Kashf-ur-Rahman - Adh-Dhaariyat : 19
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ
وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ : اور انکے مالوں میں حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ : حق سوالی کے لئے وَالْمَحْرُوْمِ : اور تنگدست (غیرسوالی)
اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والوں اور سوال سے بچنے والوں کا حصہ تھا۔
(19) اور ان کے مالوں میں حصہ مقرر تھا سوال کرنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا۔ یعنی ایسے باغات میں ہوں گے جن میں چشمے جاری ہوں گے اور جو جو نعمتیں ان کا پروردگار ان کو عطا فرمائے گا ان کو حاصل کرتے ہوں گے کیونکہ یہ پرہیزگار لوگ دنیا میں نیک روش رکھتے تھے اور نیکیاں کرنے کے خوگر تھے اور علاوہ فرائض و واجبات کے نوافل اور تطوعات بھی بجا لاتے تھے رات کو بہت کم سوتے تھے یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارتے تھے اور سحر کے وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا کرتی تھے یہ استغفار یا تو تھوڑی دیر سو جانے پر کیا کرتے تھے یا رات نہیں سوتے تھے بلکہ عشاء کی نماز پڑھتے تھے اس تقدیر پر اس آیت کا تہجد کی نماز سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ بہرحال عبادات بدنی کے بعد عبادات مالی اور ان کی خیرات کا حال بتایا کہ وہ اپنا مال مانگنے والوں کو بھی دیتے تھے اور جو سوال سے تعفف کی وجہ سے بچتے اور پرہیز کرتے ہیں ان کو بھی دیتے ہیں۔ تلک الرسل میں تفصیل گزر چکی ہے سائل کی دو قسمیں بیان فرمائیں ایک وہ جو عام طور سے سوال کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو سفید پوش ہیں اور شرم وحیاء کی وجہ سے سوال نہیں کرتے پھرتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہارا وہ محتاج ہے اور مانگتا نہیں پھرتا۔ خلاصہ : یہ ہے کہ پہلی آیتوں میں منکروں کا ذکر تھا ان آیتوں میں متقیوں کا ذکر فرمایا آگے دلائل توحید اور رزق کے وعدہ کی تاکید ہے۔
Top