ باہم مشوہ سے کام کیا کرتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ مشورہ کی شرعی حیثیت۔
اس بارے میں قرآن کریم کے ارشادات مذکورہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں خواہ وہ حکم و حکومت سے متعلق ہو یا کسی دوسرے معاملہ سے باہمی مشورہ لینا رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعث برکات ہے، قرآن و حدیث میں اس کی تائید آتی ہے اور جن معاملات کا تعلق عوام سے ہے جیسے معاملات حکومت ان میں مشورہ لینا واجب ہے (ابن کثیر)
بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عبداللہ عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجو شخص کسی کام کا ارداہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہوا کریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لئے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ جب تم پر خواہش پرستی غالب آجائے کہ بھلے برے اور نافع و مضر سے قطع نظر کر کے محض عورت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے معاملات اس کے سپرد کردو تو اس وقت کی زندگی سے تمہارے لئے موت بہتر ہے، ورنہ مشورہ میں کسی عورت کی بھی رائے لینا کوئی ممنوع نہیں، رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے تعامل سے ثابت ہے اور قرآن کریم میں سورة بقرہ کی آیت 332 جو ابھی بیان کی گئی ہے اس میں ارشاد ہے عن تراض منھما وتشاور یعنی بچہ کا دودھ چھڑانا باپ اور ماں کے باہمی مشورہ سے ہونا چاہئے، اس میں چونکہ معاملہ عورت سے متعلق ہے، اس لئے خاص طور سے عورت کے مشورہ کا پابند کیا گیا ہے۔
ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ”یعنی جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے اس پر لازم ہے کہ اس معاملہ میں جو کام وہ خود اپنے لئے تجویز کرتا ہے وہی رائے دوسرے کو دے اس کے خلاف کرنا خیانت ہے۔“ یہ حدیث طبرانی نے معجم اوسط میں بسند حسن حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے (مظہری) البتہ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مشورہ صرف انہی چیزوں میں مسنون ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث کا کوئی واضح قطعی حکم موجود نہ ہو، ورنہ جہاں کوئی قطعی اور واضح حکم شرعی موجود ہو اس میں کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں بلکہ جائز بھی نہیں، مثلاً کوئی شخص اس میں مشورہ کرے کہ نما پڑھے یا نہیں، زکوة دے یا نہیں حج کرے یا نہیں، یہ مشورہ کی چیزیں نہیں، شرعی طور پر فرض قطعی ہیں، البتہ اس میں مشورہ کیا جاسکتا ہے کہ حج کو اس سال جائے یا آئندہ اور پانی کے جہاز سے جائے یا ہوائی جہاز سے اور خشکی کے راستہ سے جائے یا دوسرے طریق سے۔
اسی طرح زکوة کے معاملہ میں یہ مشورہ لیا جاسکتا ہے کہ اس کو کہاں اور کن لوگوں پر خرچ کیا جائے کیونکہ یہ سب امور شرعاً اختیاری ہیں۔
ایک حدیث میں خود اس کی تشریح رسول کریم ﷺ سے منقول ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم صراحتا قرآن میں نازل نہیں ہوا اور آپ سے بھی اس کے متعلق کوئی ارشاد ہم نے نہ سنا ہو تو ہم کیا کریں ؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لئے اپنے لوگوں میں سے عبادت گذار فقہاء کو جمع کرو اور ان کے مشورہ سے اس کا فیصلہ کرو، کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔
اس حدیث شریف سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ مشورہ صرف دنیوی معاملات میں نہیں بلکہ جن احکام شرعیہ میں قرآن و حدیث کی صریح نصوص نہ ہوں ان احکام میں بھی باہمی مشورہ مسنون ہے اور دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشورہ ایسے لوگوں سے لینا چاہئے جو موجودہ لوگوں میں تفقہ اور عبادت گذاری میں معروف ہوں (اخرجہ الخطیب کذا فی الروح)
نیز خطیب بغدادی نے حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے۔
