Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 159
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ١ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ١۪ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ١ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ
فَبِمَا : پس۔ سے رَحْمَةٍ : رحمت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ لِنْتَ : نرم دل لَھُمْ : ان کے لیے وَ : اور وَلَوْ كُنْتَ : اگر آپ ہوتے فَظًّا : تند خو غَلِيْظَ الْقَلْبِ : سخت دل لَانْفَضُّوْا : تو وہ منتشر ہوجاتے مِنْ : سے حَوْلِكَ : آپ کے پاس فَاعْفُ : پس آپ معاف کردیں عَنْھُمْ : ان سے (انہیں) وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَھُمْ : ان کے لیے وَشَاوِرْھُمْ : اور مشورہ کریں ان سے فِي : میں الْاَمْرِ : کام فَاِذَا : پھر جب عَزَمْتَ : آپ ارادہ کرلیں فَتَوَكَّلْ : تو بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَوَكِّلِيْنَ : بھروسہ کرنے والے
یہ اللہ کی بڑی ہی رحمت ہے کہ تم لوگوں کیلئے اس قدر نرم [ مزاج ہو ، اگر سخت مزاج اور سنگدل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے پس ان لوگوں کا قصور معاف کر دو اور اللہ سے بھی ان لوگوں کیلئے بخشش طلب کرو اور اس طرح کے معاملات میں ان سے مشورہ کرلیا کرو ، پھر جب ایسا ہو کہ تم نے کسی بات کا عزم کرلیا تو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کرو یقینا اللہ انہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس پر بھروسہ کرنے والے ہیں
نبی اعظم و آخر ﷺ کے نرم مزاج ہونے کی قرآنی شہادت : 292 : ” لِنْتَ “ لین سے ہے اور یہ خشونت کی ضد ہے۔ اس کا استعمال اجسام پر بھی ہوتا ہے اور اخلاق پر بھی ہوتا ہے اور اخلاق پر بھی۔ قرآن کریم نے یہ وضاحت کردی ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جماعت میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی گئی ہے اور پھر بعض کسی صفت میں بڑھے ہوئے تھے تو بعض کسی دوسری صفت میں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ اپنے فطری خلق عظیم اور نرم مزاجی اور عملی زندگی کے ہر پہلو کے لحاظ سے فضیلت رکھتے تھے اور اس کی ایک شہادت یہ بھی ہے کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے دوسرے انبیاء کرام پر فوقیت نہ دیا کرو اور یہ جملہ آپ ﷺ نے اس وقت ہی ارشاد فرمایا جب آپ ﷺ کے روبرو کسی نے آپ ﷺ کی ایسی تعریف کی۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے نرم مزاج ہونے کی شہادت خود دی ہے اور نرم مزاج ہونے اور نرم مزاج رہنے کی ہدایت میں جو فرق ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ نرم مزاج سے بےجا سختی ممکن ہی نہیں اور سخت مزاج کو نرم مزاج رہنے کی ہدایت کرنا پڑتی ہے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور فرعون کو پیغام نبوت پہنچانے کی ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! تم اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لے کر جاؤ جس کو ہم نے تمہارے ساتھ ہی نبوت کے منصب سے نواز دیا ہے اور تمہارا نائب بنا دیا ہے دونوں مل کر فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ نہایت ہی سرکش ہوچکا ہے اور اس طرح ہدایت فرمائی کہ : وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (طٰہٰ : 44:20) ” اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ “ دیکھو یہاں نرمی کے ساتھ بات کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور وہاں اس بات کی شہادت دی جا رہی ہے کہ آپ اے پیغمبر ﷺ ! طبعاً نرم مزاج ہیں۔ حالانکہ یہاں پیغام نبوت پہنچانے کے لیے بھیجا جا رہا ہے اور وہاں میدان جنگ میں کچھ لوگوں کی کمزوری دکھانے کا ذکر ہے۔ جس جگہ طبعاً انسان کو دکھ آتا ہے اور وہ کچھ بھی نہ ہو تو طبعی دکھ کی وجہ سے کچھ نہ کچھ سختی کرجاتا ہے ایسے مقام پر بھی نرم مزاج ہی رہنا ان کمالات میں سے ہے جو خصوصاً نبی رحمت ﷺ ہی کا حصہ تھے۔ گویا یہ خصوصیات محمدی ﷺ میں سے ایک خصوصیت ہے۔ گزشتہ رکوع کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ ” جو لوگ بھاگ گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا “ اب نبی رحمت ﷺ کا ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ عفو و درگزر کرنے والے تھے جو لوگ احد کے میدان سے بھاگ گئے تھے ان کے ساتھ نبی رحمت ﷺ نے کسی طرح کی سختی نہیں کی اور نہ ہی کسی کو درشت الفاظ سے مخاطب فرمایا بلکہ محبت بھرے کلام میں ان سے گفتگو فرمائی اور زبان سے جو ارشاد فرمایا وہ یہ تھا کہ لقد زھبتم فیھا عریضۃ کہ تم تو بھاگتے بھاگتے بہت ہی دور نکل گئے تھے مختصر یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی رحمت ﷺ کے خلق عظمے کی اس صفت نرم مزاجی کو بہت پسند کیا ہے اس لیے آپ کی امت کے سامنے اس کا اظہار فرمایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات اقدس میں ہر قسم کے اخلاق فاضلہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ میں پائے جاتے تھے۔ چناچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح ارشاد فرمایا : وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم : 4:68) ” اور یقینا آپ ﷺ کا خلق عظیم الشان ہے۔ “ اس اعلان الٰہی کی ضرورت ؟ اس اعلان کی ضرورت یہ تھی کہ انسانیت کو آگاہ کردیا جائے کہ اگر تم انسان ہو اور انسان ہی بن کر رہنا چاہیے تو ہمارے رسول محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ کو کسوٹی بناؤ اور اپنے عقائد ، اخلاق اور اعمال کی جانچ کرلو جو جس قدر ان کے قریب ہوگا اس قدر خوش بخت اور خوش نصیب ہوگا اور جو شخص جتنا ان سے دور ہوگا اتنا ہی محروم و بدنصیب ہوگا۔ رہبر صادق سرور کائنات ﷺ سراپا رحمت ہیں ان کی محبت ، ان کی اتباع تمہاری تقدیر سنوار دے گی اور وہ تم کو اللہ والا بنا دیں گے اگر تم ایسا بننا چاہتے ہو تو اس کے لیے ایک اور صرف ایک ہی راہنما اعظم و آخر ہے ﷺ ۔ کاش ! اس صفت عظیم سے فی زماننا ہمارے رہنماؤں کا طبقہ بھی کچھ سبق حاصل کرتا۔ آپ ﷺ کے خلق عظیم کے اس پہلو کی مثالیں اتنی ہیں کہ اگر ان کا باتن شروع کردیا جائے تو ہم اصل مضمون سے دور نکل جائیں گے۔ کفار نے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں جسم اطہر پر نجاستیں ڈالیں ، کبھی گلے میں پھندے ڈلے ، گھر کے دروازے پر کانٹے بچھائے ، کوڑا کرکٹ پھینکا ، گالیاں دیں ، قتل کے منصوبے بنائے ، جسم مقدس کو لہولہان کیا ، قدئ میں رکھا ، آپ ﷺ کے صحن اور پکے ہوئے کھانے تک پر غلاظتیں پھینکیں ، آپ ﷺ کو پاگل ، جادوگر ، شاعر اور مذمم کہہ کر مخاطب کیا لیکن رحمت عالم ﷺ ، نبی اعظم و آخر ﷺ ، طاہر و اطہر ﷺ ، ساقی کوثر ﷺ ، شافع محشر ﷺ نے کبھی زبان کھولی تو صرف یہ فرمایا کہ اے فرزندانِ عبد مناف تم حق ہمسائیگی اور حق قرابت داری خوب ادا کرتے ہو۔ اللّٰھم صلی علی محمد وآل محمد۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے حلم و تحمل ، نرمی و خوش خوئی ، شفقت و ملاطفت کے واقعات سے احادیث کی کتابیں اور سیرت کی کتابیں تو بھری پڑی ہیں کوئی اگر شمار کرے گا تو کہاں تک ؟ اور یہ حقیقت تو خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی ذات کے لیے تو کسی سے کبھی بھی انتقام نہ لیا تھا اور اس کا اعتراف صرف اپنوں کو ہی نہیں بلکہ غیروں کے غیروں کو بھی ہے۔ ایک دو مثالیں آپ بھی سن لیں۔ ایک انگریز لین پول لکھتا ہے ” ظلم محمد (e) کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ “ اور باسورتھ اسمتھ کا بیان ہے کہ ” انہوں نے (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ نے) عمر بھر کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں ۔۔ کوئی مصافحہ کرتا تو وہ اپنا ہاتھ الگ کرنے میں سبقت کرتے اور نہ ازخود اس سے الگ ہوتے۔ گفتگو بہت نرم اور شیریں کرتے۔ “ اور ہسٹورینس ہسٹری آف دی ورلڈ میں تحریر کرتا ہے کہ ” پیغمبر (e) کا میلان طبع ہمیشہ نرمی ہی کی جانب رہتا۔ “ مفصل حوالوں کے لیے جناب عبدالماجد دریابادی کی انگریزی تفسیر ملاحظہ کریں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کسی وقت اور کسی موقع پر بھی سخت مزاج اور ترش رو نہ ہوتے تھے : 293 : فَظٌّ فظظ کلام میں خشونت اور سختی کو کہتے ہیں اور ” غلیظ القلب “ سخت دل اور تند مزاج کو کہتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ” فظ “ وہ بدخلق ہے جو دوسروں سے بری طرح پیش آئے اور زبان سے برا بھلا کہے جیسے انسان بعض اوقات غصہ اور مصیبت میں کرجاتا ہے گویا وہ ہر وقت منہ چڑھائے رکھے اور غلیظ القلب وہ سخت دل ہے جس کا دل دوسروں کی مصیبت سے متاثر نہ ہو اور دوسروں کے لیے اس کے دل میں رقت محبت اور ہمدردی پیدا نہ ہو اگرچہ وہ ان کے ساتھ سختی نہ کرے۔ ذرا غور کریں کہ جنگ احد میں کیا کچھ ہوا ؟ کیا اس سے زیادہ مشکل وقت بھی انسان کی زندگی میں آسکتا ہے ؟ جب ایسے وقت میں بھی آپ ﷺ سے سخت مزاجی اور ترشی روئی کا صدور نہیں ہوا تو باقی زندگی میں آپ ﷺ کے ترش رو ہونے اور سخت مزاجی سے بات کرنے اور زبان سے ایسے الفاظ نکالنے کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ ﷺ کے نرم مزاج اور متین ہونے کا ذکر فرمایا وہاں آپ ﷺ کی سخت مزاجی اور تند گفتاری کی بھی نفی کردی۔ کیوں ؟ اس لیے کہ نرم مزاج سے نرم مزاج اور منکسر المزاج بھی کسی وقت سخت مزاجی اور تند گفتاری سے کام لے جاتا ہے اور قرآن کریم میں اس طرح اللہ تعالیٰ نے گویا یہ اعلان فرما دیا ہے کہ ہمارے رسول محمد ﷺ کسی حال اور کسی مشکل سے مشکل وقت میں بھی سخت مزاج اور تند گفتار نہیں ہوتے تھے۔ ہر ایک خلق کا اظہر کامل اور مکمل اس وقت ہوتا ہے جب اس کے اظہار کے مخالف موقعہ ہو۔ سب کو معلوم ہے کہ جنگ کا وقت ایسا وقت ہوتا ہے کہ اس میں نرمی کے اظہار کا موقعہ نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر جس قدر شدت ہے اس کا اظہار جنگ میں پورے زور کے ساتھ ہوتا ہے پھر اس سے بھی بڑھ کر وہ خاص وقت ان احکام کی تعمیل میں جو کسی فوج کو دیے گئے ہوں فرد گزاشت ہو یا ان احکام کی سرے سے تکمیل رہی نہ ہو تو پھر قواعد جنگ اس امر کے مقتضی ہیں کہ سخت سے سخت سزا دی جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایسے وقت میں کہ آپ ﷺ کی نافرمانی کی گئی ہے یا ہوگئی جس کی وجہ سے اس قدر عظیم مصیبت کا سامنا آپ ﷺ کو اور دوسرے مسلمانوں کو ہوا۔ کتنے شہید ہوگئے اور کتنے زخمی اور نبی رحمت ﷺ کی ذات گرامی کو زخم آئے اور دانت شہید ہوئے اتنا کچھ ہونیت کے باوجود آپ ﷺ سے سخت مزاجی کا اظہار نہ ہوا۔ ہاں ہاں ! ان حالات میں بھی جو بظاہر خلق لینت کے اظہار کے منافی معلوم ہوتے ہیں آپ ﷺ کے اندر اس خلق لینت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے تعریف کے موقعہ پر بیان فرمایا ورنہ آپ ﷺ کی نرم مزاجی کے ہزاروں مواقع تھے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے مفسرین نے ” عَبَسَ وَتَوَلّٰی “ کا فاعل نبی رحمت ﷺ کو قرار دیا اور یہ لکھا کہ آپ ﷺ چیں بچیں ہوئے اور منہ موڑا حاش اللہ ! کہ ہمارا رسول ﷺ اس کا فاعل ہو۔ یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور اس قرآنی شہادت کے بھی خلاف ہے۔ یقینا اس اعمیٰ کو دیکھ کر جس کے ماتھے پر بل آئے اور جس نے منہ موڑا وہ وہی کافر تھا جس سے نبی کریم ﷺ گفتگو فرما رہے تھے۔ تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی نرمی اور رحمت کے متعلق اور بھی قرآنی شہادتیں موجود ہیں اور آپ ﷺ کی سخت مزاجی کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ چناچہ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ : 128:9) ” لوگو ! تمہارے پاس اللہ کا رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے۔ تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہش مند ہے۔ وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا ، رحمت والا ہے۔ “ اس آیت میں عرب کی اس نسل سے خطاب ہے جو اس وقت موجود تھی۔ فرمایا : اللہ کا رسول تم میں آگیا اور اس نے اپنا فرض رسالت ادا کردیا۔ وہ کی دوسری جگہ سے تم میں نہیں آ نکلا بلکہ سنت الٰہی کے مطابق خود تم ہی میں سے پیدا ہوا اور چونکہ وہ تم ہی میں سے ایک انسان ہے اس لیے اول سے لے کر آخر تک اس کی ساری باتیں تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اس کا لڑکپن بھی تم میں گزرا۔ اس کی جوانی کے دن بھی تم میں بسر ہوئے۔ پھر اس نے اللہ کے حکم سے نبوت کا اعلان کیا تو تم سے کہیں چھپ کر زندگی بسر نہیں کی۔ اس کی ساری باتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ پھر جو کچھ گزرنا تھا وہ گزرا اور تم نے مظلومی و بےکسی کے اعلان بھی سن لیے۔ فتح و کامرانی میں ان کی تصدیق بھی کرلی۔ تم میں کوئی نہیں جو اس کی بےداغ زندگی کا شاہد نہ ہو اور کوئی نہیں جس نے اس کی ایک ایک بات کی سچائی آزما نہ لی ہو۔ پھر آپ ﷺ کے ایک ایسے وصف پر زور دیا جو منصب رسالت ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے جو قدم کی رہنمائی و قیادت کا مقام رکھتا ہو سب سے زیادہ ضروری وصف ہے۔ وصف کیا ہے ؟ وہ وصف یہ ہے کہ ابنائے جنس کے لیے شفقت و رحمت ہے۔ فرمایا : اس سے زیادہ کوئی بات تمہارے لیے یقینی نہیں ہو سکتی کہ وہ سر تا پا شفقت و رحمت ہے۔ وہ تمہارا دکھ برداشت نہیں کرسکتا۔ تمہاری ہر تکلیف خواہ وہ جسمانی ہو یا روحانی اس کے دل کا درد و غم بن جاتی ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کی خواہش سے لبریز ہے۔ وہ اس کے لیے ایسا مضطرب قلب رکھتا ہے کہ اگر اس کی بن پڑتی تو ہدایت وسعادت کی ساری پاکیاں پہلے ہی دن گھونٹ بنا کر تم کو پلا دیتا ہے۔ پھر اس کی یہ شفقت و محلت صرف تمہارے ہی لیے نہیں ہے وہ تو تمام مومنوں کے لیے خواہ عرب کے ہوں خواہ عجم کے رؤف و رحیم ہے۔ ایک بار پھر غور کرو کہ ” رَؤُفٌ “ رافۃ سے ہے اور اس کا اطلاق ایسی رحمت پر ہوتا ہے جو کسی کی کمزور و مصیبت پر جوش میں آئے پس اس طرح رافۃ رحمت کی ایک خاص صورت ہے اور ” رحمت “ عام ہے پھر دونوں کے جمع کردینے سے رحمت کا مفہوم زیادہ قوت و تاثر کے ساتھ واضح ہوگیا اور دوسرے اوصاف کی طرح یہ دونوں وصف بھی ” الروف الرحیم “ ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہوجاتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔ ہاں ! نبی اعظم و آخر ﷺ پر سے دل سے ایمان لانے والوں کے متعلق قرآن کریم نے اس طرح اعلان فرمایا کہ : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ ۔ (الفتح : 29:48) ” محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ ﷺ پر سچے دل سے ایمان لائے ہیں وہ کافروں کے ساتھ مقابلہ میں سخت ہیں لیکن آپس میں نہایت ہی رحمدل ہیں۔ “ یہ نبی رحمت ﷺ کے ساتھیوں اور سچے دل سے ایمان لانے والوں کے وصف میں ارشاد فرمایا اور کفر کے مقابلہ میں جو ” سخت “ فرمایا اس کو ذہن نشین کرنا ہے۔ عربی زبان میں کہتے ہیں ” فلان شدید عیہ “ فلاں شخص اس پر شدید ہے یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے۔ کفار پر محمد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تندخوئی سے پیش آتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی۔ اصولوں کی مضبوگی ، سیرت کی طاقت اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ چارہ کی طرح نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی سے چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف و ہراس سے دبایا نہیں جاسکتا۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں نہ ان کو جھکایا جاسکتا ہے اور نہ ہی دبایا جاسکتا ہے اور اہل ایمان کے لیے وہ بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں ایک دوسرے سے نجی اور قومی معاملات میں تعاون کرتے ہیں۔ ہر ایک مسلم کا دکھ وہ اپنا دکھ سمجھتے ہیں اور ہر ایک مصیبت اپنی مصیبت جانتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ رحیم و شفیق ہیں اس لیے کہ اصول و مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و سازگاری پیدا کردی ہے اور ان باتوں کو وہ کبھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے یہی ان کے لیے سچے مومن ہونے کی نشانی ہے۔ قصورواروں کا قصور معاف کرنے اور ان سے مشورہ کرتے رہنے کی ہدایت : 294 ” پس ان لوگوں کا قصور معاف کر دو ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے تو پہلے ہی اپنی نرمی طبیعت اور خوش اخلاقی کی بناء پر معاف فرما دیا تھا۔ اس حکم الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ معاندین و مخالفین آپ ﷺ کے اس فعل کو کہیں بزدلی قرار نہ دیں دراصل ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بزدلی نہیں بلکہ شجاعت و بہادری کا نتیجہ ہے جو ہم نے ان کے قلب مطہر میں بھر دی ہوئی ہے اور آپ ﷺ نے ان سے کسی قسم کا بڑا مواخذہ نہیں فرمایا تو وہ ہمارے حکم سے ہے۔ ہاں ! آپ ﷺ کو مخاطب کر کے آپ ﷺ کی امت کو بھی درس دیا جا رہا ہے کہ ایک راہنما کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عوام کی خطاؤں کا انتقام نہ لے بلکہ عفو و درگزر سے کام لے۔ برا کہنے والوں پر مشتعل نہ ہو اور ایذا دینے والوں سے نرمی کا معاملہ کرے اس لیے کہ یہ ساری باتیں اولوالعزمی کی دلیل ہیں کمزوری کی نہیں۔ پھر ارشاد فرمایا : ” ان لوگوں کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرو۔ “ جس میں اس بات کا سبق ہے کہ گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کا ازالہ معافی طلب کرلینا ہی ہے۔ معافی کیا ہے ؟ طلب بخشش معافی ہی تو ہے۔ کیونکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس کی رحمت نے ہر ایک چیز کو اپنی وسعت میں گھیر رکھا ہے۔ جب بھی کوئی سچے دل سے معافی طلب کرتا ہے تو یقینا اس کو معافی ہوجاتی ہے دل میں یہ شک رکھنا بھی گناہ ہے کہ شاید معافی ہوئی ہے یا نہیں۔ پھر اس میں اشارہ بھی مخفی ہے کہ یہی نب ہیں کہ خود ان کی ایذاؤں پر صبر کریں بلکہ دل سے ان کی خیر خواہی مطلق نہ چھوڑیں اور چونکہ سب سے بڑی خیرخواہی ان کی آخرت کی درستگی ہے اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بخشش طلب کرو کہ وہ آئندہ کبھی ایسے گناہ کا ارتکاب نہ کریں۔ لیے کہ یہاں استغفار کے معنی گناہ کی سزا سے حفاظت چاہتا نہیں بلکہ خود گناہ سے حفاظت چاہنا ہے کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ تو خود ان کا گناہ معاف کرچکا ہے کیونکہ آیت 104 میں فرما دیا گیا تھا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ ۔ کہ اللہ نے ان کا یہ گناہ معاف کردیا اور گناہ سے معافی کا مطلب بھی تو یہی ہے کہ گناہ کی سزا سے معافی ہوگئی۔ پس جس کو اللہ معاف فرما چکا اس کے لیے سزا سے بچانے کی دعا کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔ یہ اس بات کی قطعی شہادت ہے کہ استغفار سے مراد گناہ سے حفاظت بھی ہوتی ہے کہ آئندہ کوئی گناہ صادر نہ ہو۔ صرف گناہ صادر ہونے کے بعد ہی استغفار نہیں ہوتی۔ انبیاء کرام اور خصوصاً محمد رسول اللہ ﷺ کے استغفار طلب کرتے رہنے کا یہی مفہوم ہے۔ اگر یہ بات یاد رہی تو ان شاء اللہ بہت سے مقامات کی تفسیر سمجھنے میں کام دے گی اور یاد رکھنے کی بات کو یاد رکھنا ہی مفید ہو سکتا ہے۔ یہ بات اس لیے کہنا پڑی کہ ہمارے قارئین کی اکثر حالت یہی ہے کہ ایک طرف پڑھتے جاتے ہیں اور دوسری طرف سے بھولتے جاتے ہیں اور پھر کیوں نہ ہو جب کہ ہمارے لکھنے والوں کا یہ حال ہے وہ لکھتے جاتے ہیں اور بھولتے جاتے ہیں کہ پہلے کیا لکھا تھا اور اب کیا لکھ رہے ہیں ؟ تو آخر قارئین ایسے کیوں نہ ہوں گے ؟ اب ارشاد ہوتا ہے کہ ” اس طرح کے معاملات میں ان سے مشورہ کرلیا کرو۔ “ غزوہ احد کے معرض وجود میں آنے سے پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا تھا اور مشورہ سے یہ طے پایا تھا کہ مدینہ میں رہ کر نہیں بلکہ مدینہ سے باہر نکل کر کھلے میدان میں کفار مکہ کا مقابلہ کیا جائے۔ آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی رائے کے خلاف کثرت رائے پر عمل کیا۔ پھر میدان احد میں تکلیف کی گھڑیاں بھی آئیں۔ منافقین نے پھبتیاں بھی کسیں کہ انہوں نے ہماری رائے نہ مان کر خسارہ پایا۔ یہ سب کچھ ہو چکنے کے بعد اب پھر حکم الٰہی ہو رہا ہے کہ آپ ﷺ نے مشورہ لیا تھا وہ فعل بھی آپ ﷺ کا بالکل صحیح تھا اور آئندہ بھی مشورہ طلب کرتے رہو اور ان منافقین کی باتوں پر کان نہ دھرو جس سے مشورہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ مشورہ کرنا کتنا ضروری ہے ؟ مشورہ کی اہمیت اسلام میں : مشورہ کے متعلق قرآن کریم نے دو جگہ صریح حکم دیا ہے ایک یہی آیت ہے جس کا یہاں بیان جاری ہے اور دوسرے سورة شوریٰ کی آیت 38 جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ ” وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ “ اور ان کا ہر کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے اور بعض جگہ ضمنی طور پر مشورہ کی ہدایت فرمائی ہے جسے رضاعت کے احکام میں ارشاد فرمایا : ” عَنْ تَرَاضٍ بَیْنَھُمَا وَتَشَاوُرٍ “ یعنی بچے کا دودھ چھڑانا ماں باپ دونوں کی رضامندی اور مشورہ سے ہونا چاہیے مشورہ سے متعلق چند اہم باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی بات لفظ امرا اور مشورہ کے معنی ، دوسری بات مشورہ کی شرعی حیثیت ، تیسری بات رسول کریم ﷺ کو صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لینے کا درجہ ، چوتھی بات ، حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ ، پانچویں بات ، مشورہ میں اختلاف رائے ہو تو فیصلہ کی صورت ، چھٹی بات ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل۔ پہلی بات = لفظ امر اور شوریٰ کی تحقیق : لفظ ” امر “ کا اطلاق عربی زبان میں کئی معنی کے لیے ہوتا ہے ، ایک عام معنی آتا ہے ، جو ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو شامل ہے ، دوسرا اطلاق بمعنی حکم اور حکومت ہے ، جس پر قرآن کریم میں لفظ اُوْلِی الْاَمْرُ محمول ہے ، تیسرا اطلاق حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کے لیے ہے ، جس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے۔ مثلاً اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ اِلَیْہِ یَرْجِعْ الْاَمْرُ کُلُّہٗ اِنَّ الْاَمْرُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ، اَمْرُہٗ اِلَی اللّٰہِ اور محققین کے نزدیک قَالَ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ میں بھی یہی امر مراد ہے ، اب قرآن کے ارشاد وَشَاوِرْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ اور وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ میں دونوں معنی کا احتمال ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پہلے ہی معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی بھی اس میں شامل ہیں تو یہ بھی کچھ بعید نہیں ، کیونکہ حکم اور حکومت کے معاملات سبھی خاص اہمیت رکھتے ہیں ، اس لیے امر کے معنی ان آیات میں ہر اس کام کے ہیں جو خاص اہمیت رکھتا ہو ، خواہ حکومت سے متعلق ہو خواہ معاملات سے اور لفظ شوریٰ ، مشورہ مشاورت کے معنی ہیں کسی قابل غور معاملہ میں لوگوں کی رائیں حاصل کرنا ، اس لیے وَشَاوِزْھُمْ فِیْ الْاَمْرِ کے معنی یہ ہوئے کہ : آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ ﷺ قابل غور معاملات میں جن میں حکومت کے متعلقہ معاملات بھی شامل ہیں ، صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لیا کریں ، یعنی ان حضرات کی رائیں معلوم کیا کریں۔ اسی طرح سورة شوریٰ کی آیت وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ ہر قابل غور معاملہ میں جس میں کوئی اہمیت ہو ، خواہ وہ حکم حکومت سے متعلق ہو یا دوسرے معاملات سے ، ان میں سچے مسلمانوں کی عادت مستمرہ یہ ہے کہ باہم مشورہ سے کام لیا کرتے ہیں۔ دوسری بات = مشورہ کی شرعی حیثیت : اس بارہ میں قرآن کریم کے ارشادات مذکورہ اور احادیث نبویہ ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں خواہ وہ حکم حکومت سے متعلق ہو یا کسی دوسرے معاملہ سے یا باہمی مشورہ لینا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعث برکات ہے ، قرآن و حدیث میں اس کی تائید آئی ہے اور جن معاملات کا تعلق عوام سے ہے جیسے معاملات حکومت ان میں مشورہ لینا واجب ہے۔ (ابن کثیر) بیہقی نے شعب ال ایمان میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی کام کا ارادہ کرے اور باہمی مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہوا کریں ، تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم پر خواہش پر ستی غالب آجائے کہ بھلے برے اور نافع و مضر سے قطع نظر کر کے عورت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے معاملات اس کے سپرد کر دو تو اس وقت کی زندگی سے تمہارے لیے موت بہتر ہے ، ورنہ مشورہ میں کسی عورت کی بھی رائے لینا کوئی منع نہیں۔ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے تعامل سے ثابت ہے اور قرآن کریم میں سورة بقرہ کی آیت جو ابھی بیان کی گئی ہے اس میں ارشاد ہے عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ یعنی بچہ کا دودھ چھڑانا باپ اور ماں کے باہمی مشورہ سے ہونا چاہیے ، اس میں چونکہ معاملہ عورت سے متعلق ہے ، اس لیے خاص طور سے عورت کے مشورہ کا پابند کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ : المستشار مؤتمن اذا استشیر فلیشرہ بما ھو صائع لنفسہ۔ ” یعنی جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے اس پر لازم ہے کہ اس معاملہ میں جو کام وہ خود اپنے لیے تجویز کرتا ہے وہی رائے دوسرے کو دے اس کے خلاف کرنا خیانت ہے۔ “ یہ حدیث طبرانی نے معجم اوسط میں بسند حسن حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے۔ (مظہری) البتہ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مشورہ صرف انہی چیزوں میں مسنون ہے جن کے بارہ میں قرآن و حدیث کا کوئی واضح قطعی حکم موجود نہ ہو ، ورنہ جہاں کوئی قطعی اور واضح حکم شرعی موجود ہو اس میں کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں بلکہ جائز بھی نہیں ، مثلاً کوئی شخص اس میں مشورہ کرے کہ نماز پڑھیں یا نہیں ، زکوٰۃ دے یا نہیں ، حج کرے یا نہیں ، یہ مشورہ کی چیزیں نہیں ، شرعی طور پر فرض قطعی ہیں البتہ اس میں مشورہ کیا جاسکتا ہے کہ حج کو اس سال جائے یا آئندہ اور پانی کے جہاز سے جائے یا ہوائی جہاز سے اور خشکی کے راستہ سے جائے یا دوسرے طریق سے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے معاملہ میں یہ مشورہ لیا جاسکتا ہے کہ اس کو کہاں اور کن لوگوں پر خرچ کیا جائے ، کیونکہ یہ سب امور شرعاً اختیاری ہیں۔ ایک حدیث میں خود اس کی تشریح رسول کریم ﷺ سے منقول ہے ، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم صراحتاً قرآن میں نازل نہیں ہوا اور آپ ﷺ سے بھی اس کے متعلق کوئی ارشاد ہم نے نہ سنا ہو ، تو ہم کیا کریں ؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لیے اپنے لوگوں میں سے عبادت گزار سمجھ دار لوگوں کو جمع کرو اور ان کے مشورہ سے اس کا فیصلہ کرو ، کسی کی تنہا رائے سے یہ فیصلہ نہ کرو۔ اس حدیث شریف سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ مشورہ صرف دنیوی معاملات میں نہیں بلکہ جن احکام شرعیہ میں قرآن و حدیث کی صریح نصوص نہ ہوں ان احکام میں بھی باہمی مشورہ مسنون ہے اور دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشورہ ایسے لوگوں سے لینا چاہیے جو موجودہ لوگوں میں تفقہ اور عبادت گزاری میں معروف ہوں۔ (اخرجہ الخطب کذافی الروح) نیز خطیب بغدادی (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے : استرشد والعاقل ولا تعصوہ فتند موا۔ ” یعنی عقلمند آدمی سے مشورہ لو اور اس کے خلاف نہ کرو ورنہ ندامت اٹھانی ہوگی۔ “ ان دونوں احادیث کو ملانے سے معلوم ہوا کہ مجلس شوریٰ کے ارکان میں دو وصف ضروری ہیں ، ایک صاحب عقل و رائے ہونا ، دوسرے عبادت گزار ہونا ، جس کا حاصل ہے ذی رائے اور متقی ہونا۔ تیسری بات = رسول کریم ﷺ کو صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لینے کا درجہ : آیت میں آنحضرت ﷺ کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لیں ، اس میں یہ اشکال ہے کہ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول اور صاحب وحی ہیں ، آپ ﷺ کو کسی سے مشورہ کی کیا حاجت ہے ؟ آپ ﷺ کو ہرچیز حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی معلوم ہو سکتی ہے ، اس لیے بعض علماء نے اس حکم مشورہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نہ مشورہ کی ضرورت تھی ، نہ اس مشورہ پر آپ ﷺ کے کسی کام کا مدار تھا ، صرف صحابہ کرام ؓ کے اعزاز اور دلجوئی کے لیے مشورہ کا حکم آپ ﷺ کو دیا گیا ہے ، لیکن امام ابوبکر جصاص نے فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہے ، کیونکہ اگر یہ معلوم ہو کہ ہمارے مشورہ پر کوئی عمل نہیں ہوگا اور نہ مشورہ کا کسی کام پر کوئی اثر ہے تو پھر اس مشورہ پر کوئی دلجوئی اور اعزاز بھی نہیں رہتا ، بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو عام امور میں تو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ایک طریق کار متعین کردیا جاتا ہے ، مگر بقتضائے حکمت و رحمت بعض امور کو آنحضرت ﷺ کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے ، ایسے ہی امور میں مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی قسم کے امور میں مشورہ لینے کا آپ ﷺ کو حکم دیا گیا ، رسول اللہ ﷺ کی مجالس مشاورت کی تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے غزوہ بدر کے لیے صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لیا تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ ﷺ ہمیں دریا میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر آپ ﷺ ہمیں برک الغماد جیسے دور دراز مقام کی طرف چلنے کا ارشاد فرمائیں گے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہوں گے ، ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کا رب کفار سے مقابلہ کے ، بلکہ ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ ﷺ تشریف لے چلیں ہم آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ سے آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اسی طرح غزوہ احد میں اس بارہ میں مشورہ کیا کہ کیا مدینہ شہر کے اندر رہ کر مدافعت کریں یا شہر سے باہر نکل کر ، عام طور سے صحابہ کرام ؓ کی رائے باہر نکلنے کی ہوئی ، تو آپ ﷺ نے اسی کو قبول فرمایا۔ غزوہ خندق میں ایک خاص معاہدہ پر صلح کرنے کا معاملہ درپیش آیا ، تو سعد بن معاذ ؓ اور سعد بن عبادہ ؓ نے اس معاہدہ کو مناسب نہ سمجھ کر اختلاف کیا۔ آپ ﷺ نے انہی دونوں کی رائیں قبول فرمائیں ، حدیبیہ کے ایک معاملہ میں مشورہ لیا تو صدیق اکبر ؓ کی رائے پر فیصلہ فرما دیا۔ قصہ افک میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لیا ، یہ سب معاملات وہ تھے جن میں آنحضرت ﷺ کے لیے بذریعہ وحی کوئی خاص جانب متعین نہیں کی گئی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبوت و رسالت اور صاحب وحی ہونا کچھ مشورہ کے منافی نہیں اور یہ بھی نہیں کہ یہ مشورہ محض نمائشی دلجوئی کے لیے ہو ، اس کا اثر معاملات پر نہ ہو بلکہ بہت مرتبہ مشورہ دینے والوں کی رائے کو آپ ﷺ نے اپنی رائے کے خلاف بھی قبول کرلیا ، بلکہ بعض امور میں آنحضرت ﷺ کے لیے بذریعہ وحی کوئی خاص صورت متعین نہ فرمانے اور مشورہ لے کر کام کرنے میں حکومت و مصلحت یہ بھی ہے کہ آئندہ امت کے لیے ایک سنت رسول کریم ﷺ کے عمل سے جاری ہوجائے کہ جب آپ ﷺ کو بھی مشورہ سے استغناء نہیں تو پھر ایسا کون ہے جو استغناء کا دعویٰ کرسکے ؟ اسی لیے رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ میں ایسے مسائل بھی مشاوت کا طریق ہمیشہ جاری رہا ، جن میں کوئی نص شرعی نہ تھی اور آنحضرت ﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ کا بھی یہی معمول رہا ، بلکہ بعد میں تو ایسے احکام شرعیہ کی دریافت کے لیے بھی مشورہ کا معمول رہا ، جن میں قرآن و حدیث کا کوئی صریح نہ تھا ، کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوال کے جواب میں آنحضرت ﷺ نے یہی طریق کار بتلایا تھا۔ چوتھی بات = حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ کیا ہے ؟ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے دو جگہ مشورہ کا صریح حکم دیا ہے ، ایک یہی آیت مذکورہ اور دوسرے سورة شوریٰ کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ، ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ یعنی اور ان کا کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے ان دونوں جگہ پر مشورہ کے ساتھ لفظ امر مذکور ہے اور لفظ امر کی مفصل تحقیق اوپر بیان ہوچکی ہے کہ ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو بھی کہا جاتا ہے اور حکم اور حکومت کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، امر کے خواہ معنی اول مراد لیں یا دوسرے معنی ، حکومت کے معاملات میں مشورہ لینا بہر صورت ان آیات سے ضروری معلوم ہوتا ہے ، حکم یا حکومت مراد لینے کی صورت میں تو ظاہر ہی ہے اور اگر معنی عام لیے جائیں جب بھی حکم اور حکومت کے معاملات مہتمم بالشان ہونے کی حیثیت سے قابل مشورہ ٹھہریں گے ، اس لیے امر اسلام کے فرائض میں سے ہے کہ حکومت کے اہم معاملات میں اہل حل و عقد سے مشورہ لیا کرے ، قرآن کی آیات مذکورہ اور رسول کریم ﷺ اور خلفاء راشدین کا مسلسل تعامل اس کی روشن سند ہے۔ ان دونوں آیتوں میں جس طرح معاملات حکومت میں مشورہ کی ضرورت واضح ہوئی اسی طرح ان سے اسلام کے طرز حکومت اور آئین کے کچھ بنیادی اصول بھی سامنے آگئے ، کہ اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہے ، جس میں امیر کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے۔ خاندانی وراثت سے نہیں ، آج تو اسلامی تعلیمات کی برکت سے پوری دنیا میں اس اصول کا لوہا مانا جا چکا ہے ، شخصی بادشاہتیں بھی طوعاً و کرہاً اسی طرف آرہی ہیں ، لیکن اب سے چودہ سو برس پہلے زمانہ کی طرف مڑ کر دیکھئے کہ پوری دنیا پر آج کے تین بڑوں کی جگہ دو بڑوں کی حکومت تھی ، ایک کسریٰ ، دوسرا قیصر اور ان دونوں کے آئین حکومت شخصی اور وراثتی بادشاہت ہونے میں مشترک تھے ، جس میں ایک واحد لاکھوں ، کروڑوں انسانوں پر اپنی قابلیت ، صلاحیت سے نہیں ، بلکہ وراثت کے ظالمانہ اصولوں کی بناء پر حکومت کرتا تھا اور انسانوں کو پالتو جانوروں کا درجہ دینا بھی بادشاہی انعام سمجھا جاتا تھا۔ یہی نظریہ حکومت دنیا کے بیشتر حصہ پر مسلط تھا ، صرف یونان میں جمہوریت کے چند دھندلے اور ناتمام نقوش پائے جاتے تھے ، لیکن وہ بھی اتنے ناقص اور مدھم تھے کہ ان پر کسی مملکت کی بنیاد رکھنا مشکل تھا ، اسی وجہ سے جمہوریت کے ان یونانی اصولوں پر کبھی کوئی مستحکم حکومت نہیں بن سکی ، بلکہ وہ اصول ارسطو کے فلسفہ کی ایک شاخ بن کر رہ گئے اس کے برخلاف اسلام نے حکومت میں وراثت کا غیر فطری اصول باطل کر کے امیر مملکت کا عزل و نصب جمہور کے اختیار میں دے دیا ، جس کو وہ اپنے نمائندوں اہل حل و عقد کے ذریعہ استعمال کرسکیں ، بادشاہ پرستی کی دلدل میں پھنسی ہوئی دنیا اسلامی تعلیمات ہی کے ذریعہ اس عادلانہ اور فطری نظام سے آشنا ہوئی اور یہی روح ہے اسی طرز حکومت کی ، جس کو آج جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ طرز کی جمہوریتیں چونکہ بادشاہی ظلم و ستم کے رد عمل کے طور پر وجود میں آئیں تو وہ بھی اس بےاعتدالی کے ساتھ آئیں کہ عوام کو مطلق العنان بنا کر پورے آئین حکومت اور قانون مملکت کا ایسا آزاد مالک بنایا کہ ان کے قلب و دماغ زمین و آسمان اور تمام انسانوں کے پیدا کرنے والے اللہ اور اس کی اصلی مالکیت و حکومت کے تصور سے بھی بیگانہ ہوگئے ، اب ان کی جمہوریت اللہ تعالیٰ ہی کے بخشے ہوئے عوامی اختیار پر اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ پابندیوں کو بھی بار خاطر انصاف تصور کرنے لگیں۔ اسلامی آئین نے جس طرح خلق خدا کو کسریٰ و قیصر اور دوسری شخصی بادشاہتوں کے جبرو استبداد کے پنجہ سے نجات دلائی ، اسی طرح نا خدا آشنا مغربی جمہوریتوں کو بھی خدا شناسی اور خدا پرستی کا راستہ دکھلایا اور بتلایا کہ ملک کے حکام ہوں یا عوام ، اللہ تعالیٰ کے دییے ہوئے وانون کے سب پابند ہیں ، ان کے عوام اور عوامی اسمبلی کے انتخاب ، قانون سازی ، عزل و نصب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے انداز ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ امیر کے انتخاب میں اور پھر عہدوں اور منصبوں کی تقسیم مین ایک طرف قابلیت اور صلاحیت کی پوری رعایت کریں تو دوسری طرف ان کی دیانت و امانت کو پر کھیں۔ اپنا امیر ایسے شخص کو منتخب کریں کو علم ، تقویٰ ، دیانت ، امانت ، صلاحیت اور سیاسی تجربہ مین سب سے بہتر ہو ، پھر یہ امیر منتخب بھی آزاد اور مطلق العنان نہیں ، بلکہ اہل الرائے سے مشورہ لینے کا پابند رہے ، قرآن کریم کی آیت مزکورہ اور رسول اکرم ﷺ اور خلفائے الراشدین کا تعامل اس پر شاہد عدل ہیں ، حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے۔ لاخلافۃ الاعن مشورۃ (کنزالعمال بحوالہ ابن ابی شیبہ) ، ، یعنی شورائیت کے بغیر خلافت نہیں ہے۔ ، ، شورائیت اور مشورہ کو اسلامی حکومت کیلئے اساسی اور بنیادی حثیت حاصل ہے ، حتیٰ کہ اگر امیر مملکت مشورہ سے آزاد ہوجائے ، یا ایسے لوگوں سے مشورہ لے جو شرعی نقطہ نظر سے مشورہ کے اہل نہ ہوں تو اس کا عزل کرنا ضروری ہے۔ ذکرابن عطیۃ ان الشوریٰ من قواعدالشریعۃ والدین فعزلہ واجب ھزا مالاخلاف لم۔ (الجرالمحیط لابی حیان) ” ابن عطیہ ؓ نے فرمایا کہ شوارئیت شریعت کے قواعد اور بنیادی اصولوں میں سے ہے ، جو امیر کہ اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہ لے ، اس کا عزل کرنا واجب ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ “ مشورہ کے ضروری ہونے سے اسلامی حکومت اور اس کے باشندوں پر جو ثمرات اور برکات حاصل ہوں گے ، اس کا اندازاہ اس سے لگا لیجئے کہ رسول اکرم ﷺ نے مشورہ کو رحمت سے تعبیر فرمایا ، ابن عدی اور بھیقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اس مشورہ کی حاجت نہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو میری امت کے لئے ایک رحمت بنایا ہے۔ (بیان القرآن) مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے رسول ﷺ کو ہر کام بذریعہ وحی بتلا دیتا ، کسی کام میں بھی مشورہ کی ضرورت نہ چھڑتا ، لیکن امت کی مصلحت اس مین تھی کہ آپ ﷺ کے ذریعے مشورہ کی سنت جاری کرائی جائے ، اس لئے بہت سے امور ایسے چھوڑدیئے جن میں صراحتََہ کوئی وحی نہیں ہوئی ، ان میں آپ ﷺ کو مشورہ لینے کی ہدایت فرمائی گئی۔ پانچویں بات = مشورہ میں اختلاف رائے ہوجائے ، تو فیصلہ کی کیا صورت ہوگی ؟ مسئلہ میں اگر اختلاف رائے ہوجائے تو کیا آج کال کے پارلیمانی اصول پر اکثریت کا فیصلہ نافذ کرنے پر امیر مجبور ہوگا یا اس کو اختیار ہوگا کہ اکثریت ہو یا اقلیت جس طرف دلائل کی قوت اور مملکت کی مصلحت زیادہ نظر آئے اس کو اختیار کرے ؟ قرآن و حدیث اور رسول اکرم ﷺ اور صحابہ ؓ کے تعامل سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اکثریت رائے کی صورت میں امیر اکثریت رائے کے فیصلہ کا پابند و مجبور ہے ، بلکہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور حدیث اور تعامل صحابہ ؓ تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتا ہے ، خواہ اکثریت کے مطابق ہو یا اقلیت کے ، البتہ امیر اپنا اطمینان حاصل کرنے کیلئے جس طرح دوسرے دلائل پر نظر کرے گا اسی طرح اکثریت کا ایک چیز پر متفق ہونا بھی بعض اوقات اس کیلئے سبب اطمینان بن سکتا ہے۔ آیت مزکورہ میں غور فرمائیے ، اس میں رسول اکرم ﷺ کو مشورہ کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا ہے فاَِذََاعَذَمْتَ فَتََوَکّلْ عَلیَ اللہِ یعنی مشورہ کے بعد آپ ﷺ جب کسی جانب کو طے کر کے عزم کرلیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کیجئے اس میں عَذَمْتَ کے لفظ میں عزم یعنی نفاد حکم کا پختہ ارادہ صرف آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ۔ عزمتہم نہیں فرمایا جس سے عزم و تفیذ میں صحابہ کی شرکت معلوم ہوتی ، اس کے اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ کے بعد نفاذ اور عزم صرف امیر کا معتبر ہے ، عمر بن الحطاب ؓ بعض وقت دلائل لے لحاط سے اگر عبداللہ بن عباس ؓ کی رائے زیادہ مظبوط ہوتی تھی تو ان کی رائے پر فیصلہ نافذ فرماتے تھے ، حالانکہ مجلس میں اکثر ایسے صحابہ ؓ موجود ہوتے تھے ، جس ابن عباس ؓ عمر اور علم تعداد میں زیادہ ہوتے تھے ، حضور اکرم ﷺ نے بہت مرتبہ حضرات شخیین صدیق اکبر ؓ اور فاروق اعظم ؓ کی رائے کو جمہور صحابہ ؓ کے مقابلہ میں ترجیح دی ہے ، حتیٰ کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ آیت مزکورہ صرف ان دونوں حضرات سے مشورہ لینے کے لئے نازل ہوئی۔ کلبی کی روایت اس سے بھی زیادہ واضح ہے : عن ابن عباس ؓ قال نزلت فی ابی بکروعمر کا ناحواریتی رسول اللہ ﷺ ووزیریہ وابری المسلمین۔ (ابن کثیر) ” ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر ؓ وعمر ؓ مشورہ لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، یہ دونوں حضرات جناب رسول اکرم ﷺ کے خاص صحابی تھے اور مسلمانوں کے مربی تھے۔ “ رسول اکرم ﷺ نے ایک حضرات شیخین ؓ کو خطاب کرنے ہوئے فرمایا تھا : لواجتمعتمافی مشورۃ ماخالغتکما۔ (ابن کثیر بحوالہ مسند احمد) ” جب تم دونوں کسی رائے پر متفق ہوجائو تو میں تم دونوں کے خلاف نہیں کرتا۔ “ ایک اشکال اور اس کا جواب : یہاں یہ اشکال کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو جمہوریت کے منافی ہے اور شخصی حکومت کا طرز ہے اور اس سے جمہور کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جواب یہ ہے کہ اسلامی آئین نے اس کی رعایت پہلے کرلی ہے ، کیونکہ عوام کو یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ جس کو چاہیں امیر بنا دیں بلکہ ان پر لازم قرار دیا ہے کہ علم و عمل اور صلاحیت کار اور خدا ترسی اور دیانت کی رو سے جس شخص کو سب سے بہتر سمجھیں صرف اس کو منتخب کریں۔ تو جس شخص کو اعلیٰ اوصاف اور اعلیٰ صفات کے تحت منتخب کیا گیا ہو ، اس پر ایسی پابدیاں عائد کرنا جو بدیانت اور فساق ، فجار پر عائد کی جاتی ہیں ، عقل و انصاف کا خون کرنا اور کام کرنے والوں کی ہمت شکنی اور ملک و ملت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مرادف ہوگا۔ چھٹی بات = ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا : اس جگہ یہ بات بہت ہی قبل غور ہے کہ نظام حکومت اور دوسرے اہم امر میں تدبیر اور مشورہ کے احکام کے بعد یہ ہدایت دی گئی ہے کہ سب تدبیریں کرنے کے بعد بھی جب کام کرنے کا عزم کرو تو اپنی عقل و رائے اور تدبیروں پر بھروسہ نہ کرو صرف اللہ توالیٰ پر کر ، کیونکہ یہ سب تدبیر مدبرالامور کے قبضہ قدرت میں ہیں ، انسان کیا اور اس کی رائے و تدبیر کیا ، ہر انسان اپنی عمر کے ہزاروں واقعت میں ان چیزوں کی رسوائی کا مشاہد کرتا ہے۔ مولانا رومی (رح) نے خوب فرمایا ہے : خویش رادیدیم و رسوائی خویش امتحان ما مکن اے شاہ بیش اہمیت مشورہ کا ایک اختصادی خاکہ : مشاورت اسلامی طرز زندگی کا ایک اہم ستون ہے اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کئے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشاورت کو اسلام یہ اہمیت کیوں دی گئی ؟ اس کے باوجود اگر غور کیا جائے تو تین باتیں واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو اس میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلقہ اشخاص کو نظر انداز کردینا زیادتی ہے مشترک معاملات میں کسی کو اپنی من مانی چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ایک معاملہ جتنے لوگوں کے مفاد سے تعلق رکھتا ہو اس مین ان سب کی رائے لی جائے اور اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمد علیہ نمائندہ کو شریک مشورہ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ انسان مشترک معاملات میں اپنی من مانی چلانے کی کوشش یا تو اسی وجہ سے کرتا ہے کہ ہو اپنی ذاتی اغراض کیلئے دوسروں کا حق مارنا چاہتے ہے یا پھر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑی چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اخلاقی حیثیت سے یہ دونوں صفات یکساں قبیح اور مومن کے اندر انیں سے کسی صفت کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ مومن نہ خود غرض ہوتا ہے کہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کر کے خود ناجائز فائدہ اٹھانا چاہے اور نہ وہ متکبر اور خود پسند ہوتا ہے کہ اپنے آپ ہی کو عقل کل اور علیم وخبیر مجھے۔ تیسرے یہ کہ جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کوئی شخص جو اللہ سے ڈرتاہو اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی ایس پنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی کبھی اس بھاری بہجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ اس طرح کی جراتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا سے بےخوف اور آخرت سے بےفکر ہوتے ہیں۔ خدا ترس اور آخرت کی بز پرس کا احساس رکھنے والا آدمی تو لازماََ یہ کوشش کرے گا کہ ایک ، مشترکہ معاملہ جن جن سے بھی متعلق ہو ان سب کو یا ان کے بھروسے کے نمائندوں کو اس کا فیصلہ کرنے میں شریک مشورہ کرے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور بےلاگ اور مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جاسکے اور اگر نادانستہ کوئی غلطی ہو بھی جائے تو تنہا کسی ایک شخص پر اس کی ذمہ داری نہ آپڑے۔ یہ تین وجوہ ایسے ہیں جن پر اگر آدمی غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرھ آسکتی ہے کہ اسلام جس اخلاق کی انسان کو تعلیم دیتا ہے ، مشورہ اس لا لازمی تقاضاََ ہے اور اس سے انحراف ایک بہت بڑی بداخلاق ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسلامی طرز زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوجائیں تو انہیں بھی شریک مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔ ایک قبیلے یار برادری یا بستی کے معاملات ہوں اور سب لوگوں کا شریک مشورہ ہونا ممکن نہ ہو ، تو ان کا فیصلہ کوئی ایسی پنچایئت یا مجلس کرے جس میں کسی متفق علیہ طریقے کے مطابق تمام متعلق لوگوں کے معتمد علیہ نمائندے شریک ہوں۔ ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کیلئے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے اور وہ قومی معاملات کو ایسے صاحب رائے لوگوں کے مشورے سے چلائے جن کو قوم قبل اعتماد سمجھتی ہو اور وہ اسی وقت تک سربراہ رہے جب۔ تک قوم خود اسے اپنا سربراہ بنائے رکھنا چاہے۔ کوئی ایمارندار آدمی زبردستی قوم کا سربراہ بننے اور بنے رہنے کی خواہش یا کوشش نہیں کرسکتا ، نہ یہ فریب کاری کرسکتا ہے کہ پہلے بزور قوم کے سر پر مسلط ہوجائے اور پھر جبر کے تحت لوگوں کی رضا مندی طلب کرے اور نہ اس طرح کی چالیں چل سکتا ہے کہ اس کو مشورہ دینے کے بعد لوگ اپنی آزدی مرضی سے اپنی پسند کے نمائندے نہیں بلکہ وہ نمائندے منتخب کریں جو اس کی مرضی کے مطابق رائے دئنے والے ہوں۔ ایسی ہر خواہش صرف اس نفس میں پئدا ہوتی ہے جو نیت کی خرابی سے ملوث ہو اور اس خواہش کے ساتھ اَمْرُھُم شُوْریٰ بَیْنَھُم کی ظاہری شکل بنانے اور اس کی حقیقت غائیبکر دینے کی کوشش صرف و ہی کرسکتا ہے جسے خدا اور خلق دونوں کو دھوکا دینے میں کوئی باک نہ ہو ، حالانکہ نہ خدا کا کھا سکتا ہے اور نہ ہی خلق اتنی اندھی ہو سکتی ہے کہ کوئی شخص دن کی روشنی میں اعلانیہ ڈاکہ مار رہا ہو اور وہ سچے دل سے یہ سمجھتی رہے کہ وہ ڈاکہ نہیں مار رہا ہے بلکہ لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔ اَمْرُھُم شُوْریٰ بَیْنَھُم کا قاعدہ اپنی رغبت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضاََ کرتا ہے۔ اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں ، انہیں اطہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور ہو اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکین اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر اور ان کے بیخبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بدد یانتی ہے جسے کوئی شخص بھی اَمْرُھُم شُوْریٰ بَیْنَھُم کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔ دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضا مندی سے مقرر کیا جائے اور یہ رضا مندی ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئے یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی یا دھوکے اور قریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوء رضا مندی درحقیقت رضا مندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔ سوم یہ کہ سربراہ کو مشورہ دینے کے لئے بھی وہ لوگ مقرر کئے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیئے جاسکگے جو دبائو ڈال کر یا مال سے خرید کر جحوٹ اور مکر سیکام لے کر یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔ چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزدی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو ، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خواف کی بناء پر یا کسی جھتہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں ، وہاں درحقیقت خیانت اور خدا ری ہوگی نہ کہ اَمْرُھُم شُوْریٰ بَیْنَھُم کی پیروی۔ پنجم یہ کہ جو کہ مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے ، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کے سننے کے بعد اپنی من مانی کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہی کہ ” ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے “ بلکہ یہ فرما رہا ہی کہ ” ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں “ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔ تاہم امیر کی رائے کو فوقیت حاصل رہے گی اگر وہ اپنی رائے یا اقلیت کی رائے پر عمل کرنے کا حکم دے تو اس کو تسلیم کرنا ہوگا جب کہ اس کا حکم اللہ اور رسول اللہ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنا دی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہئے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات کو چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماََ اس دین کے حدود کی سے محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ ” تمہارے درمیان جس معاملہ مین بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے “ اور ” تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو “ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کرسکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس پر عملدرآ مد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو۔ لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کرسکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اسر اس کے رسول ﷺ نے کردیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔ مشورہ سے طے شدہ بات کے خلاف کرنے کا کسی کو حق نہیں : ” پھر جب ایسا ہو کہ تم نے کسی بات کا عزم کر لئا تو چاہئے کہ الل پر بھروسہ کرو یقینا اللہ انہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس پر بھروسہ رکھتا ہے جو اس پر بھروسہ کرنے ہیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ مشورہ کر کے جب ایک بات پختہ کر لوتو پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو جیسا کہ احد کے موقع پر آپ ﷺ نے کیا۔ جب مشورہ کر کے حکم دے کدیا پھر بعض لوگوں نے اپنی رائے سے رجوع کیا تو آپ ﷺ نے اس کی پرواہ نہ کی۔ یہ خلاف عزم ہوتا ۔ پھر جب نقصان پہنچاتب بھی آپ ﷺ نے یہ نہ کہا کہ ہمارے مشورہ میں طے ہوا وہ صحیح نہیں تھا۔ ہاں ! منافقین نے باتیں بنایئیں جب کا یہ جواب دیا گیا کہ مشورہ کرنا ہوی ضروری ہے اور اب جو کچھ ہوگا وہ مشورہ ہی سے ہوا کرے گا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا یہ مفہوم ہے کہ طے شدہ بات میں پھر کسی کو ترمیم کا کوئی حق حاصل نہیں۔ آج اگر اسلام کے اس ایک حکم پر سختی سے عمل کیا ہوتا تو مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہوتی جو اس وقت ہے۔ ایسا مشورہ کوئی مشورہ نہیں کہ آئو سب مل کر مشورہ کریں لیکن ایک بات یاد رکھو ! اگر ہماری بات نہ مانی گئی تو ہم ویٹو کر جائیں گے اور تمہارا مشورہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا ؟ یہ مشورہ اس لئے کر رہے ہیں کہ تم سب ہماری بات مان جائو اگر تم نے ہماری مخالفت کی تو پھر نہ تم رہو گے اور نہ تمہار مشورہ لیا جائے گا۔ یہ مشورہ نہیں بلکہ دھونس ہے لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دھونس کو دھونس کہ بھی نہیں سکتے بلکہ مشورہ مشورہ کا شور مچانے پر مجبور ہیں۔ اس پوری آیت میں ایک مصلح و مبلغ کے لیئے چند صفات کا ہونا ضروری سمجھا گیا ہے ان کیا صفت اور یہ ہے کہ وہ سخت کلامی اور کج خلقی سے بچے۔ دوسری یہ کہ ان لوگوں سے جن کی وہ اصلاح چاہتا ہے یا جن کو تبلیغ کر رہا ہے کوئی غلطی سر زد ہوجائے یا ان سے ایذا کی کوئی چیز صادر ہوجائے تو انتقام کی در پے نہ ہو بلکہ عفو و درگزر سے کام لے۔ تیسری یہ کہ ان کی خطائوں اور لغزشوں کی وجہ سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑے ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ نہ چھوڑے۔ چوتھی یہ کہ جب مشورہ سے ایک بات طے ہوجائے تو پھر ویٹو نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جو طے ہوا ہے اس کے مطابق عمل شروع کر دے اور پھر یہ کہ عمل میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کرے۔ توکل کیا ہے ؟ اس کی وضاحت قبل ازیں کئی مقامات پر کی گئی ہے تاہم توکل کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس جتنے وسائل ہیں ان سے کام ہے اور پوری ہمت لگا کر ایک کام کو سرانجام دے۔ کسی طرح کی کم ہمتی اور بےیقینی کا شکار نہ ہو۔ اپنی ساری قوتیں اور صلاحیتیں خرچ کرنے کے بعد اس کام کا نتیجہ اللہ کے سپرد کر دے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ستر ہزار آدمی بلاحساب جنت میں جائیں گے۔ عرضس کیا گیا یارسول اللہ ﷺ وہ کون ہوں گے ؟ فرمایا وہ لوگ وہیں کو داغ نہیں لگواتے ، منتر نہیں پڑھتے پڑھاتے ، شگون نہیں لیتے اور ہر حال میں اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ (بخاری و مسلم) حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تم اللہ پر توکل کرو جیسا توکل کرنے کا حق ہے توا للہ تم کو اس طرح روزی دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ پھرے واپس آتے ہیں۔ (رمذی وا بن ماجہ) پہلی حدیث سے اس کی وضاحت ہوگئی کہ ناجائز طریقوں اور ناجائز اشیاء سے علاج نہ کرنا بلکہ جائز طریقے اور جائز اشیاء سے علاج کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ رکھنا تو کل ہے۔ ٹونے ٹوٹکے اور دم چھو سے بچتے ہوئے جو طرح طرح کے اوہام کو جنم دیتے ہیں ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا بھی انسان کو کامل اور پختہ ارادہ بناتا ہے۔ وہ شکوک و شبہات اور وہم و گمان کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ یہ ساری باتیں تکمیل انسانیت کے خلاف ہیں۔ اور دوسری حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ پرندوں کیلئے روزی کی جو صورت اللہ نے مقرر کردی ہے وہ اس میں حتیٰ امقدور کوشش کرنے ہیں اس طرح انسانوں کے لئے اور پھر خصوصاََ مسلمانوں کیلئے روزی حاصل کرنے کی جو راہیں متعین کردی گئی ہیں ان راہوں سے ذرا برابر بھی انحراف نہ کرتے ہوئے وہ پوری پوری سعی و کوشش کریں اور اس طرح سے جو کچھ میسر آئے اس پر قناعت کریں تو گویا انہوں نے توکل کو حاصل کرلیا اور وہ متوکل علی اللہ ہوگئے اور ان راہوں سے ہٹ کر انہوں نے کو ئء تدبیر کی تو سمجھ لو کہ وہ غیر متوکل ہوگئے۔ اور پھر اس سے اس کی وضاحت بھی ہوگئی کہ توکل ترک اسباب کا نام نہیں اور نہ ہی ترک تدبیر کا نام ہے بلکہ اسباب قریبہ کو چھوڑ کر توکل کرنا سنت انبیاء کرام اور تعلیم قرآن کے خلاف ہے۔ وہاں اسباب بعید اور دوران کار فکروں میں پڑے رہنا اور کسی رائے پر متفق نہ ہونا یا پھر صرف اسباب اور تدبری ہی کو موثر سمجھ کر مسبّب الاسباب اور مدبر الامور سے غافل ہوجانا بیشک خلاف توکل ہے اور مسلمانوں کو کسی حال میں بھی خلاف توکل نہیں ہنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں اسلام کی اول و آخر یہی نصیحت ہے اور اس مضمون کو مختصر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ۔ یہ اللہ کہ بڑی ہی رحمت ہے کہ تمہارے دل میں نرمی اور مزاج میں سرتاسر شفقت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کے دل تمہارے طرف بےاختیار نہ کھینچتے جس طرح اب کھینچے چلے جا رہے ہیں اور اللہ کا آپ ﷺ پر بہت بڑا فضل ہے۔ جنگ احد میں ایک گروہ کی لغزش بڑی ہی سخت لغزش تھی تا ہم تمہاری شفقت کا مقتضی یہی ہے کہ عفورودرگزر سے کام لو۔ تمہارا طریق کار یہ ہونا چاہئے کہ صلح و جنگ کا کوئی معاملہ بغیر مشورے کی انجام نہ پائے۔ اس بارے میں دستورالعمل یہ ہے کہ پہلے جماعت سے مشورہ کرو پھر مشورے کے بعد کوئی ایک بات پکی کرلو۔ جب ایک بات پکی ہوجائے یعنی طے پاجئے تو اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جائو۔ شوریٰ اپنے محل اور وقت میں ضروری ہے۔ عزم اپنے محل اور وقت میں ۔ جب تک مشورہ نہیں کیا ہے فیصلہ و عزم کا سوال نہیں اٹھتا لیکن جب مشورہ کے بعد عزم کرلیا گیا تو وہ عزم ہے اس لئے اب کوئی رائے کوئی نکتہ چینی اور کوئی مضالفت اسے متزلزل نہیں کرسکتی۔ ایک پیشوا و امام کیلئے ضروری ہے کہ وہ جماعت سے مشورہ کرے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ صاحب عزم ہو۔
Top