Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو خدا اس کو معاف کردے گا کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 41, 40, 39 تفسیر : (فمن تاب من بعد ظلمہ پھر جس نے توبہ کی اپنے ظلم کے بعد) یعنی اپنی چوری کے بدع (واصلح اور اصلاح کی) اپنے عمل کی (فان اللہ یتوب علیہ ط ان اللہ غفور رحیم تو اللہ قبول کرتا ہے اس کی توبہ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہیض یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہے کہ اس سے آخرت میں پکڑ نہ ہوگی۔ بہرحال دنیا میں ہاتھ کٹنا تو اکثر علماء کے نزدیک توبہ سے ساقط نہ ہوگا۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ چور کو توبہ کی ضرورت نہیں جب ہاتھ کاٹا جائے گا تو توبہ حاصل ہوجائے گی لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہاتھ کاٹنا جرم کی سزا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا کہ ” یہ اس کے عمل کی سزا ہے “ اس کے بعد بھی توبہ کی ضرورت ہے اور چور کی توبہ یہ ہے کہ جو گناہ ہوگیا اس پر شرمندہ ہو اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔ جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو چوری کیے ہوئے مال کا تاوان بھی اس پر واجب ہوگا۔ اکثر اہل علیم کے نزدیک اور سفیان ثوری رحمہم اللہ اور اصحاب رائے فرماتے ہیں کہ اس پر کوئی مالی تاوان نہیں ہے۔ لیکن اگر چوری شدہ مال اس کے پاس موجود ہو تو سب علماء کا اتفاق ہے کہ وہ مال اس کو واپس کرنا پڑے گا اور ہاتھ بھی کاٹا جائے گا اس لیے ہاتھ کاٹنا اللہ کا حق ہے اور تاوان بندہ کا حق ہے تو ایک حق ادا ہوجانے سے دوسرا ادا نہ ہوگا جیسا کہ اگر مال اس کے پاس موجود ہو تو صرف قطع ید کافی نہیں بلکہ مال بھی واپس کرنا ضروری ہے۔ (الم تعلم ان اللہ لہ ملک السموت والارض کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے لیے ہے آسمان اور زمین کی سلطنت) اس آیت میں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور مراد تمام لوگ ہیں اور بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ” اے انسان تو نہیں جانتا “ اس صورت میں یہ خطاب ہر انسان کو ہوگا (یعذب من یشاء ویغفرلمن یشاء عذاب کرے جس کو چاہے اور بخشے جس کو چاہے) سدی اور کلبی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جو لوگ کفر پر مرگئے ان میں سے جس کو چاہے عذاب دے اور جو کفر سے توبہ کرے ان میں سے جس کو چاہے بخش دے اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جس کو چاہے صغیرہ گناہوں پر عذاب دے اور جس کے چاہے کبیرہ گناہ بخش دے ( واللہ علیٰ کل شیء قدیر اور اللہ سب چیز پر قادر ہے) (یایھا الرسول لایحزنک الذین یسارعون فی الکفر اے رسول غم نہ کر ان کو جو دوڑ کر گرتے ہیں کفر میں) یعنی کفار کی دوستی میں کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا عاجز نہیں کرسکتے (من الذین قالوا امنا بافو اھھم ولم تومن وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اپنے منہ سے اور ان کے دل مسلمان نہیں) اور یہ لوگ منافقین ہیں۔ (ومن الذین ھادوا سمعون للکذب اور وہ جو یہودی ہیں جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کے لیے ) یعنی جھوٹ کو قبول کرتے ہیں جیسے نماز پڑھنے والا کہتا ہے ” سمع اللہ لمن حمدہ “ یعنی اللہ نے قبول کرلی اور بعض نے کہا آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس لیے سنتے ہیں کہ آپ (علیہ السلام) پر جھوٹ بول سکیں کیونکہ یہ آپ (علیہ السلام) کی مجلس سے اٹھ کر ایسی باتیں بیان کرتے تھے جو آپ (علیہ السلام) سے سنی نہیں ہوتی تھیں ۔ ( سمعون قلوم اخرین لم یاتوک وہ جاسوس ہیں دوسری جماعت کے جو آپ تک نہیں آئی) یعنی بنو قریظہ والے اہل خیبر کے جاسوس ہیں۔ یہود کے ایک مرد اور عورت کے زنا اور رجم کا واقعہ واقعہ اس طرح ہے کہ خیبر کے مالدار و معزز لوگوں میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا اور یہ محصن تھے اور محصن کی حد تورات میں سنگسار کرنا تھا تو یہودیوں نے ان کے رتبہ کی وجہ سے ان کے رجم کو ناپسند کیا اور یہ کہا کہ یثرب میں جو آدمی (نبی کریم ﷺ) ہے اس کی کتاب میں صرف مارنے کا حکم ہ کے سنگساری کا حکم نہیں ہے تو اپنے بنی قریظہ کے بھائیوں کے پاس پیغام بھیجو کیونکہ وہ ان کے پڑوسی ہیں اور آپس میں صلح ہے وہ اس کا حکم معلوم کرلیں اور اپنی ایک خفیہ جماعت بھی ان کے ساتھ بھیج دی اور ان کو کہا کہ محمد ﷺ سے محصن مرد و عورت کے زنا کا حکم معلوم کرو۔ اگر وہ کوڑے مارنے کا حکم دیں تو قبول کرلیں اور اگر سنگسار کرنے کا حکم دیں تو اس سے پرہیز کرنا اور قبول نہ کرنا اور اس جماعت کے ساتھ اس زانی مرد و عورت کو بھی بھیج دیا۔ وہ جماعت مدینہ میں بنو قریظہ اور بنو نضیر کے پاس آئی اور ان کو سارا معاملہ سنایا کہ اب تم محمد ﷺ سے سوال کرو کہ اس کا فیصلہ کریں تو وہ قریظہ اور نضیر کے لوگوں نے کہا اللہ تمہیں وہی حکم دے گا جس کو تم ناپسند کرتے ہو پھر ان دونوں قبیلوں کی ایک جماعتحضور ﷺ کی خدمت میں گئی جس میں کعب بن اشرف، کعب بن اسد ، سعید بن عمرو، مالک بن صیف، کنانہ بن ابی الحقیق وغیرہ تھے اور کہنے لگے اے محمد ! (ﷺ) ہمیں محصن زانی مرد اور عورت کا حکم بتائیں کہ آپ (علیہ السلام) کی کتاب میں کیا ہے ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم میرے فیصلے پر رضای ہوجائو گے ؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو جبرئیل (علیہ السلام) رجم کا حکم لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو اس حکم کی خبر دی تو انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا آپ اس معاملہ کا فیصلہ ابن صوریا کو سپرد کردیں اور ابن صوریا کے تما اوصاف بیان کردیئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم فدک کے بےریش کانے نوجوان ابن صوریا کو جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا وہ تم میں کیسا آدمی ہے ؟ تو انہوں نے کہا تورات کا اس وقت اس دنیا میں وہ سب سے بڑا عالم ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تو ابن صوریا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا تو یہود کا سب سے بڑا عالم ہے۔ اس نے کہا لوگوں کا گمان اس طرح ہے، اس نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم اپنے درمیان مجھے فیصل بناتے ہو ؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں تجھے اس خدا کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس نے تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا اور تم لوگوں کو مصر سے نکالا اور تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ کر راستہ بنایا اور تم کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کیا۔ اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر من وسلویٰ کو اتارا اور تم پر اپنی کتاب اتاری جس میں حلال و حرام کی باتیں ہیں۔ کیا تم اپنی کتاب میں محصن مرد و عورت پر رجم کا حکم پاتے ہو ؟ ابن صوریا نے کہا جی ہاں اس ذات کی قسم جس کا آپ نے تذکرہ کیا۔ اگر مجھیج یہ خوف نہ ہوتا کہ تورات مجھے جلادے گی اگر میں نے جھوٹ بولنا یا کوئی تبدیلی کی لیکن اے محمد ! (ﷺ یہ حکم آپ کی کتاب میں کیسے ہے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا جب چار عادل گواہ یہ گواہی دیں کہ اس نے اس طرح معاملہ کیا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں داخل ہوتی ہے تو اس پر رجم واجب ہوجائے گا تو ابن صوریا کہنے لگا اس ذات کی قسم جس نے تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات میں اسی طرح حکم اتارا گیا تھا تو آپ (علیہ السلام) نے پوچھا تم نے اللہ کے اس حکم میں رخصت نکالنے کی ابتداء کب سے کی ؟ وہ کہنے لگا ہم جب کسی معزز بندہ کو اس معاملہ میں پکڑتے تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کسی کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کرتے تو ہمارے معزز لوگوں میں زنا کی کثرت ہوگئی یہاں تک کہ ہمارے بادشاہ کے چچا کے بیٹے نے زنا کیا لیکن ہم نے اس کو رجم نہیں کیا، پھر دوسرے شخص نے زنا کیا عام لوگوں میں سے تو بادشاہ نے اس کے رجم کا ارادہ کیا تو اس کے حق میں بہت سے لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس کو تب تک سنگسار نہیں کرنے دیں گے جب تک بادشاہ کے چچا کے بیٹے کو رجم نہ کیا جائے تو ہم نے کہا آئو ہ مل کر رجم کے علاوہ کوئی اور ایسی سزا ایجاد کرتے ہیں جو ہر طرح کے لوگوں کو دی جاسکے تو ہم نے کوڑے اور گدھے کی سواری کو مقرر کیا کہ چالیس کوڑے ایسی رسی کے مارے جائیں گے جس پر تارکول چڑھا ہوا ہو، پھر ان دونوں کے چہروں کو کالا کرکے ان کود وگدھوں پر بٹھا دیاجائے اور ان کے منہ گدھے کی دم کی طرف کردیا جائے اور ان کو لوگوں میں چکر لگایا جائے تو یہ سزا رجم کی جگہ تجویز کی گئی۔ یہ سن کر یہود نے ابن صوریا کو کہا کہ کتنی جلدی تونے ساری بات ان کو بتادی ہے، ہم نے تیری پیٹھ پیچھے تعریف اس وجہ سے نہیں کی تھی کہ تو اس کے لائق ہے بلکہ ہم نے آپ کی غیر موجودگی میں آپ کی غیبت کرنا ناپسند سمجھا تو ابن صوریا نے کہا محمد ﷺ نے مجھے تورات کی قسم دی اگر تورات کے ہلاک کردینے کا خوف نہ ہوتا تو کبھی بھی یہ بات ان کو نہ بتاتا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان دونوں مرد و عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا تو ان کو مسجد نبوی کے دروازے کے پاس سنگسار کردیا گیا اور آپ (علیہ السلام) نے دعا مانگی اے اللہ ! ان لوگوں نے تیرے حکم کو مردہ کردیا تھا میں اس کو زندہ کرنے والا پہلا شخص ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (یا یھا الرسول لایحزنک الذین یسارعون فی الکفر اے رسول ! غم نہ کر ان کا جو دوڑ کر گرتے ہیں کفر میں) ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ یہود رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور یہ بات چھیڑی کہ ان کے ایک مردو عورت نے زنا کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تورات میں ان کے بارے میں کیا حکم ؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کو رسوا کریں اور ان کو کوڑے مارے جائیں تو عبداللہ بن سلام ؓ نے کہا تم نے جھوٹ بوالا، تورات میں رجم کی آیت ہے تو وہ تورات لائے اس کو کھولا اور ایک شخص نے آیت رجم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس سے پہلے اور بعد کی عبارت پڑھ دی تو عبداللہ ؓ نے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھا۔ اس نے ہاتھ اٹھایا تو رجم کی آیت لکھی ہوئی تھی تو وہ کہنے لگے اے محمد ﷺ آپ نے سچ کہا اس میں رجم کی آیت ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ان مردو عورت کے رجم کا حکم دیا۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس آدمی کو دیکھا کہ عورت کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس پر جھک جاتا تھا اور بعض حضرات نے کہا اس آیت کے نزول کا سبب قصاص ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ بنونضیر کو بنو قریظہ پر فضیلت حاصل تھی تو بنو قریظہ نبی کریم ﷺ کو کہنے لگے اے محمد ! (ﷺ) ہمارے بھائی بنو نضیر کا اور ہمارا باپ ایک ہے اور ہمارا دین اور نبی ایک ہ کے لیکن جب وہ ہمارا کوئی آدمی قتل کردیں تو ہمیں قصاص نہیں دیتے اور اس کی دیت کھجور کے ستر وسق دیتے ہیں اور جب ہم ان کے کسی آدمی کو قتل کردیں تو وہ قاتل کو بھی قتل کرتے ہیں اور ہم سے دگنی دیت یعنی ایک سو چالیس وسق کھجور وصول کرتے ہیں اور جب مقتول عورت ہو تو اس کے بدلے ہمارے ایک مرد کو اور اگر مرد ہو تو اس کے بدلے ہمارے دو مردوں کو قتل کرتے ہیں اور اپنے غلام کے بدلے ہمارے آزاد کو اور ہم کوئی زخم لگادیں تو اس سے دگنا تاوان دینا پڑتا ہے جو وہ ہمیں زخم لگانے پر ادا کرتے ہیں، آپ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو یہ آیت نازل ہوئی لیکن پہلا شان نزول زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ یہ آیت رجم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” سماعون للکذب “ میں لام ” الی “ کے معنی میں ہے اور بعض نے کہا یہ لام ” کی “ ہے یعنی اس لیے سنتے ہیں تاکہ آپ پر جھوٹ بول سکیں اور ” لقوم “ میں لام علت کے لیے ہے یعنی دوسری قوم کے لیے سنتے ہیں جو آپ کے پاس نہیں آئی اور وہ اہل خیبر ہیں ( یحرفون الکلم بدل ڈالتے ہیں بات کو) کلمۃ کی جمع ہے ( من بعد مواضعہ اس کا ٹھکانہ چھوڑ کر)… (یقولون ان اوتیتم ھذا فخذوہ کہت ہیں اگر تم کو یہ حکم ہ کے تو قول کرلینا) یعنی اگر محمد ﷺ تمہیں کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کا حکم دیں تو اس کو قبول کرلیو (وان لم توتوہ فاحذروا ط ومن یرد اللہ فتنتہ اور اگر یہ حکم نہ ملے تو بچتے رہنا اور جس کو اللہ نے گمراہ کرنا چاہا) یعنی اس کے کفر اور گمراہی کا۔ صحاک (رح) فرماتے ہیں یعنی اس کے ہلاک کرنے کا ارادہ کیا اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس کو عذاب دینے کا ارادہ کیا (فلن تملک لہ من اللہ شیئا سو تو اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتا اللہ کے ہاں ) یعنی تو اللہ کے امر کو دور کرنے پر بالکل قادر نہ ہوگا (اولئک الذین لم یرد اللہ ان یطھر قلوبھم یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے نہ چاہا کہ دل پاک کرے ان کے ) اس میں تقدیر کا انکار کرنے والوں کی تردید ہے (لھم فی الدنیا خزی ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے) یعنی منافقین اور یہود کے لیے ۔ منافقین کی رسوائی ان کی ذلت اور ان کے نفاق کو ظاہر کرکے پردہ دری کرنا ہے اور یہود کی رسوائی جزیہ ادا کرنا یا قتل یا قید یا جلاوطنی ہے اور ان کا محمد ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اپنے بارے میں وہ چیزیں دیکھنا جو ان کو ناپسند تھیں (ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم اور ان کو آخرت میں بڑا عذاب ہے) جہنم میں ہمیشہ رہنے کا۔
Top