Ahkam-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 19
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ
وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ : اور انکے مالوں میں حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ : حق سوالی کے لئے وَالْمَحْرُوْمِ : اور تنگدست (غیرسوالی)
اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا
قول باری ہے (و فی اموالھم حق، اور ان کے اموال میں حق ہوتا تھا) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ ، حسن بصری اور شعبی کا قول ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ ایک حق ہے جو مال کے اندر واجب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردیتا ہے اگر وہ صدقہ وغیرہ نہیں دیتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ صدقہ یعنی زکوٰۃ ایک معلوم حق ہے۔ حجاج نے الحکم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ زکوٰۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا ہے ۔ حجاج نے ابوجعفر سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے تاہم راویوں نے حضور ﷺ سے اس سلسلے میں مختلف روایتیں نقل کی ہیں۔ ان روایات سے دونوں گروہوں نے اپنے حق میں استدلال کیا ہے۔ حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ نے اس شخص کا قول نقل کیا ہے جس نے حضور حضور ﷺ سے یہ دریافت کیا تھا کہ اس پر کون کون سی باتیں فرض ہیں۔ آپ نے جواب میں نماز، زکوٰۃ اور روزے کا ذکر کیا۔ پھر اس نے پوچھا کہ آیامجھ پر ان کے سوا اور کوئی چیز فرض ہے ۔ حضور ﷺ نے اس کا نفی میں جواب دیا تھا۔ عمروبن الحارث نے دراج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت ما علیک فیہ ، جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دو تو مال کے سلسلے میں تم پر جو فرض ہے اس کی ادائیگی ہوجائے گی) دراج نے ابوالہیثم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذدا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت الحق الذی یجب علیک، جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردو تو تم اپنے اوپر واجب حق کو ادا کردو گے) ۔ ان روایات سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جنہوں نے قول باری (وفی اموالھم حق معلوم) سے زکوٰۃ مراد لی ہے اور یہ کہا ہے کہ مال والے پر زکوٰۃ کے سوا اور کوئی حق نہیں ہوتا۔ ابن سیرین نے یہ استدلال کیا ہے کہ زکوٰۃ ایک معلوم حق ہے۔ اور مخالفین جن دوسرے حقوق کو واجب کرتے ہیں وہ معلوم یعنی متعین حقوق نہیں ہے۔ جو حضرات مال کے اندر زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق واجب کرتے ہیں وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے شعبی نے فاطمہ بنت قیس سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ آیا مال میں زکوٰۃ کے سوا اور بھی کوئی حق ہے ؟ آپ نے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوا وجوھکم قیل المشرق والمغرب) تا آخر آیت۔ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ تلاوت میں (واتی المال علی حبہ) کے بعد زکوٰۃ کا ذکر کیا۔ یہ حضرات حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں حضور ﷺ نے فرمایا : ” اونٹوں کا جو مالک تنگی اور فراخی میں ان کا حق ادا نہیں کرتا اسے ایک چٹیل ، پست اور نرم زمین میں ان اونٹوں کے سامنے لایا جائے گا اور پھر یہ اونٹ اپنے پائوں تلے اسے روند ڈالیں گے۔ “ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اونٹوں کے ساتھ گایوں اور بھیڑ بکریوں کا بھی ذکر کیا۔ اس حدیث کو سن کر ایک بدوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا کہ اونٹوں کا حق کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا۔” بہت زیادہ دودھ دینے والی وانٹنی فائدہ اٹھانے کے لئے دے دو ۔ عمدہ اونٹنی کا عطیہ دو ، اونٹ سواری کے لئے عطا کرو اور دودھ پلائو۔ “ ابوالزبیر نے حضرت جائر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے جو روایت کی ہے اس میں ذکر ہے کہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ اونٹوں کا کیا حق ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : ” سانڈ کے ساتھ جفتی کرانا، پانی لانے کے لئے اونٹ مع ڈول عاریت کے طور پردے دینا، کوئی دودھ والی اونٹنی کسی کو فائدہ اٹھانے کے لئے دے دینا، چشمے گا گھاٹ پر دودھ دوہنا اور اللہ کی راہ میں اس پر کسی کو سوار کرانا۔ “ اعمش نے معرور بن سوید سے اور انہوں نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچا آپ اس وقت کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ مجھے آتادیکھ کر آپ نے فرمایا۔ رب کعبہ کی قسم ! یہی لوگ سب سے زیادہ نقصان میں رہیں گے۔ “ میں نے عرض کیا ” کون لوگ “ آپ نے فرمایا۔ زیادہ مال ودولت والے بجز ان کے جو اتنا اتنا دیں۔ “ یہ کہتے ہوئے آپ نے دائیں بائیں اور سامنے ایک ایک لپ بھرا۔ پھر فرمایا : ” جو شخص اپنے ایسے اونٹ چھوڑ کر مرجائے جن کی اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، قیامت کے دن اس کے یہی اونٹ اسے سینگ ماریں گے اور اپنے پائوں تل روندیں گے، جب آخری اونٹ اسے روندتا ہوا گزر جائے گا تو پہلا اونٹ واپس روندنے کے لئے آجائے گا۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان تمام روایات پر عمل کیا جاتا ہے اور مال میں زکوٰۃ کے سوا دوسرے حقوق کے ثبوت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ ان میں سے ایک حق وہ ہے جو بیٹے پر اپنے والدین کے اخراجات کے سلسلے میں اس پر لازم ہوتا ہے۔ جب ماں باپ ضرورت مند ہوں۔ اسی طرح رشتہ داروں کی مالی مدد بھی لازم ہوتی ہے۔ نیز بھوکے اور مجبور انسان کو اور اس شخص کو سواری کے لئے جانور دینا بھی لازم ہوتا ہے جس کا جانور ہلاک ہوگیا ہو ۔ یا اسی قسم کے دوسرے حقوق جو مذکورہ بالا صورتوں میں انسان پر لازم ہوجاتے ہیں۔ محروم کون ہے ؟ قول باری ہے (للسائل والمحروم۔ سائل اور محروم کے لئے) حضرت ابن عباس ؓ (ایک روایت کے مطابق) حضرت عائشہ ؓ ، سعید بن المسیب، مجاہد (ایک روایت کے مطابق) عطاء، ابوالعالیہ، ابراہیم نخعی اور عکرمہ کا قول ہے کہ محروم (مجازف) یعنی کم نصیب کو کہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ محروم اس شخص کو کہتے ہیں جو رزق کی تلاش میں رہتا ہے لیکن رزق اس کے پاس نہیں آتا۔ حضرت ابن عباس ؓ (ایک روایت کے مطابق) اور مجاہد کا قول ہے کہ جس شخص کا اسلام کے اندر، دوسرے الفاظ میں ” مال غنیمت میں “ کوئی حصہ نہ ہو وہ محروم ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ محروم وہ شخص ہے جسے کوئی مال مالدار نہیں بناتا۔ زہری اور قتادہ کا قول ہے کہ جو شخص سوال کرنے سے پرہیز کرتا اور مفلوک الحال ہوتا ہے اسے محروم کہتے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ کتے کو محروم کہتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں جن کے نزدیک محروم سے کتا مراد ہے وہ ” معلوم حق “ سے زکوٰۃ مراد نہیں لے سکتے ۔ کیونکہ زکوٰۃ کا مال کتے کو اگر کھلا دیا جائے تو اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اس لئے ان کے نزدیک حق سے مراد وہ حق ہوگا جو زکوٰۃ کے سوا ہے۔ اس صورت میں کتے کو کھلانا ایک ثواب کا کام ہوگا۔ جیسا کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا (ان فی کل ذی کبد حری اجرا، برتر جگہ والے (یعنی جانور کو کھلانے پلانے) میں اجر ملے گا) آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ایک شخص نے کتے کو پانی پلایا تھا اللہ تعالیٰ نے اسی نیکی پر اس کی بخشش کردی تھی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (حق معلوم) میں زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ اس سے زکوٰۃ مراد ہے کیونکہ زکوٰۃ لا محالہ واجب ہوتی ہے اور یہ ایک معلوم حق ہے اس لئے آیت سے یہی مراد لینا واجب ہے کیونکہ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آیت اس پر مشتمل ہو اور آیت کے الفاظ اسی سے عبارت ہوں۔ پھر یہ بھی جائز ہے کہ سلف نے محروم کے جتنے معانی بیان کیے ہیں وہ سب کے سب اس لحاظ سے آیت میں مراد ہوں کہ ایسے تمام افراد کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہوتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زکوٰۃ صرف ایک صنف کو دے دی جائے تو اس کی ادائیگی ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں صرف سائل اور محروم کا ذکر ہے اور آیت صدقات میں مذکور دوسرے اصناف کا ذکر نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر سائل اور محروم کے درمیان فرق رکھا ہے کیونکہ فقیر کبھی دست سوال دراز نہ کرکے اپنے آپ کو محروم بنا لیتا ہے اور کبھی لوگ اسے کچھ نہ دے کر محروم رکھتے ہیں اس لئے فقیر جب سوال نہیں کرے گا وہ سوال نہ کرکے اپنے آپ کو محروم رکھے گا اور پھر اس جہت سے اسے محروم کیا جائے گا کیونکہ فقیر دوجہتوں سے محروم ہوتا ہے اپنی ذات کی جہت سے اور لوگوں کی جہت سے۔ شعبی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ مجھے تو محروم کے مفہوم نے لاچار کردیا ہے یعنی مجھے اس کے صحیح مفہوم کا علم نہیں ہوسکا۔
Top