”یعنی عقلمند آدمی سے مشورہ لو اور اس کے خلاف نہ کرو ورنہ ندامت اٹھانی ہوگی۔“ ان دنوں حدیثوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ مجلس شوریٰ کے ارکان میں دو وصف ضروری ہیں ایک صاحب عقل و رائے ہونا، دوسرے عبادت گذار ہونا، جس کا حاصل ہے ذی رائے اور متقی ہونا اور اگر مسئلہ شرعی ہے تو فقیہ ہونا بھی لازم ہے۔
تیسرا مسئلہرسول کریم ﷺ کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا درجہ۔
آیت میں آنحضرت ﷺ کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام سے مشورہ لیں، اس میں یہ اشکال ہے کہ آنحضرت ﷺ اللہ کے رسول اور صاحب وحی ہیں، آپ کو کسی سے مشورہ کی کیا حاجت ہے آپ کو ہر چیز حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی معلوم ہو سکتی ہے اس نے بعض علماء نے اس حکم مشورہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نہ مشورہ کی ضرورت تھی نہ اس مشورہ پر آپ کے کسی کام کا مدار تھا، صرف صحابہ کرام کے اعزاز اور دل جوئی کے لئے مشورہ کا حکم آپ کو دیا گیا ہے لیکن امام ابوبکر حصاص نے فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ معلوم ہو کہ ہمارے مشورہ پر کوئی عمل نہیں ہوگا اور نہ مشورہ کا کسی کام پر کوئی اثر ہے تو پھر اس مشورہ پر کوئی دل جوئی اور اعزاز بھی نہیں رہتا، بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو عام امور میں تو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ایک طریق کار متعین کردیا جاتا ہے، مگر بمقضائے حکمت و رحمت بعض امور کو آنحضرت ﷺ کی رائے اور صوابدید پر چھوڑدیا جاتا ہے، ایسے ہی امور میں مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی قسم کے امور میں مشورہ لینے کا آپ کو حکم دیا گیا، رسول کریم ﷺ کی مجالس مشاورت کی تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے۔
آنحضرت ﷺ نے غزوہ بدر کے لئے صحابہ کرام سے مشورہ لیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر آپ ہمیں دریا میں کود پڑنے کا حکم دیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر آپ ہمیں برک الغماد جیسے دور دراز مقام کی طرف چلنے کا ارشاد فرمائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، ہم موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب کفار سے مقابلہ کریں، بلکہ ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ آپ سے آگے اور پیچھے اور دائیں بائیں دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
اسی طرح غزوہ احد میں اس بارے میں مشورہ کیا کہ کیا مدینہ شہر کے اندر رہ کر مدافعت کریں یا شہر سے باہر نکل کر، عام طور سے صحابہ کرام کی رائے باہر نکلنے کی ہوئی، تو آپ نے اسی کو قبول فرمایا، غزوہ خندق میں ایک خاص معاہدہ پر صلح کرنے کا معاملہ پیش آیا، تو سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے اس معاہدہ کو مناسب نہ سمجھ کر اختلاف کیا، آپ نے انہی دونوں کی رائے قبول فرمائیں، حدیبیہ کے ایک معاملہ میں مشورہ لیا تو صدیق اکبر کی رائے پر فیصلہ فرما دیا۔ قصہ افک میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا، یہ سب معاملات وہ تھے جن میں آنحضرت ﷺ کے لیے بذریعہ وحی کوئی خاص جانب متعین نہیں کی گئی تھی۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبوت و رسالت اور صاحب وحی ہونا کچھ مشورہ کے منافی نہیں اور یہ بھی نہیں کہ یہ مشوہ محض نمائشی دل جوئی کے لئے ہو، اس کا اثر معاملات پر نہ ہو بلکہ بہت مرتبہ مشورہ دینے والوں کی رائے کو آپ نے اپنی رائے کے خلاف بھی قبول فرما لیا، بلکہ بعض امور میں آنحضرت ﷺ کے لئے بذریعہ وحی کوئی خاص صورت متعین نہ فرمانے اور مشورہ لے کر کام کرنے میں حکمت و مصلحت یہ بھی ہے کہ آئندہ امت کے لئے ایک سنت رسول کریم ﷺ کے عمل سے جاری ہوجائے کہ جب آپ کو بھی مشورہ سے استثناء نہیں تو پھر ایسا کون ہے جو استغناء کا دعویٰ کرسکے، اسی لئے رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام میں ایسے مسائل میں مشاورت کا طریق ہمیشہ جاری رہا، جن میں کوئی نص شرعی نہ تھی اور آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہ کرام کا بھی یہی معمول رہا، بلکہ بعد میں تو ایسے احکام شرعیہ کی دریافت کے لئے بھی مشورہ کا معمول رہا جن میں قرآن و حدیث کا کوئی صریح فیصلہ نہ تھا، کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوال کو جواب میں آنحضرت ﷺ نے یہی طریق کار بتلایا تھا۔
