Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
پھر جس نے توبہ کرلی اپنے ظلم کے بعد اور اس نے اصلاح کرلی (اپنے بگاڑ کی) تو بیشک اللہ توجہ فرمائے گا اس پر (اپنی نظر رحمت و عنایت سے کہ) بیشک اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے،
96 آخرت میں معافی کیلئے سچی توبہ ضروری ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر جس نے توبہ کرلی اپنے ظلم کے بعد اور اس نے اصلاح کرلی اپنے بگاڑ کی تو بیشک اللہ اس پر توجہ فرمائے گا اپنی رحمت و عنایت سے۔ یعنی آخرت کے بارے میں کہ وہاں اس کو سزا نہیں دے گا۔ رہ گئی قطع ید کی دنیاوی سزا تو وہ اس توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ (جامع البیان وغیرہ) ۔ پس معلوم ہوا کہ بغیر توبہ کے آخرت کی سزا معاف نہیں ہوتی۔ روایات میں ہے کہ ایک ملحد بےدین شخص نے قطع ید کی اس اسلامی سزا پر اعتراض کیا کہ اسلام نے جب ہاتھ کی دیت پانچ سو دینار رکھی تو پھر اسے پانچ درہم کی چوری میں کاٹ دینا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ تو اس وقت کے اہل حق میں سے ایک عالم دین نے اس کا جواب یہ دیا کہ جب یہ ہاتھ امانت دار تھا تو اس کی قدر و قیمت اتنی زیادہ تھی۔ اور جب یہ خیانت کا مرتکب ہوا تو اس قدر ذلیل و خوار ہوگیا کہ اتنی چوری پر اس کے کاٹنے کا حکم دے دیا گیا۔ ( اِنَّہَا لَمَّا کَانَتْ اَمِیْنَۃً کَانَتْ ثَمِیْنَۃً وَلَمَّا خَانَتْ ہَانَتْ ) (معارف وغیرہ) ۔ سو اصل قدر و قیمت دین و ایمان سے ہے کہ اسی سے انسان دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند اور سرفراز ہوتا ہے۔ ورنہ ایمان و عقیدہ اور دولت یقین سے محروم انسان کجراہ ہے۔ بلکہ اس سے بھی برا اور " شر البریہ " ۔ بدترین مخلوق ۔ ہے جس نے دوزخ کا ایندھن بننا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top