Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی ‘ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
(آیت) ” فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِہِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللّہَ یَتُوبُ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ(39) ” اور وہ دانا وبینا ہے ۔ پھر جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ کی نظر عنایت پھر اس پر مائل ہوجائے گی ‘ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) ” اللہ کی حکمرانی ایک ہے ‘ وہ مالک الملک ہے ‘ وہی ہے جو اس دنیا کے لئے قانون بناتا ہے اور آخرت میں پھر اس قانون کے مطابق جزا وسزا مقرر کرتا ہے ۔ ان معاملات میں نہ تعدد ہے ‘ نہ کوئی تقسیم ہے اور نہ یہ معاملات ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ لوگوں کے معاملات اس وقت تک درست نہیں ہوسکتے جب تک حق قانون سازی اور نظام جزاوسزا دنیا اور آخرت دونوں میں ایک ہی ذات باری میں مرتکز نہ کردیا جائے ۔ اس لئے کہ اگر اس کائنات میں صرف اللہ الہ نہ ہوتا اور متعدد الہ ہوتے تو یہ کب کی تباہ ہوچکی ہوتی ۔ پس وہی ہے جو آسمانوں میں بھی الہ ہے اور زمین میں الہ۔ درس نمبر 49 ایک نظر میں : اس سبق میں اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام حیات کا نہایت ہی اہم مسئلہ لیا گیا ہے ۔ اس پر اسلامی نظام حکومت اور اسلامی زندگی کا دارومدا رہے ۔ سورة آل عمران اور سورة نساء میں بھی اس مسئلے کا بار بار ذکر ہوا ہے لیکن یہاں اس سبق میں اسے نہایت ہی واضح اور قطعی شکل میں لے لیا گیا ہے ۔ یہاں اس مسئلے کو اشارۃ النص یا مفہوم آیت کے طور پر نہیں لیا گیا نہ بطور اقتضاء النص لیا گیا ۔ یہاں اسے عبارۃ النص اور قضی الدلالت کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ یہ مسئلہ نظام حکومت ‘ قانونی نظام اور عدالتی نظام سے متعلق ہے اور اس کی اساس پر مسئلہ توحید ‘ مسئلہ حاکمیت الہیہ اور ایک شخص کے ایمان کے ہونے نہ ہونے کا دارومدار ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام حکومت ہمارا قانونی نظام اور ہمارا نظام عدالت آیا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہوگا ‘ شریعت کے مطابق ہوگا اور ان شرائع کے مطابق ہوگا جو ادیان سماوی میں محفوظ رہی ہیں ۔ سابقہ رسل اور اس رسول آخر الزمان کی شریعت کے مطابق ہوگا یا ہماری خواہشات بدلتی ہوئی خواہشات یا ہمار مصالح اور بدلتے ہوئے مصالح کے مطابق ہوگا جو اللہ کی شریعت کے مطابق نہیں ہیں یا صرف کسی دوریا کسی نسل کے رسم و رواج کے مطابق متغیر اور متبدل ہوتا رہے گا ۔ آیا لوگوں کی زندگی اور اس کرہ ارض پر حاکمیت ‘ ربوبیت اور قیومیت اللہ کی ہوگی یا اس میں سے بعض چیزیں اللہ کی اور بعض دوسرے لوگوں کی ہوں گی ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے ۔ اس نے لوگوں کے لئے ایک شریعت نازل کی ہے اور یہ شریعت اور قانون اس کی حاکمیت کے مطابق ہے ۔ اس نے لوگوں سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ اللہ کی شریعت پر قائم رہیں گے اور اس کرہ ارض پر یہی شریعت حاکم رہے گی ۔ اور لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اسی شریعت کے مطابق اپنی عدالتیں چلائیں اور انبیاء کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کے مطابق کام کریں ۔ انبیاء کے بعد حکام کا فرض بھی یہی ہے کہ وہ اس کے مطابق فیصلے کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اس مسئلے میں کوئی جھوٹ اور کوئی خود مختاری نہیں ہے ۔ اس مسئلے میں زندگی کے معاملات میں سے چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں انحراف ناقابل برداشت ہے ۔ اگر کوئی پوری نسل کسی بھی دور میں کوئی قانون اس کے مقابلے میں وضع کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ نہ کسی قبیلے یا کسی قوم کا کوئی اصول اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت رکھتا ہے الا یہ کہ اللہ نے کسی چیز کا اذن دے دیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہاں سوال یا تو ایمان وکفرکا ہے یا اسلام اور جاہلیت کا یا شریعت ہوگی یا نفسانیت ۔ اس معاملے میں نہ کوئی بین بین مقام ہے ۔ نہ نرمی ہے اور نہ مصالحت ہے ۔ مومنین وہی لوگ ہیں جو اللہ کے قانون کے مطابق حکم کرتے ہیں ۔ اس سے ذرہ برابر انحراف نہیں کرتے اور اس میں ایک حرف کی تبدیلی نہیں کرتے ، ظالم ‘ فاسق ‘ اور کافر وہ لوگ ہیں جو اس معاملے میں انحراف کرکے فیصلے اللہ کے قانون شریعت کے مطابق نہیں کرتے ۔ حکمران اگر اللہ کی شریعت کے مطابق حکمران ہوں گے تو وہ دائرہ ایمان میں داخل ہوں گے یا وہ کسی دوسرے آئین ودستور و قانون پر چلتے ہوں گے جس کی اجازت اللہ نے نہ دی ہوگی تو وہ کافر ‘ فاسق اور ظالم ہوں گے ۔ لوگوں کے لئے دو ہی راستے ہیں ‘ یا تو وہ حکام اور ججوں کی جانب سے اللہ کے قانون کے مطابق جاری کردہ فیصلے قبول کریں گے اور اپنی زندگی کے تمام امور میں ایسا کریں گے تو وہ مومن ہوں گے اور اگر وہ یہ راہ اختیار نہ کریں گے تو وہ مومن نہ ہوں گے ۔ ان دو راستوں کے درمیان کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے ۔ نہ اس معاملے میں کوئی حجت بازی کام دے گی ‘ نہ کوئی معذرت قبول ہوگی ‘ نہ کوئی مصلحت قبول ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ بہر حال لوگوں کا رب ہے اور وہی جانتا ہے کہ لوگوں کی مصلحت کس میں ہے ؟ اللہ تعالیٰ لوگوں کی حقیقی بہبود کے لئے قانون سازی کرتا ہے لہذا اللہ کی شریعت اور احکام سے کوئی قانون اور کوئی آرڈر بہتر نہیں ہو سکتا ۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اللہ کی شریعت کو تسلیم نہیں کرتا ۔ یا یہ کہ وہ اللہ سے زیادہ لوگوں کی مصلحت کے بارے میں جانتا ہے ۔ اگر کوئی اپنی زبان اور اپنے عمل سے ایسا کہے تو وہ دائرہ ایمان سے خارج تصور ہوگا ۔ یہ ہے وہ عظیم مسئلہ جو اس سبق میں فیصلہ کن انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سبق میں یہودیوں کے حالات بھی بیان کئے گئے ہیں جو مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے تھے جو منافقین کے ساتھ مل کر اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور داؤ پیچ لڑا رہے تھے ۔ (آیت) ” من الذین قالوا امنا باافواھھم ولم تو من قلوبھم “۔ (5 : 41) (ان لوگوں سے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہ لائے تھے) اس میں وہ حالات بھی بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق حضور اکرم ﷺ ان سازشوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور جن سے یہودی حضور اکرم ﷺ کے زمانہ سے آج تک باز نہیں آئے ۔ اس سبق میں قرآن کی عبارتوں سے کئی باتیں نکلتی ہیں ۔ پہلا فیصلہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام ادیان جو اللہ کی جانب سے نازل ہوئے ان میں تمام فیصلے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہوتے رہے ۔ ان کے اندر زندگی کا پورا نظام اللہ کی شریعت پر قائم ہوتا رہا ۔ یہ بات اسلام اور کفر کے اندر حد فاصل رہی ‘ اسلام اور جاہلیت کے اندر فرق و امتیاز کی بنیاد رہی اور شریعت اور ہوائے نفس کے درمیان جدائی کی اساس رہی کہ شریعت کے مطابق فیصلے کراتا ہے اور کون نہیں کراتا ہے۔ توراۃ کو بھی اللہ نے اس لئے نازل فرمایا کہ اس میں ہدایت اور نور تھا ۔ (آیت) ” یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّونَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِیْنَ ہَادُواْ وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن کِتَابِ اللّہِ وَکَانُواْ عَلَیْْہِ شُہَدَائ۔ (5 : 44) (سارے نبی جو مسلم تھے ‘ اسی کے مطابق ان یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی ۔ (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے) دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” وعندھم التورۃ فیھا حکم اللہ “ (5 : 43) (اور انکے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم ہے) اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ (آیت) ” وکتبنا علیھم علیھم فیھا ان النفس بالنفس) (اور ہم نے اس میں ان پر یہ فرض کردیا کہ جان کے بدلے جان ہوگی ) اور حضرت ابن مریم عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل دی گئی ۔ (آیت) ” مصدقالما بین یدیہ من التورت وھدی وموعظۃ للمتقین (46) والیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ “۔ (47) (5 : 46۔ 47) (اور وہ تورات میں سے جو کچھ اس وقت موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور خدا ترس لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی ، ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اس قانون کے مطابق فیصلے کریں جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے) پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی پر قرآن کریم نازل فرمایا ۔ (آیت) ” بالحق مصدقالما بین یدیہ من الکتب ومھیمنا علیہ (5 : 48) (سچائی کے ساتھ اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ اور نگہبان ہے) اور نبی آخر الزمان کو حکم دیا گیا : (آیت) ” فاحکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوآء ھم عما جآءک من الحق (5 : 48) (لہذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو) اور پھر کہا : (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفسقون “۔ (5 : 47) (جو لوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں) اور یہ حکم دیا : (آیت) ” افحکم الجاھلیۃ یبغون ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون “۔ (5 : 50) (تو پھر کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں کے نزدیک اللہ بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے) ان آیات سے صاف نظر آتا ہے کہ تمام ادیان کا اس نکتے پر پورا پورا اتفاق رہا ہے ۔ یوں اسلامی حدود متعین ہوجاتی ہیں اور اسلام کی سرائط کا تعین ہوجاتا ہے ۔ محکموں اور عدالتوں کے لئے بھی اور حکام کے لئے بھی ۔ اصل بات یہ ہے کہ تمام فیصلے اللہ کے احکام کے مطابق کئے جائیں اور عوام الناس ان فیصلوں کو قبول کریں ۔ اور اسلامی قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین اور احکام کے پیچھے نہ بھاگیں ۔ اس فریم ورک میں یہ مسئلہ نہایت ہی اہمیت اختیار کرجاتا ہے اور اس زاویے سے اس پر زور دینے کے اسباب بھی لازما نہایت ہی اہم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ اسباب کیا ہیں ؟ چاہے ان اسباب کی تلاش ہم ان نصوص کے اندر کریں یا پوری قرآنی آیات وعبارات میں کریں یہ اسباب ہمیں بالکل واضح نظر آتے ہیں ۔ ان میں پہلا سبب یہ ہے کہ یہ دراصل اللہ کی الوہیت اس کی ربوبیت اور حاکمیت کے اقرار کا مسئلہ ہے اور یہ کہ اس کے ساتھ ان امور میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس کے انکار کا مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ ایمان اور کفر کا معاملہ بن جاتا ہے ۔ اسلام اور جاہلیت کا مسئلہ ہے ۔ یا جاہلیت ہوگی یا اسلام ہوگا ۔ آپ پورے قرآن پر نگاہ ڈالیں ۔ یہ ایک نمائش گاہ ہے لیکن اس میں جہاں دیکھو اس ایک ہی حقیقت کو برائے مشاہدہ پیش کیا گیا ہے ۔۔۔۔ ۔۔ یہ کہ اللہ وحدہ ہی خالق ہے ‘ اسی نے اس پوری کائنات کو پیدا کیا ‘ اسی نے اس انسان کو پیدا کیا ‘ اسی نے اس زمین و آسمان کو اور ان کے درمیان پائے جانے والی تمام اشیاء کو اس انسان کے لئے مسخر کیا ۔ تخلیق صرف اللہ کی ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ‘ چاہے یہ مخلوق چھوٹی ہو یا بڑی ‘ تھوڑی ہو یا زیادہ ہو ۔۔۔۔۔ یہ کہ اللہ ہی مالک ہے اور وہ مالک اس لئے ہے کہ وہی خالق ہے ۔ زمینون اور آسمانوں اور ان دونوں کے درمیان اور آسمانوں اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ بھی ہے اس کا مالک ہے اور وہ مالک اس لئے ہے کہ وہی خالق ہے ۔ زمینوں اور آسمانوں اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ بھی ہے اس کا مالک اللہ ہے ‘ وہ منفردا مالک ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ پھر یہ کہ اللہ رازق ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی اور ذات انسان کو یا دوسرے جانداروں کو رزق فراہم نہیں کرسکتی نہ کم اور نہ زیادہ ۔ اور پھر کہ اللہ اس کائنات کا شہنشاہ اور اس کے اندر متصرف ہے اور وہ لوگوں کے لئے بھی متصرف الامور ہے ۔ اس لئے کہ وہی خالق ‘ وہی مالک اور وہی رازق ہے اور وہ اس قدر قدرتوں کا مالک ہے جس کی قدرت کاملہ کے بغیر نہ تخلیق ہو سکتی ہے اور نہ رزق مل سکتا ہے اور نہ نفع ونقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اسی پوری کائنات پر اس کی حکمرانی ہے ۔ اب ایمان کیا ہے ‘ ان مذکورہ بالاامور کا اقرار ایمان ہے یعنی یہ کہ حاکمیت ‘ ملکیت اور ربوبیت میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ یہ خصائص صرف ذات باری کو حاصل ہیں ۔ اسلام درحقیقت سرتسلیم خم کردینے کا نام ہے اور ان خصوصیات کے تقاضوں کے اندر اللہ کی اطاعت کا نام اسلام ہے یعنی الوہیت ‘ ربوبیت ‘ قیومیت اور حاکمیت کا حق صرف ذات باری کو حاصل ہے ‘ اس پوری کائنات پر جس کے اندر انسان اس کا ایک جزء ہے ۔ اللہ کے قضا وقدر کے فیصلوں کا اعتراف اور اس کی شریعت کے قوانین کا اعتراف اس میں شامل ہے ۔ بس اللہ کی شریعت کا اعتراف ہی دراصل اللہ کی الوہیت ‘ ربوبیت اور اس کا حاکمیت اور نگہبانی کا اعتراف ہے ۔ اس شریعت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے معنی سب سے پہلے یہ ہیں کہ ہم اللہ کی الوہیت ‘ ربوبیت اور اس کی حاکمیت وقیومیت کا انکار کر رہے ہیں بایں معنی کہ کوئی اپنی زندگی کے تمام جزئی معاملات میں فیصلے کسی اور شریعت و قانون کے مطابق کرے ، اسلام کے سامنے سرتسلیم خم کرنا یا اس کا انکار کرنا چاہے زبان سے ہو یا عمل سے ہو دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ کفر و ایمان کا مسئلہ ہے ‘ جاہلیت اور اسلام کا مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے یہ آیت آئی ہے : (آیت) ” ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون “۔ (5 : 44) (جو لوگ بھی اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہی لوگ کافر ہیں) اور دوسری آیات میں فاسق اور ظالم کے الفاظ آئے ہیں ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسلامی شریعت دوسرے شرائع اور قوانین کے مقابلے میں قطعا برتر اور افضل ہے اور اس سبق کی آخری آیت اسی کی جانب اشارہ کر رہی ہے ۔ (آیت) ” ومن احسن من اللہ حکما القوم یوقنون “۔ (5 : 50) (جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے ۔ ) اسلامی شریعت کی افضیلت کا یہ اعتراف بھی مسئلہ ایمان کے اندر شامل ہے اور ایک سچے مومن کے نزدیک زندگی کے تمام حالات اور طریقوں میں اللہ کے قانون اور شریعت کو ہی افضل ہونا چاہئے ۔ اس لئے کوئی مومن انسان تو یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا کہ انسانی قوانین اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے مماثل ہو سکتے ہیں ۔ کسی پیمانے ‘ کسی حال اور کسی رسم و رواج کے اعتبار سے ۔ اگر کوئی ایسا دعوی کرے گا تو وہ مومن نہ ہوگا نہ وہ مسلم ہوگا ‘ بلکہ اس کے اس دعوے کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ شخص اللہ سے زیادہ لوگوں کے حالات کا جاننے والا ہے اور وہ ان کے حالات کی بابت اللہ سے زیادہ اچھے فیصلے کرنے والا ہے یا اس کے اس دعوے کا مفہوم یہ ہوگا کہ لوگوں کو بعض حالات پیش آئے لیکن ان حالات کا علم اللہ تعالیٰ کو نہ تھا ۔ لوگوں کو بعض ضروریات درپیش تھیں ‘ جو اللہ کی نظروں سے اوجھل تھیں (نعوذ باللہ) اور پھر بھی اللہ نے لوگوں کے لئے قانون سازی کی یا یہ کہ اللہ کو ان کا علم تھا لیکن اس کے باوجود اللہ نے ان کے لئے قانون نہ بنایا ۔ ظاہر ہے کہ ایسے دعو وں کے ساتھ ایمان اور اسلام جمع نہیں ہو سکتے اگرچہ بظاہر اپنی زبان سے کوئی ایمان اور اسلام کا دعوی کرے ۔ اب اس فضیلت کا عملی اظہار کس طرح ہوگا تو اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی حقیقت تک پوری طرح پہنچ ہی نہیں سکتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانین کی پوری حکمت کا اظہار کسی دور میں بھی پوری طرح نہیں فرمایا ۔ جن حکمتوں کا ذکر ہوا ہے ‘ یہاں ہم فی ظلال القرآن میں ان پر پوری بحث نہیں کرسکتے لہذا یہاں ہم چند جھلکیاں ہی دے سکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی شریعت ایک کامل اور باہم مربوط نظام حیات ہے ۔ اس کے اندر انسان کے لئے راہنمائی ‘ اس کی زندگی کی تنظیم اور ہر جہت سے اس کی تعمیر و ترقی کا سامان موجود ہے ۔ یہ نظام اس انسانی زندگی کے ہر قسم کے حالات اور ہر زمان ومکان میں اس کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو اس انسان کی شخصیت اور اس کے نفس کے بارے میں نہایت ہی گہرے علم پر مبنی ہے اور اس میں اس کی پوری ضروریات کا حل موجود ہے ۔ یہ نظام اس پوری کائنات کی ماہیت کو پیش نظر رکھ کر وضع کیا گیا ہے اور اس نظام کی تشکیل میں انسانوں کی فطرت اور اس کائنات کے طبعی قوانین کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے جو اس پوری کائنات کے اندر کار فرما ہیں اس لئے اس نظام میں انسانی زندگی کے معاملات کے اندر کوئی افراط وتفریط نہیں ہے اور اس میں فطرت انسانی کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے ۔ نہ یہ فطری میلانات کے اندر توڑ پھوڑ کرتا ہے اور نہ انسان کی فطری سرگرمیوں پر بندشیں عائد کرتا ہے ۔ اس نظام اور موامیس فطرت کے اندر کوئی تصادم بھی نہیں ہے بلکہ اس نظام پر عمل کرنے کے نتیجے میں اس کے اندر اور موامیس فطرت کے اندر نہایت ہی بہترین توازن ‘ اعتدال اور ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جو کسی دوسرے انسانی نظام کے اندر کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ انسان تو محض ظاہری باتوں ہی کو جانتا ہے اور ایک انسان ایک متعین دور میں زندگی پاتا ہے ۔ وہ اپنے دور کے حالات کے مطابق ہی کچھ ظاہری باتوں کو سمجھ سکتا ہے ۔ انسان خود جو نظام بھی وضع کرتا ہے اس کے اندر انسانی جہالت کے آثار بہرحال پائے جاتے ہیں اور اس کے وضع کردہ نظام کے بعض تباہ کن اثرات بھی انسانی زندگی کے بعض پہلوؤں پر ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ انسان کی فطرت اور ان وضعی قوانین کے اندر تباہ کن تصادم کے نتیجے میں انسانیت تباہ کن جھٹکوں سے دو چار ہوتی رہتی ہے ۔ سب سے پہلے یہ کہ اسلامی نظام ‘ عدل مطلق پر قائم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی صحیح طرح اس بات کو جانتا ہے کہ عدل کن زرائع سے قائم کیا جاسکتا ہے اور کس طرح وہ بار آور ہو سکتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا رب ہے اس لئے سب کے درمیان انصاف کرنا بھی اسی کا حق ہے ۔ اللہ کا نظام ذاتی خواہش ‘ کسی خاص رجحان اور ہر قسم کے نقص سے ایسے ہی پاک ہوتا ہے جس طرح وہ نظام جہالت ‘ نقص اور افراط وتفریط سے پاک ہوتا ہے ۔ یہ وہ اوصاف ہیں کہ جو کسی ایسے نظام زندگی میں جمع نہیں ہو سکتے جو انسان کا بنایا ہوا ہو ‘ اس لئے کہ انسان کے اندر شخصی خواہشات بھی ہوتی ہیں ‘ ذاتی رجحانات بھی اس کے اندر ہوتے ہیں اور انسان کے اندر شخصی خواہشات بھی ہوتی ہیں ‘ ذاتی رجحانات بھی اس کے اندر ہوتے ہیں اور انسان کے اندر جہل اور دوسرے نقائص بھی ہوتے ہیں چاہے یہ قانون کوئی فرد بنائے یا کوئی طبقہ بنائے یا کوئی پوری قوم بنائے یا کسی خاص زمانے کی پوری نسل انسانی بنا دے یا انسانوں کے تمام ادوار کی نسلیں اسے بنائیں اس لئے کہ ان تمام قانون سازوں کے اپنے میلانات اور رجحانات ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی ذاتی خواہشات اور مفادات ان پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام حالات میں قانون ساز جہالت نقص اور عجز سے پاک نہیں ہوتے اور وہ کسی ایک زمان ومکان کے اندر بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرسکتے ۔ پھر اسلامی نظام ایک ایسا نظام ہے جو اس پوری کائنات کے ناموس کے ساتھ ہم آہنگ ہے اس لئے کہ اسلامی نظام اللہ کا نظام ہے اور ناموس کائنات بھی اللہ کا جاری کردہ ہے ۔ اللہ کی ذات ہی اس کائنات کی صانع ہے اور وہی اس انسان کی بھی صانع ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب انسان کے لئے کوئی ضابطہ بنایا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جس طرح اس نے کائنات کے ایک حصے کے لئے ضابطہ بنایا ہے ۔ ذات باری اس پوری کائنات کے تمام عناصر پر غالب ہے اور ان پر نہگبان ہے ۔ یہ تمام عناصر اللہ کی ہدایت پر رواں و ودواں ہیں اور یہ تمام عناصر ان قوانین کو جانتے ہیں جوان پر حکمران ہیں۔ یہ قوانین ان پر ان کے خالق کے حکم سے حکمران ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام میں ایک انسان اور اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی اس کائنات کے اندر ایک قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ اس طرح ضابطہ شریعت جو اس انسان کی زندگی کی تنظیم کرتا ہے ایک کائناتی مزاج اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ ضابطہ صرف انسانی نفس کے ساتھ معاملہ نہیں کرتا نہ صرف اپنے بنی نوع انسان کے ساتھ ہی نہیں کرتا بلکہ یہ معاملہ زندہ اور غیر زندہ اشیاء کے ساتھ ہوتا ہے اور اس پوری کائنات کے ساتھ ہوتا ہے جس میں وہ زندہ وجود رہ رہا ہے اور اس سے وہ نکل نہیں سکتا اور اسے اس کائنات کے اندر اس کے ساتھ جڑ کر زندہ رہنا ہے ۔ امن اور آشتی کے ساتھ ۔ پھر یہ واحد نظام زندگی ہے جس میں ایک انسان تمام دوسرے انسانوں کی غلامی سے پوری طرح آزاد ہوجاتا ہے ۔ اسلام کے سوا تمام نظام ہائے زندگی میں انسان انسانوں کے غلام ہوتے ہیں اور صرف اسلامی نظام ہی میں تمام لوگ تمام دوسرے لوگوں کی غلامی سے نکل آتے ہیں اور اس میں وہ صرف اللہ کے بندے ہوتے ہیں سب کے سب ۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم بار بار بیان کر آئے ہیں اللہ کی خصوصیات میں سے اہم ترین خصوصیت اللہ کی حاکمیت ہے ۔ اور جو شخص خود انسانوں کے لئے قانون بناتا ہے وہ یہ خصوصیت اپنے لئے خاص کرلیتا ہے اور ان انسانوں کے اندر ایک طرح کی الوہیت کا مدعی بن جاتا ہے ۔ یہ لوگ جو اس کو انسان کا قانون مانتے ہیں وہ اس انسان کے بندے بن جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی بندگی سے نکل آتے ہیں ۔ یہ لوگ اس دین پر ہوتے ہیں ‘ اللہ کے دین پر نہیں ہوتے ۔ اسلام جب حق قانون سازی صرف اللہ کے سپرد کرتا ہے تو وہ لوگوں کو تمام انسانوں کی بندگی سے خارج کر کے اسے صرف اللہ کی بندگی میں داخل کردیتا ہے ۔ انسان کی آزادی کا اعلان کرتا ہے بلکہ اسلام انسان کے لئے ایک نئے جنم کا اعلان کرتا ہے ۔ اس طرح کہ انسان کی گردن جب تک دوسرے انسان کے حق سے آزاد نہ ہو ‘ اس وقت تک وہ آزاد تصور نہیں ہوتا اور جب تک یہ تمام انسان رب الناس کے سامنے مساوی سطح پر کھڑے نہیں ہوجاتے ۔ یہ مسئلہ جوان آیات میں لیا گیا ہے یہ اسلامی عقیدے اور اسلامی نظریہ حیات کا نہایت ہی اہم اور خطرناک مسئلہ ہے ۔ یہالوہیت اور عبودیت کا مسئلہ ہے ۔ یہ عدالت اور اصلاح کا مسئلہ ہے ۔ یہ حریت اور مساوات کا مسئلہ ہے ۔ یہ پوری انسانیت کی آزادی اور نئے جنم کا مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کفر اور ایمان کا مسئلہ قرار دیا گیا ہے اور اسے اسلام اور جاہلیت کے امتیاز کا مسئلہ قرار دیا گیا ہے ۔ جاہلیت کسی ایک دور کا نام نہیں ہے ۔ یہ ایسی حالت کا نام ہے جس کے کچھ بنیادی عناصر ترکیبی ہیں۔ جہاں بھی اس کے عناصر اور مقومات پائے جائیں وہاں جاہلیت موجود ہوجاتی ہے ۔ اس کے یہ عناصر جس نظام اور جس صورت حالات میں پائے جائیں وہ نظام جاہلی نظام ہوگا اور اس حالت کو حالت جاہلیت کہیں گے ۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی یہ ہے کہ کوئی قانون سازی اور حکمرانی میں انسانی خواہشات کا تابع ہوجائے اور اسلامی نظام اور اللہ کی شریعت کے تابع نہ ہو ۔ یہ خواہشات چاہے کسی فرد کی خواہشات ہوں ‘ چاہے کسی طبقے کی خواہشات ہوں چاہے کسی ایک قوم کی خواہشات ہوں یا پوری نسل انسانی کی خواہشات اس لئے کہ یہ سب خواہشات اور یہ سب لوگ جب تک اللہ کی شریعت کے تابع نہ ہوں گے یہ نفسانی خواہشات ہی رہیں گی ۔ اگر ایک فرد کسی سوسائٹی کے لئے قانون سازی کرے تو یہ جاہلیت ہے ‘ اس لئے کہ اس صورت میں اس کی خواہش قانون ہوگی ۔ اس کی رائے قانون ہوگی ‘ اور اس ضمن میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف الفاظ کا ہے ۔ اصل حقیقت وہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں ۔ یا کوئی ایک طبقہ تمام طبقات کے لئے قانون سازی کر رہا ہو تو یہ صورت حال بھی جاہلیت ہوگی ۔ اس صورت میں اس طبقے کی مفادات قانون کی شکل میں اختیار کرلیں گے ، یا اس طبقے کی پارلیمنٹ میں اکثریت کی رائے قانون بن جائے گی اس صورت میں فرق اگر کوئی ہے تو صرف الفاظ کا ہے ۔ یا پھر اگر حق قانون سازی تمام طبقات کے نمائندوں کو حاصل ہے اور امت کے تمام گروہوں کو حاصل ہے تو بھی یہ صورت حال جاہلی صورت حال ہے ‘ اس لئے کہ لوگوں کی آراء کسی وقت بھی ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتیں۔ پھر اس قانون سازی میں جہالت بھی شامل ہوگی کیونکہ لوگ جاہلیت سے کبھی پاک نہیں ہوتے یا پھر اگر ریفرنڈم کی صورت ہو تو پوری قوم کی اغلبیت کی رائے قانون ہوجائے گی ۔ اب بھی فرق اگر کوئی ہوگا تو صرف الفاظ کا ہوگا ۔ اس سے بھی وسیع دائرے میں پوری اقوام کا مجموعہ اگر کوئی قانون سازی کرتا ہے تو وہ بھی جاہلیت ہوگی ‘ کیونکہ ان اقوام کے قومی مقاصد قانونی صورت اختیار کرلیں گے یا بین الاقوامی مجالس کی جو رائے بنے گی وہ قانون ہوجائے گی اور یہ نظام بھی جاہلی ہوگا ۔ فرق اگر کوئی ہوگا تو صرف الفاظ کا ہوگا ۔ اب تمام افراد ‘ تمام سوسائٹیوں ‘ تمام اقوام اور تمام نسلوں کا خالق اگر کوئی قانون بناتا ہے تو یہ قانون تمام لوگوں کے لئے ہوگا اور یہ اللہ کی شریعت ہوگی ۔ اس میں کسی ایک کو نقصان دے کر دوسرے کو فاہدہ نہیں پہنچایا جاتا ۔ اس میں کسی فرد ‘ کسی سوسائٹی اور کسی بین الاقوامی انجمن یا کسی پوری نسل انسانی کے ساتھ مخصوص باتوں کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اس لئے کہ اللہ سب کے لئے رب العالمین ہے اور اس کے ہاں سب کا رتبہ برابر ہے ۔ پھر وہ سب کی مصلحت اور مفاد کو بھی اچھی طرح جانتا ہے اور یہ سب امور افراط اور تفریط سے بھی پاک ہوتے ہیں ۔ اب اگر کوئی اور قانون سازی کرے تو یقینا لوگ اس غیر کے غلام ہوں گے چاہے یہ غیر اللہ جو بھی ہو ۔ فرد ہو ‘ سوسائٹی ہو یا طبقہ ہو یا قوم ہو یا انجمن اقوام ہو ۔۔۔۔۔ لیکن اللہ کی قانون سازی میں تمام لوگ آزاد ہوجاتے ہیں ‘ مساوی سطح پر آجاتے ہیں ۔ ان کے ماتھے اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکتے ۔ وہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ انسانوں کی زندگی میں نہایت ہی اہمیت رکھتا ہے اور خود اس نظام کائنات کے اندر بھی اس کی اہمیت ہے ۔ (آیت) ” لو اتبع الحق اھوائھم لفسدت السموات والارض ومن فیھن “۔ (اگر سچائی لوگوں کی خواہشات کے تابع ہوجائے تو آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان میں ان کے معاملات میں بھی فساد ہوجائے ) اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے مطابق فیصلے کرنے کی معنی ہیں شروفساد اور آخر کار اس کی وجہ سے انسان دائرہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے ۔ ذرا قرآنی آیات کو غور سے پڑھیں ۔ یہ اس نص کا تقاضا ہے ۔
Top