چوتھا مسئلہ۔ حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ کیا ہے
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے دو جگہ مشورے کا صریح حکم دیا ہے، ایک یہی آیت مذکورہ اور دوسرے سورة شوری کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے وامرھم شوری بینھم (24: 83) یعنی اور ان کا کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے ان دونوں جگہ پر مشورہ کے ساتھ لفظ امر مذکور ہے، اور لفظ امر کی مفصل تحقیق اوپر بیان ہوچکی ہے کہ ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو بھی کہا جاتا ہے اور حکم اور حکومت کے لئے بھی بولا جاتا ہے، امر کے خواہ معنی اول مراد لیں یا دوسرے معنی، حکمت کے معاملات میں مشورہ لینا بہرصورت ان آیات سے ضروری معلوم ہوتا ہے حکم یا حکومت مراد لینے کی صورت میں تو ظاہر ہی ہے اور اگر معنی عام لئے جائیں جب بھی حکم اور حکومت کے معاملات مہتمم بالشان ہونے کی حیثیت سے قابل مشورہ ٹھہریں گے، اس لئے امیر اسلام کے فرائض میں سے ہے کہ حکومت کے اہم معاملات میں اہل حل و عقد سے مشورہ لیا کرے، قرآن کی آیات مذکورہ اور رسول کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کا مسلسل تعامل اس کی روشن سند ہے۔
ان دونوں آیتوں میں جس طرح معاملات حکومت میں مشورہ کی ضرورت واضح ہوئی اسی طرح ان سے اسلام کے طرز حکومت اور آئین کے کچھ بنیادی اصول بھی سامنے آگئے کہ اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہے، جس میں امیر کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے، خاندانی وراثت سے نہیں، آج تو اسلامی تعلیمات کی برکت سے پوری دنیا میں اس اصول کا لوہا مانا جا چکا ہے۔ شخصی بادشاہتیں بھی طوعاً و کرباً اسی طرف آ رہی ہیں، لیکن اب سے چودہ سو برس پہلے زمانہ کی طرف مڑ کر دیکھئے جبکہ پوری دنیا پر آج کے تین بڑوں کی جگہ دو بڑوں کی حکومت تھی، ایک کسری دوسرا قیصر اور ان دونوں کے آئین حکومت شخصی اور وراثتی بادشاہت ہونے میں مشترک تھے، جس میں ایک شخص واحد لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی قابلیت و صلاحیت سے نہیں، بلکہ وراثت کے ظالمانہ اصولوں کی بناء پر حکومت کرتا تھا اور انسانوں کو پالتو جانوروں کا درجہ دینا بھی بادشاہی انعام سمجھا جاتا تھا، یہی نظریہ حکومت دنیا کے بیشتر حصہ پر مسلط تھا، صرف یونان میں جمہوریت کے چند دھندلے اور ناتمام نقوش پائے جاتے تھے، لیکن وہ بھی اتنے ناقص اور مدھم تھے کہ ان پر کسی مملکت کی بنیاد رکھنا مشکل تھا، اسی وجہ سے جمہوریت کے ان یونانی اصولوں پر کبھی کوئی مستحکم حکومت نہیں بن سکی، بلکہ وہ اصول ارسطو کے فلسفہ کی ایک شاخ بن کر رہ گئے۔ اس کے برخلاف اسلام نے حکومت میں وراثت کا غیر فطری اصول باطل کر کے امیر مملکت کا عزل و نصب جمہور کے اختیار میں دیدیا، جس کو وہ اپنے نمائندوں اہل حل و عقد کے ذریعہ استعمال کرسکیں، بادشاہ پرستی کی دلدل میں پھنسی ہوئی دنیا اسلامی تعلیمات ہی کے ذریعہ اس عادلانہ اور فطری نظام سے آشنا ہوئی اور یہی روح ہے اسی طرز حکومت کی جس کو آج جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ طرز کی جمہوریتیں چونکہ بادشاہی ظلم و ستم کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئیں تو وہ بھی اس بداعتدالی کے ساتھ آئیں کہ عوام کو مطلقا العنان بنا کر پورے آئین حکومت اور قانون مملکت کا ایسا آزاد مالک بنایا کہ ان کے قلب و دماغ زمین و آسمان اور تمام انسانوں کے پیدا کرنے والے خدا اور اس کی اصل ملکیت و حکومت کے تصور سے بھی بیگانہ ہوگئے، اب ان کی جمہوریت اللہ تعالیٰ ہی کے بخشے ہوئے عوامی اختیار پر اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ پابندیوں کو بھی بار خاطر خلاف انصاف تصور کرنے لگیں۔
