Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 57
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ
وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ : اور انکے مالوں میں حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ : حق سوالی کے لئے وَالْمَحْرُوْمِ : اور تنگدست (غیرسوالی)
اور ان کے مالوں میں حق ہے مانگنے والے اور محروم کے لئے
ربط آیات پہلے منکرین قیامت کا رد اور ان کی سزا کا بیان ہوا ، پھر ان کے بالمقابل متقی اور ایمان دار لوگوں کا حال اللہ نے ذکر کیا کہ وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔ پروردگار کی نعمتیں حاصل کر کے نہایت خوش ہوں گے کیونکہ وہ دنیا کی زندگی میں نیکیاں کماتے رہے۔ رات کے وقت اللہ کے حضور مناجات کرتے تھے اور اس کی عبادت اور ذکر میں بہت سا وقت صرف کرتے تھے ۔ مزید برآں وہ سحری کے وقت اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے تھے ، گویا راتوں کا قیام اور سحریوں کا استغفار ان کا معمول تھا۔ انسان کے مالی حقوق اب آج کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہی متقیوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اس دنیا کی زندگی میں اپنے مالی حقوق بھی دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے وفی اموالھم حق للسائل والمحروم اور ان کے اموال میں مسائل اور محروم کے لیے حق ہے۔ اللہ نے نیکی کمانے والوں کو یہ بھی ایک صفت بیان کی ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے مانگنے والوں اور محروم اشخاص کا حق پورے طریقے سے ادا کرتے ہیں ۔ اس حق سے متعلق مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں ۔ بعض اسے فرض حق یعنی زکوٰۃ پر محمول کرتے ہیں ، جو کہ ہر صاحب نصاب پر بقدر نصاب فرض ہے زکوٰۃ تو ہر حال میں بلا شبہ فرض ہے اور اس کی فرضیت کا واضح اعلان قرآن میں بار بار ہوا ہے ۔ تا ہم اس مقام پر جس حق کا تذکرہ ہے وہ زکوٰۃ کے علاوہ حق ہے جیسا کہ حضر ت فاطمہ بن قیس ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ ان فی المال حقا سوی الزکوۃ یعنی مال میں زکوۃ کے علاوہ بھی حق ہے اسی طرح سورة بقرہ کی آیت 177 میں ہے کہ نیکی کا کام یہ ہے کہ مال کے ساتھ محبت رکھنے کے باوجود اپنے رشتہ داروں ، یتیموں ، محتاجوں اور مسافرکو دیا جائے وَاٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ اس میں مانگنے والوں اور قیدیوں کا بھی حق آ گیا ( جیسا کہ سورة دہر میں ہے مسکینا و یتما ً وسیرا ً ) بہر حال یہ انفاق زکوٰۃ کے علاوہ ہے کیونکہ زکوٰۃ کا حکم تو اگلے حصہ آیت میں ہے اقام الصلوٰۃ واتی الزکوۃ یعنی ایسے لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں ۔ امام ابوبکر جصاص (رح) لکھتے ہیں کہ اس امر پر سلف کا اتفاق ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ واجبات ہیں ۔ مثلاً اگر والدین محتاج ہوں اور اولاد صاحب مال ہے تو اولاد پر والدین کا خرچہ اٹھانا واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ کسی مالدار آدمی کے اقربا اگر محتاج ہیں اور ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے تو ان کا خرچہ بھی واجب ہوگا ۔ اپنے عزیز و اقربا کے علاوہ بھی کوئی مسلمان مجبور ہوجاتا ہے تو مالدار آدمی کے ذمے واجب ہے کہ اس کی حاجت براری کرے اسی طرح دوران سفر اگر کوئی مسلمان مال ضائع کر بیٹھا ہے ، سواری گم ہوگئی ہے۔ کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے یا راستہ منقطع ہوگیا تو اس کا خرچہ برداشت کرنا بھی دوسرے مسلمان پر لازم آتا ہے۔ حضور ﷺ نے جانوروں کے مالکان سے فرمایا کہ ان کے حقو ق ادا کیا کرو ۔ جانوروں کا ایک حق تو اللہ نے ان کی گردنوں میں رکھا ہوا ہے ۔ یعنی زکوٰۃ ، جب جانور نصاب کو پہنچ جائیں تو ہر سال ان کی زکوٰۃ ادا کرو اور دوسرا حق یہ ہے کہ جب تم اونٹنیوں کو پانی پلانے کے لیے گھاٹ پر لے جائو ۔ تو ان کا دودھ دھو کر محتاجوں کو بھی دو اگر راستے میں کوئی مسافر بغیر سواری کے جا رہا ہے تو اس کو سواری مہیا کرو ۔ اس قسم کے حقوق وہ ہیں جو زکوٰۃ کے علاوہ ہیں ، تو فرمایا جو مسلمان خدا کی وحدانیت اور قیامت پر صحیح یقین رکھتے ہیں وہ مالی حقوق بھی ادا کرتے ہیں ۔ سائل اور محروم یہاں پر اللہ نے دو قسم کے مستحقین کا ذکر فرمایا ہے یعنی سائل اور محروم سائل تو وہ ہے جو محتاج ہے اور از خود دوسروں سے سوال کرتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے ، البتہ محروم کی تعریف میں مفسرین کا قدرے اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ محروم وہ شخص ہے جو خود سوال نہیں کرتا حالانکہ اس کے پاس کچھ نہیں مگر عزت نفس کی خاطر کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتا ، عفیف اور پاکدامن ہے اور بعض فرماتے ہیں کہ محروم سے مراد وہ شخص ہے جو پہلے خود بھی مالدار تھا۔ مگر حوادثات زمانہ نے اسے محروم کردیا ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر کسی کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ، تاوان پڑگیا ، کوئی اور افتاد پڑگئی تو وہ مستحق ہے اس کی زکوٰۃ فنڈ سے بھی مدد کی جاسکتی ہے۔ ایسا شخص بھی محروم یا مستحق کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور مستحق گروہ بھی ہے للفقراء الذین احصرو ا فی سبیل اللہ ( البقرہ : 283) جو اللہ کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ان میں وہ دینی طالب علم آتے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے کوئی دیگر کام کاج نہیں کرسکتے ۔ ان کے لباس ، خوراک اور دیگر تعلیمی اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کا پورا کرنا بھی صاحب مال حضرات پر واجب ہے ، نیز جہاد میں جانے والے نادار لوگ جو اسلحہ اور زاد راہ کا انتظام نہیں کرسکتے ، ان کی مالی اعانت بھی مالدار لوگوں پر واجب ہے۔ بعض لوگوں کا حق تو اللہ نے زکوٰۃ و صدقات کے فنڈ سے مقرر کردیا ہے اور بعض وارثت میں حصہ دار بن جاتے ہیں ، البتہ کچھ جاندار مخلوق ایسی بھی ہے جن پر خرچ لازم ہے ، مثلاً حضور ﷺ کا ارشاد ہے فی کل ذاکبد ر طبۃ صدقۃ ہر زندہ جگر رکھنے والی چیز پر صدقہ ہوتا ہے ، اس سے مراد جانور ہیں ، ان کی خوراک کا انتظام کرنے والے لوگ صدقہ کا ثواب پاتے ہیں ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک بد کار عورت نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اس کے بدلے میں اس فاحشہ کو جنت میں داخل فرما دیا ۔ غرضیکہ اس قسم کے جاندار بھی محرومین میں شامل ہیں ۔ اور صاحب حیثیت لوگوں کے مالوں میں ان کا بھی حق ہے بہر حال فرمایا کہ ان کے مالوں میں حق ہے محتاجوں کے لیے جو سوال کرتے ہیں ۔۔۔۔ اور ناداروں کے لیے جو سوال سے بچتے ہیں یا جن کا کوئی حق مقرر نہیں ہے ۔ یہ ان کے لیے ہے ، جو قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ، یہ بات اللہ نے ان متقیوں کی صفت کے طور پر بیان فرمائی ہے جو جنت میں جا کر اللہ تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے والے ہیں ، اور وہ اس سے پہلے دنیا میں نیکی کے کام کرتے رہے۔ زمینی نشانات کی قدرت سورۃ کے آغاز میں اللہ نے وقوع قیامت سے متعلق آسمانی نشانات کا ذکر کیا تھا۔ اب اسی سلسلے میں بعض زمینی نشانات کی بات ہو رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے و فی الارض ایت للمومنین اور زمین میں بھی نشانیاں ہیں یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں پائی جانے والی چیزیں انسان ، حیوان ، چرند ، پرند ، دریا ، سمندر ، پہاڑ ، جنگل ، صحرا اور لا تعداد قسم کے کیڑے مکوڑے ہیں ۔ اس کے علاوہ سمندر ی مخلوق کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر انسان ان چیزوں میں غور و فکر کرے تو اللہ کی قدرت تامہ اور وقوع قیامت کا مسئلہ آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ فرمایا وفی انفسکم خود تمہارے اپنے نفسوں کے اندر بھی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل پر غور کیا جائے اور پھر اس کی پوری زندگی کا احاطہ ہو ، اس کے جسم کے ایک ایک عضو اور اسکی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان میں انسان کے لیے قدرت کے بہت سے دلائل مضمر ہیں ۔ فرمایا افلا تبصرون کیا تم اس معاملہ میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ غرضیکہ آفاقی نشانیوں کے بعد انسانی نفس کے نشانات کا ذکر بھی ہوگیا ۔ انسان کی روح ، نفس ناطقہ اور اس سے وابستہ تمام اندرونی قوتیں بجائے خود اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں مگر یہ اس شخص کی سمجھ میں آتی ہیں جو ان میں غور و فکر کر کے ان کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ رزق عالم بالا سے پھر آگے فرمایا وفی السماء رزقکم اور تمہاری روزی آسمان میں ہے وما توعدون اور وہ کچھ بھی وہیں ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ظاہری اسباب میں آسمان کی طرف سے بارش ہوتی ہے تو مراد زمین کی نئی زندگی ملتی ہے۔ اس میں قوت روئیدگی پیدا ہوتی ہے لوگ اس سے فائدہ اٹھا کر کاشت کرتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں پھل ، غلہ اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں ، جو انسانوں اور دیگر جانداروں کی خوراک بنتے ہیں ۔ اس کے علاوہ رزق کا تعلق آسمان کے ساتھ ہونے کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہر چیز کا حکم تو آسمان یعنی عالم بالا سے ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہو تو بادل اٹھتے ہیں ۔ بارش ہوتی ہے اور پھر روزی کے ذرائع پیدا ہوتے ہیں تو جب تک اوپر سے حکم نہ آئے ، تمام اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ ہوائیں ، بارشیں ، دریا اور سمندر طوفان بن کر نقصان کا باعث بن جاتے ہیں ۔ لہٰذاروزی کا تعلق بہرحال عالم بالا سے ہے اس کے علاو ہ ہر آنے والی چیز خواہ موت ہو یا حیات ، خوشی ہو یا غمی سب کا فیصلہ اوپر ہی ہوتا ہے ۔ اللہ کا ہر حکم خطیرۃ القدس (رح) میں اترتا ہے ، پھر ملاء اعلیٰ کی جماعت کے سامنے اس کا ذکر ہوتا ہے اور پھر وہاں سے عالم سفلی میں اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ جزائے عمل بر حق ہے ارشاد ہوتا ہے فورب السماء والارض پس قسم ہے پروردگار کی جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے انہ الحق بیشک جزائے عمل بر حق ہے یعنی انصاف کی بات یقینا واقع ہونے والی ہے۔ ابتداء میں اللہ نے ہوائوں کو دلیل بنا کر وقوع قیامت اور جزائے عمل کے بر حق ہونے سے آگاہ کیا ۔ جب کائنات کی کوئی چیز بھی فضول نہیں ہے تو پھر کائنات کا یہ پورا سلسلہ کیسے بےمقصد ہو سکتا ہے۔ اس کا بھی انجام ہے ، حدیث جبریل (علیہ السلام) میں آتا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نے ایمان ، اسلام اور احسان کے متعلق حضور ﷺ سے سوال کرنے کے بعد پوچھا تھا متی الساعۃ یعنی قیامت کب آئے گی ۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس پوری کائنات کی انتہاء کب ہوگی ۔ جس چیز کا آغاز ہے اس کا انجام بھی ہے اور جو چیز موجود ہے اس نے ختم بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح جو انسان پیدا ہوا ہے ، اسے مرنا بھی ہے اور اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہونا ہے اور یہی جزائے عمل کی منزل ہے۔ اسی لیے اللہ نے آسمانوں اور زمین کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ جزائے عمل بر حق ہے۔ ایک عجیب واقعہ صاحب مدارک ، صاحب کشاف اور تفسیر مظہری والے حضرات نے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ فقہ و حدیث کے امام اسماعیل (رح) مامون الرشید عباسی کے زمانے میں ہوئے ہیں ۔ بڑے عالم فاضل اور نیک سیرت انسان تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ کسی دوسرے شہر جانے کے لیے بصرہ کی جامع مسجد سے نکلا ۔ راستے میں ایک دیہاتی اونٹ سوار سے ملاقات ہوئی ۔ علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں ۔ میں نے کہا کہ اس جگہ سے جہاں کلام پاک پڑھا جاتا ہے یعنی جامع مسجد سے وہ شخص کہنے لگا کہ قرآن کا کچھ حصہ مجھے بھی سنائو ۔ تو میں نے یہی سورة الذریت سنانی شروع کی ۔ پھر جب میں اس مقام پر پہنچا وفی السماء رزقکم وما توعدون تو وہ شخص کہنے لگا۔ رک جائو ، اس پر ان آیات کا عجیب اثر ہوا ۔ کہنے لگا کہ روزی کا حکم تو اوپر سے آتا ہے ، پھر میں کس تکلیف میں ہوا ہوں ۔ اس نے اپنی سواری کے اونٹ کو وہیں نحر کردیا اور مسافروں کو کھلا دیا ، جو سامان پاس تھا ، وہ بھی تقسیم کردیا ۔ امام اسماعیل (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ میں اس شخص کے توکل سے بڑا حیرانہوا ۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ حج کے موقع پر میں طواف کر رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ کوئی کمزور سی آواز والا آدمی شریک دعا ہے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہی بدو نظر آیا ، وہ کہنے لگا کہ تمہیں کچھ قرآن یاد ہے ؟ میں نے پھر یہ آیت سنائی فورب السماء والارض انہ لحق وہ شخص کہنے لگا کہ عجیب لوگ ہیں جنہوں نے رب جلیل کو قسم اٹھانے پر مجبور کردیا ۔ وہ شخص اس آیت سے اس قدر متاثرہوا کہ اپنے الفاظ کو بار بار دہراتا رہا حتیٰ کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ گفتگو بطور دلیل فرمایا اس پروردگار کی قسم ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے کہ وقوع قیامت اور جزائے عمل بر حق ہے مثل ما انکم تنطقون بالکل اسی طرح جس طرح تم گفتگو کرتے ہو۔ یہ انسان کا خاصہ ہے کہ اللہ نے اسے قوت گویائی بخشی ہے جو انسانوں کے ساتھ لازم ہے اور جس پر کوئی بھی شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتا تو فرمایا ۔ جس طرح تمہارا آپ میں بات چیت کرنا بالکل حقیقت ہے ، اسی طرح وقوع قیامت کے متعلق بھی کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ مفسرین کرام نے یہاں ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ انسان بولنے کے علاوہ دیکھتا بھی ہے سنتا بھی ہے ، کھاتا ، پیتا ، چلتا پھرتا اور کاروبار کرتا ہے ، مگر کیا وجہ ہے کہ اللہ نے صرف بولنے کی قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی دیگر حرکات و سکنات کی نسبت اس کا نطق ( بولنا) اس کے حالات کے قریب ترین ہے۔ نطق قوت فکریہ سے اٹھتا ہے۔ یعنی پہلے انسان کسی چیز میں غور و فکر کرتا ہے ، پھر اس کے نتیجے میں وہ بولتا ہے پرانے فلسفے میں انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے یعنی بولنے والا جاندار مطلب یہ ہے کہ گفتگو کرنا بہت بڑی حقیقت ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے نطق انسانی کو دلیل بنایا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) کی حکمت میں انسان کی تعریف اسی طرح کی گئی ہے ما یتفکرو یصنع بالالات یعنی انسان اس ہستی کو کہتے ہیں جو غور و فکر کرتا ہے اور آلات کے ذریعے کام کرتا ہے ، اگر وہ خاکی ہے تو انسان ہے اگر ناری ہے تو جن ہے بہرحال غور و فکر کے نتیجے میں جو چیز انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس کا اظہار نطق کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ ایک شاعر نے بھی اپنے کلام میں نطق کی اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی بستی کے کھنڈرات پر سے گزرتا ہے تو کہتا ہے ؎ ھل بالدیار ان تجیب صمم لوکان حیاناً طقا ً کلم یہ بہرے گونگے کھنڈرات کیا بات کریں گے ، اگر وہ گفتگو کرنے والا زندہ ہوتا تو کلام بھی کرتا ، بہر حال گفتگو کرنا انسان کا خاصہ ہے جس کا ذکر اللہ نے خاص طور پر اس جگہ کیا ہے۔ انسان کے گفتگو کرنے میں وقوع قیامت اور بعث بعد الموت کی دلیل اس طرح بھی بنتی ہے کہ اللہ نے انسان کی قوت گویائی بخشی ہے۔ وہ حروف کو جوڑ کر کلمات بناتا ہے ، پھر جو چیز اس کے ذہن میں آتی ہے اس کو ظاہر کرتا ہے انسان ایک دفعہ گفتگو کر کے عاجز نہیں آجاتا بلکہ اس عمل کو بار بار دہراتا رہتا ہے ۔ اور اس طرح گفتگو کا تعلق متکلم کے ساتھ مستحکم ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس طرح بنایا کہ ہر انسان کو ایک ایک کر کے پیدا فرمایا ، تو جس طرح کلام متکلم کی طرف راجع ( رجوع کرنے والی) ہوتی ہے ، اسی طرح اللہ کی پیداہ کردہ مخلوق خود اسی کی طرف راجع ہوتی ہے۔ جیسے سورة بقرہ میں فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کا کیسے انکار کرتے ہو جب کہ تم مردہ تھے ۔ اس نے تمہیں زندگی بخشی ، وہ پھر تمہیں موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا ثم الیہ ترجعون ( آیت : 28) پھر تم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ مقصد یہ کہ یہ سب چیزیں پلٹ کر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف آئیں گی ، تو جس طرح اللہ نے انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا ، وہ اسے لوٹانے پر بھی قادر ہے جس طرح ایک انسان بار بار کلا م کرنے سے عاجز نہیں آتا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے سے بھی عاجز نہیں ہے اور جزائے عمل ضرور واقع ہوگی بہر حال اللہ نے نقط کو وقوع قیامت کی دلیل بنایا ہے کہ یہ چیز انسان کے حالات کے قریب ترین ہے۔
Top