Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو خدا اس کو معاف کردے گا کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) بیت المال سے چوری پر سزا بیت المال سے چوری کرنے والے کی قطع ید کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، زفر امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ بیت المال کے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ حضرت علی ، ابراہیم نخعی اور حسن بصری کا یہی قول ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ قطع ید ہوگی ۔ حماد بن ابی سلیمان کا بھی یہی قول ہے ۔ سفیان نے سماک بن حرب سے اور انہوں نے ابن عبید بن الابرض سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت کے پانچویں حصے سے ایک خود لوہے کی ٹوپی چرا لی تھی ۔ آپ نے اس کی قطع ید کا حکم نہیں دیا اور فرمایا کہ اس خمس میں اس شخص کا بھی حصہ ہے۔ وکیع نے المسعوی سے اور انہوں نے القاسم سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے بیت الماس سے چوری کرلی ، اس کے متعلق حضرت سعد ؓ نے حضرت عمر ؓ کو لکھاتو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا ۔ بیت المال میں اس شخص کا بھی حصہ ہے۔ ہمیں کسی صحابی کے متعلق علم نہیں کہ ان کی طرسے اس بارے میں کسی اختلاف رائے کا اظہارہوا ہو ، نیز جب چور اور دوسرے مسلمانوں کا بیت المال میں برابر کا حق ہے تو اس چور کی حیثیت اس چور جیسی ہوجائے گی جو ایسے مال میں چوری کرلے جو اس کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان مشترک ہو۔ اس بنا پر ایسے چور کا ہاتھ نہیں جاٹا جائے گا۔ شراب کی چوری پر کیا حکم ہے اگر کوئی شخص کسی مسلمان یا ذمی کی شراب چرا لے تو اس کی قطع ید کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسے چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کوئی ذمی کسی مسلمان کی شراب یا سورچرا لے تو اس سے تاوان بھروا لیا جائے گا اور مسلمان کو سزا دی جائے گی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شراب ہمارے لیے مال کی حیثیت نہیں رکھتی البتہ ذمیوں کے لیے معاہدے اور ذمہ داری کی بنا پر اسے مال کی حیثیت سے رہنے دیا گیا ہے اس لیے اس کے چورکا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ کسی چیز کی دو کیفیتیں ہوں تو حکم بدل جاتا ہے اس لیے کہ جو چیز ایک حیثیت سے مال ہوا اور ایک حیثیت سے مال نہ ہو تو اسکی کم سے کم حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کی یہ کیفیت اور صفت اس کے چور سے حد سرقہ دور کرنے میں شک کا فائدہ دے جاتی ہے۔ جس طرح اس شخص کو شک کا فائدہ دے کر حد زنا سے بری کردیا جاتا یہ جو اس لونڈی سے ہم بستری کر بیٹھتا ہے جو اس کے اور کسی اور شخص کے درمیان مشترک ہوتی ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھے ، مسلمان کو شراب رکھنے اور پینے پر سزا ملتی ہے وہ اس کا پابند ہوتا ہے کہ شراب کو یا تو سرکہ میں تبدیل کرلے یا اسے بہادے ۔ اس لیے کہ جو شخص اس سے یہ شراب چوری کرلے گا تو وہ ایسی چیز سے اس کا قبضہ ختم کر دے گا جس پر قبضہ ختم کرنا خود اس مسلمان پر ضروری تھا اس لیے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ چوری کا اقبال جرم ایک بار کافی ہے یا نہیں جو شخص ایک دفعہ چوری کا اقبال جرم کرلے اس کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، زفر ، امام مالک ، امام شافعی اور سفیان ثوری کا قول ہے جو شخص ایک مرتبہ چوری کا اقبال جرم کرلے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ امام ابو یوسف ، قاضی ابن شبرمہ اور قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ جب تک دو دفعہ اقبال جرم نہیں کرے گا اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ عبد العزیز بن محمد در اور دی نے یزید بن خصیفہ سے روایت ہے ، انہوں نے محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ ایک حضور ﷺ کی خدمت میں پکڑا ہوا لایا گیا ۔ لوگوں نے عرض کیا اس شخص نے چوری کی ہے ۔ حضور ﷺ نے سن کر فرمایا :” میرا خیال نہیں کہ اس نے چوری کی ہوگی “ یہ سن کر چور نے کہا : ہاں ۔ چوری کی ہے ” اس پر حضور ﷺ نے اسے لے جا کر اس کا ہاٹھ کاٹنے کا حکم دیا اور اس حکم پر عمل درآمد ہوگیا ۔ عبد العزیز دراوردی کے علاوہ دوسرے رایوں نے بھی یزید بن خصیفہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے لیکن ان کی اسناد میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا ذکر نہیں ہے ، ان راویوں سفیان ثوری ابن جریج اور محمد بن اسحاق شامل ہیں ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند خود متصل ہو یا منقطع اس کا حکم ثابت ہے اس لیے کہ جن حضرات نے اسے مرسل حدیث کی صورت میں روایت کی ہے۔ یعنی صحابی کے واسطے کے بغیر ، ان کی یہ روایت ان لوگوں کی روایت کی صحت کے لیے مانع نہیں ہے جنہوں نے اس کے سلسلے سند کو صحابی کے واسطے سے حضور ﷺ تک پہنچا دیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ حدیث مرسل بھی وارد ہوتی پھر بھی اس کا حکم ثابت ہوجاتا اس لیے کہ جہاں تک کسی حکم کے واجب ہونے کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک مرسل اور موصول روایتیں اس لحاظ سے یکساں درجے کی ہوتی ہیں ۔ غرض اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور ﷺ نے اس شخص نے چوری کی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات اس طرح ہوتی تو حضور ﷺ صرف ان لوگوں کی گواہی پر انحصار کرلیتے اور اس شخص کو انکار کی تلقین نہ فرماتے۔ جب ان لوگوں کے اس قول کے بعد کہ اس شخص نے چوری کی ہے ۔ آپ نے یہ فرمایا وما اخالہ سوق میرا خیال نہیں کہ اس نے چوری کی ہوگی اور اس وقت تک اس کا ہاتھ قطع نہیں کیا جب تک اس نے اقبال جرم نہیں کرلیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ نے گواہی کی بنا پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا بلکہ اقبال جرم پر اس کا ہاتھ کاٹا تھا۔ اگر ہمارے مخالفین اس حدیث سے استدلال کریں جسے حماد بن سلمہ نے اسحاق سے ، انہوں نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے ، انہوں نے حضرت ابو ذر ؓ کے آزاد کردہ غلام ابو المنذر سے اور انہوں نے ابو امیہ مخزومی سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک چور کو پکڑ کر لایا گیا جس نے چوری کا اعتراف کرلیا لیکن مال برآمد نہیں ہوا ۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا ( ما اخالک سرقت میرا خیال نہیں کہ تم نے چوری کی ہوگی) چور نے یہ سن کر کہا :” اللہ کے رسول ؐ! ہاں چوری کی ہے ۔ “ اس پر آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا جس پر عمل درآمد ہوگیا ۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اعتراف جرم پر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا ، یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے پہلی حدیث سے زیادہ قوی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس حدیث میں اختلافی نکتے کا بیان نہیں ہے۔ وہ اس طرح کی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ چور نے دو یا تین دفعہ چوری کا اعتراف کیا تھا اس میں تو بس یہ ذکر ہے کہ چور کے اقرار سے پہلے آپ ﷺ نے اپنا فقرہ اس کے سامنے دو یا تین دفعہ دہرایا تھا اور اس کے بعد اس نے اعتراف جرم کرلیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ چور نے اعتراف کرلیا تھا اس کے بعد حضور ﷺ نے اس سے یہ فقرہ کہا تھا ( ما اخالک سوقت) اور دو یا تین مرتبہ اس فقرے کا اعادہ فرمایا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ حضور ﷺ کی طرف سے دو یا تین دفعہ فقرہ دہرانے کے بعد اس نے اقبال جرم کرلیا تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس شخص نے حضور ﷺ کے سوا کسی اور کے سامنے اقبال جرم کیا ہو اور یہ چیز کے لیے قطع ید کی موجب نہیں ہے۔ اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ اگر یہ بات ثابت بھی ہوجائے کہ حضور ﷺ نے اس کے پہلے اقبال جرم کے بعد اپنے فقرے کا اعادہ کیا تھا تو بھی اس بات پر دلالت نہیں ہوگی کہ اس کے پہلے اقرار سے قطع ید واجب نہیں ہوئی اس لیے کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ قطع ید تو واجب ہوچکی تھی لیکن حضور ﷺ کی خواہش یہ تھی کہ اس کے اقرار کے اسقاط کا کوئی ذریعہ نکل آئے اس لیے آپ نے بار بار اپنا فقرہ دہرا کر اسے اپنے اقرار سے رجوع کرلینے کی تلقین فرمائی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمای ما ینبغی لوال امرات یوتی الحد الا اقامۃ اس شخص کے لیے جسے والی اور حاکم مقرر کیا گیا ہو اس کے سوا اور کوئی بات مناسب نہیں کہ اس کے پاس جب کسی مجرم کو اس غرص سے لایا جائے کہ اس پر حد جاری کی جائے تو فوراً اس پر حد جاری کر دے۔ اگر اس شخص پر اس کے اقرار کی وجہ سے ابتدا ہی قطع ید واجب ہوجاتی تو حضور ﷺ اقرار سے رجوع کرنے کی تلقین میں مصروف نہ ہوجاتے بلکہ فوری طور پر اس پر حد جاری کردیتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قطع ید کا وجوب اس امر سے مانع نہیں ہوتا کہ امام المسلمین عجلت سے کام نہ لے کہ حقیقت کی جستجو کرتے ہوئے معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے ، نیز اس پر یہ بھی لازم نہیں ہوتا کہ فوری طور پر مجرم کا ہاتھ کاٹ دے۔ اس لیے کہ رجم کردینے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس معاملے کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش میں ان سے یہ کہتے رہے لعلک لمست لعلک قبلت شاید تم نے صرف ہاتھ لگایا ہو، شاید تم نے صرف بوس و کنار کیا ہو ۔ پھر آپ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ماعتر ؓ کے خاندان والوں سے یہ بھی پوچھا کہ ” ا س کی عقل ٹھکانے تو ہے ؟ “ کہیں اس پر دیوانگی توطاری نہیں ہوگئی ؟ آپ کی یہ پوچھ گچھ اس پر دلالت نہیں کرتی کہ چاردفعہ اقراء کی بنا پر اس پر رجم کی حد واجب نہیں ہوئی تھی ۔ اس لیے معترض کی بیان کردہ حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ اس حدیث کی معاض بن جائے جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ آپ نے اس شخص کے اقبال جرم کے بعد قطع ید کا حکم دے دیا تھا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ حضور ﷺ نے کبھی ایسی حد کے اجرا کے لیے قدم نہیں اٹھایا تھا جو ابھی واجب ہی نہیں ہوئی تھی لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ حقیقت حالت معلوم کرنے نیز احتیاط برتنے اور معاملے کی توثیق کی خاطر آپ نے واجب شدہ حد کے اجراء میں تاخیر کردی ہو ۔ ہماری ات توجیہ کی صحت پر ابن لہیعہ کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جو انہوں نے یزید بن ابی سے نقل کی ہے، انہوں نے عبد الرحمن بن ثعلبہ انصاری سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضرت عمرو بن سمرہ ؓ حضو ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ ” میں نے فلاں خاندان کا ایک اونٹ چرا لیا ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے ان لوگوں کی طرف پیغام بھیجا ، انہوں نے جواب میں کہا کہ ہمارا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے ۔ اس پر آپ ﷺ نے عمرو کی قطع ید کا حکم جاری کردیا اور ان کا ہاتھ قلم کردیا گیا ۔ اس روایت میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اقرار پر ان کا ہاتھ کاٹ دیا تھا۔ قیاس اور نظر کی جہت سے غور کرنے پر بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس چیز کی چوری کا اقرار کرلیا گیا ہو وہ یا تو یمین ہوگی یا غیر عین یعنی وہ ذوات القیم میں سے ہوگی ( ناپ یا تول کے تحت آنے والی چیز نہ ہوگی مثلاً کوئی جانور یا برتن یا کپڑا وغیرہ) یا ذوات الامثال میں سے ہوگی ( ناپ یا تول کے تحت آنے والی چیز ہوگی مثلاً گندم وغیرہ) اگر وہ عین یعنی ذوات القیم میں سے ہوا ور پہلی دفعہ اقرار کی بنا پر اس پر قطع ید واجب نہ ہو سکے تو پھر لا محالہ اس کا تاوان واجب ہوجائے گا اس لیے کہ چور کے پہلے اقرار کے ساتھ اس چیز میں آدمی کا حق ثابت ہوجائے گا اور اس کے لیے دوسری دفعہ اقرار تک تو قف نہیں کیا جائے گا جب مسروقہ چیز پر اس شخص کی ملکیت ثابت ہوجائے گی جس کے حق میں چور نے اقرار کیا ہے اور دوسری طرف قطع ید ثابت نہیں ہوگی تو پھر اس کا تو ان چور پر عائد ہوگا اور عین کے حصول کی صورت میں قطع ید کی نفی ہوجائے گی ۔ اگرچرائی ہوئی چیز غیر عین ذوات الامثال میں سے ہوگی تو چور کے پہلے اقرار کی بنا پر یہ چیز اس کے ذمہ دین یعنی واجب الادا بن جائے گی ۔ اس کے ذمہ اس چیز کا دین بن جانا قطع ید کی نفی کر دے گا جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب یہ بات جائز ہے کہ ایک چیز کو شروع ہی سے سرقہ کے طور پر لے لینے کا حکم قطع ید کے سلسلے میں تاوان کی نفی اور اس کے اثبات پر موقوف ہوتا ہے تو آپ نے تاوان لا حق ہونے کے سلسلے میں اس کے اقرار کے حکم کو قطع ید کے وجوب یا اس کے سقوط پر کیوں نہیں موقوف کیا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک کسی چیز کو سرقہ کے طورپر لے لینا ہی قطع ید کا وجوب ہوتا ہے۔ اس لیے قطع ید کا حکم کسی اور چیز پر موقوف نہیں ہوگا ۔ ایک چیز کو بطور سرقہ لے لینے کے بعد قطع ید کا سقوط ہی تاوان کا موجب ہوتا ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب سرقہ گواہوں کی گواہی کی بنا پر ثابت ہوجاتا ہے تو اس کا حکم بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ اب جب چورکا پہلا اقرار قطع ید کو واجب نہیں کرے گا تو اس اقرار کو تاوان کا موجب بن جانا چاہیے اور تاوان کا وجوب قطع ید کی نفی کر دے گا اس لیے کہ اس کا دوسرا اقرار اس تاوان کی نفی نہیں کرسکے گا جو پہلے اقرار کی بنا پر اس کے ذمے آگیا ہے اور قطع ید کی نفی کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی یہ تعلیل زنا کے اقرار کی صورت میں منتقض ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ زنا کے سلسلے میں اس کا پہلا اقرار جب حد کا موجب نہیں ہوگا تو اس کی وجہ سے مہر کا ایجاب ضروری ہوجائے گا اس لیے کہ ملک کے بغیر جماع یا تو حد کا موجب ہوتا ہے یا مہر کا ۔ جب حد منقضی ہوجائے گی تو مہر واجب ہوجائے گا ۔ زانی کا دوسرا ، تیسرا اور چوتھا اقرار اس مہر کو ساقط نہیں کرسکے گا جو شروع ہی سے پہلے اقرار کی بنا پر واجب ہوگیا تھا ۔ یہ چیز زنا کے اندر اقرار کی تعداد کے اعتبار کو ساقط کردیتی ہے۔ جب زنا میں اقرار کی تعداد کے اعتبارکا وجوب درست ہے حالانکہ اس کے ساتھ وہ علت بھی موجود ہے جو سرقہ میں اقرار کی تعداد کے اعتبار کو مانع ہے تو اس سے آپ کی تعلیل کا فساد اور بودا پن واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس بات کا ہم نے ذکر کیا ہے اس سے تمہارے اس اعتراض کا کوئی تعلق نہیں ہے وہ یہ کہ زنا میں شبہ کی بنا پر حد کے سقوط کی صورت میں مہر واجب نہیں ہوتا اس لیے کہ بضع یعنی نسوانی اعضائے جنس سے تلذذ کی قیمت یعنی مہر عقد نکاح یا شبہ عقد کی جہلت سے لا حق ہوتی ہے ۔ لیکن اگر یہ تلذ دونوں بتوں سے عاری ہو تو پھر مہر کا وجوب نہیں ہوگا ۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سب اس پر متفق ہیں کہ کوئی شخص اگر ایک مرتبہ زنا کے ارتکاب کا اقرار کر کے مرجائے یا ارتکاب زنا کا ثبوت گواہی وغیرہ کی شکل میں مل جائے اور حد جاری ہونے سے پہلے اس کی موت واقع ہوجائے تو اس کے مال میں مہر کا وجوب نہیں ہوگا ۔ اگر وہ شخص سرقہ کا ایک دفعہ اقرارکر کے مرجاتات و سب کے نزدیک اس کا تو ان اس کے ذمے آتا اس طرح سب کے قول سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اقرار کے ساتھ تاوان کا ایجاب ہوجاتا ہے اور زنا کے اقرار کے ساتھ حد لگے بغیر مہر کا سقوط ہوجاتا ہے۔ دوسرے حضرات نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو اعمش نے قاسم بن عبد الرحمن سے نقل کی ہے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہ ایک شخص نے آپ ؓ کے پاس آ کر چوری کے جرم کا دو مرتبہ اقرار کرلیا ۔ حضر ت علی ؓ نے اس سے فرمایا کہ تم نے اپنی ذات کے خلاف دوگواہیاں دی ہیں ۔ پھر آپ نے اس کا ہاتھ قلم کرا دیا ہے اور اسے اس کی گردن کے ساتھ لٹکا دیا ۔ لیکن اس روایت میں کوئی دلالت نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ حضرت علی ؓ کا مسلک یہ ہے کہ دو مرتبہ اقرار کے بغیر قطع ید نہیں ہوسکتی ۔ آپ نے تو صرف فرمایا تھا کہ تو نے اپنی ذات کے خلاف دو گواہیاں دی ہیں آپ نے یہ تو نہیں فرمایا کہ اگر تو صرف ایک گواہی دیتا تو میں تیرا ہاتھ نہ کاٹتا اس روایت سے یہ بات بھی معلوم نہیں ہوتی کہ جب تک اس شخص نے دو مرتبہ اقرار نہیں کرلیا اس وقت تک آپ نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا ۔ نظر اور قیاس کی جہت سے امامابو یوسف کے قول کے حق میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ حد صدقہ جب ایسی حد ہے جو شبہ کی بنا پر ساقط ہوجاتی ہے تو اس میں اقرار کی تعداد کا گواہی کی تعداد کے ساتھ اعتبار واجب ہوگا ۔ جب اس میں کم سے کم تعداد دو گواہوں کی گواہی ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ کم سے کم تعداد جس کے ذریعے اقرار درست ہوسکتا ہے وہ بھی دو ہونی چاہیے جس طرح زنا میں اقرار کی اس تعدا د یعنی چار کا اعتبار کیا گیا ہے جو گواہوں کی تعداد ہے۔ اس سے امام ابویوسف پر یہ بات لازم آتی ہے کہ شرب خمر کے اندر بھی اقرار کی تعداد کا اعتبار کریں ۔ میں نے ابو الحسن کرخی سے سنا تھا کہ انہیں شرب خمر کے سلسلے میں امام ابو یوسف سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب تک شرابی دو دفعہ اقرار نہیں کرے گا اس وقت تک اس پر حد جاری نہیں کی جائیگی ۔ جس طرح اس میں گواہوں کی تعداد بھی دو ہو۔ لیکن حد قذف کے سلسلے میں امام ابو یوسف پر یہ بات لازم نہیں آتی اس لیے کہ حد قذف کا مطالبہ آدمی کا حق شمار ہوتا ہے جبکہ بقیہ تمام حدود اس طرح نہیں ہوتے۔ ہمارے نزدیک قیاس کی یہ صورت جس کے ذریعے درج بالاسطور میں امام ابو یوسف کے قول کے حق میں استدلال کیا گیا ہے، ناقابل قبول ہے۔ اس لیے کہ مقاد کی تعیین قیاسات کے ذریعے نہیں ہوتی جبکہ مقادیر کا تعلق ان جیسے امور کے ساتھ ہو جو زیر بحث ہیں ۔ ان کی تعیین کا طریقہ توقیف ہے یا پھر اتفاق امت ۔ رشتہ دار کا مال چرانے کا بیان ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری والسارق والسارقۃ فاقطعو ایدیھماہر چور کی قطع ید کے ابجاب کے لیے عموم ہے الایہ کی تخصیص کی کوئی دلیل قائم ہوجائے جو اس نوع کی ہو جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ یا جس طرح ہم نے ابو الحسن کرخی سے نقل کیا ہے کہ یہ قول باری عموم نہیں ہے بلکہ یہ مجمل ہے جو اپنے حکم کے اثبات کے لیے ایسی دلالت کا محتاج ہے جو کسی اور ذریعے سے حاصل ہوجائے۔ ایک اور جہت سے اس پر غور کیا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ اس بات کی بنیاد پر یہ ہے کہ جس چیز کی تخصیص کا ثبوت پر سب کا اتفاق ہوچکا ہو اس کے عموم سے استدلال درست نہیں ہوتا ۔ ہم نے اصول فقہ میں اس بات کی پوری وضاحت کردی ہے ۔ محمد بن شجاع کا مسلک بھی ، یہی ہے تا ہم اگرچہ ہمارے نزدیک یہ قول باری عموم ہے لیکن اگر ہم اسے اس کے مقتضی کے ساتھ رہنے دیں تو ذی رحم محرم ( ایسا رشتہ دار جس کے ساتھ عقد نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے) کے سلسلے میں اس کی تخصیص کی دلالت واضح طور نظرآ سکتی ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ اس مسئلے میں اختلاف رائے کا ذکر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کی چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا ۔ محرم رشتہ دار وہ ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک کو مرد اور دوسرے کو عورت فرض کرلیا جائے تو ان کے درمیان اس رشتہ کی بنا پر عقد نکاح جائز نہ ہو۔ خاوند یا بیوی ایک دوسرے کا مال چرا لیں تو ہاتھ کاٹا جائے گا نہیں ؟ ہمارے اصحاب کے نزدیک اگر بیوی شوہر کا مال چوری کرلے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ اسی طرح اگر شوہر بیوی کا مال چرالے تو اس پر قطع ید واجب نہیں ہوگی ۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ محرم رشتہ دار کا مال چرانے پر چورکا ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا ۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر شوہر بیوی کا مال چرائے گا یا بیوی شوہر کا مال چرائے گی اور چوری کی یہ واردات اس جگہ کے علاوہ کہیں اور کی گئی ہو جہاں یہ دونوں سکونت پذیر ہوں تو اس صورت میں چور کا ہاتھ کاٹ دیاجائے گا، خواہ وہ شوہر ہو یا بیو ی ۔ رشتہ داروں کے سلسلے میں بھی امام مالک کے نزدیک یہی مسئلہ ہے۔ والدین کا مال چرانے پر سزا کا کیا حکم ہوگا ؟ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والدین کا مال چرا لے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا بشرطیکہ والدین کے پاس اس کا آنا جانا ہو ۔ اگر والدین نے اسے آنے جانے سے منع کر رکھا ہو اور پھر وہ ان کا مال چرالے تو اس صورت میں اس کا ہاتھ قلم کردیا جائے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جو شخص اپنے والدین یا دادا نانا وغیرہ کی چوری کرے اسکا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ اسی طرح اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا مال چرا لیں تو اس میں بھی قطع ید واجب نہیں ہوگی۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت کی دلیل یہ قول باری ہے لیس علیکم جناح ان تاکلوا من بیوتکم او بیوت اباء کم تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنے گھروں میں کھالو یا اپنے آباء کے گھروں میں جا کر کھالو تو قول باری اوما ملکتم مفاتحہ یا اس گھر سے جس کی کنجیوں کے تم مالک ہو۔ اگر تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ اشخاص کے گھروں میں جا کر کھا لینے کی اباحت کردی ہے اور یہ چیز ان گھروں میں گھر والوں کی اجازت کے بغیر دخول کی اباحت کی بھی مقتضی ہے۔ جب ان لوگوں کا ان گھروں میں داخلہ جائز ہے تو ان گھروں میں رکھی ہوئی چیزیں محفوظ جگہوں میں رکھی ہوئی چیزیں قرار نہیں پائیں گی۔ جبکہ قطع ید کا وجوب اسی صورت میں ہوتا ہے جبکہ محفوظ جگہ سے کوئی چیز چرا لی گئی ہو ۔ نیز آیت میں مذکورہ اشخاص کا مال کھانے کی اباحت ان کا مال چرا لینے کی صورت میں قطع ید کو مانع ہے اس لیے کہ ان اموال میں چور کا بھی حق ہے جس طح شریک اور حصہ دار وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ دوست کا مال چرانے پر سزا اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے اوصدیقکم یا اپنے دوست کے گھر سے کھالو لیکن اس کے باوجود اگر دوست دوست کی چوری کرلیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت دوست کا مال چرانے پر قطع ید کی نفی کرتی ہے لیکن ہم نے سب کے اتفاق کی دلالت کی بنا پر اس کی تخصیص کردی گئی ہے اور اسکے سوا بقیہ تمام صورتوں کے لیے لفظ کی دلالت بحالہ باقی ہے ۔ علاوہ ازیں ایک شخص جب اپنے دوست کا مال چرانے کا قصد کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اس کا دوست نہیں رہتا ۔ زیر بحث مسئلے کی ایک دلیل اور بھی ہے وہ یہ کہ ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ آیت میں مذکورہ اشخاص پر ضرورت کے وقت اس شخص کی کفالت واجب ہوتی ہے جو ان کا محرم رشتہ دار ہے اور اب اس نے ان کے مال میں چوری کا ارتکاب کیا ہے۔ اس ضرورت مند شخص کے لیے کسی بدل کے بغیر انکے مال میں سے لے لینا جائز ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ شخص ان کا مال چرا کر بیت المال سے چوری کرنے والے کے مشابہ ہوگیا اس لیے کہ بیت المال میں ضرورت کے وقت چور کا حق بھی ثابت ہوتا ہے اور اس پر اس کا کوئی بدل بھی لازم نہیں آتا ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ ضرورت کے وقت یہ حق تو اجنبی کے مال میں بھی ثابت ہوجاتا ہے لیکن مال چرانے کی صورت میں یہ چیز اس کی قطع ید سے مانع نہیں ہوتی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی دو وجوہ ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اجنبی کے مال میں یہ حق ضرورت کے وقت اور جان جانے کے خوف کی صورت میں ثابت ہوتا ہے۔ لیکن آیت میں مذکور رشتہ داروں کے مال میں یہ حق فقرا اور کسب معاش سے معذور ہوجانے کی صورت میں بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ اس لیے دونوں صورتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اجنبی ضرورت کے وقت یہ مال کسی بدل کے مقابلہ میں لیتا ہے لیکن رشتہ دار کی صورت میں بدل کے بغیر ہی وہ ان کے مال کا مستحق ہوجاتا ہے جس طرح ایک شخص کسی بدل کے بغیر بیت المال کے مال کا مستحق ہوجاتا ہے۔ نیز جب جان کی حفاظت اور اعضائے جسمانی کے تحفظ کے لیے مال کے اندر استحقاق پیدا ہوجاتا ہے بشرطیکہ اس کی ضرورت پیش آ جائے۔ دوسری طرف اس چور کو اپنے رشتہ داروں کے مال کی ضرورت تھی تا کہ کسی اور کی چوری نہ کر کے وہ اپنے ہاتھ کو قطع ید کے حکم سے بچا ک زندہ رکھ سکے تو اس صورت میں اس کی حیثیت اس فقیر جیسی ہوگئی جو اپنے مجرم رشتہ دار سے اس بنا پر اخراجات حاصل کرنے کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنی جان زندہ رکھ سکے یا اپنے بعض اعضاء کو تلف ہونے سے بچا لے نیز ایسے شخص کو باپ پر بھی ہمارے ذکر کردہ معنی میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔ جس چیز کی چوری پر قطع ید ہوچکی ہو اس چیز کو دوبارہ چرا لینے والے کا حکم ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص کوئی کپڑا وغیرہ چرا لے اور اسے قطع ید کی سزا بھی مل جائے وہی چور پھر اسی کپڑے کو دوبارہ چرا لے تو اس مرتبہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ اس مسئلے کی اصل یہ ہے کہ ہمارے نزدیک قیاس کے ذریعے حدود کا اثبات جائز نہیں ہوتا اس کا طریقہ توقیف ہے یا پھر اتفا ق امت ۔ جب زیر بحث مسئلے میں ہمارے سامنے یہ دونوں باتیں موجود نہیں ہیں تو اب قیاس کے سوا کسی اور ذریعے سے اس کا اثبا ت نہیں ہوسکتا اور یہ چیز ہمارے نزدیک درست نہیں ہوتی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ دوسری دفعہ چوری کرنے سے پہلے قول باری السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما کے اندر چوری کی سزا کے متعلق عموم موجود ہے ، اس عموم کے تحت آپ نے دوسری مرتبہ چوری کرنے پر اس کا ہاتھ کیوں نہیں کاٹ دیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کا عموم دوسر ی چوری کو شامل نہیں ہے اس لیے کہ اگر قطع واجب ہوجائے تو یہ چوری پائوں کاٹنے کی موجب ہے جبکہ آیت میں قطع ید کا حکم ہے۔ نیز قطع سرقہ کا وجوب سرقہ کے فعل اور عین یعنی چرائی ہوئی چیز دونوں سے متعلق ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب قطع کا سقوط ہوتا ہے تو عین کا تاوان واجب ہوجاتا ہے۔ جس طرح زنا کی حد کا جب وطی کے ساتھ تعلق ہوتا ہے تو حد کا سقوط وطی کے تاوان کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح جب قصاص کے وجوب کا تعلق قتل نفس کے ساتھ ہوتا ہے تو قصاص کا سقوط جان کے تاوان کا موجب بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح سرقہ میں قطع کے سقوط پر عین کے تاوان کا وجوب اس سلسلے میں عین کے اعتبار کا موجب بن جاتا ہے۔ جب دو عین کے اندر سرقہ کا ایک فعل صرف ایک دفعہ قطع کا موجب ہوتا ہے یعنی اگر کوئی شخص بیک وقت دو چیزیں چرا لے تو اس کی سزا میں صرف ایک دفعہ قطع ید ہوتی ہے۔ تو ایک عین کے اندر دو دفعہ سرقہ کے فعل کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے یعنی صرف ایک دفعہ قطع ید کا وجوب ہونا چاہیے اسی لیے کہ قطع کے ایجاب میں فعل سرقہ اور عین یعنی چرائی ہوئی چیز میں سے ہر ایک کا اثر اور دخل ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص جب کسی عورت کے ساتھ منہ کالا کرلے اور اس پر حدزنا جاری ہوجائے تو دوبارہ اسی عورت کے ساتھ زنا کے ارتکاب پر دوبارہ اس پر حد زنا جاری ہوتی ہے حالانکہ اس صورت میں ایک ہی عین ( عورت) میں دو دفعہ فعل زنا وقوع پذیر ہوا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حد زنا کے وجوب کے تعلق کے سلسلے میں عورت کی اپنی ذات کا کوئی اثر اور داخل نہیں ہوتا ، بلکہ حد زنا کے وجوب کا تعلق وطی کے فعل کے ساتھ ہوتا ہے کسی اور چیز کے ساتھ تعلق ہوتا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حد ساقط ہوجاتی ہے وطی کا تاوان لازم آ جاتا ہے ، عورت کی ذات کا تاوان پبھرنا لازم نہیں آتا۔ لیکن سرقہ میں حد کے سقوط پر عین سرقہ یعنی چرائی ہوئی چیز کا تاوان آ جاتا ہے یعنی چور سے وہ چیز رکھوالی جاتی ہے، نیز قطع ید کے بعد چور کے پاس موجود چیز جب مباح اور معمولی چیز کے حکم میں ہوجاتی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ اس چیز کو اپنے مصرف میں لے آنے کی صورت میں اس پر اس کا تاوان واجب نہیں ہوتا تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس چیز کو دوبارہ چرانے پر اسے قطع کی سزا نہ دیا جائے۔ جس طرح ان چیزوں کی چوری قطع کی سزا نہیں دی جاتی جو اصل کے اعتبار سے مباح اور معمولی چیزیں شمار ہوتی ہیں اگرچہ وہ چیز لوگوں کی ملکیت ہوتی ہیں مثلاً مٹی ، لکڑی ، خشک گھاس اور پانی وغیرہ۔ اسی بنا پر فقہاء کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے سو ت چرا لی ہو اور اس کی سزا میں ق طع ید ہوگئی ہو پھر اس نے اس سوت سے کپڑا بنا لیا ہوا اگر یہی کپڑا وہ دوبارہ چرائے گا تو اسے قطع کی سزا دی جائے گی۔ اس لیے کہ کا تے ہوئے سوت میں کپڑا بننے کا عمل اس سے اباحت کے حکم کو رفع کر دے گا ۔ اباحت کا یہی حکم قطع کے وجوب سے مانع تھا جب یہ حکم اٹھ گیا تو اب قطع کا حکم لاحق ہوجائے گا جس طرح کسی نے لکڑی چرائی ہو تو اس کی سزا میں قطع ید نہیں ہوگی۔ لیکن اگر لکڑی بڑھئی کے ہاتھوں بنے ہوئے دروازے کی شکل میں ہوتی اور پھر وہ اسے چرا لیتا تو اس صورت میں اسی کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ۔ اس لیے کہ بڑھئی کے عمل کی وجہ سے یہ لکڑی اپنی پہلی حالت سے نکل آئی تھی اور اس نے ایک نئی شکل اختیار کرلی تھی ۔ نیز جب ایک چیز چرانے پر قطع ید ہوجاتی ہے اور قطع ید کی یہ سزا اس چیز کو اپنے مصرف میں لے آنے کی صورت میں چور کو تاوان بھرنے سے بری کردیتی ہے تو اس طرح گویا قطع اس مسروقہ چیز کی قیمت کی ادائیگی کے قائم مقائم ہو کر اس چیز کا معاوضہ بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ مسروقہ چیز پر چور کی ملکیت کے وقوع پذیر ہونے کے مشابہ ہوجاتی ہے اس لیے کہ چور پر اس کے بدل کا استحقاق چور کی ملکیت کا موجب بن جاتا ہے۔ جب اس جہت سے مسروہق چیز اس کا مملوکہ اشیاء کے مشابہ ہوگئی تو دوبارہ اس چیز کو چرانے پر قطع کا حکم ساقط ہوگیا اس لیے کہ جب ایک چیز کے بارے میں اس وجہ سے شبہ پیدا ہوجائے کہ وہ ایک جہت سے مباح چیز کے مشابہ ہوا اور ایک جہت سے مملوکہ چیز کے مشابہ تو اس قسم کے شبہ کی بنا پ قطع کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ چور اگر مال مسروقہ کو باہر لے جانے سے پہلے پکڑ لیا جائے تو اس کا حکم ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء امصار اس پر متفق ہیں کہ اس صورت میں قطع واجب نہیں ہوتی الایہ کو چور مسروقہ چیز کو اس کی محفوظ جگہ سے علیحدہ کر دے۔ دار یعنی گھر کا سارا احاطہ ایک حرز یعنی محفوظ جگہ ہے اس لیے جب تک وہ مسروقہ چیز کو گھر کے احاطہ سے باہر نہیں لے جائے گا قطع ید واجب نہیں ہوئی ، حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ سے یہی مروی ہے۔ ابراہیم نخعی کا بھی یہی قول ہے۔ یحییٰ بن سعید نے عبد الرحمن بن القاسم سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو جب یہ اطلاع ملی کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ چور اگر مال مسروقہ کا باہر نہیں لے گیا ہو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ تو آپ نے فرمایا :” اگر مجھے صرف ایک چھری مل جائے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں “ سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حسن سے روایت کی ہے کہ اگر چورگھر کے اندر ہی مل گیا تو بھی اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ کسی آدمی کا گھر کے اندر گھس آنا اسے چور کے نام سے موسوم کرنے کا مستحق قرار نہیں دیتا اس لیے صرف اتنی بات پر قطع ید کے ایجاب درست نہیں ہوگا ۔ حرز کے اندر اس کا چیز کو اٹھا لینا بھی قطع کا موجب نہیں بن سکتا اس لیے کہ چیز بھی اپنے حرز میں موجود ہے۔ جب چور اسے حرز سے باہر نہیں لے گیا تو گویا اس نے اٹھایا ہی نہیں اس لیے اس پر قطع واجب نہیں ہوگی ۔ اگر اس جیسی صورت میں قطع واجب ہوجائے تو پھر حرز کے اعتبار کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ قطع ید کے بعد چور کا تاوان بھرنا امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف ، امام محمد ، زفر ، سفیان ثور ی اور ابن شبرمہ کا قول ہے کہ جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور مال مسروقہ بعینہٖ موجود ہو تو مسروق منہ یعنی اس کا مالک اسے اپنے قبضے میں لے لے گا ، اگر مال مسروقہ صرف کیا جا چکا ہو تو چور پر کوئی تاوان لازم نہیں ہوگا ۔ مکحول ، عطاء ، شعبی ، ابن شبرمہ اور ابراہیم نخعی کا ایک قول یہی ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر چور مالدار ہو تو تاوان بھر دے گا اور اگر تنگدست ہو تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں آئے گی ۔ عثمان البتی ، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ چور مال مسروقہ کا تاوان بھرے گا خواہ وہ ضائع کیوں نہ ہوچکا ہو ۔ حسن ، زہری ، حماد اور ابراہیم نخعی کا ایک قول یہی ہے۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جب مال مسروقہ بعینہٖ موجود ہو تو اس کا مالک اسے لے لے گا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹ دیا تھا جس نے حضرت صفوان ؓ کی چادر چرالی تھی اور چادر انہیں واپس کردی تھی ۔ قطع ید کے بعد تاوان کی نفی پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے فاقطعوا ایدیھما جزاء بملکسبا نکالا من اللہ جزائ اس چیز کا اسم ہے جس کا کوئی شخص کسی فعل کی بنا پر مستحق قرار پاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے چور کے فعل پر اسے قطع ید کی صورت میں پوری جزاء کا مستحق قرار دیا تو اب اس کے ساتھ تاوان کا ایجاب جائز نہیں رہا کیونکہ اس کی وجہ سے منصوص حکم میں اضافہ لازم آتا ہے اور یہ بات صرف اسی طریقے سے جائز ہوسکتی ہے جس طریقے سے نسخ کا جواز ہوتام ہے۔ اسی طرح قول باری انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ پوری جزا وہ ہے جو آیت میں مذکور ہے اس لیے کہ قول باری انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ آیت میں مذکور جزاء کے علاوہ اور بھی کوئی جزا ہے۔ سنت کی جہت سے عبد اللہ بن صالح کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے۔ انہیں مفضل بن فضالہ نے یونس بن یزید سے یہ روایت سنائی ، انہیں سعد بن ابراہیم نے بتایا کہ میں نے اپنے بھائی مسور بن ابراہیم کو حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا اذا اقمتم علی السارق الحلہ فلا غرمہ علیہ جب تم چور پر حد سرقہ جاری کردو تو اس کے بعد اس سے کوئی تاوان نہ بھروائو۔ ہمیں بعد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں محمد بن نصر بن صہیب نے ، انہیں ابوبکر بن ابی شجاع الادمی نے ، انہیں خالد بن خداش نے ، انہیں اسحاق بن الفرات نے ، انہیں الفضل بن فصالہ نے یونس سے، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے ، انہوں نے مسوربن ابراہیم سے ، انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ سے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک چور کو پکڑ کر لایا گیا ۔ آپ ﷺ نے اس کو قطع ید کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ لاعزم علیہ اس پر کوئی تاوان نہیں ۔ عبد الباقی نے کہا ہے یہی اسناد درست ہے ، خالد بن خداش کو اس اسناد میں غلطی لگ گئی ہے۔ انہوں نے مسور بن ابراہیم کی جگہ مسور بن مخرمہ بیان کردیا ہے ( مسور بن مخرمہ ؓ صحابی ہیں) نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے وہ یہ کہ ایک ہی فعل کی سزا میں حد اور مال کا اکٹھا ہوجانا ممتنع ہے جس طرح زنا کے فعل کی صورت میں حد اور مہر دونوں جمع نہیں ہوسکتے یا قتل کے فعل میں قصاص اور دیت دونوں اکٹھے نہیں کیے جاسکتے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا کہ قطع ید کا وجوب مال کے تاوان کی نفی کر دے اس لیے کہ حدود کے اندر مالکا وجوب صرف شبہ کی بنا پر ہوتا ہے اور شبہ کا وجود قطع ید کی نفی کردیتا ہے۔ ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ ہمارے اصول کے مطابق ضمان ایجاب ملک کا سبب ہوتا ہے ۔ اس لیے اگر ہم چور سے اس بنا پر تاوان بھروالیں گے کہ وہ مسال مسروقہ لے جانے کی بنا پر اس کا مالک ہوگیا تھا جو تاوان کا موجب بن گیا تو اس صورت میں اس کی قطع ید اپنی ملکیت کی چیز لینے کی بنا پر واقع ہوگی جب کہ یہ بات ممتنع ہے۔ جب ہمارے لیے قطع ید کو ٹالنے کو کوئی راستہ نہیں اور تاوان کے ایجاب کے قطع کو ٹالنا اور اسے ختم کردینا لازم آئے گا اس لیے تاوان کا وجوب ممتنع ہوجائے گا ۔
Top