اسلامی آئین نے جس طرح خلق خدا کو کسری و قیصر اور دوسری شخصی بادشاہتوں کے جبر و استبداد کے پنجہ سے نجات دلائی، اسی طرح ناخدا آشنا مغربی جمہوریتوں کو بھی خدا شناسی، اور خدا پرستی کا راستہ دکھلایا اور بتلایا کہ ملک کے حکام ہوں یا عوام اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے قانون کے سب پابند ہیں، ان کے عوام اور عوامی اسمبلی کے اختیارات، قانون سازی، عزل و نصب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہیں، ان پر لازم ہے کہ امیر کے انتخاب میں اور پھر عہدوں اور منصوبوں کی تقسیم میں ایک طرف قابلیت اور صلاحیت کی پوری رعایت کریں تو دوسری طرف ان کی دیانت و امانت کو پرکھیں، اپنا امیر ایسے شخص کو منتخب کریں جو علم، تقوی، دیانت، امانت، صلاحیت اور سیاسی تجربہ میں سب سے بہتر ہو، پھر یہ امیر منتخب بھی آزاد اور مطلق العنان نہیں، بلکہ اہل الرائے سے مشورہ لینے کا پابند رہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ اور رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کا تعامل اس پر شاہد عدل ہیں، حضرت عمر کا ارشاد ہے۔
”یعنی شورائیت کے بغیر خلافت نہیں ہے۔“
(کنزالعمال بحوالہ ابن ابی شیبة)
شورائیت اور مشورہ کو اسلامی حکومت کے لئے اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے حتیٰ کہ اگر امیر مملکت مشورہ سے آزاد ہوجائے یا ایسے لوگوں سے مشورہ لے جو شرعی نقطہ نظر سے مشورہ کے اہل نہ ہوں تو اس کا عزل کرنا ضروری ہے۔
”ابن عطیہ نے فرمایا کہ شورائیت شریعت کے قواعد اور بنیادی اصولوں میں سے ہے جو امیر اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہ لے، اس کا عزل کرنا واجب ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔“
مشورہ کے ضروری ہونے سے اسلامی حکومت اور اس کے باشندوں پر جو ثمرات اور برکات حاصل ہوں گے، اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ رسول اکرم ﷺ نے مشورہ کو رحمت سے تعبیر فرمایا، ابن عدی اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس مشورہ کی حاجت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو امیری امت کے لئے ایک رحمت بنایا ہے (بیان القرآن)
مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے رسول کو ہر کام بذریعہ وحی بتلا دیتا، کسی کام میں بھی مشورہ کی ضرورت نہ چھوڑتا، لیکن امت کی مصلحت اس میں تھی کہ آپ کے ذریعے مشورہ کی سنت جاری کرائی جائے، اس لئے بہت سے امور ایسے چھوڑ دیئے جن میں صراحتا کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، ان میں آپ کو مشورہ لینے کی ہدایت فرمائی گئی۔
پانچواں مسئلہمشورہ میں اختلاف رائے ہوجائے، تو فیصلہ کی کیا صورت ہوگی ؟:۔
مشورہ میں اگر اختلاف رائے ہوجائے تو کیا آج کل کے پارلیمانی اصول پر اکثریت کا فیصلہ نافذ کرنے پر امیر مجبور ہوگا، یا اس کو اختیار ہوگا کہ اکثریت ہو یا اقلیت جس طرف دلائل کی قوت اور مملکت کی مصلحت زیادہ نظر آئے اس کو اختیار کرے ؟ قرآن و حدیث اور رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کے تعامل سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اکثریت رائے کے فیصلہ کا پابند و مجبور ہے، بلکہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور حدیث اور تعامل صحابہ کی تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتا ہے، خواہ اکثریت کے مطابق ہو یا اقلیت کے، البتہ امیر اپنا اطمینان حاصل کرنے کے لئے جس طرح دوسرے دلائل پر نظر کرے گا اسی طرح اکثریت کا ایک چیز پر متفق ہونا بھی بعض اوقات اس کے لئے سبب اطمینان بن سکتا ہے۔
آیت مذکورہ میں غور فرمایئے، اس میں رسول اکرم ﷺ کو مشورہ کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا ہے فاذا عزمت فتوکل علے اللہ، یعنی مشورہ کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے کر کے عزم کرلیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کیجئے، اس میں عزمت کے لفظ میں عزم یعنی نفاذ حکم کا پختہ ارادہ صرف آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا۔ عزمتم نہیں فرمایا جس سے عزم و تنفیذ میں صحابہ کی شرکت معلوم ہوتی، اس کے اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ لینے کے بعد نفاذ اور عزم صرف امیر کا معتبرہ ے، حضرت عمر بن الخطاب بعض وقت دلائل کے لحاظ سے اگر عبداللہ بن عباس کی رائے زیادہ مضبوط ہوتی تھی تو ان کی رائے پر فیصلہ نافذ فرماتے تھے، حالانکہ مجلس میں اکثر ایسے صحابہ موجود ہوتے تھے، جو ابن عباس سے عمر اور علم اور تعداد میں زیادہ ہوتے تھے، حضور اکرم ﷺ نے بہت مرتبہ حضرات شیخین صدق اکبر اور فاروق اعظم کی رائے کو جمہور صحابہ کے مقابلہ میں ترجیح دی ہے، حتی کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ آیت مذکورہ صرف ان دونوں حضرات سے مشورہ لینے کے لئے نازل ہوئی۔ حاکم نے مستدرک میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت کیا ہے
”ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شاورھم کی ضمیر سے مراد حضرات شیخین ہیں۔“”ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر و عمر سے مشورہ لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ دونوں حضرات جناب رسول اکرم ﷺ کے خاص صحابی اور وزیر تھے، اور مسلمانوں کے مربی تھے۔“
رسول اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرات شیخین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
”جب تم دونوں کسی رائے پر متفق ہوجاؤ تو میں تم دونوں کے خلاف نہیں کرتا۔
ایک اشکال اور اس کا جواب۔
یہاں یہ اشکال کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو جمہوریت کے منافی ہے، اور شخصی حکومت کا طرز ہے اور اس سے جمہور کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
جواب یہ ہے کہ اسلامی آئین نے اس کی رعایت پہلے کرلی ہے، کیونکہ عوام کو یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ جس کو چاہیں امیر بنادیں بلکہ ان پر لازمی قرار دیا ہے کہ علم و عمل اور صلاحیت کار اور خدا ترسی اور دیانت کی رو سے جس شخص کو سب سے بہتر سمجھیں صرف اس کو امیر منتخب کریں تو جس شخص کو ان اعلی اوصاف اور اعلی صفات کے تحت منتخب کیا گیا ہو، اس پر ایسی پابندیاں عائد کرنا جو بد دیانت اور فساق، فجار پر عائد کی جاتی ہیں، عقول انصاف کا خون کرنا اور کام کرنے والوں کی ہمت شکنی اور ملک و ملت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
چھٹا مسئلہ۔ ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا
اس جگہ یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ نظام حکومت اور دوسرے اہم امور میں تدبیر اور مشورہ کے احکام کے بعد یہ ہدایت دی گئی ہے کہ سب تدبیریں کرنے کے بعد بھی جب کام کرنے کا عزم کرو تو اپنی عقل و رائے اور تدبیروں پر بھروسہ نہ کرو بلکہ بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر کرو، کیونکہ یہ سب تدبیر مدبر الامور کے قبضہ قدرت میں ہیں، انسان کیا اور اس کی رائے و تدبیر کیا، ہر انسان اپنی عمر کو ہزاروں واقعات میں ان چیزوں کی رسوائی کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے۔
خویش رادیدیم و رسوائی خویش
امتحان مامکن اے شاہ بیش
اس جملہ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ توکل ترک اسباب اور ترک تدبیر کا نام نہیں بلکہ اسباب قریبہ کو چھوڑ کر توکل کرنا سنت انبیاء اور تعلیم قرآن کے خلاف ہے، ہاں اسباب بعیدہ اور دور دراز کار فکروں میں پڑے رہنا یا صرف اسباب اور تدابیر ہی کو مؤ ثر سمجھ کر مسبب الاسباب اور مدبر الامور سے غافل ہوجانا بیشک خلاف توکل ہے۔
Top